|تحریر: بیما ویکا کاسانا، ترجمہ: عبدالحئی|
پیر کے دن، اچانک ہی ہزاروں نوجوان انڈونیشیا کی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے جمع ہوئے اور بہادری کے ساتھ پانی کی توپوں سے لیس سینکڑوں پولیس اہلکاروں کا سامنا کرتے ہوئے ”پارلیمنٹ مردہ“ کا نعرہ لگاتے رہے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں آدھی رات کے بعد تک جاری رہیں۔ صبح تک 400 افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں تقریباً 200 سکول کے طلبہ بھی شامل تھے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کے بعد جمعرات کو جکارتہ (Jakarta) میں اس سے بھی شدید مظاہرے ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ایک ڈلیوری ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا، جسے پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی نے کچل دیا تھا۔ اس تحریر کے وقت) 29 اگست) مظاہرے جاری ہیں اور کئی شہروں تک پھیل چکے ہیں، جہاں عوام اپنے غصے کا اظہار پولیس کے ساتھ بڑھتی ہوئی پُرتشدد جھڑپوں میں کر رہے ہیں۔
اس احتجاج کو بھڑکانے والا فوری مسئلہ پارلیمنٹ کے اراکین کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ اپنے لیے عیاشانہ اخراجات کی الاؤنس منظور کریں۔ اس سال کے آغاز میں پرابووو سوبیانتو (Prabowo Subianto) کی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ سخت معاشی اقدامات کے دوران، ان ’عوامی نمائندوں‘ نے فیصلہ کیا کہ وہ ماہانہ 50 ملین روپے (3075 امریکی ڈالر) ہاؤسنگ الاؤنس کے حقدار ہیں۔ اس سے ان کی کل ماہانہ آمدنی 239 ملین روپے (14600 امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی، جو اوسط مزدور کی تنخواہ سے 50 گنا زیادہ ہے۔
یقیناً، سیاستدانوں نے اپنی بھاری تنخواہوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ ایوان کے نائب چیئرمین ادیس قدیر (Adies Kadir) نے لاپروائی سے کہا کہ اسے اپنے نوکروں اور نجی ڈرائیوروں کو رکھنے کے لیے بڑا گھر کرائے پر لینا پڑے گا۔ اس نے بہت ہی بے شرمی سے یہ بھی کہا کہ اس کا کھانے کا الاؤنس صرف 12 ملین روپے ماہانہ ہے، جبکہ زیادہ تر مزدور خود کو بہت خوش نصیب سمجھیں گے اگر وہ ایک مہینے میں کل 4 ملین روپے کما سکیں۔
اس بات نے فوراً ہی سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا۔ ایک صارف نے کہا، ”12 ملین روپے سے تم 40 بوری چاول خرید سکتے ہیں۔ جاؤ اور انہیں کھا لو!“۔ ایک اور صارف نے کہا، ”سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لیے کھانے کا الاؤنس صرف 72000 روپے ماہانہ ہے۔“
پارلیمنٹ کی ایک اور رکن، نافا ارباخ (Nafa Urbach)، جو ایک فنکار سے سیاستدان بنی ہے، نے کہا کہ اسے یہ ہاؤسنگ الاؤنس ٹریفک جام سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کے قریب گھر کرائے پر لینے کی غرض سے چاہیے۔ اس بات نے سوشل میڈیا پر مزید ردعمل کو جنم دیا، ایک صارف نے کہا: ”بوگور (Bogor) کے لوگ جو جکارتہ میں کام کرتے ہیں، انہیں صبح سویرے ہی گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ وہ بھیڑ بھاڑ والی کمیوٹر ٹرین میں سفر کرتے ہیں اور انہیں تو ہاؤسنگ الاؤنس نہیں ملتا، محترمہ۔“
سیاستدانوں کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ آگ پر تیل کا کام کرتا رہا اور یہ چیز ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان عوام سے کتنے کٹے ہوئے ہیں جن کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں۔
درحقیقت یہ عوامی غصہ اس وقت سے جمع ہو رہا ہے جب پرابووو نے اس سال کے اوائل میں ریاستی بجٹ میں تقریباً 20 فیصد کٹوتی نافذ کی۔ حکومتی کارکردگی کے نام پر کی گئی یہ کٹوتیاں فوراً ہی عوام پر ڈال دی گئیں تاکہ وہ اس کا بوجھ اٹھائیں۔
محنت کش طبقے پر اس حملے کے خلاف پہلا ردعمل فروری میں ڈارک انڈونیشیا تحریک کی صورت میں سامنے آیا۔ اس عوامی تحریک کے طوفان کو کاؤنٹر کرنے کے بعد، حکومت خود کو کافی پُراعتماد محسوس کر رہی تھی، جو اس کے تکبر پر مبنی اس فیصلے کی وضاحت کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے الاؤنسز بڑھا لیے جبکہ غریبوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کم کریں۔ لیکن کفایت شعاری پر مبنی بجٹ نے حکومت کی بنیادوں میں بارود رکھ دیا ہے۔
ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ ڈارک انڈونیشیا تحریک ایک اور بھی بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ ہو گی اور چند ماہ بعد یہ تحریک سب سے غیر متوقع جگہ سے پھوٹ پڑی۔
13اگست کو پاتی (Pati) جو وسطی جاوا کے شمالی ساحل پر واقع ایک چھوٹا ضلع ہے، میں حکومت کی جانب سے جائیداد کے ٹیکس میں 250 فیصد اضافے کے فیصلے کے خلاف ایک بڑے پیمانے پر احتجاج پھوٹ پڑا۔ مرکزی حکومت کے کفایت شعاری پر مبنی بجٹ کے باعث صوبوں کے لیے مالی امداد میں سخت کٹوتی کی گئی جس نے صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ خلا کو پُر کرنے کے لیے ٹیکس بڑھائیں۔ صرف پاتی میں ہی 50 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔
مقررہ مظاہرے سے ایک ہفتہ قبل پاتی کے ریجنٹ سوڈیوو (Pati Regent Sudewo) نے تکبر کے ساتھ عوام کو چیلنج کیا: ”آگے بڑھو، احتجاج کرو۔ صرف پانچ ہزار لوگوں کو مت لاؤ، بلکہ پچاس ہزار لوگوں کو لے آؤ۔ مجھے خوف نہیں ہے۔ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا۔“ آخر میں اندازاً 1.3 ملین کی کل آبادی میں سے ایک لاکھ لوگ پاتی ریجنسی ہال پر اُمڈ آئے جہاں مظاہرہ تیزی سے ایک کھلی بغاوت کی شکل اختیار کر گیا۔
ریجنٹ سوڈیوو ریجنسی ہال کے اندر چھپے رہا اور صرف اس وقت باہر نکلا جب پولیس چیف نے اسے مظاہرین سے خطاب کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس کی پولیس صورتحال پر قابو کھو چکی تھی۔ سوڈیوو کو بوتلوں، سبزیوں، پتھروں اور ہر اس چیز کی بوچھاڑ میں جو عوام کے ہاتھ لگی، معافی مانگنے اور اپنے ٹیکس میں اضافے کو واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن عوام اپنی طاقت کا ذائقہ چکھ چکے تھے اور انہوں نے اس کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا۔
اس تحریک کے کئی شہروں میں پھیلنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف یہ تحریک شاید تھم گئی ہو۔ لیکن پارلیمنٹ کے اراکین کا اپنے لیے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہوا۔ اس نے فوراً ہی احتجاجوں کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا جسے روکا نہیں جا سکتا تھا اور جو اب نیم بغاوتی شکل اختیار کر چکی ہے۔
پیر کے دن ایک خود رو مظاہرہ پھوٹ پڑا جس کی قیادت نوجوان کر رہے تھے۔ یہ احتجاج عام یونیورسٹی طلبہ یونینز (بی ای ایم) کے ذریعے منظم نہیں ہوا تھا بلکہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے منظم ہوا تھا۔ اس میں سکول کے طلبہ کی بھی بڑی تعداد میں شمولیت رہی جو بلا کسی خوف کے پولیس کا سامنا کرنے کے لیے اگلی صفوں میں کھڑے تھے۔ یہی سکول کے طلبہ تھے جنہوں نے تحریک کو اتنی دھماکے دار توانائی اور لڑاکا روح بخشی۔
نوجوانوں نے صرف ہاؤسنگ الاؤنس کی منسوخی کا مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایوانِ نمائندگان کو تحلیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ”ایوانِ نمائندگان مردہ باد!“، ان کا مرکزی نعرہ تھا۔ انہوں نے فوراً ہی اپنے منتخب نمائندوں کی شاہانہ طرزِ زندگی کو اس بدعنوان ادارے کے وجود کے ساتھ جوڑ دیا۔ وہ درست طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نظامی مسئلہ ہے کہ پورا نظام ہی بدعنوان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس ادارے کے متبادل میں کیا آنا چاہیے لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ اسے نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔
پولیس نے یہ سوچتے ہوئے فوراً ان کے خلاف جارحانہ کاروائی شروع کر دی کہ وہ نوجوانوں کو پہلے کی طرح ڈرا دھمکا کر پیچھے ہٹا سکتے ہیں۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف تھا۔ نوجوان موجودہ حالات میں اپنے لیے کوئی مستقبل نہیں دیکھتے اور اسی لیے بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق دس لاکھ یونیورسٹی گریجویٹس اور 16 لاکھ ووکیشنل سکول گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو، جس میں ہزاروں لوگ صرف 50 آسامیوں کے لیے درخواست دینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ نوجوانوں کے لیے صورتحال کتنی مایوس کن ہو گئی ہے۔ حتٰی کہ ایک خبر میں آیا کہ یونیورسٹی گریجویٹس نے سڑک صاف کرنے کی نوکری کے لیے بھی درخواست دی۔ ان میں سے ایک نے کہا: ”سڑک صاف کرنا، سڑک پر سونے سے بہتر ہے۔“
