اجارہ دارانہ سرمایہ داری، سامراجیت اور عالمی معیشت کا شدید زوال

|تحریر: آدم بوتھ، ترجمہ عرفان منصور|

وہ کونسا لفظ ہے جو ولادیمیر لینن کی مشہورِ زمانہ نظریاتی تصانیف؛ سپر مارکیٹ کے غلے اور سلیکون مائیکرو چِپس، اور بیسویں صدی کے اوائل میں بننے والی ہر گھر میں موجود بورڈ گیم کو آپس میں جوڑتا ہے؟ اشارہ عنوان میں ہی مخفی ہے: اجارہ داری۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سرمایہ داری کو اکثر ”آزادی“ اور ”انتخاب“ کی ضامن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سراسر فریب ہے۔ صبح ہماری آنکھ کھلنے سے لے کر رات سونے تک، ہماری زندگیوں پر اجارہ داریوں کا غلبہ ہے؛ یعنی ان دیوہیکل کارپوریشنز کا جو اپنی متعلقہ صنعتوں کے وسیع حصوں پر قابض ہیں۔

مثال کے طور پر، بطورِ صارف ہمیں خوراک اور مشروبات کے معاملے میں بے شمار برانڈز میں سے ”انتخاب“ کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ تمام برانڈز مٹھی بھر بین الاقوامی کارپوریٹس کی ملکیت ہیں۔

امریکہ میں کوکا کولا، پیپسی کو اور کیورگ ڈاکٹر پیپر تینوں مل کر کاربونیٹڈ مشروبات کی فروخت کا 93 فیصد حصہ کنٹرول کرتے ہیں۔ صرف ایک کمپنی پیپسی، پانچ مقبول ترین اسنیک برانڈز کی ملکیت کے سبب، ڈِپ مارکیٹ (چٹنی وغیرہ) کا 88 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہے۔ بیئر کی فروخت کا تقریباً تین چوتھائی حصہ صرف تین دیوہیکل کمپنیوں کے قبضے میں ہے۔ جہاں تک اناج کی بات ہے، تو تقریباً ناشتے کی پلیٹ کا 73 فیصد حصہ انہی تین بڑی کمپنیوں کے فراہم کردہ اناج پر مشتمل ہوتا ہے۔

درحقیقت، تقریباً روزمرہ استعمال کی گروسری کی 80 فی صد اشیاء کی مارکیٹ میں صرف چار یا اس سے کم ہی کمپنیاں ہی غالب ہیں، یعنی وہ اکثریتی حصے پر قابض ہیں۔ یہی بڑی فوڈ ملٹی نیشنلز، وال مارٹ اور آلڈی جیسی ریٹیل چینز کے ساتھ مل کر نیچے کام کرنے والے ہزاروں چھوٹے محدود سکت رکھنے والے سپلائرز کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔

لیکن اجارہ داریوں کا غلبہ صرف سپر مارکیٹ کی شیلفوں تک ہی محدود نہیں۔ مثلاً، جب ہم چیک آؤٹ پر پہنچتے ہیں، تو ہماری زیادہ تر خریداری صرف دو اداروں کے جاری کردہ ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز کے ذریعے ہوتی ہے؛ ماسٹر کارڈ اور ویزا۔ اگر آپ ہوائی سفر کرتے ہیں تو غالب امکان ہے کہ آپ ایسے طیارے میں سفر کر رہے ہوں گے جو صرف دو بڑی فضائی کمپنیوں، بوئنگ یا ایئر بس، میں سے کسی ایک نے تیار کیا ہو۔ توانائی کے نگران اداروں کے مقابلے کو فروغ دینے کی کاوشوں کے دعوں کے باوجود، برطانیہ میں پانچ نجی منافع خور کمپنیاں ملک کے 70 فیصد گھروں کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔

یہ مسئلہ عوامی شعبے میں بھی کچھ کم سنگین نہیں۔ برطانیہ میں، آؤٹ سورسنگ کے G4S، مائٹی (Mitie) اور سیریکو (Serco) جیسے دیوہیکل ادارے مختلف عوامی شعبوں میں اپنی جڑیں گہرائی تک گاڑ چکے ہیں، اور ٹیکس دہندگان کے اربوں نگل چکے ہیں۔ تعمیراتی صنعت میں بھی اجارہ داریوں کا یہی حال ہے۔ دوسری طرف، امریکہ میں پنٹاگون کے دفاعی بجٹ کا 86 فیصد صرف پانچ مخصوص ’دفاعی ٹھیکے داروں‘ کو جاتا ہے۔

اجارہ داریوں کی یہ گرفت تو قبر میں بھی ڈھیلی نہیں پڑتی۔ وہ امریکی شہری جو وفات کے بعد دفن ہونے کا انتخاب کرتے ہیں، ان میں سے 82 فیصد سے زائد افراد ایسے تابوت یا کفن میں دفن ہوتے ہیں جو صرف دو کمپنیوں میں سے کسی ایک نے تیار کیا ہوتا ہے۔

کارپوریٹ کا ارتکاز

اگرچہ کبھی کبھار لبرل حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ”چھوٹا خوبصورت ہے“، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری کا مطلب ہی دیوہیکل ہے: دیوہیکل تیل کمپنیاں، دیوہیکل دوا ساز کمپنیاں، دیوہیکل ٹیکنالوجی کمپنیاں وغیرہ۔ اور یہ مزید بڑی ہوتی جاتی ہیں۔

دہائیوں پر محیط سفر میں بحرانوں، انضماموں اور خرید کے ایک طویل سلسلے کے باعث رفتہ رفتہ، ہر صنعت میں منڈیاں مسلسل ارتکاز پذیر ہوتی چلی گئی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک حالیہ اکیڈمک سٹڈی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کی چوٹی کی کمپنیاں گزشتہ ایک صدی کے دوران امریکی معاشی وسائل پر اپنے قبضے میں مسلسل اضافہ کرتی رہی ہیں۔

”کارپوریٹ کے ارتکاز کے 100 سال“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مصنفین لکھتے ہیں:

”1930 ء کی دہائی کے اوائل سے اب تک سب سے اوپر والی 1 فیصد اور 0.1 فیصد کارپوریشنز کا اثاثوں میں حصہ بالترتیب 27 فیصد پوائنٹس (70 فیصد سے بڑھ کر 97 فیصد) اور 40 فیصد پوائنٹس تک (47 فیصد سے بڑھ کر 88 فیصد) تک بڑھ چکا ہے۔“

محققین نے اس رجحان کے شواہد پیش کیے ہیں کہ اجارہ داری کی طرف یہ جھکاؤ 1970ء کی دہائی کے بعد مزید تیز ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ارتکاز خصوصاً مالیاتی، صنعتی، کان کنی، خدمات اور یوٹیلیٹی کے شعبوں میں نہایت نمایاں رہا ہے۔

اگر لغوی معنی میں دیکھا جائے تو ”اجارہ داری“ اس صورتحال کو کہتے ہیں جہاں کسی صنعت پر مکمل طور پر صرف ایک کمپنی کا قبضہ ہو، جو کہ نسبتاً کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ لیکن عملی طور پر، جیسا کہ کریڈٹ کارڈز، ہوائی جہازوں اور تابوتوں کی مثالوں میں دیکھا جا سکتا ہے، اکثر منڈیاں دو بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری (Duopoly) کے تحت چل رہی ہیں۔ اور اولیگاپولی (Oligopoly)، یعنی کچھ طاقتور کمپنیوں (اور اُن کے مالک اولیگارکوں) کی حکمرانی، آج کی معیشت کے متعدد شعبوں میں معمول بن چکی ہے۔

البتہ، یہ کوئی نیا مظہر نہیں۔ گزشتہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے اجارہ داریوں کی حاکمیت سرمایہ داری کا نمایاں خاصہ ہے۔

