امریکہ کی بحران زدہ معیشت اور اسٹاک مارکیٹ بلبلے کی حقیقت

|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: ولید خان|

فنانس منڈیاں اس وقت تاریخی منافع لوٹ رہی ہیں۔ اپریل میں ٹرمپ کے ”متوازی محصولات“ اعلان کے بعد اسٹاک مارکیٹ مسلسل نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ اس دوران محنت کشوں کا کچومر نکالا جا رہا ہے، ہر جگہ حکومتی مالیات مسائل کا شکا رہیں، مرکزی بینکوں سے افراط زر کنٹرول نہیں ہو رہا اور بیروزگاری کا اژدہا اپنا سر اٹھا رہا ہے۔ صورتحال عجیب و غریب تضادات سے بھرپور ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک  کریں

اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی بنیاد AI (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) اور صرف AI ہے۔ اس تیزی میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ اس سال کاروبار میں 80 فیصد اضافہ AI سے متعلقہ اسٹاکس کی وجہ سے ہے۔ سٹہ باز بڑا جوا لگا رہے ہیں کہ AI کے اس پاگل پن سے بے تحاشہ منافع ہو گا۔

گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) نے اس سٹہ باز بلبلے کا اعلانیہ دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ماضی کے بلبلوں کی طرح نہیں ہے کیونکہ منافع بے تحاشہ ہے اور جن کمپنیوں کے اسٹاکس ہیں ان کے کھاتے صحت مند ہیں (یعنی وہ پیسوں کے پہاڑ پر بیٹھی ہوئی ہیں)۔

لیکن کوئی شک نہیں کہ کمپنیوں کی مقررہ مالیت کسی اور ہی سیارے پر موجود ہیں۔ ایک شیئر خریدنے کا مطلب ہے کہ آپ نے کمپنی کو مستقبل میں ہونے والے ممکنہ منافع میں ایک حصہ خرید لیا ہے۔ اس لیے کمپنی کی مقررہ مالیت سے مستقبل میں ممکنہ منافعوں کے امکان کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس کام کے لیے بورژوازی ایک قدر کا اوزار استعمال کرتی ہے جسے P/E کہا جاتا ہے جو مختلف کمپنیوں کے درمیان غیر جانبدار موازنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ منافعوں پر مالیت کا تناسب ہے یا کمپنی کی اسٹاک مارکیٹ مالیت کا منافعوں سے تقسیم کا نتیجہ ہے۔

ایک معیشت دان شلر (Shiller) نے S&P500 اسٹاک انڈیکس [امریکی اسٹاک مارکیٹ میں 500 سب سے بڑی کمپنیوں کا اسٹاک انڈیکس جو دنیا کی 500 سب سے بڑی کمپنیاں بھی ہیں۔ مترجم] کے لیے ایک P/E انڈیکس بنایا تھا جسے شلر P/E کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر اس کی قدر 10-20 کے درمیان رہتی ہے۔ انڈیکس کی بلند ترین سطح ماضی میں 1929ء کے وال اسٹریٹ انہدام سے پہلے 31 (یعنی قیمت منافعوں کے مقابلے میں 31 گنا زیادہ ہے) اور 1999ء میں نام نہاد ڈاٹ کام بلبلے کے وقت 44 رہی ہے۔

اس وقت یہ انڈیکس 40 پر کھڑا ہے۔ یعنی امریکی اسٹاک مارکیٹ میں درج 500 کمپنیوں کے شیئرز اس وقت عمومی طور پر سالانہ منافعوں سے 40 گنا زیادہ مالیت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان 500 کمپنیوں کا ممکنہ منافع 1949ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سرمایہ داری کی خوشحالی کے آغاز پر P/E تناسب 10 تھا۔

کچھ کمپنیوں کے لیے تو یہ تناسب انتہائی خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ ٹیسلا (Tesla) کمپنی کے شیئرز میں اس وقت اندھادھند سٹہ بازی چل رہی ہے اور اس کا تناسب 240 ہے یعنی کمپنی کا منافع جب 6 گنا ہو گا تو ہی دیگر کمپنیوں کے متوازی اس کی مالیت کی شرح بن سکتی ہے۔ این ویڈیا (Nvidia) کمپنی کے شیئرز اس وقت اپنے منافع سے 60 گنا زیادہ پر خرید و فروخت ہو رہے ہیں۔ حکومتی ایجنسیوں کو AI بیچنے والی کمپنی پالانٹیر (Palantir) کے شیئرز اس وقت اپنے منافعوں سے 700 گنا زیادہ پر خرید و فروخت ہو رہے ہیں۔ مائیکرو چپ بنانے والی کمپنی ARM کے شیئرز 250 گنا زیادہ پر بک رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کمپنیوں میں بڑھوتری کا امکان موجود ہے۔ لیکن یہ خیال کہ یہ اپنے شیئرز کی موجودہ قیمت سے متوازی منافع خوری کر سکتی ہیں، ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اس لیے بینک آف انگلینڈ (برطانیہ کا مرکزی بینک) اور فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک) کا چیئرمین جیروم پاول (Jerome Powell) بار بار احتیاط کی نصیحت کر رہے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کا کہنا ہے کہ مقررہ مالیت ”بہت زیادہ معلوم ہو رہی ہے، جس میں خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلقہ کمپنیاں شامل ہیں“ اور نشاندہی کی ہے کہ اس وقت ڈاٹ کام بلبلے کے انہدام والی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ جے پی مورگن کے چیف ایگزیکٹیو جیمی ڈائمن (Jamie Dimon) نے بھی انہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”دیگر سے زیادہ پریشان ہے“ کہ ایک انہدام کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

سرمایہ کار بینک مورگن سٹانلی (Morgan Stanley) نے بھی موجودہ تجارتی معاہدوں کی صحت پر سوال اٹھا رکھے ہیں۔ اس نے خاص طور پر این ویڈیا کے حالیہ معاہدے کی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق کمپنی اپنی ہی مائیکروچپس خرید رہی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ایک نئی کمپنی میں این ویڈیا سرمایہ کاری کرے گی جو این ویڈیا کی مائیکروچپس خریدکر X کمپنی کی نئی AI سٹارٹ اپ کمپنی کو کرائے پر دے گی۔ اگر اس طرح کے معاہدے کر کے مانگ کو بڑھایا جا رہا ہے تو یقینا یہ ناپائیدار حکمت عملی ہے۔

لیکن گولڈمین ساکس کے معیشت دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ایک بلبلہ ہے۔ دیگر تجزیہ کار بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کا استدلال ایک طبقاتی نکتہ نظر سے کافی دلچسپ ہے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بلند مقررہ مالیت اس حوالے سے درست ہیں کہ ماضی میں بے تحاشہ منافع خوری ہوئی ہے اور ابھی بھی چل رہی ہے۔ پھر وہ حوالہ دیتے ہیں کہ بڑی کمپنیاں پیسوں کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ گوگل (الفابیٹ) کے پاس 95 ارب ڈالر ہے۔ وارن بفیٹ (Warren Buffett) کی سربراہی میں سرمایہ کار کمپنی برکشائر ہاتھوے (Berkshire Hathaway) کے پاس 340 ارب ڈالر پڑا ہے۔ ایپل کے پاس 160 ارب ڈالر، ایمازون کے پاس 93 ارب ڈالر وغیر وغیرہ۔ کل ملا کر چوٹی کی 13 کمپنیاں 1 ٹریلین ڈالر کیش پر براجمان ہیں۔

پچھلے سال گوگل نے 100 ارب ڈالر منافع خوری کی تھی جو 30 فیصد مارجن تھا یعنی ہر 10 ڈالر کمائی میں 3 ڈالر منافع تھا۔ این ویڈیا کی AI ماڈل چلانے والی مائیکروچپس پر تقریباً مکمل اجارہ داری ہے اور اس کا منافع مارجن 75 فیصد یا 80 ارب ڈالر تھا۔ اسی لیے وہ مصنوعی طور پر مسلسل اپنی مائیکروچپس کی مانگ بڑھا رہی ہے!

