|تحریر: ایلیسیو مارکونی، ترجمہ: عبدالحئی|
3اکتوبر کی عام ہڑتال فلسطین تحریک اور مجموعی طور پر طبقاتی جدوجہد کے لیے ایک تاریخی پیش رفت تھی۔ انسانوں کا سیلاب پورے اٹلی کی سڑکوں پر امڈ آیا، روم میں 3 لاکھ، میلان، نیپلز اور بولوگنا میں ڈیڑھ لاکھ، فلورنس میں 1 لاکھ۔ اس مضمون کے لیے احتجاجوں کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔ مجموعی طور پر اندازاً کم از کم 100 شہروں میں 20 لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اگلے دن 5 لاکھ لوگ دوبارہ ملک گیر مظاہرے کے لیے روم میں جمع ہوئے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس طرح کے اعداد و شمار دہائیوں سے متحرک نہیں ہوئے تھے، کچھ لوگ ان کے لیے 20 سال کا عرصہ بتاتے ہیں اور کچھ 50 سال میں کا۔ مگر یہ صرف عددی معاملہ نہیں ہے۔ اس پیمانے کی ایک سیاسی ہڑتال بے مثال ہے جو نسل کشی کے شکار غیر ملکی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کی گئی ہو۔ اور یہ بات واضح ہے کہ برسوں سے چلے آ رہے بحران، کفایت شعاری اور قربانیوں سے جمع ہونے والا غصہ جو کوئی راستہ نہیں پا رہا تھا اب سڑکوں پر پھٹ پڑا ہے۔
لہٰذا جس صورتِ حال کا ہم سامنا کر رہے ہیں وہ کوئی عارضی مظہر نہیں بلکہ ایک گہرا موڑ ہے جو بھلے ایک نئے دور کا تو نہیں لیکن ایک نئے مرحلے کا آغاز کرتا ہے۔
یہ تحریک اٹلی کی سرحدوں کے پار پھیل چکی ہے، یہ دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور انہیں مزید تقویت بخشے گی۔
لڑکھڑاتی حکومت
محض ایک ماہ کے عرصے میں، 30 اگست کو جینوا میں ہونے والے مارچ، جس نے اس تحریک کا آغاز کیا، سے لے کر اکتوبر کی عام ہڑتال تک معاشرے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر الٹ چکا ہے۔ اب حکومت اور حکمران طبقہ دفاعی پوزیشن میں ہیں جبکہ نوجوانوں اور مزدوروں کو اپنی بے پناہ طاقت کا ادراک ہو چکا ہے۔
حکومت کا اس دباؤ کو محسوس کر رہی ہے اور بے ربط انداز میں حرکت کر رہی ہے۔ پہلے وزیرِ دفاع کروسیٹو (Crosetto) نے مضحکہ انداز میں فلوٹیلا کی فکر ظاہر کرنے کا ڈھونگ رچایا اور اسے ”تحفظ“ دینے کے لیے ایک جنگی جہاز بھیجا۔ مگر پھر جیسے ہی اسرائیلی بحریہ نے جہازوں کو روکا میلونی نے اس مشن پر سخت تنقید کی، یہاں تک کہ یہ بھی کہا کہ کارکنان غزہ میں امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں (کارکنان، نہ کہ نتن یاہو کی حکومت، یہ مذاق لگتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے)!
مگر اب یہ رجعتی بیانیہ بھی زیادہ اثر نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ نائب وزیرِ اعظم سالوینی (Salvini) کو 3 اکتوبر کی ہڑتال کے وسیع پیمانے کو دیکھتے ہوئے مزدوروں کو زبردستی کام پر واپس لانے کی کوشش ترک کرنی پڑی۔
اس وجہ سے تین سال کی بے اثر پارلیمانی مخالفت کے بعد اب سڑکوں پر چلنے والی یہ تحریک بالآخر حکومت کو مشکل میں ڈال رہی ہے۔ یہی وقت ہے کہ تحریک اپنے لیے یہ واضح ہدف مقرر کرے کہ اس حکومت کو جو نسل کشی میں شریک ہے اور مزدوروں کی دشمن ہے، گھر بھیج دیا جائے۔
”ہر چیز کو بند کرنے“ کا مطلب کیا ہے؟
30اکتوبر سے ایک نعرہ زبان زد خاص و عام ہو چکا ہے، ”سب کچھ روک دو“۔ یہ ایک اچھا نعرہ ہے کیونکہ یہ اس تماشے سے انکار کرتا ہے جس میں تمام سیاسی عمل کو پارلیمانی مباحثوں تک محدود کر کے ماہرین کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ یہی پارلیمانی بائیں بازو کی پالیسی رہی ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک مداخلت اور ایک پریس کانفرنس جسے کوئی نہیں سنتا اور حکومت کے آگے چند مطالبات جو خوش دلی سے نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی سیاست وہ جمہوریت ہے جو ہمیں سکول کے زمانے سے سیکھائی گئی تھی، یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جو عوام کی ضروریات کو اقتدار والوں تک پہنچانے کے لیے نہیں، بلکہ انہیں چھانٹنے اور ہمیشہ کے انتظار میں ڈالنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی دعوت ہے جو ہمیں غیر فعال رہنے اور معاشرے کے انتظام کو بالائی طبقوں یعنی حکمران طبقے اور اس کے کارندوں کے سپرد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