لینن نے 1916ء میں اسی قسم کے عمل کا تفصیلی تجزیہ کیا۔ اُس وقت ہی اُس نے نشاندہی کی کہ کس طرح عالمی منڈی کو صنعتی ٹرسٹوں اور کارٹیلوں (Cartels) کے ایک جُھنڈ اور ان کو پالنے والی بڑی سرمایہ دارانہ طاقتوں نے آپس میں بانٹ لیا تھا۔

”صنعت کا زبردست پھیلاؤ اور پیداوار کا تیزی سے بڑے بڑے اداروں میں ارتکاز، سرمایہ داری کی سب سے نمایاں بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے۔“

انہی سطور سے لینن کی شاہکار تصنیف ”سامراجیت“ کا آغاز ہوتا ہے، جسے اُس نے ”سرمایہ داری کی حتمی منزل“ قرار دیا تھا۔

جن دیوقامت کمپنیوں کے نام لینن نے اپنی تحریر میں لیے، اُن میں سے بعض، جیسے سیمنز (Siemens) اور جنرل الیکٹرک (General Electric)، آج بھی معروف و موجود ہیں۔ دیگر نام، جیسے اسٹینڈرڈ آئل (Standard Oil) اور یو ایس سٹیل کارپوریشن (US Steel Corporation) کی بنیاد امریکہ کے ’سنہری دور‘ میں لوٹ مار کر کے رئیس بننے کی شہرت کے حامل بالترتیب جے ڈی راک فیلر (JD Rockefeller) اور انڈریو کارنیگی (Andrew Carnegie) نے رکھی۔

مالیاتی سرمایہ

صنعتی اجارہ داریوں کے ہاتھوں میں پیداوار کے ارتکاز کے ساتھ ساتھ، لینن نے مالیاتی سرمائے کے بڑھتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کیا، یعنی بڑے بینک جو کاروباروں کو قرض دیتے ہیں، معیشت میں سرمایہ کاری کی سمت طے کرتے ہیں اور بہت سی بڑی کمپنیوں میں فیصلہ کن حصص کے مالک ہوتے ہیں۔

اس رجحان کی سب سے نمایاں مثال اُس وقت وال اسٹریٹ کا راجہ، جے پی مورگن تھا۔

مورگن سرمایہ داری کی ”جنگل کے قانون“ والی فطرت کا مجسم پیکر تھا۔ 1907ء کے مالیاتی بحران سمیت، یہ بدنامِ زمانہ ساہوکار ہر اقتصادی بحران سے فائدہ اٹھا کر ناکام کاروباروں اور بینکوں کو سستے داموں خرید لیتا تھا۔ اس عمل کے ذریعے، وہ اپنے ہاتھوں میں دولت اور طاقت کے ارتکاز کو بڑھاتا رہا۔

سرمایہ داری کے ہر بحران کے بعد بینکاری شعبے کا ارتکاز مزید بڑھتا چلا گیا۔

1929ء سے 1933ء کے درمیان، وال اسٹریٹ کریش اور عظیم کساد بازاری کے نتیجے میں تقریباً 9000 امریکی بینک دیوالیہ ہو گئے۔ بعد ازاں، 2007-8 کے مالیاتی بحران نے امریکی کمرشل بینکوں کی تعداد میں کئی دہائیوں سے جاری کمی کے عمل کو مزید تیز کر دیا۔

2015ء تک، امریکہ میں مالیاتی ارتکاز اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا تھا، صرف پانچ بڑے بینک کل تجارتی اثاثوں کا 56 فیصد سے زائد کنٹرول کر رہے تھے۔ چوٹی کے صرف تین ادارے مل کر 42 فیصد اثاثے اپنی تجوریوں میں رکھ کر بیٹھے تھے۔

حال ہی میں بھی، جب سلیکون ویلی بینک (Silicon Valley Bank) کے انہدام کے بعد دیگر ادارے بھی اس مالیاتی وبا کی زد میں آنے لگے تو جے پی مورگن چیس (ایک بار پھر وہی ادارہ) نے فرسٹ ریپبلک کو اور سوئٹزرلینڈ کے بینک یو بی ایس (UBS) نے کریڈٹ سوئیس کو خرید لیا۔

تاہم، یہ تمام ادارے بھی حقیقی مالیاتی دیوتاؤں کے سامنے چھوٹے موٹے جن ہیں۔

بالترتیب 10.4 ٹریلین ڈالر اور 11.6 ٹریلین ڈالر کے زیرِ انتظام اثاثہ جات کے تخمینے کے ساتھ وینگارڈ (Vanguard) اور بلیک راک (BlackRock) دنیا کے سب سے بڑے اثاثہ منیجرز ہیں۔ ان میں وہ مالی ذخائر شامل ہیں جو عام گھریلو بچتوں اور پنشن فنڈز سے جمع کیے گئے ہیں اور پھر انہیں اسٹاکس، بانڈز اور دیگر سرمایہ کاریوں میں لگایا جاتا ہے۔

لینن لکھتا ہے کہ یہ مالیاتی ادارے ”اس عمل کے ذریعے غیر فعال مالیاتی سرمایہ (یعنی عوام کی بچتوں) کو فعال سرمایہ میں بدل دیتے ہیں، جو منافع پیدا کرتا ہے؛ وہ ہر قسم کی مالی آمدنی کو جمع کر کے اُسے سرمایہ دار طبقے کے تصرف میں دے دیتے ہیں۔“

اسی بنیاد پر، لینن مزید لکھتا ہے: ”بینک معمولی دلالوں سے ترقی پا کر دیوقامت اجارہ داریوں میں بدل جاتے ہیں، جن کے قبضے میں تقریباً تمام سرمایہ داروں کا سارا نقد سرمایہ ہوتا ہے۔“

تکنیکی اعتبار سے، بلیک راک اور وینگارڈ جیسے سرمایہ کاری کے ادارے براہِ راست اثاثوں کے ’مالک‘ نہیں ہوتے بلکہ وہ دوسروں کی دولت کا انتظام کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، یہ ادارے کارپوریٹ دنیا پر غیر معمولی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ایس اینڈ پی 500 اسٹاک مارکیٹ انڈیکس میں شامل ہر بڑے کاروبار کے تین بڑے سرمایہ کاروں میں سے کم از کم ایک نام، انہی دو فرموں میں سے کسی ایک کا ہے۔ حصص کی اس قدر بڑی ملکیت کے سبب، انہیں تمام بڑی صنعتی اجارہ داریوں کے بورڈ رومز میں نمائندگی اور فیصلہ سازی کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔

درحقیقت، مختلف تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ یہ دیوہیکل اثاثہ جات منیجرز اکثر ’افقی حصص داری‘ (horizontal shareholding) میں ملوث ہوتے ہیں یعنی وہ کسی ایک ہی نوعیت کی صنعت کے اندر کئی مدمقابل کمپنیوں میں بڑے حصص کے مالک ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں، کسی صنعت میں بظاہر مسابقت کی موجودگی کے باوجود، پردے کے پیچھے ڈوریاں ہلانے والا ارب پتی سرمایہ داروں اور بینکاروں کا ایک ہی مختصر گروہ ہوتا ہے۔

یہ کوئی سازشی مفروضہ نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت ہے۔

مثال کے طور پر، 2011ء میں سوئٹزرلینڈ کے محققین کی ایک ٹیم نے دنیا بھر کے 13 ملین کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے ڈیٹا بیس سے 43 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے باہمی روابط کا جائزہ لیا۔

اپنے تجزیے میں انہوں نے پایا کہ ان کے عالمی معیشت کے ماڈل میں صرف 147 کمپنیوں نے دنیا کی تقریباً 40 فیصد دولت پر کنٹرول قائم کر رکھا تھا۔ اس سرمایہ دارانہ نیٹ ورک کے جن 50 نقاطِ اتصال (nodal points) پر سب سے زیادہ جال بُنے گئے تھے، اُن میں تقریباً سبھی کسی نہ کسی شکل میں مالیاتی ادارے تھے۔

اور تب سے اب تک، بلیک راک اور وینگارڈ جیسے دیوہیکل سرمایہ کارانہ اداروں کے عروج کے ساتھ، اقتصادی طاقت کا یہ ارتکاز مزید بڑھتا چلا گیا ہو گا۔

”ہم سب اب سرمایہ دار ہیں“ کے تصور کا تو جنازہ ہی نکل چکا ہے۔ عوام کو کارپوریٹ معیشت میں حصص دار بنا کر سرمایہ داری کو ’جمہوری‘ بنانے اور ذرائع پیداوار کو ’تقسیم‘ کرنے کے دعوں کے برعکس، درحقیقت، اسٹاک مارکیٹ اور قرضوں کے نظام نے صرف مالیاتی سرمائے کی حکمرانی یعنی بینکوں کی آمریت کو ہی مضبوط تر کیا ہے۔

لینن ”سامراج“ میں وضاحت کرتا ہے کہ: ”ذرائعِ پیداوار کی ’عوامی تقسیم‘ یہ وہ تصور ہے جو رسمی طور پر جدید بینکوں سے جنم لیتا ہے۔ لیکن، حقیقت میں یہ تقسیم بالکل بھی یونیورسل نہیں ہوتی بلکہ نجی ہوتی ہے۔ یعنی یہ بڑے سرمائے اور خصوصاً دیوقامت اجارہ داریوں کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔“

آخر میں لینن نتیجہ نکالتا ہے کہ: ”حصص کی ملکیت کو ”عوامی بنانا“، دراصل مالیاتی اشرافیہ کی طاقت بڑھانے کا ایک ذریعہ ہی ہے۔“

صنعتی ادغام

پیداوار کو بڑی اجارہ داریوں کے زیرِ اثر مزید مرتکز کر دینے والے ایک اور رجحان کی لینن نے نشاندہی کی جو کہ ہے ادغام (combination): یعنی مختلف صنعتی کاموں کو ایک ہی چھتری کے تلے یکجا کر دینا۔

لینن لکھتا ہے کہ: ”سرمایہ داری کے ارتقاء کے اعلیٰ ترین مرحلے کی ایک نہایت اہم خصوصیت پیداوار کا نام نہاد ادغام ہے، یعنی پیداوار کے مختلف شعبوں کو ایک ہی ادارے میں مجتمع کر دیا جاتا ہے۔“ وہ مزید وضاحت کرتا ہے کہ، ”یہ یا تو خام مال کی تیاری کے مختلف مسلسل مراحل کی نمائندگی کرتی ہیں، یا پھر ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتی ہیں۔“

آج کی زبان میں ماہرینِ اقتصادیات اس رجحان کو عمودی (Vertical) اور افقی (Horizontal) ادغام کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

افقی ادغام سے مراد وہ ارتکاز ہے جو کسی صنعت کے اندر ہوتا ہے، جب کوئی اجارہ دار ادارہ اپنے حریفوں کو خرید کر اپنے دائرہ اثر میں شامل کر لیتا ہے۔

اسی طرح، جب کوئی کمپنی کسی مخصوص میدان میں غلبہ پا لیتی ہے، تو وہ اکثر کسی حد تک مماثل منڈیوں میں قدم رکھتی ہے، اپنے حجم اور وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعلقہ صنعتوں میں رسائی حاصل کرتی ہے تاکہ وہ منافعے کے اس حصے کو بھی ہتھیا سکے جو فی الحال دیگر کمپنیوں کو حاصل ہو رہا ہے۔

عمودی انضمام کی صورت میں، اجارہ دار ادارے اپنی سپلائیر کمپنیوں (نیچے) اور اپنی مصنوعات کی تقسیم کرنے والوں (اوپر) کو خرید لیتے ہیں، تاکہ سپلائی چین کے ہر مرحلے پر لاگت کم کی جا سکے اور منافع زیادہ حاصل ہو۔

یہ رجحانات سب سے نمایاں انداز میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایپل، ایمازون اور الفابیٹ (گوگل کی پیرنٹ کمپنی) جیسے بگ ٹیک (Big Tech) ادارے، دراصل اس ہڑبونگ اور ارتکاز کا نتیجہ ہیں جو صدی کے آغاز پر ڈاٹ کام ببل کے پھٹنے کے بعد پیش آیا۔

اس کے نتیجے میں آج 90 فیصد انٹرنیٹ سرچز گوگل کے ذریعے ہوتی ہیں؛ 83 فیصد ویب براؤزنگ کروم (گوگل) یا سفاری (ایپل) پر ہوتی ہے؛ 95 فیصد آپریٹنگ سسٹمز گوگل (اینڈرائیڈ)، مائیکروسافٹ (ونڈوز) اور ایپل (iOS اور macOS) کے تیار کردہ ہیں اور 80 فیصد سے زائد ای-بکس ایمازون پر فروخت ہوتی ہیں۔

ایک شعبے میں اجارہ داری قائم کرنے کے بعد، یہی کمپنیاں متعدد سٹارٹ اپس اور ممکنہ حریف اداروں کو خرید چکی ہیں، یوں وہ اپنے گرد ایک مضبوط فصیل تعمیر کر چکی ہیں تاکہ مستقبل میں کوئی نیا مدمقابل داخل نہ ہو سکے۔ اس مضبوط حیثیت کے ساتھ ہی وہ قریبی میدانوں میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔

مثال کے طور پر، گوگل نے ”الفابیٹ“ بننے کے لیے، یوٹیوب (ویڈیو سروس) اور ڈیپ مائنڈ (AI کی معروف کمپنی) کو خرید لیا۔ اسی طرح مارک زکربرگ نے فیس بک کے ذریعے اربوں بنانے کے بعد، واٹس ایپ اور انسٹاگرام خرید کر میٹا کی بنیاد رکھی۔

مائیکروسافٹ نے بھی ایکٹیویژن بلیزرڈ (Activision Blizzard) اور لنکڈ اِن (LinkedIn) جیسی کمپنیوں کو تقریباً 95 ارب ڈالر میں خرید کر گیمنگ اور سوشل نیٹ ورک کے میدانوں میں قدم جمائے۔ اور ایمازون کے سی ای او جیف بیزوس نے ایک ایسی کارپوریٹ سلطنت قائم کی جو آن لائن ریٹیل، ڈیجیٹل میڈیا، اسٹریمنگ اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ جیسے مختلف میدانوں پر محیط ہے۔

اشرافیہ کی یہ تمام اجارہ داریاں، اب ہیلتھ ٹیک، خودکار گاڑیاں، کوانٹم کمپیوٹنگ اور (یقیناً) مصنوعی ذہانت جیسی جدید ترین صنعتوں اور نئی ابھرتی ہوئی منڈیوں میں سبقت لے جانے کے لیے بے پناہ سرمایہ اور کاوشیں وقف کر چکی ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ عمودی ادغام کی ایک جدید مثال بھی پیش کرتا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کے باوجود، الفابیٹ، ایمیزون، میٹا، مائیکروسافٹ سمیت باقی سب بھی حقیقی دنیا میں موجود انٹرنیٹ کے فزیکل ڈھانچے پر بھی قبضہ جمانا چاہتے ہیں، جیسے سرورز کی تعمیر سے لے کر سافٹ ویئر کی تیاری تک، زیرِ سمندر کیبلز بچھانے سے لے کر کلاؤڈ میں ڈیٹا کی پروسیسنگ تک۔

سلیکون اور سونا

مجموعی طور پر نتیجہ یہ ہے کہ، آج بگ ٹیک بالعموم عالمی معیشت اور بالخصوص اسٹاک مارکیٹ میں زبردست اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

حال ہی میں، ٹرمپ کی محصولات کی دھمکیوں کے سبب منڈیاں شدید اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہیں۔ اس سے قبل، اسی سال میں ہی چین سے آنے والے مصنوعی ذہانت کے نئے حریفوں کی خبروں سے تجارتی مراکز کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔

تاہم، اس ہنگامہ خیز کیفیت سے پہلے، امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں حد سے بڑھا ہوا جوش و خروش، حصص کی قیمتوں کو مسلسل بلند کرتا رہا۔ ایک سال قبل، 20 بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ایس اینڈ پی 500 انڈیکس کی کل ’قدر‘ کے 35.8 فیصد حصے کی مالک تھیں۔

آج بھی، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، سات نمایاں کمپنیاں؛ ایپل، مائیکروسافٹ، اینویڈیا، ایمیزون، الفابیٹ، میٹا اور ٹیسلا (ترتیب وار)، مشترکہ طور پر 15 کھرب ڈالر کی مالیت رکھتی ہیں۔ یہ سٹاک مارکیٹ کا اتنا ہی حصہ بنتا ہے (تقریباً ایک تہائی) جتنا پہلے بیس ٹیک کمپنیوں کے پاس تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی عیاں ہے کہ سلیکون ویلی غیر معمولی منافع کما رہی ہے۔ اپنی اجارہ داریوں کے قلعہ نما محلات سے جھانکتے ہوئے، بیزوس، زکربرگ، مسک اور ان کے ہمنوا اربوں ڈالر سمیٹ رہے ہیں۔

وبا کے بعد کے عرصے میں، جب رکی ہوئی مانگ میں ایک دم سے اضافہ ہوا اور رسد میں رکاوٹوں کے سبب مانگ پوری نہ ہو سکی تو منافع خور اجارہ داریوں نے موقع غنیمت جان کر دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹی۔ کچھ مبصرین نے اس رجحان کو ”لالچ پر مبنی مہنگائی“ (Greedflation) کا نام بھی دیا۔

اس دوران ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی آمدنی اور حصص کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ پھر مصنوعی ذہانت کا جنون اس ترقی کو مزید جِلا بخشتا گیا، گویا کیلیفورنیا میں دولت کی ایک نئی دوڑ شروع ہو گئی، جس کا مرکز اب (سلیکون ویلی کا شہر) پالو آلٹو (Palo Alto) بنا۔

بات منافع خوری کی ہو تو امریکی ٹیک سیکٹر سیر نہیں بلکہ سوا سیر ہے۔

دنیا کی چار ہزار بڑی کمپنیوں پر کی گئی میکنزی (McKinsey) کی تحقیق کے مطابق 2005–2009ء اور 2015–2019ء کے درمیان، دنیا کی سب سے بڑی 500 اجارہ دار کمپنیوں نے عالمی منافع میں اپنا حصہ 81.5 فیصد سے بڑھا کر 91.2 فیصد کر لیا ہے۔ ان میں سے سرفہرست 100 کمپنیوں نے اپنا منافع 45.5 فیصد سے بڑھا کر 48.3 فیصد تک پہنچایا ہے۔

قابلِ ذکر طور پر، امریکی کمپنیوں نے پیسہ سمیٹنے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ میکنزی کی رپورٹ کے مطابق، شمالی امریکہ (بالخصوص امریکہ) کی کمپنیاں، اسی عرصے میں عالمی منافع میں اپنا حصہ 50 فیصد سے بڑھا کر 77 فیصد تک لے گئیں۔

یہ چھلانگ خاص طور پر ”ہائی ٹیک“ صنعتوں کے مرہونِ منت تھی، جنہوں نے شمالی امریکہ کے مجموعی منافع میں 28 فیصد حصہ ڈالا اور 66 ارب ڈالر سے بڑھ کر 116 ارب ڈالر کا منافع سمیٹا۔

اگرچہ، فارماسیوٹیکل و میڈیکل، جدید صنعتی شعبے (گاڑیاں، ہوابازی، دفاع، الیکٹرانکس، سیمی کنڈکٹرز) اور میڈیا کے میدان میں بھی امریکی اجارہ داریوں کے منافع میں اضافہ ہوا ہے، لیکن وہ اب بھی بگ ٹیک پر رشک ہی کر سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دیگر حصوں سے سرمایہ دار اپنی سامراجی ریاستوں کی پشت پناہی کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کے قلعے پر یلغار کے لیے پر تول رہے ہیں، تاکہ سلیکون ویلی کے بادشاہوں کے پاس جمع خزانے میں سے سونے کے کچھ بسکٹ چرائے جا سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب ڈیپ سیک اور دیگر چینی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنیوں کی آمد کی خبر سامنے آئی، تو امریکی اشرافیہ کے ایوانوں میں سنسنی پھیل گئی۔ مشرقی ساحل کے بینکاروں سے لے کر مغربی ساحل کے ٹیک سیٹھوں تک، جدید دور کے یہ چور رؤسا، کسی بھی صورت میں اپنا لوٹ مار کا مال دوسروں سے بانٹنے پر آمادہ نہیں۔

تقسیم اور از سرِ نو تقسیم

جیسا کہ لینن وضاحت کرتا ہے کہ، دنیا کی منڈی کو آپس میں تقسیم کرنے اور بار بار تقسیم کرنے کے لیے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کے مابین لڑائی، سامراج کے عہد کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔

لینن لکھتا ہے کہ: ”اجارہ دار سرمایہ دار تنظیمیں، کارٹیل، سنڈیکیٹ، اور ٹرسٹ، پہلے اپنی داخلی منڈی کو آپس میں تقسیم کرتی ہیں اور اپنے ملک کی صنعت پر تقریباً مکمل تسلط حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن سرمایہ داری میں داخلی منڈی ناگزیر طور پر بیرونی منڈی سے جُڑی ہوتی ہے۔ سرمایہ داری نے بہت پہلے ہی ایک عالمی منڈی تخلیق کر لی تھی۔“

یہ سامراجی رقابت نہ صرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) بلکہ دیگر کلیدی صنعتوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور رفتہ رفتہ، اس میدان میں چینی سرمایہ داری کی ابھرتی ہوئی طاقت سب پر بازی لے جا رہی ہے۔

لینن کے مطابق، کسی بھی منڈی کا ایک بار اجارہ داروں کے درمیان تقسیم ہو جانا ”نئی تقسیم کے سوال کو خارج از بحث نہیں کر دیتا کیونکہ طاقت کا توازن ناہموار ترقی، جنگ، دیوالیہ پن یا دیگر عوامل کے باعث بدل سکتا ہے۔“

مزید برآں، نئی ٹیکنالوجی نئی منڈیوں کے استحصال کے دروازے کھولتی ہے۔ اپنی سرمایہ دار ریاست کی بھرپور پشت پناہی کے ساتھ چینی اجارہ داریاں ان منڈیوں میں اپنی گرفت مضبوط کر چکی ہیں۔

الیکٹرونک گاڑیوں (EVs) کی صنعت اس عمل کا سب سے بہترین اظہار ہے۔

ماضی میں فورڈ، ووکس ویگن اور ٹویوٹا جیسی امریکی، یورپی اور جاپانی آٹو موبائل اجارہ دار کمپنیاں گاڑیوں کی صنعت پر غالب رہی ہیں۔

دہائیوں تک، ان کمپنیوں نے اپنی توجہ internal-combustion engines پر مبنی گاڑیاں بنانے پر مرکوز رکھی۔ اسی کے سبب بیٹری اور سافٹ ویئر بنانے والی چینی کمپنیوں کو ای وی ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔

آج چین دنیا کا سب سے بڑا گاڑیاں برآمد کرنے والا ملک ہے، جو سالانہ تقریباً 50 لاکھ گاڑیاں بیرون ملک بھیجتا ہے۔ اسی طرح، دنیا بھر کی ای وی (Electronic Vehicle) مارکیٹ کا تین چوتھائی سے زائد حصہ چین کے پاس ہے، جس کی ایک بڑی وجہ خود چین میں فروخت میں بہت بڑا اضافہ ہے۔