مزید یہ کہ نوجوان اپنے پیچھے عوام کی مکمل ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں۔ جب پولیس نے نوجوان مظاہرین کو مارنا اور گرفتار کرنا شروع کیا تو کئی مقامی رہائشی انہیں بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ جب پولیس ایک ریستوران میں داخل ہوئی تاکہ وہاں پناہ لینے والے نوجوانوں کے ایک گروپ کو گرفتار کرے، تو ورکرز اور گاہک پولیس اور مظاہرین کے درمیان کھڑے ہو کر مظاہرین کو بچانے کی کوشش کی۔
ایک اور موقع پر ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس کے رہائشیوں نے مظاہرہ کرنے والے ایک نوجوان کو بچایا جسے پولیس اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا اور گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکومت اور اس کے خریدے ہوئے میڈیا کی یہ کوششیں کہ مظاہرین کو پرتشدد انارکسٹ کے طور پر پیش کیا جائے، اب مؤثر نہیں رہیں۔ عام عوام دیکھ رہے ہیں کہ یہ نوجوان اپنے مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔
21سالہ ڈلیوری ڈرائیور (Ojol driver) افان کورنیاوان (Affan Kurniawam) کی موت نے مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں، جنہوں نے عوام میں نفرت اور غصے کو جنم دیا۔ لوگ پہلے ہی محسوس کر رہے تھے کہ اس سطح کے تشدد میں یہ صرف کچھ ہی وقت کی بات ہے اس سے پہلے کہ کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ واقعہ بالآخر جمعرات کی شام ایک سڑک پر ہونے والی جھڑپ کے دوران پیش آیا، جب پولیس نے ایک بکتر بند گاڑی مظاہرین پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اس نے پوری تحریک کو مزید بھڑکا دیا۔ اس سفاکانہ قتل کی ویڈیو وائرل ہونے سے عوامی غصہ سوشل میڈیا پر بھی اور سڑکوں پر بھی شدت اختیار کر گیا۔
اس کے فوراً بعد ہزاروں ڈلیوری ڈرائیورز نے انصاف کے مطالبے کے لیے پولیس اسٹیشن کو گھیر لیا۔ صبح مزید ہزاروں مظاہرین ان میں شامل ہو گئے اور جیسے ہی مظاہرین نے پولیس اسٹیشن پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو جھڑپیں پھوٹ پڑیں۔ اس سے قبل، اوجول ڈرائیورز (Ojol drivers) جن میں سے کئی نوجوان ہیں اور جو باضابطہ ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، پہلے ہی مظاہروں میں نظر آ رہے تھے۔ آج وہ پورے انڈونیشیا میں ہزاروں کی تعداد میں منظم ہو رہے ہیں۔
تحریر کے وقت ملک بھر میں احتجاجوں کی ایک نہ تھمنے والی لہر چھا چکی ہے۔ طلبہ اوجول ڈرائیورز اور محنت کش آج پہلے سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں پولیس اسٹیشنوں اور پارلیمنٹ کی عمارتوں کے سامنے جمع ہو رہے ہیں۔ حکومت نے اپنے تعزیتی پیغام دے کر اور یہ وعدہ کر کے کہ اوجول ڈرائیور کی موت کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جہاں وہ ایک ہاتھ سے بہلامنے پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے عوام پر وحشیانہ جبر کرتے ہیں۔ ہمیں اس چال میں نہیں آنا چاہیے اور ہمیشہ چوکس رہنا چاہیے۔
صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اور اس کے تمام نتائج آخرکار انڈونیشیا میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس احتجاجی لہر کے بعد ایک عام ہڑتال کی کال دی جانی چاہیے۔ تاہم یہ تحریک موجودہ ٹریڈ یونین رہنماؤں پر ایسی ہڑتال کی کال دینے کے لیے بھروسہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ خود کو حکمران طبقے کے وفادار غلام ثابت کر چکے ہیں۔
جب نوجوانوں کو سڑکوں پر مارا جا رہا ہے، یہ اصلاح پسند رہنما اپنے اراکین سے کہہ رہے ہیں کہ غیر ذمہ دار انارکسٹ عناصر کی اشتعال انگیزی میں نہ آئیں۔ جمعرات کو انہوں نے جان بوجھ کر اپنا مظاہرہ صبح کے وقت منظم کیا اور اپنے اراکین کو ہدایت دی کہ وہ جلدی گھر چلے جائیں تاکہ ان کا نوجوانوں سے سامنا نہ ہو، اس خوف سے کہ نوجوانوں کی لڑاکا روح اراکین میں منتقل ہو سکتی ہے۔ تحریک کو چاہیے کہ وہ محلوں اور سکولوں میں اپنی ایکشن کمیٹیاں قائم کرے تاکہ تحریک کو مزید منظم کیا جا سکے، پولیس کے تشدد کے خلاف اپنے دفاعی یونٹ تشکیل دیے جائیں اور جدوجہد کو عام ہڑتال کی طرف بڑھایا جائے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس سے حکومت کو کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