عوام کے منظر پر ابھرنے کے عمل نے، جو ہمیشہ ایک بڑی سماجی تبدیلی کے عمل کا فیصلہ کن عنصر ہوتا ہے، پردہ چاک کر دیا ہے۔ ہم اب مزید انتظار نہیں کر رہے، ہم نسل کشی کو روکنے کے لیے سب کچھ روک رہے ہیں۔ اور یوں سب کچھ بدل چکا ہے۔
یہ بات طے ہونے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس اقدام کو مؤثر طریقے سے کیسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ایک اچھا آغاز یہ ہے کہ اب تک تحریک کی قوتوں کا جائزہ لیا جائے اور ضروری نتائج اخذ کیے جائیں۔
سب سے پہلے یہ نعرہ ”سب کچھ روک دو!“ اس لیے مؤثر ثابت ہوا کیونکہ اسے کسی چھوٹی اقلیت نے نہیں بلکہ عوامی طاقت کے ذریعے انجام دیا گیا۔ لہٰذا ہمیں اس سوچ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا کہ تحریک چند الگ تھلگ کارکنان پر مشتمل ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کام کرنا ہو گا کہ سڑکوں پر دکھائی دینے والی عوامی شمولیت سکولوں، یونیورسٹیوں اور کام کی جگہوں تک بھی پھیل جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقاصد، پروگرام اور جدوجہد کے طریقوں پر جمہوری اور مربوط انداز میں بحث کے لیے وسیع پیمانے پر اسمبلیاں قائم کی جائیں۔ اکثریت (یا کم از کم مزدور طبقے کے ایک بڑے حصے) کی فعال شمولیت جدوجہد کی کامیابی کی بنیاد ہے۔
اس کے علاوہ سڑکوں یا ریلوے اسٹیشنوں کو مختصراً بند کرنے کے علاوہ وہ ہڑتالیں ہی تھیں جنہوں نے واقعی نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیا (عمومی طور پر 3 اکتوبر کو اور 22 ستمبر کو، بالخصوص سکولوں کی ہڑتالیں)۔ عام ہڑتالوں کے علاوہ بندرگاہوں میں ”سب کچھ بند کر دینا“ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوا، کیونکہ یہ بندرگاہ کے مزدور ہی تھے جنہوں نے کام روک دیا جو اسرائیلی فوجی مشین کے سپلائی راستوں کے اسٹریٹجک مقامات پر موجود تھے۔
محنت کشوں کو فیصلہ کرنا ہو گا!
بندرگاہوں کی مثال سبق آموز ہے۔ تمام سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا، بلکہ ایک مخصوص ہدف پر مبنی رکاوٹ لگائی گئی جس نے ان جہازوں کی لدائی روک دی جو جنگی سامان اسرائیل لے جانے والے تھے۔
یہ ایک عمومی تصور کی ٹھوس مثال ہے سرمایہ داری کے نظام میں پیداوار کرنے اور تقسیم کرنے والے مزدور ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اگر مزدور منظم ہو جائیں تو وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ منظم ہو کر وہ کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں منتظمین اور مالکان کے احکامات کے تابع اپنے معمول کی حالت سے ناتا توڑ سکتے ہیں۔
مزدوروں کا کنٹرول کوئی مجرد نعرہ نہیں ہے۔ یہ خود رو طور پر اُس وقت ابھرتا ہے جب مزدوروں کی جدوجہد میں تیزی آتی ہے۔ اٹلی میں فیکٹری کونسلوں کی ایک روایت موجود ہے، جو مزدوروں نے بی ینیو روسو (Biennio Rosso) (دو سرخ سال) کے دوران قائم کی تھیں اور پھر 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں دوبارہ تشکیل دی گئیں۔
راوینا (Ravenna) کی بندرگاہ کے مزدوروں نے بتایا کہ انہوں نے کس طرح ان کنٹینروں کی نشاندہی کی جن میں اسرائیل کے لیے اسلحہ موجود تھا اور اس طرح وہ ان مخصوص کنٹینروں کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ تارانٹو میں اینی (Eni) ریفائنری کو اس لیے بند کیا گیا تاکہ ایک آئل ٹینکر پر ایندھن لوڈ ہونے سے روکا جا سکے جو اسرائیلی فضائیہ کے لیے ایندھن لے جانے والا تھا۔ ان مثالوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جانا چاہیے تاکہ مختلف کمپنیوں کے مزدور یہ بحث کر سکیں کہ پیداوار پر مزدوروں کا کنٹرول کیسے اور کہاں نافذ کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اُن کمپنیوں سے آغاز کرتے ہوئے جن کی مصنوعات اور خدمات اسرائیلی فوجی مشین کے لیے معاون کردار ادا کرتی ہیں۔