اس زبردست داخلی منڈی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ریاستی سبسڈی کی مدد سے، BYD جیسی چینی آٹو موبائل اجارہ دار کمپنیوں نے ای وی صنعت میں مضبوط قدم جما لیے ہیں۔

فروخت کے اعتبار سے، شینزیان (Shenzhen) کی BYD نے ایلون مسک کی ٹیسلا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ کمپنی دنیا بھر میں اپنی فیکٹریاں قائم کر رہی ہے تاکہ تجارتی محصولات کی رکاوٹوں سے بچا جا سکے اور غیر ملکی منڈیوں میں مزید رسائی حاصل ہو۔

BYDکی کامیابی کا ایک اہم راز اس کی عمودی انضمام کی مہارت میں پنہاں ہے۔

1995ء میں بیٹری سازی سے آغاز کرنے والی یہ کمپنی 2003ء میں ہائبرڈ گاڑیوں کی مارکیٹ میں داخل ہوئی۔ آج، وارن بفٹ (Warren-Buffett) کی پشت پناہی سے چلنے والی یہ کمپنی، ای وی تیار کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹری سازی کی عالمی صنعت میں دوسرے نمبر پر ہے (پہلے نمبر پر ایک اور چینی کمپنی CATL ہے)، اور مارکیٹ کے تقریباً 16 فیصد حصے پر قابض ہے، یوں نہ صرف اپنی بلکہ دیگر کمپنیوں کی گاڑیوں کو بھی توانائی فراہم کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، BYD کا اپنی سپلائی چین کے دیگر تمام حصوں پر بھی مکمل کنٹرول ہے، بیٹریوں کے لیے لیتھیئم کی کان کنی اور اس کی پروسیسنگ سے لے کر کار میں نصب چپس کی تیاری اور گاڑیوں کی ترسیل و برآمد تک۔

یہ گرفت کمپنی کو ہر مرحلے پر لاگت پر قابو پانے اور منافع میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہی وہ وصف ہے جو BYD کی گاڑیوں کو عالمی سطح پر حریفوں پر سبقت دیتا ہے اور اسی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین نے چینی برآمدات کو روکنے کے لیے تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دی ہیں۔

انتشار، محصولات، اور تجارتی جنگ

موجودہ تجارتی جنگ اس انتشار کی ایک مثال ہے جو اجارہ دارانہ سرمایہ داری اپنے بطن میں لیے ہوئے ہے، جس میں دیو قامت کثیرالقومی کمپنیاں اپنے منافعے بڑھانے اور منڈیوں کو وسعت دینے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتی ہیں۔

مقابلہ بازی کی معاشی طاقت تمام اجارہ داریوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مسلسل نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں اور پیداوار کی صلاحیت میں اضافہ کرتے جائیں۔ اس کا نتیجہ عالمی سطح پر ایسی خطرناک حد تک زائد پیداوار کی صورت میں نکلا ہے جسے سیر شدہ منڈیاں جذب کرنے سے قاصر ہیں۔

تحفظ پسندی (Protectionism) کے اقدامات، یعنی ایسی پالیسیاں جن کا مقصد سب سے زیادہ پیداوار کرنے والوں کو روکنا ہے کہ وہ اپنی فاضل اشیاء بیرونی منڈیوں میں پھینک نہ دیں، اسی مظہر کا ردِ عمل ہیں۔

مثال کے طور پر گاڑیوں کی صنعت کو لیجیے۔ دی اکانومسٹ میگزین رپورٹ کرتا ہے: ”چینی فیکٹریاں شاید سالانہ تقریباً 4 کروڑ 50 لاکھ گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو عالمی فروخت کے تقریباً نصف کے برابر ہے لیکن فی الحال وہ اپنی استعداد کا صرف 60 فیصد استعمال کر رہی ہیں۔“ اور مزید لکھتا ہے: ”زیادہ پیداوار نے خطرناک قیمتوں کی ایک جنگ کو جنم دیا ہے۔“

یہی وہ پس منظر ہے جو واضح کرتا ہے کہ چینی گاڑیوں پر آج کل اتنے زیادہ محصولات کیوں عائد کیے جا رہے ہیں۔ یہی مضمون یہ نشاندہی بھی کرتا ہے کہ اسی کے سبب چیری (Chery)، جیلی (Geely)، اور سائیک (SAIC) جیسی چینی کمپنیاں اب مشرقِ وسطیٰ، لاطینی امریکہ، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا جیسی نئی منڈیوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اسی طرح سٹیل کی صنعت کو دیکھیے۔ چین ہر سال باقی پوری دنیا سے زیادہ فولاد پیدا کرتا ہے، یعنی سالانہ تقریباً ایک ارب ٹن۔ لیکن اس تمام پیداوار کی داخلی ضرورت موجود نہیں۔ چنانچہ چین ہر سال اس فولاد کا بہت بڑا حصہ برآمد کرتا ہے، 2023ء میں نو کروڑ ٹن سے زیادہ۔ یہ امریکہ یا جاپان کی سالانہ پیداوار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

یہی سستا چینی فولاد عالمی منڈی میں اُمڈ کر آ رہا ہے، قیمتوں کو گرا رہا ہے اور دنیا بھر کے فولاد ساز اداروں کو بحران میں مبتلا کر رہا ہے۔ اس کا نتیجہ پھر وہی ہے؛ بھاری محصولات۔ یہی وہ عنصر ہے جو پورٹ ٹالبوٹ (Port Talbot) اور سکن تھورپ (Scunthorpe) کے اسٹیل پلانٹس میں جاری بحران کی جڑ ہے، جہاں مزدوروں کو بڑے پیمانے پر روزگار کی بربادی کا سامنا ہے۔

منڈیوں پر قبضے اور محصولات کی اس دوڑ کے ساتھ ساتھ سامراج کا مطلب ہے وسائل کے لیے جغرافیائی سیاسی کشمکش۔

مثلاً الیکٹرک گاڑیاں اور دیگر ہائی ٹیک مصنوعات تیار کرنے کے لیے اجارہ دار صنعتوں کو قیمتی خام مال تک رسائی درکار ہوتی ہے۔ ان میں لیتھیئم، نکل (Nickel) اور کوبالٹ جیسی دھاتیں شامل ہیں۔ ان دھاتوں کی کان کنی اور پروسیسنگ میں چینی کمپنیاں نمایاں بالادستی رکھتی ہیں اور دنیا کو ان دھاتوں کی فراہمی کا بالترتیب 60 فیصد، 65 فیصد اور 70 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہیں۔

اسی طرح نایاب معدنیات کی تلاش اور تیاری کے عمل پر بھی چین کو اجارہ داری حاصل ہے۔ یہ وہ اجزاء ہیں جو سولر پینل، ونڈ ٹربائن، بیٹریاں، اسمارٹ فون، ڈیجیٹل کیمرے اور کمپیوٹر مانیٹرز جیسی جدید مصنوعات کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

ان وسائل پر کنٹرول کا حصول، واشنگٹن اور بیجنگ کے پالیسی سازوں کی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر، کانگو میں قیمتی معدنیات کے لیے اس دوڑ  نے جنگ اور بحران کو ہوا دی ہے۔ اسی طرح، ٹرمپ کی گرین لینڈ اور یوکرین کے ساتھ ہونے والی سودے بازی میں زمینی ذخائر اور معدنی دولت کو لوٹنا اور چین کی برآمدی پابندیوں سے بچنے کی شدید خواہش عیاں ہے۔

کمپیوٹر چِپ کا انتشار

اتنی ہی اہم ہے سلیکون، یا بالکل درست کہا جائے تو سلیکون مائیکرو چپس کے لیے لڑائی۔ یہ نہایت چھوٹے اجزاء وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں جن پر مصنوعی ذہانت (AI) کے ماڈلز، سافٹ ویئر اور الگورتھمز قائم ہیں۔ یہ کئی دوسری اشیاء میں بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

