|تحریر: لیون ٹراٹسکی، ترجمہ: جاوید شاہین|
ملک کی زندگی میں اور فرد کی زندگی میں وہ غیر معمولی دن تھے۔ سماجی اور ذاتی جذبات میں تناؤ عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ عوام ایک داستان رقم کر رہے تھے۔ رہنما تاریخ کے قدموں پر قدم رکھ کر چل رہے تھے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اُن دنوں جو فیصلے اور حکم جاری کیے جا رہے تھے اُن پر پوری قوم کی تقدیر کا انحصار تھا۔ اس کے باوجود وہ فیصلے کسی مشترکہ سوچ بچار کے بغیر ہو رہے تھے۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ انہیں مناسب طور پر جانچا اور پرکھا بھی نہیں جاتا تھا۔ وہ فوری طور پر کیے جاتے اس کے باوجود کچھ ایسے بڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ واقعات کا دباؤ اور کام اس قدر زیادہ تھا کہ اہم سے اہم فیصلہ بھی ایک دم کرنا پڑتا اور لوگ بھی اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ راستے کا تعین ہو چکا تھا۔ بس یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ کرنا کیا تھا۔ کسی بحث کی ضرورت نہیں تھی اور ایسا ہوتا بھی نہیں تھا۔ صورتحال کے پیش نظر عوام کو جو کچھ کرنے کو کہا جاتا وہ فوراً تیار ہو جاتے۔ حالات کے دباؤ کے تحت ان کے ”راہنما“ بھی ان کی اور تاریخ کی ضروریات کو مدنظر رکھے ہوئے تھے۔
مارکسزم کا خیال ہے کہ وہ تاریخ کے لاشعوری عمل کا شعوری اظہار ہے نفسیاتی طور پر نہیں بلکہ تاریخی فلسفیانہ اصطلاح میں لاشعوری عمل کسی بلند ترین نکتے پر اپنے شعوری اظہار سے مل جاتا ہے۔ مگر یہ اس وقت ہوتا ہے جب عوام کسی غیر معمولی دباؤ کے تحت اپنا سماجی روزمرہ توڑ کر تاریخی ترقی کی بڑی ضرورتوں کو ایک فتح مندانہ اظہار دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں عوام کو کسی نظریے وغیرہ کا خیال نہیں رہتا۔ وہ لاشعوری طور پر تاریخ کی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ شعور اور لاشعور کے اتحاد کو عام طور پر ”الہام“ کانام دیا جاتا ہے۔ تاریخ کے پرجوش ہیجان کا نام ہے۔
ہر حقیقی ادیب کو اپنے تخلیقی لمحات کا علم ہوتا ہے۔ اس وقت کوئی مضبوط شے اس کے ہاتھ کی راہنمائی کر رہی ہوتی ہے۔ ہر حقیقی مقرر کو بھی ایسے لمحات کا تجربہ ہوتا ہے جب اس کی روزمرہ کی ذات سے زیادہ مضبوط کوئی چیز اس کے اندر سے بولنے لگتی ہے۔ اس چیز کا نام ”الہام“ ہے۔ یہ انسان کی اپنی تخلیقی قوتوں کا بلند ترین مقام ہوتا ہے۔ پھر لاشعور اپنے گہرے کنویں سے نکلتا ہے اور شعور کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ دونوں مل کر ایک بڑے ملاپ کی طرف چل پڑتے ہیں۔
اسی طرح عوام کی تحریک سے وابستہ کسی ذاتی سرگرمی میں بھی کبھی کوئی روحانی طاقت سرایت کر جاتی ہے۔ اکتوبر انقلاب کے دنوں میں اس کے راہنماؤں کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ان کی تمام سوئی ہوئی طاقتیں بیدار ہو کر انقلاب کی نذر ہو گئی تھیں۔
بیرونی طور پر انقلاب کوئی بڑی بات دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لوگوں کا روزمرہ وہی تھا۔ وہ کھیلتے بھی تھے‘ انہیں بھوک بھی لگتی تھی‘ وہ نہاتے بھی نہیں تھے‘ ان کی آنکھیں سوجھی اور داڑھی بڑھی ہوتی تھی۔ بعد میں انہیں وہ نازک دن اور لمحے یاد بھی نہیں رہے تھے۔