ٹیکنالوجی کمپنیاں ہی پیسوں میں نہیں تیر رہی ہیں۔ جنرل الیکٹرک 19 فیصد کا منافع مارجن کھا رہی ہے۔ کار ساز کمپنیاں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے برابر منافع خوری تو نہیں کر رہیں لیکن جنرل موٹرز نے پھر بھی 15 ارب ڈالر 8 فیصد منافع مارجن کے ساتھ کمائے ہیں۔

ایک حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ گولڈمین ساکس کا نکتہ نظر کیا ہے۔ اگر منافع خوری اتنی شاندار ہے تو اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کیوں نہ ہو؟ لیکن یہاں کلیدی معاملہ یہ ہے کہ آج سب اچھا ہے کے ساتھ مستقبل میں ممکنہ منافعوں کے امکانات کی بنیاد پر ہی طویل معیاد میں مقررہ مالیت کا تعین ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی، پیداوار میں وسعت ہو گی اور اس کا نتیجہ منافع خوری میں کئی گنا اضافہ ہو گا تو ہی اسٹاک مارکیٹ کی موجودہ مقررہ مالیت کا جواز درست ہو سکتا ہے۔ لیکن تمام اشاریے بتا رہے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

سرمایہ کاری کہاں ہے؟

پچھلی چند دہائیوں سے ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم بڑی اجارہ داریوں پر پیسے نچھاور کریں گے تو معاشی بڑھوتری حاصل ہو گی۔ معیشت دان اور سیاست دان درست کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری معیشت کو بڑھاتی ہے۔ ان کے مطابق اس سرمایہ کاری کو حاصل کرنے کا واحد طریقہ کار اجارہ داریوں کو زیادہ منافع خور بنانا ہے۔

انہوں نے اجرتوں میں کٹوتیاں کیں، محنت کشوں کو زیادہ دیر اور زیادہ سخت مشقت پر مجبور کیا، قومی کمپنیوں کی نجکاری کی، قومی سروسز کو ٹھیکوں پر دے دیا، دولت اور کارپوریٹ منافع خوری پر ٹیکسوں کو کم کیا، غرباء پر ٹیکس بڑھا دیے، بیروزگاری مراعات کاٹ کر محنت کشوں کو کام کے لیے اور زیادہ پاگل بنا دیا۔ لیکن دہائیوں اجارہ داریوں کو زیادہ منافع خور بنانے کے بعد ہمارا حق بنتا ہے کہ ایک سوال کریں؛ سرمایہ کاری کہاں ہے؟

سرمایہ کاری GDP (کل مجموعی پیداوار) کے 14 فیصد پر منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر جنس کی قدر میں (اس کے تعین کے لیے قیمت سب سے بہترین اندازہ ہے) مستقل سرمایہ (مشینری، بلڈنگ وغیرہ) کا حصہ 15 فیصد پر منجمد ہے۔ مارکس نے دیگر کے ساتھ اس پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے پیداوار میں مشینری کی نشوونما کو ناپا تھا۔ اس کا تعین ہر بیچی گئی جنس کی قیمت سے اس جنس کو پیدا کرنے کے لیے درکار سرمایہ کو تقسیم کر کے کیا جا سکتا ہے۔ 2007-08ء کے بحران تک ایک تاریخی دور میں اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔

اس کے ساتھ مستقل سرمایہ (مشینری وغیرہ) اور اجرتوں کے تناسب میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ ان تمام اعداد و شمار کو اکٹھا لیتے ہوئے نظر آ رہا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اب پیداوار میں استعمال ہونے والی مشینری میں مزید اضافہ نہیں کر رہا۔ اس نے پیداواری قوتوں کی تعمیر و ترقی کا کام ترک کر دیا ہے۔

جتنی اضافی منافع خوری کی جا رہی ہے وہ سرمایہ کاری کے برعکس پیسوں کا انبار ہے، شیئرز کے بدلے منافع کے طور پر سرمایہ کاروں کو دیا جا رہا ہے یا پھر اس سے اپنے ہی کمپنی شیئرز واپس خرید کر ان کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔

امریکہ میں محنت کی پیداواری قوت 2013ء سے منجمد ہے۔ روبوٹس اور AI کے تمام فضائل و برکات پر شور شرابے کے باوجود ان کا ابھی تک پیداوار پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ وہی پرانی کہانی ہے۔۔ مشینری میں سرمایہ کاری ندارد، اس لیے پیداوار میں اضافہ ندارد۔

یہ حیران کن ہے کہ امریکہ میں 2007ء سے اب تک مینوفیکچرنگ پیداوار میں 7 فیصد گراوٹ واقع ہو چکی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ معیشت میں سرمایہ کاری اور منافع خوری کا تناسب الٹ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ سرمایہ داری کے معذرت خواہوں کے مطابق، دیوہیکل منافع خوری کا اظہار بے تحاشہ سرمایہ کاری میں ہونا چاہیے۔ اگر بہت زیادہ منافع خوری ہو سکتی ہے تو سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو رہی؟ پیداوار کیوں نہیں ہو رہی؟ ہمارا سماج خوشحال کیوں نہیں بنایا جا رہا؟