مگر جہاں ٹیکنالوجی کے گوگل، اوپن اے آئی اور ڈیپ سیک جیسے دیو کلاؤڈ میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، وہیں چِپ کی تیاری کے کئی اہم مراحل میں اجارہ داریاں قائم ہیں۔

مثال کے طور پر، بڑی امریکی کمپیوٹنگ کی کمپنی این ویڈیا (Nvidia) کو گرافکس پروسیسنگ یونٹس (GPUs) کی مارکیٹ میں تقریباً 82 فیصد حصے کا کنٹرول حاصل ہے۔ اس کی آدھی آمدنی چار کمپنیوں سے آتی ہے: مائیکروسافٹ، ایمازون، میٹا اور الفابیٹ۔

سپلائی چین میں آگے بڑھیں تو صرف ایک کمپنی، تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (TSMC)، عالمی سیمی کنڈکٹر ’فاؤنڈری‘ مارکیٹ کا تقریباً دو تہائی حصہ بناتی ہے، یعنی چپ کے ڈیزائن کی بجائے اس کی پیداوار کی ذمہ دار۔

یہ حقیقت امریکی سامراج اور چین کے مابین تائیوان کے گرد کشیدگی کو ایک نیا جواز دے کر بڑھا دیتی ہے۔ آخر، یہ متنازعہ جزیرہ دنیا کے تقریباً 90 فیصد جدید ترین سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار کا مرکز جو ٹھہرا۔

اسی طرح، ایک ڈچ کمپنی ASML تقریباً تنِ تنہا وہ انتہائی پیچیدہ لیتھوگرافی مشینیں تیار اور فراہم کرتی ہے، جو چپ سازی کے عمل میں سلیکون پر نقش بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

یہ اجارہ داری جہاں ایک طرف ایسے مؤثر اور مہارت سے مزین کاروباری ادارے تخلیق کر چکی ہے جو پوری دنیا کی ضروریات کے لیے کلیدی ٹیکنالوجی مصنوعات مہیا کر سکتے ہیں۔

لیکن اس کے برعکس، اس مرکزیت نے عالمی معیشت کو انتہائی نازک اور کمزور بھی بنا دیا ہے۔ پچھلی دہائیوں میں گلوبلائزیشن اور آزاد تجارت کی بنیاد پر پیداوار اور تقسیم کا ایسا نازک جال تشکیل دیا ہے کہ جسے کوئی چھوٹا سا جھٹکا یا خلل پارہ پارہ کر سکتا ہے۔

یہ حقیقت وبا کے دوران بے نقاب ہوئی، جب لاک ڈاؤن اور رسد کی رکاوٹوں نے سپلائی چینز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جب صنعت کو پہلے شدید قلت اور پھر زائد فراہمی کا سامنا کرنا پڑا تو مائیکروچپس کی قیمتیں کبھی تولہ تو کبھی ماشہ ہونے لگیں اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کی انارکی کا واضح ترین عکس ہے۔

آج کی اس محدود تجارتی جنگ میں بھی یہی نقطہ ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے، جب امریکی سامراج ASML اور این ویڈیا (Nvidia) جیسی کمپنیوں پر چین کو اپنی برآمدات محدود کرنے کا دباؤ ڈال رہا ہے، تاکہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی متبادل ٹیکنالوجی کی صنعت کو روک دیا جائے۔

لیکن واشنگٹن یہاں آگ کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ مائیکروچپ کی پیداوار میں امریکہ کچھ حصوں پر مضبوط گرفت رکھتا ہے، لیکن جیسا کہ معدنیات کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں سارے پتے اس کی جیب میں نہیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عالمی پیداوار کی اجارہ داری نے بہت سی اشیاء کی تیاری چین میں مرتکز کر دی ہے۔ امریکہ چین سے جو مصنوعات درآمد کرتا ہے ان کی ایک تہائی پر چین کا غلبہ ہے اور وہ امریکی طلب کا 70 فیصد سے بھی زائد حصہ مہیا کرتا ہے۔

یعنی وائٹ ہاؤس کے لیے چین کو تجارتی میدان سے باہر نکالنا انتہائی مشکل ہو گا۔ اجارہ داری اور گلوبلائزیشن نے مل کر ایک بہت ہی مربوط اور ناقابلِ علیحدگی کی حد تک عالمی معیشت تخلیق کی ہے۔ شدید مہنگائی اور معاشی تباہی کے بغیر اس پہیے کو واپس نہیں گھمایا جا سکتا ہے۔

یہ سب اس بات کا واضح اظہار ہے کہ پیداوار کس قدر اجتماعی ہو چکی ہے اور کس طرح پیداواری قوتوں کا ارتقاء نجی ملکیت اور قومی ریاست کی جکڑ بندیوں سے ٹکرا رہا ہے۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سرمایہ داری کے تحت اجارہ داری استحکام لانے کی بجائے ہر سطح پر عدم توازن اور انتشار کا نسخہ کیمیا ہے۔

جیسا کہ لینن نے اپنی کتاب ’سامراج‘ میں انتہائی موقع پرست کارل کاؤتسکی کو جواب دیا کہ، ”سامراج کے حامی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مالیاتی سرمایہ [اور اجارہ داریوں ] کا راج عالمی معیشت میں پائی جانے والی نابرابری اور تضادات کو کم کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ ان تضادات کو بڑھاتا ہے۔“

وہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ: ”اس کے برعکس، صنعت کی چند حصوں میں قائم ہونے والی اجارہ داری بطورِ کل سرمایہ دارانہ پیداواری عمل میں پوشیدہ انارکی کو بڑھاتی ہے اور اس کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔“

جمود اور زوال

لینن آگے تفصیل سے وضاحت کرتا ہے کہ اجارہ داری ”ناگزیر طور پر مائل بہ جمود اور زوال ہوتی ہے“، اور پیداواری قوتوں یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت وغیرہ کی ترقی کو روک دیتی ہے۔

وہ مزید کہتا ہے: ”چونکہ، وقتی طور پر ہی سہی، اجارہ دارانہ قیمتیں قائم رہتی ہیں، اس لیے تکنیکی ترقی اور اس کے نتیجے میں دیگر تمام ترقی کی قوتِ محرکہ کسی حد تک معدوم ہو جاتی ہے، اور اقتصادی طور پر یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ جان بوجھ کر تکنیکی ترقی کو سست کیا جائے۔“

آج کل، حتیٰ کہ بورژوا تجزیہ کار بھی ایسے نتائج پر پہنچ رہے ہیں اور انہیں خوف ہے کہ اجارہ داری وہ کلیدی عنصر ہے جس کی وجہ سے سرمایہ داری کو پچھلی چند دہائیوں میں کمزور شرح پیداوار کا سامنا ہے۔

دی اکانومسٹ جریدہ اس حوالے سے رقمطراز ہے:

”امریکہ کی دیوہیکل ٹیکنالوجی کی زبردست کامیابی نے تشویش پیدا کی ہے کہ وہ حد سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں، اور ان کی اجارہ داری معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کی حرکت پذیری کو روک رہی ہے۔

”نیویارک یونیورسٹی کے تھامس فلپون نے امریکہ میں 1980ء کی دہائی سے کارپوریٹ ارتکاز میں اضافے کا دستاویزی جائزہ لیا ہے، بڑی کمپنیاں کارپوریٹ آمدنیوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے قبضے میں لے رہی ہیں؛ اقتصادی پیداوار میں کمپنیوں کے منافع کا تناسب بڑھ رہا ہے؛ اور خاص طور پر سب سے زیادہ ارتکاز والے شعبوں میں کمپنیاں اپنے منافعے کا کم حصہ نئی سرمایہ کاری میں لگاتی ہیں اور زیادہ حصہ حصص کی خرید کے گھن چکر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

