امریکہ: نیویارک مئیر کے الیکشن میں سوشلسٹ ظہران ممدانی کی کامیابی اور ارب پتیوں کی شکست

|تحریر: ریوولوشنری کمیونسٹس آف امریکہ، ترجمہ: آصف لاشاری|

ظہران ممدانی کا نیویارک کے مئیر کے طور پر الیکشن امریکہ کی تاریخ میں ایک سوشلسٹ امیدوار کی تاریخی فتوحات میں سے ایک ہے۔ زمین پر موجود سب سے طاقتور سامراجی ملک کے سب سے بڑے شہر اور سرمایہ داری کے دارالخلافہ میں تقریباً دس لاکھ لوگوں نے خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہنے والے امیدوار کو ووٹ دیا، جسے نیویارک ٹائمز نے درست طور پر ’اسٹیبلشمنٹ مخالف غصے میں بڑھاوا‘ قرار دیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس سیاسی زلزلے کی اہمیت کو بمشکل ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ 2015ء میں برنی سینڈرز کے پہلے صدارتی انتخابات کے شروع ہونے کے بعد سے ہی سوشلسٹ نظریات نے امریکی محنت کشوں میں اپنی جڑیں بنانا شروع کر دی تھیں۔ لیکن ظہران ممدانی کی جیت پچھلے دس سالوں میں عوامی شعور میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی کی سب سے واضح علامت ہے۔

ڈیموکریٹک سوشلزم مین سٹریم میں آ گیا

صرف 9 ماہ پہلے تک ظہران ممدانی ایک گمنام شخصیت تھا جس کی صرف ایک فیصد لوگ حمایت کر رہے تھے۔ لیکن اس کے مستحکم کرائے والے اپارٹمنٹس کے لیے کرایوں کو منجمد کرنے، شہر میں مفت بسوں کے چلانے، بچوں کی نگہداشت کے مراکز کو سستا کرنے، نیویارک شہر کے زیر انتظام اشیائے خورد و نوش کے مراکز تشکیل دینے اور غزہ شہر پر مسلط اسرائیل کی نسل کش جنگ کی مخالفت کرنے کے مطالبات نے تیزی سے وسیع حمایت حاصل کی۔ اس نے 42 ہزار رضاکاروں کی ایک مضبوط بنیاد تشکیل دی جس نے اسے ڈیموکریٹک پرائمری میں اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ اور ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدوار اینڈریو کیومو (Andrew Cuomo) پر فتح تک پہنچایا۔

تب سے لے کر اب تک اس کا رضاکاروں کا نیٹ ورک ایک لاکھ چار ہزار لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر تین لاکھ دروازوں پر دستک دی اور الیکشن کے دن تک تقریباً چوالیس لاکھ فون کالز کیں۔ ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ نے، جس کے شہر بھر میں ظہران سمیت لگ بھگ دس ہزار ممبران ہیں، اس رضاکار نیٹ ورک کی تشکیل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا۔

آخری تجزیے میں کیومو کی ریڈیو اور اخبارات پر مسلسل جارحانہ اشتہار بازی سمیت چار کروڑ ڈالرز کی کیمپئن ظہران ممدانی کی رضاکاروں کو متحرک کرنے اور نیویارک کے محنت کشوں کے مصارف زندگی کے بڑھنے، دولت کی قابلِ نفرت عدم برابری اور امریکی سامراج کی مکمل پشت پناہی سے جاری رکھے جانے والے اسرائیل کے گھناؤنے جرائم کے خلاف محسوس کیے جانے والے عوامی غصے کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت کا مقابلہ نہیں کر سکی۔

ظہران ممدانی نے کئی وائٹ کالر محنت کشوں کے ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے محلوں میں بھی اکثریت حاصل کی۔ اس میں برونکس (Bronx) کے قرب و جوار میں بڑی اکثریت جیتنا بھی شامل ہے، جہاں ایک چوتھائی سے زیادہ رہائشی غربت میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ممدانی کی کیمپئن کے مطابق جب مہم چلانے والوں نے رابطہ کیا تو چھ ہزار پانچ سو ارسٹھ لوگوں نے موقع پر ہی اس کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ آٹھ ہزار تین سو نواسی لوگوں نے فون بینکنگ کے ذریعے رضاکارانہ طور پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ ایک ایسے امیدوار کے لیے لوگوں کے جوش و خروش کو ظاہر کرتا ہے جسے وہ ایسے لوگوں کے حقوق کا حقیقی لڑاکا سمجھتے ہیں جن کی مدتوں پہلے سیاسی آواز مسترد کر دی گئی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس کے سیاسی پروگرام نے ”نیویارک کے محنت کش طبقے کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کے اخراجات کم کرنے“ کی ضرورت کو نمایاں کیا۔