اسٹریٹجک مقامات کے باہر مظاہرے اور احتجاجی کیمپ (آج بندرگاہوں پر، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی) اہم تعاون فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ان کا مقصد ہمیشہ کام کی جگہوں کے اندر مزدوروں کی متحرک جدوجہد کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے، اسے بدلنا نہیں۔
یہ ابتدائی 2000 کی دہائی کی متحرک مظاہروں کا الٹ ہے۔ تب ڈِس اوبی ڈیئنٹی (یا زیادہ درست طور پر ’پوسٹ ورکرِسٹ‘) گروپوں نے نظریہ پیش کیا کہ مزدور طبقہ اب غیر ضروری ہے ہڑتالیں کرنا بے کار ہے اور سڑکوں، سٹیشنوں اور کبھی کبھار کمپنیوں کی بندش کرنی چاہیے، لیکن ہمیشہ ’باہر سے‘۔ اس مؤقف کے نتیجے میں ایسی کاروائیاں ہوئیں جو ضروری طور پر مختصر مدتی تھیں جن کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور جنہوں نے منظم مزدور تحریک کو خارج کر دیا۔
اس کے برعکس، آج خود یہ محنت کش ہی تھے جنہوں نے اپنی خود رو کاروائی کے ذریعے تحریک کو آگے بڑھایا۔ یہی تھے جنہوں نے ٹریڈ یونین کی قیادت خاص طور پر CGIL کو عمومی ہڑتال کرنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی طاقت کے توازن کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے کہ دہائیوں تک ایسا لگتا تھا کہ بھاری بھرکم ٹریڈ یونین کے بیوروکریٹس کو حرکت دینا ناممکن ہے لیکن اب محنت کش جانتے ہیں کہ ہم وہی ہیں جنہوں نے CGIL کو میدان میں اتارا اور وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
یہ عمل ایک آخری نکتے کی نشاندہی کرتا ہے، محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں کے پاس دشمن کو شکست دینے کی طاقت ہے لیکن تحریک کی قیادت ایسے رہنماؤں کے سپرد نہیں کی جا سکتی جو خود بھی لڑائی میں شامل ہونا نہیں چاہتے۔
یہ نعرہ ’سب کچھ روک دو‘ فرانس کی تحریک سے آیا ہے۔ برسوں سے فرانس میں مرکزی ٹریڈ یونین CGT کی قیادت بڑے احتجاجی دن منانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے جو لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر بھی لے آئے۔ لیکن ایک دوسرے سے الگ تھلگ ان کے پاس میکرون اور فرانسیسی بورژوا طبقے کو شکست دینے کی طاقت نہیں تھی۔
‘Bloquons tout’ (Lets Block Everything) ٹریڈ یونین کے بائیں بازو اور تحریک کے سب سے لڑاکا شعبوں کا نعرہ ہے۔ RCI کے فرانس کے سیکشن Parti Communiste Revolutionnaire کے ہمارے ساتھی بھی اس تحریک شامل ہیں، جو میکرون کی حکومت کے خاتمے اور ایک محنت کش حکومت قائم ہونے تک مکمل ہڑتال کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اب یہی سوچ اٹلی میں بھی نافذ کرنا ہو گی۔ 3 اکتوبر کا دن کسی بھی طور سے کٹا ہوا نہیں رہنا چاہیے۔ دشمن مصیبت میں ہے اور ہمیں اسے کسی قسم کی راحت نہیں دینی چاہیے۔ وہ بنیادی تحرک جس نے ہڑتال کو جنم دیا، اسے کام کی جگہوں اور باقی معاشرے میں بڑھانا اور منظم کیا جانا چاہیے۔ اس ایجنڈے پر 48 گھنٹے کی ایک عمومی ہڑتال کو منظم کیا جانا چاہیے تاکہ میلونی حکومت کو گرایا جا سکے۔ اس تحریک کو ایک ایسا پروگرام اپنانا چاہیے جو نسل کشی ختم کرنے کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑے۔
آئیں منظم ہوں اور سب کچھ روک دیں۔ کیونکہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ سب کچھ واپس لیا جائے۔


















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance