غزہ میں جنگ بندی کی حقیقت کیا ہے؟

|ریوولوشنری کمیونسٹ انٹرنیشنل کا اعلامیہ|

غزہ اور اسرائیل میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں کیونکہ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی اور حماس کے مذاکرات کاروں کے درمیان مصر میں ایک امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔

اردو میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

خوشیاں منانا قابلِ فہم ہے خاص طور پر غزہ کے ان لوگوں کے لیے جو اِس وقت تک بمباری یا بھوک سے ایک یقینی موت کے مستقبل کا سامنا کر رہے تھے۔ تاہم ہمیں سچ کہنا چاہیے چاہے وہ سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔

اولاً جس بات پر اسرائیل اور حماس متفق ہوئے ہیں، جیسا کہ خود ٹرمپ نے تسلیم کیا ہے، وہ اس منصوبے کا مکمل نفاذ نہیں بلکہ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہے۔ دوسری بات اگر یہ واقعی ٹرمپ کے امن منصوبے کے مکمل نفاذ کا پہلی قدم ہے تو طویل مدت میں یہ کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرے گا۔

یہ ’پہلا مرحلہ‘ کن اہداف پر مشتمل ہے؟

1۔ 24 گھنٹوں کے اندر جنگ بندی کی جائے گی۔
2۔ اسرائیل مرحلہ وار آئی ڈی ایف کی واپسی کا آغاز کرے گا، جس کے بعد وہ غزہ پٹی کے 53 فیصد حصے پر قابض رہے گا۔
3۔ باقی زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور متعدد فلسطینی قیدیوں کو 72 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے گا۔
4۔ روزانہ 400 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایسا معاہدہ جس میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کا تبادلہ ہو 7 اکتوبر 2023ء کے بعد کسی بھی وقت کیا جا سکتا تھا۔ حماس پہلے ہی اس پر رضامند تھی۔ یہ معاہدہ اس لیے نہیں ہوا کیونکہ بائیڈن انتظامیہ یورپی سامراجی طاقتیں، اور اس منصوبے کے وقت تک ٹرمپ انتظامیہ، سب نے اسرائیلی جارحیت کی بھرپور حمایت کی۔

دوسری بات یہ کہ یہ نیتن یاہو کی ذات اور اس کی حکومت کے لیے ایک ذلت آمیز شکست ہے۔ نیتن یاہو اسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ اصل میں یہ کیا ہے؛ ٹرمپ کی جانب سے نیتن یاہو پر ایک زبردستی مسلط کردہ فیصلہ اور اس کی کابینہ کے مؤقف سے مکمل پسپائی، جس کا مقصد غزہ کو مکمل طور پر نسلی طور پر صاف کرنا اور مستقل قبضے میں لینا تھا، جس کی سیاسی بقا اسی جنگ پر منحصر تھی۔

یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ کس قدر شدید دباؤ میں ہے نہ صرف ٹرمپ کی جانب سے، بلکہ سب سے بڑھ کر اسرائیل کے اندر عوامی رائے کے زبردست دباؤ کی وجہ سے، جو اس معاہدے کی حمایت کرتی ہے۔

یہ پورا معاملہ ابھی بھی ناکام ہو سکتا ہے۔ یہ طے نہیں پایا کہ آئی ڈی ایف کب غزہ سے انخلا کرے گی۔ اور حماس کی جانب سے ہتھیار ڈالنے یا تنظیم کو مؤثر طور پر تحلیل کرنے کے بارے میں کوئی عہد نہیں کیا گیا جیسا کہ ٹرمپ کے منصوبے میں مطالبہ کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر نیتن یاہو شاید اس بات پر بھروسہ کر رہا ہو کہ حماس ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دے گی، تاکہ وہ اسے جنگ دوبارہ شروع کرنے کا بہانہ بنا سکے۔ ممکن ہے اسے وہی مل جائے جو وہ چاہتا ہے۔

ایک درندہ صفت منصوبہ

اگر یہ معاہدہ دو سال پہلے تنازع کے آغاز پر ہی کیا جا سکتا تھا تو پھر یہ معاہدہ ابھی ہی کیوں کیا گیاہے؟

غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے بے رحمانہ حملوں کے تسلسل نے اس کے سامراجی حمایتیوں کی پوزیشن کمزور کر دی تھی۔ اس جنگ نے عرب ممالک اور یورپ میں سماجی بے چینی کو بھڑکایا ہے، جو پچھلے ہفتے اٹلی میں نظر آنے والی عام ہڑتال پر منتج ہوئی۔ اس نے یورپی سامراجی طاقتوں کے لیے اسرائیل کی مکمل حمایت کرنا سیاسی طور پر انتہائی مشکل بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔

امریکی سامراج کے نقطہ نظر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ نے خطے میں اس کے اتحادیوں کو ٹوٹنے کے دہانے تک پہنچا دیا ہے، اور خود کو اپنے حریفوں جیسے چین اور روس کے فائدے میں مزید تنہائی کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

اس حوالے سے فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب اسرائیل نے دوحہ قطر میں عمارتوں پر بمباری کر کے حماس کے مذاکرات کاروں کے قتل کی کوشش کی۔ اس واقعے نے رجعت پسند خلیجی ریاستوں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا وہ امریکی فوجی حمایت پر بھروسہ کر سکتی ہیں یا نہیں۔

نیتن یاہو ایک ماہر چال باز ہے مگر اس نے اپنی حد سے تجاوز کر لیا ہے، اور ٹرمپ کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا ہے۔

تاہم ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ امن کی ضمانت ہونے سے کوسوں دور ہے یہ ایک بھیانک منصوبہ ہے جو مزید تنازع کی ضمانت دیتا ہے جبکہ فلسطینی عوام کی حالت بدستور مایوس کن رہے گی۔

اگر اسے کامیابی سے نافذ کر بھی دیا گیا تو یہ غزہ کو ٹرسٹیز کے بورڈ کی آمریت کے ماتحت لے آئے گا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور عراق کا قصاب ٹونی بلیئر، شامل ہوں گے۔ آئی ڈی ایف کے فوجیوں کی جگہ مستقبل میں کسی غیر متعین وقت پر عرب اور مسلم ممالک کی افواج پر مشتمل ایک قابض فورس لے گی۔

بحالی کے بارے میں بہت سے وعدے کیے گئے ہیں، لیکن اس کی ادائیگی کون کرے گا اس کی کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ درحقیقت، غزہ غیر ملکی قبضے کے تحت ایک مستقل پناہ گزین کیمپ بن کر رہ جائے گا۔ مغربی کنارے کا صہیونی انضمام بدستور جاری رہے گا۔ فلسطینی خود ارادیت ہمیشہ کے لیے خارج کر دی گئی ہے۔

غزہ کے ہزاروں باشندے بجا طور پر حتیٰ کہ ایک عارضی ریلیف اور امداد کی بحالی کا جشن منا رہے ہیں، جو یقینی موت کے مقابلے میں امید کی ایک معمولی کرن کی نمائندگی کرتی ہے۔

لیکن طویل مدت میں اس معاہدے سے کچھ بھی حل نہیں ہونے والا۔ اگرچہ ٹرمپ نے بڑے زور و شور سے اسے مضبوط، پائیدار اور ہمیشہ قائم رہنے والے امن کی شروعات قرار دیا ہے، مگر اس کا منصوبہ ناگزیر طور پر نئے تنازعات، نئی جنگوں، نئی نسل کشیوں اور فلسطینی عوام کے لیے نئے مصائب کی راہ ہموار کرے گا۔

غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے

غزہ کی موجودہ صورتِ حال ہمیں ٹیسی ٹس (Tacitus) کے ان الفاظ کی یاد دلاتی ہے کہ: ”وہ ایک ویرانہ بناتے ہیں اور اسے امن کا نام دیتے ہیں۔“

غزہ پٹی کی 78 فیصد عمارتیں جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ زیادہ تر سکول تباہ کر دیے گئے ہیں، ایک بھی یونیورسٹی باقی نہیں رہی۔ کوئی بھی اسپتال کام نہیں کر رہا۔ آبادی کی اکثریت آج وسطی غزہ اور جنوبی ساحل کے ساتھ خیموں میں رہ رہی ہے۔ 98.5 فیصد زرعی زمین تباہ ہو چکی ہے۔ تمام بنیادی ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے۔ نہ بہتا ہوا پانی ہے، نہ نکاسی آب کا نظام، کچھ بھی نہیں۔

غزہ کا ہر گوشہ غیر پھٹے ہوئے بارودی مواد سے بھرا ہوا ہے۔ یہ واقعی ایک ایسے ویرانے میں تبدیل ہو چکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ناقابلِ رہائش ہے۔ اگر سنجیدہ بحالی کی کوششیں شروع بھی کی جائیں، تو غزہ کی مرمت میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔ مگر ایسی کسی تعمیرِ نو کے منصوبے موجود نہیں ہیں۔ اس طرح غزہ کا مستقبل ایک بڑے مستقل پناہ گزین کیمپ کے طور پر نظر آتا ہے، جو مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر منحصر ہو گا۔

یہ علاقہ وسیع سماجی مسائل سے متاثر رہنے کے ساتھ شدید بے چینی کے جذبات سے ہر وقت اُبلتا رہے گا۔ لہٰذا اگر حماس ہتھیار ڈالنے اور عملی طور پر تحلیل ہونے پر رضا مند ہو بھی جائے تب بھی حماس کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کرنے والے مسلح مزاحمتی گروہوں میں شمولیت کے لیے لوگوں کی کمی نہ ہو گی۔

خود حماس تقریباً 30 سال پہلے اوسلو معاہدے کے بعد غزہ میں پیدا ہونے والے ظالمانہ اور ناقابلِ برداشت حالات سے ابھری تھی۔ اب حالات اس سے بھی زیادہ بدتر اور سنگین ہیں جو حماس جیسے نئے مزاحمتی گروہوں کے جنم لینے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوں گے۔

اسرائیل کے توسیع پسندی کے مقاصد میں ایک حرف بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ صہیونی یقیناً نئی جنگوں میں کود پڑیں گے۔

سن 1948ء سے صہیونیوں کا رویہ یہی رہا ہے کہ ”جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کو ہم برقرار رکھیں گے“۔ وسیع کریں گے، نئے علاقوں پر قابض ہوں گے، لا محدود حد تک دھکیلیں گے، پھر عارضی طور پر پیچھے ہٹیں گے، ایک معاہدہ کریں گے، ’منطق‘ کا استعمال کریں گے اور اس عقل مندی کے ساتھ مناسب وقت پر وہ اس عارضی معاہدے کو توڑ دیں گے۔

اوسلو معاہدہ بھی ایسا ہی ایک معاہدہ تھا۔ اس میں فلسطینی ریاست کے تصور کو اس بنیاد پر پیش کیا گیا کہ ایک فلسطینی اتھارٹی غزہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر حکومت کرے گی۔ پھر کیا ہوا؟ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کو منظم انداز میں کمزور کیا گیا جبکہ مغربی کنارے میں یہ معاہدہ صہیونی بستیوں کے مسلسل پھیلاؤ کے ذریعے پامال کیا گیا۔ آخرکار 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پورے معاہدے کو بالکل ختم کر دیا گیا۔

اب یہ ایک نیا معاہدہ ہے۔ اسرائیل ایک بفر زون برقرار رکھے گا، اور اسی دوران مغربی کنارے میں بستیوں کے پھیلاؤ کا عمل جاری رہے گا۔ صہیونی امید کریں گے کہ علاقے کے ناقابلِ رہائش حالات فلسطینیوں کو وہاں سے چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ اور اس پر قابض ہونے کے نئے مواقع ایک بار پھر پیدا ہوں گے۔

ادھر سامراجیت پورے خطے کو مسلسل عدم استحکام کا شکار کر رہی ہے جہاں نئے تنازعات کی تیاری جاری ہے۔

صہیونیت کا تختہ الٹ دو! سامراجیت کا تختہ الٹ دو!

غزہ کی جنگ کے اثرات طویل المدت ہوں گے۔

اگر یہ امن برقرار بھی رہا تو یہ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے کے امن سے کہیں زیادہ بھاری اور ظالمانہ ہو گا۔ سامراجی امن دراصل نئی سامراجی جنگوں کی تیاری کا وقفہ ہوتا ہے اور ان جنگوں کے خدوخال ہم ابھی سے دیکھ سکتے ہیں۔

لیکن اس رجعتی جنگ نے دیگر اور تبدیلیاں بھی پیدا کی ہیں۔

اس جنگ نے اسرائیلی معاشرے کے تانے بانے کو بھی چاک کر دیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے اسرائیلی حکمران طبقہ خود اپنے اندر ایک نیم خانہ جنگی کی کیفیت میں تھا۔ جنگ نے عارضی طور پر ان تضادات کو چھپا دیا تھا لیکن جیسے ہی یہ ختم ہو گی وہ تضادات اور بھی شدید شکل میں دوبارہ ظاہر ہوں گے۔

اس جنگ نے اسرائیلی شہریوں کی ایک وسیع تعداد کے اندر صہیونی حکمران طبقے کی اُنہیں ’تحفظ‘ فراہم کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کو گہرائی سے ہلا دیا ہے۔

اگر ٹرمپ کا ’امن منصوبہ‘ آگے بڑھتا ہے تو مصری، ترک، اور سعودی فوجیوں کا کام ہو گا کہ وہ اسرائیلیوں کی جانب سے غزہ پٹی کی نگرانی کریں اور فلسطینی مزاحمت کو دبائیں۔ یہ صورتِ حال ان ممالک کے اندر فلسطینی مسئلے کو مزید دھماکہ خیز بنا دے گی۔

خطے سے کہیں آگے اس نسل کشی پر مبنی جنگ نے ایک تحریک انگیز کردار ادا کیا ہے، اس نے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے غصے کو نکھار کر اسے یکجہتی کی تحریک میں ایک مرکزی اظہار فراہم کیا ہے۔ یہ غصہ اب لاکھوں ذہنوں میں صہیونیت اور سامراجیت کو اندرونِ ملک دوبارہ عسکریت اور کفایت شعاری (austerity) کی پالیسیوں کے ساتھ جوڑ چکا ہے۔

فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اٹلی میں ہونے والی سیاسی عام ہڑتال اور خاص طور پر بندرگاہ کے مزدوروں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارت روکنے کی براہِ راست کاروائی اس تحریک کا سب سے بلند مرحلہ تھا۔ یہ عمل واپس نہیں پلٹ سکتا اس نے محنت کش طبقے کی بیداری کی نمائندگی کی ہے اور انہوں نے اپنی طاقت کا ذائقہ چکھا ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد میں ایک معیاری پیش رفت تھی جس میں انتہائی ترقی یافتہ طریقہ کار ابھر کر سامنے آئے۔

اگرچہ محنت کش طبقے کا میدان میں آنا واحد عمل نہیں تھا مگر یہ یقینی طور پر ایک نمایاں اور محسوس ہونے والا عنصر تھا جس نے مغربی حکمران طبقے کی بے چینیوں کو بھڑکایا اور آخرکار اِسی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسرائیل پر سنجیدہ دباؤ ڈالیں۔

ان ’امن‘ مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلے ہمیں یہ اسباق ساتھ رکھنا ہوں گے کہ محنت کش طبقے میں جنگی مشین کو گرانے کی طاقت ہے۔ صہیونیت کے خلاف لڑائی اور سامراجی جنگ کا مقابلہ کرنا اپنے ہی وطن کے حکمران طبقے کو گرانا ہے۔ بالآخر مشرقِ وسطیٰ کے یہ مظالم سرمایہ داری اور سامراجیت کی پیداوار ہیں اور فلسطین کو آزاد کرانے کی جدوجہد دراصل سرمایہ داری کا تختہ الٹنے، مشرقِ وسطیٰ میں ایک سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرنے اور دنیا بھر میں سامراجیت کے خاتمے کی جدوجہد ہے۔

Comments are closed.