اسی قسم کا استدلال کچھ ”مارکس وادی“ پیش کرتے ہیں کہ منافع خوری کی شرح میں گراوٹ بحرانوں کو جنم دیتی ہے۔ ان کے مطابق اگر سرمایہ کاری نہیں ہو رہی اور نظام بحران کا شکار ہے تو اس کی وجہ منافع خوری کی شرح میں گراوٹ ہے۔ لیکن اگر کچھ اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پچھلے چند سالوں میں دوسری عالمی جنگ کے بعد منافع خوری بلند ترین شرح پر ہو رہی ہے۔ اس بنیاد پر یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہم ایک تاریخی خوشحال دور کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

پھر، سرمایہ دار سرمایہ کاری کیوں نہیں کر رہے؟ اس کی ایک وجہ تاریخی ہے کہ امریکی کاروبار بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ بڑی امریکی اجارہ داریاں باقی دنیا میں زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی شرح تلاش کر رہے ہیں۔ یہی معاملہ ٹرمپ کا ہدف ہے۔ لیکن پھر بھی پچھلے عرصے میں یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ امریکہ سے FDI (براہ راست بیرون ملک سرمایہ کاری) 2007ء میں بلند ترین شرح، GDP کا 3.6 فیصد، تک پہنچ چکی تھی اور اس وقت سے کم ہو رہی ہے۔ پچھلے سال یہ صرف 1.1 فیصد تھی۔

اگر کوئی بھی شخص معیشت کو محض فارمولوں کے تحت دیکھنے کی کوشش کرے گا تو واضح حقائق خطا ہو جائیں گے۔۔ اگر آپ کی فیکٹری کل صلاحیت پر پیداوار نہیں کر رہی ہے تو آپ سرمایہ کاری کیوں کریں گے؟ 2007ء کے معاشی بحران کے بعد یہی اصل مسئلہ ہے۔

اس وقت صنعتوں میں کل صلاحیت کا 77 فیصد استعمال ہو رہا ہے جو 1960ء کی دہائی کے اختتام پر 87 فیصد تھا۔ چیف ایگزیکٹیوز اس وقت اپنے آپ سے ایک سوال کر رہے ہوں گے کہ ایک نئی فیکٹری بنا کر مصنوعات کی بھرمار کیوں کرنی ہے جب موجودہ فیکٹریاں تمام مانگ پورے کرنے کے لیے کافی ہیں؟

اس لیے یہاں مسئلہ بیچی جانے والی مصنوعات کی منافع خوری نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ منڈی ہے جس میں کمپنیاں اپنا مال بیچ رہی ہیں۔

جب مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”کیپیٹل“ کی تیسری جلد میں منافع کی شرح پر بحث کی تھی تو اس نے منافعوں کی شرح میں گراوٹ کے رجحان کو بیان کر کے بحث ختم نہیں کی تھی۔ اس نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اس کے خلاف بھی کئی عوامل کارفرماء ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو خاص طور پر دلچسپ ہیں۔ 1) سرمایہ اور خام مال کا عالمی تجارت کے ذریعے سستا ہونا، 2) استحصال میں اضافہ ہونا۔ یہ دونوں رجحانات اپنا اظہار 1970ء کی دہائی سے کر رہے ہیں (جب منافع خوری کی شرح میں واقعی کمی واقع ہوئی تھی)۔

گلوبلائزیشن نے سرمایہ کے سستا ہونے، منافع خوری کی شرح میں اضافے، خام مال کے سستا ہونے اور محنت کشوں کے لیے ہر قسم کی مصنوعات کی خریداری کو سستا بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یکدم آپ دو سے تین ٹی وی یا موبائل فون یا گاڑیاں ان اجرتوں سے خریدنے کے قابل ہو گئے تھے جن سے پچھلے دور میں ایک ہی چیز خریدی جا سکتی تھی۔