”مجموعی طور پر، یہ صورت حال کم پیداواری صلاحیت، سست رفتار ترقی اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا نسخہ بن سکتی ہے۔“

اسی طرح، اپنی کتاب ‘What went wrong with capitalism?’ میں، لبرل مصنف روچیر شرما (Ruchir Sharma) نے یہ دلیل دی کہ، ”پیداوار کے معمے“کے پسِ پردہ ریاستی مداخلت اور اجارہ داری کا زہریلا امتزاج وہ سبب ہے کہ جو ایک طویل عرصے سے بورژوا ماہرینِ معیشت کو الجھن میں ڈالے ہوئے ہے۔

راک فیلر کا ایک سرمایہ کار لکھتا ہے کہ: ”ان صنعتوں میں جہاں سب سے بڑی کمپنیاں تیزی سے اپنے کنٹرول کو مضبوط کر رہی ہیں، سالانہ پیداواری شرح اوسطاً کم ہو رہی ہے۔“

دو بنیادی وجوہات کی بنا پر، ترقی میں پیچھے رہ جانے والی صنعتوں کے ساتھ ساتھ ترقی میں سب سے آگے موجود صنعتوں میں بھی مجموعی طور پر پیداواری صلاحیت گر رہی ہے۔ چونکہ نیچے سے کوئی دباؤ نہیں ہوتا، اس لیے ترقی میں سب سے آگے موجود یہ کمپنیاں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں اور اگر وہ بہتر یا زیادہ خدمات فراہم کریں، تب بھی وہ صرف اپنے ہی مارکیٹ شیئر کو نقصان پہنچاتی ہیں۔“

شرما کی رائے ہے کہ نئے اور ڈائنامک سٹارٹ اپس کو مارکیٹ میں آنے کی ترغیب دینے کی بجائے، سرمایہ دار حکومتوں نے ناکام ہوتی کمپنیوں کو سہارا دیا ہے اور جمود کا شکار یا سست رو بڑی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے سِن رسیدہ اور سست رفتار کارپوریٹ گروہوں کے ساتھ ایک ایسی غیر پیداواری ’زومبی‘ کاروباری فوج وجود میں آئی ہے جو ہر چھوٹی نو وارد کمپنی کو کچل دیتی ہے۔

مقابلے کی منطق

لبرٹیرین ازم (Libertarianism) کے جدِ امجد فریڈریک ہائیک (Friedrich Hayek) کی طرح، شرما بھی اجارہ داری کے مسئلے کو محض فکری یا سیاسی تناظر میں دیکھتا ہے۔

ان آزاد منڈی کے خبطیوں کے نزدیک، اجارہ دارانہ سرمایہ داری محض غیر ذمہ دار پالیسی سازوں اور بے اصول سیاستدانوں کی کارستانی ہے، جنہوں نے موجودہ اشرافیہ کے مفاد کی لابی کرنے والوں اور وکیلوں کو یہ گنجائش دی کہ وہ اس نظام کو اپنے مفاد کے مطابق ترتیب دے سکیں۔

یقیناً، یہ نظام فراڈ پر مبنی ہے اور ارب پتیوں اور بینکاروں کے فائدے کے لیے چالاکی سے بنایا گیا ہے۔ مگر اس سے یہ وضاحت تو نہیں کی جاسکتی ہے کہ سرمایہ داری جیسی ہے ویسی ہی کیوں ہے؟

مارکس، اینگلز اور لینن نے اپنی معاشی تحریروں میں واضح کیا ہے کہ اجارہ داری ایک فطری اور مادی عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ کوئی ’سیاسی انتخاب‘ ہے۔

نجی ملکیت اور منافع کے لیے پیداوار کی حرکیات کا مطلب ہے کہ مقابلہ لازمی طور پر اپنی ہی نفی میں بدل جاتا ہے۔

یہ بات بورڈ گیم ”مونوپولی“ سے بخوبی سمجھ میں آتی ہے۔ سب کھلاڑی برابری کے مقام سے شروع کرتے ہیں اور قواعد سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔ پھر بھی آخر کار ایک ہی کھلاڑی سب کچھ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ مقابلے کی سرد اور بے رحم منطق ہے۔

حقیقت میں بھی یہی ہوتا ہے؛ کمزور اور ناکام چھوٹے کاروبار بند ہو جاتے ہیں اور بڑے، مضبوط حریف انہیں نگل جاتے ہیں۔ یوں پیداوار چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، بحرانوں میں مزید رفتار کے ساتھ، یہ عمل طاقتور اجارہ داریوں کے ظہور کا باعث بنتا ہے۔

لینن ’سامراج‘ میں بیان کرتا ہے کہ: ”پیداوار کے ارتکاز کے نتیجے میں اجارہ داریوں کا عروج، سرمایہ دارانہ ارتقاء کے موجودہ عہد کا ایک عمومی اور بنیادی قانون ہے۔“

اجارہ داری بذاتِ خود مزید اجارہ داری کا سبب بنتی ہے۔

بڑی کمپنیاں، کسی خاص سطح کی پیداوار اور تقسیم کی تنظیم و منصوبہ بندی سے حاصل ہونے والی لاگت میں بچت یعنی ”بڑے پیمانے کے معاشی فوائد“ سمیٹتی ہیں۔ یہ کمپنیاں نئی ٹیکنالوجیز اور طریقوں میں سرمایہ کاری کے لیے وہ سرمایہ اکٹھا کرنے کی اہل ہو پاتی ہیں، جس سے چھوٹے حریفوں کے مقابلے میں ان کی پیداواری برتری مزید بڑھ جاتی ہے۔

آج کل، اہم ترین صنعتوں میں مقابلہ کرنے کے لیے جس وسیع سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ نئے اداروں کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

مثال کے طور پر، کچھ اندازوں کے مطابق، 50-60 سال پہلے ایک جدید مائیکروچپ فیکٹری (یا ’فیب‘) کی تعمیر کی لاگت آج کے کرنسی میں تقریباً 30 ملین ڈالر تھی۔ اس کے برعکس، آج کل تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی (TSMC) کے ہر ایک جدید فیب (Fab) کی لاگت تقریباً 20 ارب ڈالر ہے۔

یہ سب سے بڑی سامراجی طاقتوں کو چھوٹے ممالک کو مارکیٹ سے نکال باہر کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اکیلے برطانیہ کا کیا ذکر کریں، یورپی یونین بھی ویسی بھاری سرمایہ کاری کرنے کا دل گردہ نہیں رکھتی، جیسی امریکہ اور چین اپنی صنعتوں میں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یورپ اور برطانیہ کی ناروتھ ولٹ (Northvolt) اور برٹش ولٹ (Britishvolt) نامی بیٹری ساز کمپنیوں کے ذریعے گرین ٹیکنالوجی سیکٹر میں داخل ہونے کی ناکام کاوشیں اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح، کوئی بھلا کیسے امریکہ اور چین کی طرح مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں سینکڑوں ارب ڈالر لگا سکتا ہے؟

یعنی، قائم شدہ اجارہ داریوں کا تحفظ کرنے والی دیواریں مزید بلند اور خندقیں مزید چوڑی ہوتی جا رہی ہیں۔

سوشلزم کی ضرورت

لبرلز اور لبرٹیرینز (Libertarians) کے نزدیک اس سارے ہنگامے کا ایک ہی حل ہے کہ ماضی کی طرف لوٹ چلو، یعنی ’انتخاب میں زیادہ آزادی‘ کا مطالبہ کرنا، زیادہ مقابلہ بازی اور آزاد منڈیوں کے حق میں آواز بلند کرنا، بڑی اجارہ دارانہ کارپوریشنز کو ’اینٹی ٹرسٹ‘ قوانین اور ضوابط کے ذریعے توڑنے کا تقاضا کرنا۔