”ڈیموکریٹک سوشلسٹ“ کا لیبل ظہران کی کامیابی کا غیر اہم جزو نہیں تھا بلکہ ایک مرکزی عنصر تھا۔ CNN کے ایک پول نے ظاہر کیا کہ ممدانی کے کم و بیش دس لاکھ ووٹرز میں سے پچاسی فیصد اپنے آپ کو ”ڈیموکریٹک سوشلسٹ“ کہتے ہیں۔ سب ووٹرز کو ملا کر بات کی جائے تو تقریباً پچیس فیصد نیویارک ووٹرز اپنی پہچان اس لیبل کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ اس سے قبل ستمبر کے پول نے دکھایا کہ ملک بھر میں ڈیموکریٹک ووٹرز کا 74 فیصد ”ڈیموکریٹک سوشلزم“ کی اصطلاح کو اپنے سیاسی نظریات سے مشابہہ قرار دیتے ہیں۔

ظہران نے جو جیتا ہے اس میں:

مئیر کے الیکشن میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کا 65 فیصد۔

کرائے کے گھروں میں رہنے والے ووٹروں کا 59 فیصد۔

ان جواب دہندگان کا 59 جنہوں نے کہا کہ ان کے خاندان مالی طور پر پیچھے رہ رہے ہیں۔

ان لوگوں کا 66 فیصد جنہوں نے کہا کہ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمت نیویارک سٹی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔

ان ووٹروں کا 33 فیصد جنہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے بارے میں منفی رائے رکھی۔

ان ووٹروں کا 65 فیصد جن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے بارے میں رائے منفی ہے۔

ان ووٹروں کا 76 فیصد جنہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی مخالفت ان کے ووٹ دینے کی ایک وجہ تھی۔

گزشتہ سال ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کا 9 فیصد اور خود کو MAGA کہنے والے ووٹروں کا بھی 9 فیصد۔

یہ سب اس بات کی تصدیق کرتا ہے جو انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل پچھلے سال ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے کہہ رہی ہے یعنی امریکی محنت کش طبقہ بنیادی نظریاتی اعتبار سے دائیں طرف بالکل بھی جھکاؤ نہیں رکھتا ہے۔ اس کی بجائے امریکی سرمایہ داری اور سب سے بڑھ کر امریکی معیشت کا بحران محنت کش طبقے کو ایسے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں کی طرف دھکیل رہا ہے جو سٹیٹس کو کو چیلنج کرتے ہیں۔

دائیں اور بائیں بازو کے پاپولزم کی بڑھتی ہوئی کشش تمام محنت کشوں کو درپیش مسائل کے حل کی بے سکون تلاش کی بگڑی ہوئی جھلک ہے۔ اس معاملے میں ہم ایک عجیب و غریب صورتحال دیکھتے ہیں جس میں خود کو سوشلسٹ کہنے والا ایک شخص امریکہ میں محنت کشوں کی کسی بڑی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ایک سرمایہ دارانہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر رہتے ہوئے الیکشن لڑ رہا ہے۔

ایک ایسے شہر میں جہاں صیہونیت کے حامی ڈیموکریٹس کا غلبہ رہا ہے، ظہران کا الیکشن فلسطین یکجہتی تحریک کے لیے بھی ایک اہم فتح ہے۔ درحقیقت ظہران کی اس تجویز کے پرائمری الیکشن کے 63 فیصد ووٹرز نے اس کی حمایت کی کہ اگر بنیامین نیتن یاہو کبھی نیویارک آیا تو اسے جنگی مجرم کے طور پر گرفتار کیا جائے، جبکہ سرمایہ دار میڈیا نے اسے ایک مضحکہ خیز بات قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

اپنی فتح کی تقریر میں، جس کا آغاز اس نے عظیم امریکی سوشلسٹ یوجین ڈیبز (Eugene Debs) کے اقتباس سے کیا، ظہران نے اپنے جرأتمندانہ وعدے پورے کرنے کا عزم ظاہر کیا اور اپنے ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہونے پر بھی فخر کا اظہار کیا:

جب ہم 58 دنوں میں سٹی ہال میں داخل ہوں گے توقعات بہت زیادہ بلند ہوں گی۔ ہم ان سے ملیں گے۔ نیویارک کے ایک عظیم باشندے نے ایک بار کہا تھا کہ بلاشبہ آپ الیکشن مہم شاعرانہ انداز میں چلاتے ہیں مگر حکومت نثر کے انداز میں کرتے ہیں۔ اگر اسے سچ ہی ہونا ہے تو آؤ ایسی نثر لکھیں جس میں ردھم ہو اور آؤ سب کے لیے ایک روشن شہر تعمیر کریں۔ آؤ ہم ایک نئے سفر کی بنیاد رکھیں جو ویسا ہی مضبوط ہو جیسا ہم پہلے طے کر کے آئے ہیں۔

بہرحال، ایک روایتی ذہانت آپ کو بتائے گی کہ میں ایک بہترین امیدوار ہونے سے کوسوں دور ہوں۔ میں ابھی تک نوجوان ہوں حالانکہ میں نے بوڑھا ہونے کی پوری طرح کوشش کی۔ میں مسلمان ہوں۔ میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں ان سب میں کسی بھی بات کے لیے معذرت خواہ نہیں ہوں۔

30سال قبل، امریکہ میں اتنا سب کچھ ہو جانے کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی حکمران طبقے نے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا کہ سوشلزم ماضی کا قصہ ہے۔ لیکن ان کی فتح عارضی تھی۔ آج ہم بالکل مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اس بچی کھچی غلط فہمی کو کہ امریکی محنت کش طبقے میں سوشلسٹ نظریات جگہ نہیں بنا سکتے، اب ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سوشلسٹ سیاست اس ملک میں اب ایجنڈے پر واپس آ گئی ہے۔

لڑائی کا ابھی فقط آغاز ہوا ہے

اس کی فتح کی خبر آنے کے فوراً بعد بروکلن (Brooklyn) اور کوئینز (Queens) میں کھچا کھچ بھرے ہوئے کلبوں میں جشن منانے کا آغاز ہو گیا۔ ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ نیویارک نے فتح کا پوسٹر شائع کیا جس پر لکھا تھا ”سوشلزم جیت گیا“۔

بلاشبہ ظہران کا منتخب ہونا سرمایہ داری اور صہیونیت کے خلاف علامتی فتح ہے۔ لیکن یہ وقت اب کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حقیقی سوشلزم ابھی فتحیاب نہیں ہوا۔ نیویارک کے سرمایہ داروں اور پورے امریکی حکمران طبقے کے خلاف ایک طویل اور سخت جنگ ہونا ابھی باقی ہے۔

جون کے مہینے میں پرائمری جیتنے کے وقت سے سرمایہ داروں نے ظہران کی زیر قیادت نیویارک کے خلاف سرمائے کی ہڑتال کی دھمکیاں دی ہیں۔ ٹرمپ کئی بار شہر کے فنڈز روکنے کی بات کر چکا ہے۔ نیویارک کی سٹیٹ گورنر کیتھی ہاکل (Kathy Hochul)، جو ایک ڈیموکریٹ ہے اور جس نے ذاتی مقبولیت کے لیے ظہران کی حمایت کا دکھاوا بھی کیا، مسلسل عندیہ دیتی آئی ہے کہ وہ امیروں پر کسی قسم کے نئے ٹیکس نافذ نہیں ہونے دے گی۔ اسی دوران بورژوا پریس نے سینکڑوں مضامین شائع کیے جس میں ظہران پر الزامات لگائے گئے اور اس کی شخصیت پر حملے کیے گئے۔