یہ آزاد تجارت کے لیے صنعتی سرمایہ داروں کی حمایت کی ایک بنیادی وجہ رہی ہے۔۔ اس کے ذریعے وہ اجرتیں کم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں محنت کشوں کا معیار زندگی برباد کیے بغیر ان کے استحصال میں اضافہ کرنا ممکن تھا۔ محنت کشوں کی پیدا کردہ قدر زائد (غیر ادا شدہ اجرتوں) کو ان کی اجرتوں سے تقسیم کر کے استحصال کی شرح نکالی جاتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، استحصال کی شرح میں اضافہ GDP میں اجرتوں اور منافعوں کے تناسب سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر محنت کش اس حقیقت سے واقف ہے۔۔ کم سے کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ گھنٹے کام۔ اعداد و شمار بھی اسی کا اظہار ہیں۔۔ منافع اور شرح منافع محنت کش طبقے کی قیمت پر حاصل کیا جا رہا ہے۔

اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اگر محنت کش زیادہ استحصال زدہ ہیں اور سرمایہ داروں کا منافع سرمایے کا بڑھتا حصہ ہڑپ کر رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ منافع نئی فیکٹریوں اور مشینوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں ہو رہا، تو پھر پیدا کردہ مصنوعات کس نے خریدنی ہیں؟ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو دہائیوں سے سرمایہ دارانہ معیشت کو لاحق ہے۔ اس کو ”مانگ میں کمی“ یا ”قوت خرید میں کمی“ کا نام دے دیا جاتا ہے۔

جب بورژوا معیشت دان ”صارفین کے اعتماد“ پر اپنے بال نوچ رہے ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاشی بڑھوتری کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر صارفین صَرف نہیں کر رہے تو پیداکار نہیں بیچ رہے اور اگر پیداکار نہیں بیچ رہے تو وہ سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔

قرضہ

لیکن اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کچھ راستے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک صارفین کے لیے قرضہ ہے۔ اس لیے یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ استحصال کی شرح میں اضافہ یا منافعوں کے تناسب میں اجرتوں کی گراوٹ کے ساتھ قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی اگر صارفین کوئی جنس یک مشت خرید نہیں سکتے تو ان کو قرضہ دیا جائے تاکہ وہ اسے خرید لیں۔

روایتی طور پر قرضوں کے ذریعے گھر خریدے جاتے تھے اگرچہ ماضی میں اس کام کے لیے ابتدائی جمع کرانے والی رقم کافی زیادہ ہوتی تھی۔ اب ایک گاڑی، چاہے وہ پرانی ہو، یک مشت خریدنا ناممکن ہے۔ گاڑیوں کے علاوہ تمام اشیائے صرف کی یہی صورتحال ہے۔ ایک نیا کچن، فریج یا صوفہ۔۔ سب قرضوں پر دستیاب ہے۔ موبائل فون ادھار پر ہیں۔ حال ہی میں کلارنا (Klarna) اور اس جیسی کمپنیوں نے طریقہ نکال لیا ہے کہ چھوٹی آن لائن خریداری سے کیسے پیسے بنانے ہیں۔ اب آپ ایک ڈرل مشین یا کپڑا بھی ادھار پر خرید سکتے ہیں اور کمپنی اگلے تین سے بارہ مہینوں میں یہ پیسہ آپ کے بینک بیلنس سے کاٹتی رہے گی۔

دہائیوں سے حکومتیں شعوری طور پر زیادہ سے زیادہ ادھار یقینی بناتی رہی ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ اس کام کے لیے ادھار کے خلاف ہر قانون کو ختم اور شرح سود کو کم سے کم کر کے مسلسل وسعت دی گئی ہے۔

لیکن پیسہ ادھار لینے اور اپنا پیسہ ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اجرتیں آپ کی اپنی ہیں لیکن قرضہ آپ نے واپس کرنا ہے۔ ایک قرضہ آپ کی مستقبل میں کمائی پر ایک دعویٰ ہے۔ اس لیے آپ جتنا قرضہ لیں گے اتنا ہی ہر مہینہ آپ کے پاس کم پیسہ بچے گا۔ سادہ الفاظ میں جتنی آپ کی کمائی ہے اس کے مقابلے میں قرضہ لینے کی ایک حد موجود ہے۔

2008ء کے بعد خاص طور پر امریکہ میں قرضہ جات کی اس وسعت کی آخری حد پار ہو چکی تھی۔ اس وقت سے گھریلو قرضہ GDP کے 98 فیصد سے 68 فیصد تناسب تک گر چکا ہے۔ امریکی گھرانوں نے نیا قرضہ نہیں لیا اور اپنے اخراجات کم کر دیے۔ اس صورتحال سے معیشت کو سکڑنا چاہیے تھا لیکن ریاست نے مداخلت کر کے اس عمل کو روک دیا۔