اسی دوران، کچھ دوسرے افراد تحفظ پسندی (Protectionism) اور معاشی قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں؛ یعنی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی جگہ ’مقامی چیزوں کی خریداری‘ اور ’قومی چیمپیئنز‘ کو فروغ دینا۔

تاہم، یہ دونوں تجاویز بالکل خیالی اور رجعت پرست ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ اجارہ داریاں اس لیے وجود میں آئی ہیں کیونکہ وہ زیادہ بہتر اور زیادہ پیداواری ہیں؛ یعنی یہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی نمائندگی کرتی ہیں۔

اسی طرح، آج پیداوار بہت زیادہ سماجی اور عالمی سطح پر مربوط ہو چکی ہے۔ اس مربوطی کا سبب بھی یہی ہے کہ بڑے اقتصادی پیمانے، بین الاقوامی تقسیمِ محنت اور تخصیص کے ذریعے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

چاہے وہ بین الاقوامی سطح پر ہو یا کسی ایک ملک میں، اجارہ داریوں کو توڑنے کی تجویز، معاشی ترقی کی ایک نچلی سطح کی طرف واپس جانے کا اشارہ ہے۔ ٹھوس الفاظ میں، اس کا مطلب سماجی غربت ہے۔

”ان منتشر اور محدود ذرائع پیداوار کو مرتکز کرنا، انہیں توسیع دینا اور اسے عہدِ حاضر کی پیداوار کے طاقتور آلے میں بدلنا، یہی تو سرمایہ دارانہ پیداوار اور اس کی حامی بورژوازی کا تاریخی کردار تھا۔“

اینگلز، اپنی کتاب ’سوشلزم: یوٹوپین اور سائنٹیفک‘ میں پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں سرمایہ داری کے ترقی پسندانہ کردار کی وضاحت پیش کرتا ہے۔

اس نے بیان کیا کہ اسی عمل میں، ”کسی مخصوص صنعت کو ایک بہت بڑی جوائنٹ سٹاک کمپنی میں بدل دیا جاتا ہے؛ اندرونی مسابقت ختم ہو کر اس ایک کمپنی کی اندرونی اجارہ داری بن جاتی ہے۔“

”ٹرسٹوں میں، مقابلے کی آزادی اپنی ہی نفی میں بدل جاتی ہے، یعنی اجارہ داری؛ اور سرمایہ دارانہ معاشرے کی غیر منصوبہ بند پیداوار، سوشلسٹ معاشرے کی منصوبہ بند پیداوار کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتی ہے۔“

یہی وہ تضاد ہے جو آج ہمیں نظر آتا ہے، جہاں سماجی پیداوار اور منصوبہ بندی کے عناصر نجی ملکیت اور مارکیٹ کی انارکی کے ساتھ ساتھ موجود ہیں۔

ہر بحران پر بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں کی لامتناہی مالی امداد کی صورت میں بڑھتی ہوئی ریاستی مداخلت اس تضاد کا اقرار ہے؛ ایک غیر رسمی اعتراف کہ پیداواری قوتیں نجی ملکیت اور قومی ریاست کی حدود سے باہر نکل چکی ہیں، یعنی پیداوار مکمل طور پر سماجی نوعیت کی ہو چکی ہے، مگر محنت کش طبقے کی پیدا کردہ اس دولت پر سرمایہ داروں کا نجی قبضہ ہے۔

حل یہ نہیں کہ ہم تاریخ کے پہیے کو پیچھے گھمائیں، بینکوں یا اجارہ داریوں کو توڑنے کی کوشش کریں، یا ’چھوٹے کاروبار‘ اور محدود پیداوار کی تعریف کریں۔

بلکہ ہمیں سرمایہ داری کے ذریعے پیدا ہونے والی وسیع تنظیمی اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کو اور معاشی قوتوں کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور شعوری جمہوری کنٹرول میں لانا ہو گا۔

مثال کے طور پر، وال مارٹ جیسی اجارہ داریوں کو دیکھیں، جس کی سالانہ آمدنی 600 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور اس کے دو لاکھ دس ہزار ملازمین ہیں۔

یہ ایک ایسی میگا کمپنی ہے جو ماضی کے منصوبہ بند معاشی نظاموں، حتیٰ کہ سوویت یونین سے بھی بڑی ہے، جیسا کہ کتاب ’دی پیپلز ریپبلک آف وال مارٹ‘(The People’s Republic of Walmart) کے مصنفین نے اجاگر کیا ہے۔ اس ملٹی نیشنل فرم کے اندر کھیتوں اور کارخانوں سے لے کر دکانوں اور سپر مارکیٹوں تک حیرت انگیز منصوبہ بندی ہے۔

اگر یہ طاقتور ٹیکنالوجی اور لاجسٹکس ارب پتی مالکان کے ہاتھ میں ہوں ان کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ یہ صرف وال مارٹ کے حصص داروں کی جیبیں بھرنے کا وسیلہ بنیں۔ لیکن اگر یہ محنت کش طبقے کے کنٹرول میں آ جائیں تو یہ تمام براعظموں میں زندگی کی بنیادی ضروریات کی ترسیل کرنے اور سب کو معقول خوراک فراہم کرنے کی بنیاد بن سکتی ہیں۔

لہٰذا اینگلز واضح کرتا ہے کہ، ”حل صرف جدید پیداواری قوتوں کی سماجی نوعیت کو عملی طور پر تسلیم کرنے، اور ذرائع پیداوار کی سماجی نوعیت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں موجود ہے۔“

وہ نتیجہ نکالتا ہے: ”اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سماج کھلے عام اور براہ راست ان پیداواری قوتوں کو اپنے قبضے میں لے لے، جو بطورِ کُل سماج کے کنٹرول کے سوا ہر قسم کے کنٹرول سے باہر نکل چکی ہیں۔

اس نظر سے دیکھیں تو سامراج کا دور ایک عبوری مرحلہ ہے کہ جو ایک نئے، اعلیٰ سماجی نظام یعنی سوشلزم اور کمیونزم کے مادی حالات کی تیاری کا کام کر رہا ہے۔

لینن لکھتا ہے: ”سرمایہ داری اپنے سامراجی عہد میں پیداوار کو انتہائی وسیع سماجی نوعیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یوں کہیے کہ یہ سرمایہ داروں کو ان کی مرضی اور شعور کے خلاف ایک نئے سماجی نظام کی طرف کھینچتی ہے، جو بالکل آزاد مقابلے سے مکمل سماجی نوعیت کی جانب ایک عبوری مرحلہ ہے۔“

لینن آخر میں کہتا ہے: ”یہی امر بذاتِ خود [سامراجیت] کا تاریخ میں مقام متعین کرتا ہے، کہ اجارہ داری جو آزاد مقابلے کی مٹی سے اُگتی ہے، وہ سرمایہ دارانہ نظام سے ایک اعلیٰ سماجی و اقتصادی نظام کی طرف تبدیلی ہے۔“

مگر یہ منتقلی خود بخود نہیں ہو گی۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے، جدید ٹیکنالوجی اور منصوبہ بندی کی حیرت انگیز صلاحیتیں ضائع ہوتی رہیں گی، بلکہ اس سے بھی بدتر انہیں جنگ، ماحولیاتی تباہی اور بدحالی کو جنم دینے والے قوت میں تبدیل کیا جاتا رہے گا۔

انسانیت کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی ہے۔

حقیقی زندگی کی اجارہ داری کا کھیل جیتنے کے لیے، محنت کش طبقے کو منظم اور متحرک ہونا ہو گا، تاکہ کمیونزم پر مبنی مستقبل کی جدوجہد کے لیے دولت والوں کے کولہوں پر لات ماری جائے، ارب پتیوں کی جائیداد ضبط کی جائے اور پوری بساط پر ہی قبضہ کیا جائے۔

Comments are closed.