ڈیموکریٹک پارٹی، بورژوا میڈیا، تین لاکھ افراد پر مشتمل بلدیاتی افسرشاہی، مکان مالکوں اور سرمایہ داروں کا دباؤ آئندہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اگرچہ کیومو کو شکست دی جا چکی ہے، مگر شہر کی حکومت کے سینکڑوں اعلیٰ درجے کے بیوروکریٹس اب بھی اپنے عہدوں پر موجود ہیں اور وہ ظہران کی مئیرشپ میں بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کے لیے لڑتے رہیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ظہران ممدانی عام لوگوں کے لیے اخراجات زندگی کو کم کرنے کی بھرپور مخلصانہ خواہش رکھتا ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ معاشرے کو بدلنے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں سائنسی ادراک رکھتے ہوں کہ سرمایہ دارانہ معاشرہ کیسے کام کرتا ہے اور ہمارا مقابلہ کس قسم کے دشمن سے ہے۔ اسی وجہ سے آر سی اے (Revolutionary Communist of America) نے ہمیشہ سوشلسٹوں کی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی مخالفت کی ہے کیونکہ یہ ادارہ جاتی طور پر طبقاتی دشمنوں کی پارٹی ہے۔ اگرچہ ہم بھی نیویارک کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی اکثریت کے ساتھ بدنامِ زمانہ اسٹیبلشمنٹ امیدوار کی شکست کا جشن منانے میں شامل ہیں، لیکن جب تک ظہران ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا تھا، ہم اس کی مہم کی حمایت کرنے سے اجتناب کرتے رہے۔

ظہران دشمن کے علاقے میں داخل ہو رہا ہے اور اسے کامیابی کے لیے سنجیدہ حکمت عملی کی ضرورت ہو گی۔ سب سے پہلے تو اسے اپنے سوشلسٹ تحریک کے مقاصد کے بارے میں اپنے ماضی کے بیانات کو یاد رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ اس نے 2021ء میں YDSA کانفرنس کو بتایا تھا:

”اس پورے پروجیکٹ کا مقصد صرف طبقاتی شعور میں اضافہ کرنا نہیں ہے بلکہ سوشلزم کی لڑائی جیتنا ہے۔ اور یقیناً طبقاتی شعور میں اضافہ کرنا بھی اس کا ایک اہم جزو ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے پاس ایسے امیدوار ہوں جو اس بات کو سمجھتے ہوں اور اس کو آگے رکھنے کو تیار ہوں۔ ہمیں مزید سوشلسٹوں کو منتخب کرنا جاری رکھنا ہو گا اور ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ ہم سوشلزم کے بارے میں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ نہ اپنائیں۔“

ظہران بالکل ٹھیک تھا جب اس نے یہ کہا۔ تمام تاریخ گواہ ہے کہ طبقاتی دشمنوں کے سامنے کمزوری دکھانا صرف جبر کو بلاوا دینے کے برابر ہوتا ہے۔ صرف علی الاعلان، غیرمعذرت خواہانہ طبقاتی جدوجہد کی حکمت عملی جو صرف اور صرف محنت کشوں کی طاقت پر انحصار کرتی ہو، کامیاب ہو سکتی ہے۔

لیکن یہ کہنا ہو گا کہ ابھی تک ظہران نے خود اپنی نصیحتوں کو بھی سنجیدہ نہیں لیا۔ جون میں ہونے والے پرائمری سے سرمایہ داروں نے اسے جھکانے کے لیے پوری طاقت صرف کی ہے اور ظہران نے بھی اندرون خانہ ہونے والی میٹنگز میں نرم گوشہ دکھایا ہے۔ جیسا کہ نیویارک میگزین نے اکتوبر میں تفصیل سے لکھا:

”[جون سے اب تک] ممدانی ایک طرح کے دوسرے پرائمری میں مصروف رہا ہے، جہاں وہ خفیہ طور پر شہر کے بااثر حلقوں سے ملاقاتیں کر کے اپنی حمایت کو مضبوط کر رہا ہے اور اپنے اہم حریفوں کو راستے سے ہٹا رہا ہے۔ اس میں سے کچھ رپورٹ ہوا، مگر زیادہ تر نہیں۔

کئی ماہ سے ممدانی سابق سرکاری عہدیداروں، کاروباری ایگزیکٹوز، نیویارک کے ادبی اور ثقافتی اداروں کے سربراہان اور مشکوک مقامی ڈیموکریٹس سے نجی ملاقاتیں کرتا رہا ہے۔ ان ملاقاتوں کو نئے سیاسی ستارے کے ساتھ ”جان پہچان بڑھانے“ والی ملاقاتوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو سے واقف لوگوں کے مطابق ان کے دو مقاصد ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ممدانی خود کو بائیں بازو کے ایک نئے طرز کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک سامع جو اپنی کمزوریوں کو سمجھتا ہے اور ترقی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے اپنے انتظامی تجربے کی کمی کا اعتراف بھی کیا ہے اور مشورہ مانگا ہے۔ اس نے مشترکہ نکات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