ایک طرف سینٹرل بینک (فیڈرل ریزرو) تاریخی سطح پر پیسہ چھاپ چھاپ کر قرضہ اٹھاتا رہا۔۔ نام نہاد ”مقداری آسانی“ (Quantitative easing) اور فیڈرل فنڈ ریٹ (جس ریٹ پر بینک ایک دوسرے کو قرضہ جاری کرتے ہیں) پچھلے سترہ میں سے نو سال صفر پر رہا ہے۔

دوسری طرف وفاقی حکومت نے دیوہیکل مداخلت کی ہے۔ مانگ کو برقرار رکھنے کے لیے کسی کو قرضہ لینا تھا اور اگر گھریلو صارفین کی سکت یا دلچسپی نہیں تھی تو ریاست کو یہ کام کرنا تھا۔ اس نے یہ کام براہ راست وفاقی اخراجات یا ٹیکس کٹوتیوں اور مراعات کے ذریعے محنت کشوں کی جیبوں میں زیادہ پیسہ ڈال کر کیا۔ امریکی وفاقی حکومت کا قرضہ 65 فیصد سے 105 فیصد تک بڑھ گیا اور ابھی بھی اس میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو امن کے دنوں میں لاثانی ہے۔ امریکی ریاست اس وقت ”آخری قابل اعتماد صارف“ بن چکی ہے۔ یہ معاملہ امریکی ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اگر ایک طرف GDP کے حصے کے طور پر قرضہ جات میں ٹھہراؤ اور دوسری طرف صنعتی پیداوار میں ٹھہراؤ کا گراف دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرضہ جات میں مزید اضافے کی نااہلی کے مساوی صنعتی پیداوار میں بھی وسعت نہیں ہوئی ہے۔ یعنی جس منڈی میں مصنوعات بیچنی ہیں اس میں اب وسعت نہیں ہو رہی ہے۔ پس صنعتوں میں زائد پیداواری صلاحیت ایک وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے اور کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔

تحفظاتی پالیسیوں کی ایک وجہ منڈی کی وسعت میں جمود بھی ہے۔ منڈیوں کے لیے مسابقت میں تیزی کے ساتھ سرمایہ دار اپنی منڈیوں کو حریفوں سے بچانے کی کوششیں کرر ہے ہیں۔ مثلاً ہواوے کمپنی کے ٹیلی کام سامان پر پابندی یا امریکہ اور یورپ کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں پر بھاری محصولات۔ اس کی ایک اور مثال اسٹیل محصولات ہیں جہاں چینی اسٹیل انڈسٹری میں زائد صلاحیت نے عالمی منڈی میں اسٹیل کی قیمت ہی تباہ و برباد کر دی ہے جس کے بعد امریکہ اور یورپ نے چینی پیداکاروں سے اپنی اسٹیل پیداوار کو بچانے کے لیے بھاری محصولات لاگو کر دی ہیں۔

چینی حکومت نے جب این ویڈیا مائیکروچپس پر جزوی طور پر چینی منڈی میں پابندی لگا دی تو اس کے بعد اسے نئے خریدار چاہیے تھے۔ اس لیے پچھلے چند مہینوں میں تیزی کے ساتھ نئے معاہدے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا ہے کہ این ویڈیا اپنی ہی چپس خرید رہا ہے۔ اگرچہ یہ قدم کوئی نیا نہیں ہے لیکن بہرحال ایک اعتراف ضرور ہے کہ اس وقت اس کی مصنوعات کے لیے منڈی موجود نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنا دیوہیکل منافع اپنی مصنوعات کی مانگ میں اضافے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

کیا اسٹاک مارکیٹ ایسے ہی بڑھتی رہے گی؟

تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ محنت کش طبقے پر پچھلی کئی دہائیوں کے حملوں سے شرح منافع تو بڑھی ہے لیکن اس نے محنت کش طبقے اور پھر ریاستوں کے لیے دیوہیکل قرضوں کو جنم دیا ہے۔ معیشت کو اس طریقہ کار سے بڑھوتری دینے کا عمل اب اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہے اور اس لیے ہمیں جمود اور بڑھتے عالمی تناؤ کا سامنا ہے۔

اگر ان کمپنیوں کی منافع خوری دیوہیکل ہے تو پھر اسٹاک مارکیٹ تو بڑھتی رہے گی اور نئے ریکارڈ بناتی رہے گی؟ اس سوال کا واضح جواب ہے ”نہیں“۔ قیمتوں اور منافعوں کا تناسب سمجھنے کے لیے یہی کلیدی معاملہ ہے۔ بے تحاشہ تناسب کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں منافع خوری بے پناہ ہو گی۔ یعنی ایک کمپنی صرف منافع بنائے گی نہیں بلکہ اس کا منافع بڑھے گا اور ہو سکتا ہے کہ کئی گنا بڑھ جائے۔

اس کام کے لیے زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی فروخت لازم ہے اور اس کام کے لیے ایک مسلسل وسیع ہوتی منڈی درکار ہے۔ لیکن منڈی وسیع نہیں ہو رہی اور اگر کچھ سیکٹروں میں وسعت ہو بھی رہی ہے تو یہ منڈی کا ایک عمومی رجحان ہر گز نہیں ہے۔ اس لیے یہ کمپنیاں وابستہ امیدیں کبھی پوری نہیں کر سکتیں۔

اس لیے ان کمپنیوں کی اسٹاک مارکیٹ میں مقررہ مالیت ایک افسانہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آنے والے عرصے میں ٹیسلا کا منافع دس یا بیس گنا بڑھ جائے۔ پچھلے سال امریکہ میں 1 کروڑ 60 لاکھ گاڑیاں فروخت ہوئیں جن میں سے ٹیسلا نے 7 لاکھ گاڑیاں بیچیں۔ اگر ٹیسلا نے ایک ایسے وقت میں اپنی فروخت دس گنا بڑھانی ہے جب منڈی میں وسعت نہیں ہے تو اس کام کے لیے اسے الیکٹرک گاڑیوں سمیت تمام ہلکی گاڑیوں کی نصف سے زیادہ منڈی تسخیر کرنی پڑے گی۔ ایسانہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس کی مقررہ مالیت کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پھر اسٹاک مارکیٹ میں اتنی اٹھان کیوں ہے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ پیداواری سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے کوئی آمدن نہیں ہو رہی ہے۔ کمپنیاں پیسہ ذخیرہ کیے بیٹھی ہیں اور سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہیں۔ وہ شیئرز مالکان کو منافع اور شیئرز کی واپس خریداری کے ذریعے نواز رہی ہیں یا پھر ادغام اور کمپنیوں کی خریداری میں لگی ہوئی ہیں۔ ان سب اقدامات سے شیئرز کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا لیکن طویل مدت میں کوئی نئی تخلیق نہیں ہو گی۔

مرکزی بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ سستا قرضہ بھی بڑی تعداد میں اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ قرضوں کو سستا کر کے بینک اور دیگر اجارہ داریاں سستا قرضہ حاصل کر کے پیداواری عمل میں سرمایہ کاری کی بجائے سٹہ بازی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

اتفاق سے یہ سارا عمل واضح کرتا ہے کہ حکمران طبقہ مکمل طور پر ایک خون چوس جونک بن چکا ہے۔ اگر بورژوازی کے پاس اپنے وجود کے لیے کوئی تاریخی دلیل تھی تو وہ یہ تھی کہ منافع پیداواری عمل میں سرمایہ ہوتا ہے اور پھر اس بنیاد پر پیداواری قوتوں کی نشوونما کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب یہ عمل واضح طور پر رک چکا ہے۔

اس لیے اگر اسٹاک مارکیٹ میں مقررہ مالیت مستقبل میں ایک ممکنہ ابھار کا اظہار کر رہی ہیں تو اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پچھلے کئی مہینوں سے نئے گھروں کی تعمیراتی منڈی سکڑ رہی ہے۔ اس کا تعمیرات کے شعبے میں نوکریوں پر بہت گہرا اثر پڑ رہا ہے۔

اس وقت منڈیوں میں نوکریوں کا برا حال ہے جس میں خاص طور پر سیاہ فام امریکیوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے اور یہ معاملہ معیشت دانوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ سرمایہ داری سیاہ فام اور خواتین محنت کشوں کو لیبر کی ایک ریزرو فوج کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس لیے جب بحران شروع ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کی قربانی دی جاتی ہے۔