رابرٹ وولف (Robert Wolf)، جو پارٹنرشپ فار نیویارک سٹی کا رکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے بڑے فنڈ اکٹھے کرنے والا ہے، نے کہا کہ وہ امیدوار کے ساتھ میسج پر بات کرنا شروع کر چکا ہے اور شہر کی مالیاتی و کاروباری برادری کے لیے ایک غیر رسمی نبض دیکھنے والا بن گیا ہے۔ وولف کی ممدانی سے اس ماہ اس کے کیمپیئن دفتر میں ایک گھنٹے کی ملاقات بھی ہوئی، جو اگست میں ہونے والی ایک گھنٹے کی طویل زوم میٹنگ کا فالو اپ تھی۔

وولف نے کہا کہ، ”میرے نزدیک ظہران ایک ترقی پسند سرمایہ دار ہے“، اور اس نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ نجی ملاقاتوں نے اسے قائل کر لیا ہے کہ ممدانی اس بات کی اہمیت سمجھتا ہے کہ اس کے نیویارک میں نجی شعبہ مضبوطی سے پھلتا پھولتا رہے۔

فنانشل ٹائمز نے عام انتخابات سے ایک دن پہلے اسی طرح رپورٹ کیا:

”پرائمری کے بعد سے ممدانی بڑی محنت سے اپنی قبولیت کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور نیویارک کے لوگوں کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کوئی شدت پسند نہیں، اور وہ ان حلقوں سے بھی رابطے رکھ رہا ہے جو ابتدا میں اس کی مہم کے خلاف تھے جیسے بڑے کاروباری اور وال اسٹریٹ۔

ابتدا میں اس نے دولت مند طبقے کو اس وعدے سے ڈرا دیا تھا کہ وہ نیویارک کے انتہائی امیر رہائشیوں اور کاروباروں پر ٹیکس بڑھائے گا، ایک ملین ڈالر سے زیادہ آمدن پر 2 فیصد ٹیکس کا مطالبہ، جس سے چار بلین ڈالر ٹیکس حاصل ہو سکتا ہے اور ریاست کے کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو 11.5 فیصد تک بڑھانا جو پڑوسی ریاست نیو جرسی جتنا ہے اور اس سے سالانہ تقریباً پانچ بلین ڈالر حاصل ہوں گے۔

کیتھرین وائلڈ (Kathryn Wylde)، جو پارٹنرشپ فار نیویارک سٹی کی سربراہ ہے، کہتی ہے، لیکن پرائمری کے بعد سے، ”اس کا پیغام اب کہیں زیادہ نفیس اور نرم ہو گیا ہے۔“ یہ وہ پرچارک گروپ ہے جو شہر کے کچھ سب سے بڑے نجی شعبے کے آجر اداروں کی نمائندگی کرتا ہے۔

طبقاتی دشمنوں کے ساتھ میل ملاپ کرنا ایک خطرناک کھیل ہے۔ پس پردہ ہونے والی ملاقاتوں میں ان پر ڈالے جانے والا دباؤ ظہران کو پہلے ہی پسپائی کی جانب لے گیا ہے۔

گزشتہ موسمِ گرما میں، اس نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے حامیوں کو ”گلوبلائز دی انتفادہ“ (Globalize the intifada) کے نعرے کے استعمال سے ”روکنے“ کی کوشش کی، 2020ء میں جارج فلوئیڈ (George Floyd) کی بغاوت کے دوران دیے گئے اپنے بیانات پر NYPD کے ایک بڑے گروہ سے بند دروازوں کے پیچھے معافی مانگی اور خاموشی سے اشارہ دیا کہ کرایوں کو منجمد رکھنے کی پالیسی کو شاید چار سال بعد دوبارہ دیکھنا پڑے۔

اس نے ”کاروباری رہنماؤں“ کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ وہ امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا پابند نہیں ہے، اور وہ اپنے پروگراموں کی فنڈنگ کسی نہ کسی قسم کی سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کے ذریعے کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ اس کے علاوہ، اس نے اس بات کے بھی واضح اشارے دیے ہیں کہ وہ ارب پتی جیسیکا ٹِش (Jessica Tisch) کو پولیس کمشنر کے عہدے پر برقرار رکھے گا۔

سابق امریکی صدر براک اوباما نے گرمیوں میں ظہران کو دو مرتبہ فون کیا۔ ان کی مہم کی تعریف کرنے کے بعد، اوباما نے مبینہ طور پر یہ ”مشورہ“ دیا کہ حکومت چلانے کے لیے ظہران کو کس قسم کا ”انفراسٹرکچر“ تیار کرنا ہو گا اور یہ پیشکش بھی کی کہ وہ مستقبل میں اس کی پالیسی سازی کے لیے ایک ”مشورہ کار“ کا کام کر سکتا ہے۔

اپنے آخری سال میں، اوباما نے اسرائیل کے لیے دس سالہ، 38 بلین ڈالر کا فوجی امدادی پیکج منظور کیا تھا جو بعد میں ہزاروں غزہ والوں کے قتلِ عام میں استعمال ہوا۔ ایسے شخص کا فلسطینی حقوق کی حمایت کے باعث منتخب ہونے والے امیدوار کے لیے ”مشورہ کار“ ہونا ہرگز مناسب نہیں۔

اوباما اور حکمران طبقے کے باقی لوگ چاہتے ہیں کہ ظہران ”ان کے اصولوں“ کے مطابق کھیلے۔ وہ اصول جو سرمایہ داروں نے اپنی دولت اور طاقت کے تحفظ کے لیے بنائے ہیں۔ ظہران کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ محنت کش طبقے کے ان آزمودہ اور حقیقی دشمنوں کی دی ہوئی ”نصیحتوں“ کو مکمل طور پر نظرانداز کرے اور ان پر عدم اعتماد بھی رکھے۔ محنت کشوں کا ان لوگوں کے ساتھ کوئی بھی مشترکہ مفاد نہیں، نہ ہی وہ ان سے کوئی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ براک اوباما، کیتھی ہوکُل، چَک شومر، پیٹرِک گیسپارڈ، سیلی سَسمَن اور ان جیسے دیگر لوگوں کے مشوروں کو حقارت سے دیکھا جانا چاہیے اور انہیں ظہران کی ٹیم سے کوسوں دور رکھا جانا چاہیے۔ اگر سرمایہ دار ظہران کے ساتھ ”تعارفی ملاقاتیں“ کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن یہ ملاقاتیں مکمل طور پر عوام کے لیے کھلی ہونی چاہئیں۔

لڑاکا طبقاتی جدوجہد کی حکمتِ عملی کی ضرورت

اکتوبر میں، نیویارک ٹائمز نے ظہران کو ”منہیٹن (Manhattan) کے دانشوروں کا خوش اخلاق اور تعلیم یافتہ بیٹا“ کہا اور تعریف کے انداز میں یہ بھی لکھا کہ وہ ”سنتا ہے، سوال کرتا ہے اور خوش مزاج ہے“، جبکہ ”وہ کاروباری رہنماؤں کو لیکچر دینے کی بجائے ان کے نقطہ نظر کو جذب کر لیتا ہے اور بعض اوقات یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ وہ ان کے دلائل پر غور و فکر کرے گا۔“

لیکن سرمایہ دار طبقہ ایک سفاک اور پرعزم دشمن ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مفادات اور محنت کش طبقے کے مفادات ایک دوسرے سے بالکل الٹ ہیں۔ انہیں خوش کر کے یا دلیل کے ساتھ یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے قائل نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حقیقی اصلاحات کی حمایت کریں کیونکہ سادہ سی بات ہے کہ اصلاحات ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف ہیں۔ ہمارے عہد میں صرف ایک کھلم کھلا طبقاتی جدوجہد سے ہی سنجیدہ رعایتیں جیتی جا سکتی ہیں۔

تمام اصلاح پسندوں کی طرح ظہران بھی ایک طرف محنت کشوں سے خاطر خواہ اصلاحات کا وعدہ کر کے اور دوسری طرف سرمایہ دار طبقے سے ان کے منافعوں کے تحفظ کے وعدے کر کے ”سب لوگوں کے لیے سب کچھ“ بننے کی کوشش میں ہے۔ اس طرح کا کچھ ممکن ہو سکتا تھا اگر عالمی سرمایہ داری ایک عمومی اٹھان کی حالت میں ہوتی جیسا کہ 1946ء سے 1973ء تک تھا۔ لیکن سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔

زائد پیداواریت کے عالمی بحران کے پس منظر میں امریکی سامراج ابھرتے ہوئے چینی سامراج کے مقابلے میں اپنا غلبہ کھوتا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار اپنے منافوں پر ایک چھوٹے سے حملے کو بھی ایک سنجیدہ خطرہ سمجھتے ہیں۔ جس چیز کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ تھوڑی سی مراعات دینے کی اجازت دینا ان کے لیے محنت کشوں کی جانب سے مزید حاصل کرنے کی لڑائی کا خطرہ پیدا کر دے گا کیونکہ کھانا اپنے ساتھ بھوک کا احساس بھی لاتا ہے۔ پہلے ہی وال سٹریٹ کے غنڈوں کی جانب سے ”اگلی چال کی منصوبہ بندی“ کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ظہران کا پروگرام چاہے کتنا ہی نرم اور منطقی کیوں نہ ہو حکمران طبقہ اس کے خلاف پوری شدت سے لڑائی لڑے گا۔

جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ، ”ایک آدمی دو مالکوں کی خدمت بجا نہیں لا سکتا۔“ اس کی اس کوشش میں کہ وہ اپنی اصلاحات پر پورا اترے اور سوشلسٹ تحریک کو حقیقی طور پر ایک قدم آگے جانے میں مدد کر سکے، ظہران کے واحد قابل اعتماد اتحادی محنت کش اور نوجوان ہیں جنہوں نے اسے مئیرشپ کے لیے تیار کیا۔ ظہران نے بہت سی جگہوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کو ”ہماری“ پارٹی کہا ہے۔ لیکن محنت کشوں اور سوشلزم کے نقطہ نظر سے وہ ”ہماری“ پارٹی نہیں بلکہ ان سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور کامیابی کے لیے اس فرق کی سمجھ بوجھ ہونا لازم ہے۔

سرمایہ دار ممدانی پر پریشر بڑھاتے جا رہے ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ جمہوری پارٹی میں الیکشن لڑ کر اس نے اپنے آپ کو بند گلی میں پھنسا لیا ہے۔ لیکن ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے کہ اپنے آپ کو ان کے سیاسی فریم ورک سے مکمل طور پر الگ کر لیا جائے اور اپنی کیمپین کو ایک کھلم کھلا طبقاتی جدوجہد کا بنیادی مرکز بنا لیا جائے۔

یہی وقت ہے کہ اپنے اپ کو ڈیموکریٹک پارٹی سے علیحدہ کیا جائے اور طبقاتی آزادی پر مبنی محنت کشوں کی پارٹی تعمیر کی جائے۔

ظہران، جو قومی سطح پر ایک معروف شخصیت ہے، کو امریکہ کے سب سے بڑے شہر کا مئیر منتخب کیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے رضاکاروں کی ایک ایسی فوج موجود ہے جو ارب پتیوں کے خلاف سنجیدہ جدوجہد کرنا چاہتی ہے۔ صرف ایک انسٹاگرام ویڈیو کے ذریعے وہ اپنے ایک لاکھ رضاکاروں اور پانچ لاکھ پیروکاروں کو ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے بلا سکتا ہے، جو مکمل طور پر ڈیموکریٹس سے آزاد ہو۔ ایسی جماعت محض انتخابی ذریعہ نہیں ہو گی، بلکہ یہ محنت کش طبقے کی سنجیدہ جدوجہد کو منظم کرے گی۔

لاکھوں لوگ دونوں بورژوا پارٹیوں کے خلاف جتنی نفرت محسوس کرتے ہیں اس کو ذہن میں رکھ کر سوچا جائے تو یہ جنگل کی آگ کی طرح ہر بڑے شہر میں پھیل جائے گی اور امریکہ میں محنت کشوں کی عوامی پارٹی کی بنیاد تشکیل دے گی۔ تحریک نیویارک میں شروع ہو سکتی ہے لیکن محنت کشوں کے جیتنے کے لیے اسے پورے ملک میں پھیلانا لازمی ہے۔ یہی جرات اور دلیری دکھانے کا وقت ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے! ہر چیز پر اعتراض کرنے والے کہیں گے کہ یہ غیر حقیقی ہے۔ لیکن اصل میں جو چیز غیر حقیقی ہے وہ یہ سوچ ہے کہ کوئی بھی حقیقی تبدیلی صرف کلنٹنز، جو بائیڈن اور اینڈریو کیومو کی پارٹی کے ذریعے سے ہی آ سکتی ہے۔