معیشت دان صارفین کے جذبات پر جنونی نظریں رکھتے ہیں اور یہ جذبات 2024ء سے انحطاط پذیر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صارفین، جن میں سے زیادہ تر محنت کش ہیں، معاشی امکانات کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔ صرف وہی کچھ پرامید ہیں جن کے پاس شیئرز میں بڑی سرمایہ کاری ہے۔ باقی افراد کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2009ء میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری کی انتہاء کے مقابلے میں آج ان کی زندگیاں زیادہ اجیرن ہیں۔

اس صورتحال میں فیڈرل ریزرو نے شرح سود کو کم کرنا شروع کر دیا ہے لیکن بینک گورنروں کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ افراط زر ابھی بھی عمومی طور پر زیادہ ہے اور اگرچہ اس وقت امریکی کمپنیاں محصولات میں اضافے کو برداشت کر رہی ہیں، نئے سال میں صارفین پر یہ بوجھ قیمتیں بڑھا کر منتقل کیا جائے گا۔

محصولات طویل مدت سرمایہ کاری پر بھی اثر انداز ہوں گے کیونکہ سرمایہ (مستقل سرمایہ جیسے مشینری وغیرہ) زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔ وہ بیرون ملک سے مسابقت کو محدود کریں گے جس کے نتیجے میں امریکی مینوفیکچرر کی اپنی فیکٹریوں کو جدید معیار سے ہم آہنگ کرنے میں دلچسپی ختم ہو جائے گی کیونکہ ان کی عالمی منڈی سے بچت ہو جائے گی۔

فوری طورپر امریکی حکومت نے دیگر کئی ممالک کی طرح اخراجات اور آمدن میں توازن پیدا کرنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں 27 فیصد بجٹ خسارے کے ساتھ یقینا صورتحال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ قرضہ پہلے ہی GDP کا 119 فیصد ہو چکا ہے۔ قرض پر سود کی ادائیگی کا بل ہی 900 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ جب جوابدہی کا دن چڑھے گا اور حکومت کو کھاتے متوازن کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ یا اخراجات میں کمی کا فیصلہ کرنا پڑے گا تو اس وقت معیشت کا جنازہ نکل سکتا ہے جو مکمل طور پر ریاستی سرمایہ کاری پر منحصر ہو چکی ہے۔

یہ ساری صورتحال سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کو واضح کرتی ہے، ایک ایسا نظام جو تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے اور اب انسانیت کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے محنت کش مسلسل اپنے اوپر حملے اس امید پر برداشت کر رہے ہیں کہ شاید کچھ بہتری ہو جائے۔ ٹریڈ یونین قائدین اور سیاسی پارٹیاں یہ جھوٹ مسلسل بیچ رہی ہیں۔ لیکن اب واضح ہو رہا ہے کہ جو دوائی دی جا رہی ہے اس سے بیماری کا علاج ناممکن ہے۔

پچھلے اٹھارہ سالوں کی معاشی پالیسیوں سے مستفید ہونے والے مٹھی بھر خون آشام ارب پتی بھیڑیے ہیں جن کی دولت اسٹاک مارکیٹ میں دیوہیکل سٹہ بازی کے نتیجے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی قیمت باقی ساری دنیا ادا کر رہی ہے۔

اب ہم ایک نئے معاشی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں اور اس کا سب سے واضح اظہار اسٹاک مارکیٹ ہے۔ اس وقت سنجیدہ بورژوا تجزیہ کاروں کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں۔

آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام موجودہ اوزار استعمال ہو چکے ہیں۔۔ ریاستوں نے تاریخی قرضے لیے ہیں، مرکزی بینکوں نے شرح سود کم کی ہے اور بے تحاشہ پیسہ چھاپا ہے۔ ان میں سے کسی ایک قدم نے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا اور اس وقت جب ریاستیں دیوہیکل قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور مرکزی بینکوں کا افراط زر نے کباڑا کر دیا ہے جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ہم ایک نئے معاشی بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں۔

بورژوازی نے تمام تاریخی اقدامات کر کے قیامت کا یہ دن ٹال رکھا تھا۔ انہوں نے محنت کشوں پر بے دریغ حملے کیے، ریاست کو لوٹ کھسوٹ کر کھوکھلا کر دیا اور ساتھ ہی راگ الاپتے رہے ہیں کہ ”اس میں ہم سب ایک ہیں“۔ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس وقت ان پر حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ اب ان کی باری ہے۔

Comments are closed.