اپنی انتظامیہ تشکیل دیتے وقت ظہران کو صرف ڈی ایس اے (DSA) کی صفوں میں سے اور اپنی کیمپیئن میں شامل منتظمین میں سے شامل لوگوں پر انحصار کرنا چاہیے اور ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ کی اندر گھسنے کی کوششوں کو خاطر میں نہیں لینا چاہیے۔ اسے صرف ایک عام محنت کش کے برابر تنخواہ لینے کا عہد کرنا چاہیے اور شہر کی بڑی سطح کی انتظامیہ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

انتظامیہ کو خود کو صرف نیویارک تک محدود ادارہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے پورے امریکہ میں سرمایہ دارانہ طبقے کے خلاف قومی جدوجہد کا مرکزی نقطہ سمجھنا چاہیے۔ نیویارک کے مزدوروں کے مسائل وہی ہیں جو پورے ملک کے مزدوروں کو دباؤ میں رکھتے ہیں؛ کم اجرتیں، روزگار کے محدود مواقع، مہنگا رہائشی کرایہ، مہنگا کھانا اور صحت کی سہولیات وغیرہ۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے ہر قسم کے تعلقات کو عوامی طور پر توڑنا اور نیویارک اور پورے امریکہ کے مزدور طبقے سے اپیل کرنا امریکی مزدوروں کو درپیش رجعتی ”ثقافتی جنگ“ کے اختلافات کے خلاف لڑنے میں بہت مددگار ہو گا۔ اس بنیاد پر یہ ممکن ہو گا کہ قومی سطح پر ایک جدوجہد شروع کی جائے جس میں کرایہ آمدنی کا صرف 10 فیصد مقرر کیا جائے، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے اچھی اجرت والی یونین کی نوکریاں فراہم کی جائیں، عوامی نقل و حمل مفت ہو، بچوں کی دیکھ بھال کی سستی سہولیات ہوں اور قومی سطح پر صحت کا اعلیٰ معیار کا نظام ہو۔

حالات نازک ہیں۔ اگر ظہران طبقاتی مفاہمت کے راستے پر چلتا رہا، تو وہ ناگزیر طور پر اپنے حمایتیوں کو دھوکہ دینے پر مجبور ہو جائے گا، چاہے اس کے ارادے کچھ بھی ہوں۔ اگر ایسا ہوا، تو بورژوا میڈیا نیویارک شہر میں سرمایہ داری کے تمام مسائل بے گھری، بے روزگاری وغیرہ کو ”سوشلسٹ نظریے“ کے ناگزیر نتائج کے طور پر اجاگر کرے گا۔ اس سے سوشلسٹ نظریے کی بدنامی ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف، اگر ظہران اس موقع کا فائدہ اٹھا کر سرمایہ دارانہ طبقے کے خلاف بلا روک ٹوک جدوجہد شروع کرے، تو سوشلسٹ تحریک امریکہ کی سیاست کو بدل سکتی ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے سرمایہ داروں کے ساتھ ملاقاتیں نہیں، بلکہ مظاہرے، ہڑتالیں، عوامی ریلیاں، اور نیویارک، البانی اور پورے ملک میں عمومی ہڑتالیں ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہیں۔

ریوولوشنری کمیونسٹس آف امریکہ کے کامریڈز ان لڑائیوں کا سب سے سرگرم حصہ رہیں گے اور اپنے طبقے کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں گے۔ ہم نیویارک سٹی اور پورے ملک میں ظہران کے حمایتیوں کے ساتھ آگے کے راستے پر بات کرنے کے لیے پرجوش ہیں اور مسلسل اپنا تناظر پیش کرتے رہیں گے کہ ظہران کے گرد تحریک کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے۔ ہم ثابت قدم کاروائی کی حمایت کریں گے اور پسپائی پر تنقید کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ جب تک ہم ماضی کے اسباق سے سیکھتے رہیں گے، امریکہ میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریک کا سنہری دور قریب ہی ہے۔

Comments are closed.