اس سلسلے میں میری بیوی کی ایک تحریر سے اقتباس درج کر رہا ہوں:
”اکتوبر انقلاب کی تیاریوں کے آخری ایام میں ہم تورڈ سٹریٹ میں رہتے تھے۔ لیو ڈیویڈو وِچ (Lev Davydovich) (ٹراٹسکی کا نام) سارا دن سمولنی میں گزار دیتا تھا۔ میں ابھی تک ترکھانوں کی یونین میں کام کر رہی تھی جو بالشویکوں کی تحویل میں تھی۔ وہاں کی فضا میں تناؤ تھا۔ سارا وقت شورش کے متعلق باتوں میں گزر جاتا۔ یونین کا چیئرمین لینن -ٹراٹسکی نقطہ نظر کا حامی تھا۔ ہم سب مل کر احتجاج کرتے رہتے۔ ہر جگہ شورش کی بات ہو رہی تھی‘ سڑکوں پر کھانے کی میزوں پر‘ سمولنی کی سیڑھیوں میں۔ ہم کم کھاتے کم سوتے اور چوبیس گھنٹے کام میں لگے رہتے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو بھی دیکھنے کا موقع نہ ملتا۔ انقلاب کے دنوں میں میں ان کے متعلق فکر مند رہتی۔ وہ دونوں سکول میں اکیلے بالشویک تھے۔ ایک تیسرا لڑکا بھی تھا مگر وہ ”ہمدرد“ تھا۔ ان تینوں کا آپس میں بہت اتحاد تھا۔ ان کے مخالف گروہ میں جمہوری حکومت کے حامی اور کیڈٹ اور سوشلسٹ انقلابی تھے۔ جیسا کہ ایسے معاملات میں عام طورپر ہوتا ہے، تنقید کے ساتھ عملی دلائل بھی دینے پڑتے ہیں۔ ایک سے زیادہ مواقع پر ہیڈ ماسٹر کو میرے بیٹوں کو ”جمہوریت پسند“ لڑکوں کے نرغے سے نکالنا پڑا۔ بیٹے تو بس باپ کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر ایک کیڈٹ تھا جو ظاہر ہے دوسرے لڑکوں کی حمایت کرتا تھا۔ وہ میرے بیٹوں کو سزا دیتا اور کہتا۔ ’اپنی ٹوپیاں اتار دو اور گھر چلے جاؤ۔“ انقلاب کے بعد میرے بیٹوں کا وہاں رہنا مشکل ہو گیا اور وہ عوامی سکول میں چلے گئے۔ وہاں تعلیم تو زیادہ بہتر نہیں تھی مگر کم از کم کھلی فضا میں سانس تو لے سکتے تھے۔
”ایل۔ ڈی۔ اور میں گھر پر کم ہی ہوتے تھے۔ سکول سے واپس آنے اور ہمیں گھر پر نہ پانے کے بعد بیٹے گھر کی چار دیواری میں بند ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ مظاہروں‘ لڑائیوں اور گولیاں چلنے کے ان دنوں میں ہم ان کی سلامتی کے لیے فکر مند رہتے، وہ بھی بڑے انقلابی موڈ میں تھے۔ جب کبھی ہمارے درمیان کوئی سرسری سی ملاقات ہو جاتی تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ کہتے۔ ”آج ہم بس میں چند کوساکوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ڈیڈ کا کتابچہ ”کوساک بھائیو“ پڑھ رہے تھے۔
”پھر؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ پڑھ کر دوسروں کو دیتے جاتے تھے۔“
”واقعی؟“
”بالکل“
”ایل۔ ڈی۔ کے جاننے والے ایک انجینئر کے۔ (K.) نے جس کے اپنے کنبے میں ہر عمر کے بچے تھے اور ایک خادمہ بھی تھی‘ ہمارے بیٹوں کو اپنے پاس رکھنے کی پیش کش کی جہاں ان کی اچھی دیکھ بھال ہو سکتی تھی۔ میں اس پیشکش پر بڑی خوش ہوئی۔ مجھے دن میں کم از کم پانچ دفعہ سمولنی مختلف کاموں کے لیے جانا پڑتا تھا۔ ہم اپنے گھر تورڈ سٹریٹ رات گئے آتے اور صبح ہوتے ہی بچھڑ جاتے۔ ایل۔ ڈی۔ سمولنی اور میں یونین کے دفتر چلی جاتی۔ واقعات کے عروج پر ہم سمولنی ہی میں رہنے لگے۔ ایل۔ ڈی۔ کئی دن گھر نہ آتا۔ میں بھی سمولنی میں رک جاتی۔ ہم کپڑے بدلے بغیر صوفے اور کرسیوں پر سو جاتے۔ موسم کچھ ایسا گرم نہیں تھا۔ خزاں کے دن تھے۔ دن خشک اور بے مزہ تھے، ہوا تیز اور ٹھنڈی تھی۔ بڑی سڑکیں ویران اور خاموش تھیں۔ ایسی خاموشی میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سمولنی ایک ہنگامہ پرور جگہ بنی ہوئی تھی۔ بڑا ہال بڑی بڑی روشنیوں سے بقعہ نور بنا رہتا۔ دن ہو یا رات، لوگوں سے بھرا رہتا۔ ملوں اور فیکٹریوں میں زندگی زوروں پر تھی۔ لیکن سڑکوں پر خاموشی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے شہر نے خوف کے مارے اپنا سر اپنے شانوں میں چھپا لیا تھا۔
”مجھے یاد ہے کہ شورش کے دوسرے یا تیسرے دن کی صبح کو میں نے سمولنی کے ایک کمرے میں ولادیمیر ایلچ (لینن) اور لیو ڈیویڈو وِچ کو موجود پایا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ دزرزسکی، جوفے اور دوسرے لوگ بھی تھے۔ نیند کی کمی کی وجہ سے ان کے چہرے زرد اور آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔ ان کی قمیضوں کے کالر میلے تھے اور کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگوں سے گھرا ہوا ایک آدمی میز پر بیٹھا تھا۔ پس اس کے حکم کے منتظر تھے۔ لینن اور ٹراٹسکی بھی منتظر ہجوم میں شامل تھے۔ مجھے یوں لگا جیسے سوئے ہوئے لوگ حکم جاری کر رہے تھے۔ ہر کوئی نیند کی حالت میں چل رہا تھا۔ میں بھی جیسے یہ سب نیند کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ پھر مجھے ایک دم خیال آیا کہ اگر ان لوگوں کی حالت یہی رہی تو انقلاب خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ اگلے دن میں لینن کی بہن ماریہ ایلنشا سے ملی اور اسے بتایا کہ لینن کو صاف کپڑوں کی ضرورت تھی۔ ”ہاں، ہاں تم ٹھیک کہتی ہو“، اس نے جواب دیا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ صاف کپڑوں کا مسئلہ تو اپنی اہمیت کھو چکا تھا۔“
پیٹرو گراڈ میں تو اقتدار ہمارے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ لینن کے پاس کپڑے تبدیل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں، اس کا چہرہ تھکاوٹ سے نڈھال ہے۔ وہ میری طرف نرمی سے دیکھتا ہے اور ذرا جھجھک کر کہتا ہے۔ ”چھپے پھرنے اور زیر زمین زندگی گزارنے سے ہم ایک دم اقتدار میں کیسے آ گئے؟“ وہ لمحہ بھر کے لیے مناسب لفظ تلاش کرتا ہے اور پھر کہتا ہے ”Es Schwindelt“ وہ ایک دم جرمن زبان بولنی شروع کر دیتا ہے اور اپنے سر کے گرد ہاتھ دائرے کی شکل میں گھماتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک یا دو منٹ میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا ہے۔ ”چلو اگلا کام کریں۔“
اب حکومت قائم کرنی ہے۔ مرکزی کمیٹی کے بعض ارکان موجود ہیں۔ کمرے کے ایک کونے میں ہنگامی اجلاس شروع ہو جاتا ہے۔
”ہمیں ان کا کیا نام رکھنا چاہیے؟“ لینن پوچھتا ہے۔ ”وزیروں کے علاوہ کوئی اور نام، یہ حقیر اور گھسا پٹا لفظ ہے۔“
”ہم انہیں کمیسار کہہ سکتے ہیں۔“ میں نے تجویز دی۔ ”لیکن ہمارے پاس تو پہلے ہی بہت سے کمیسار ہیں۔ سپریم کمسار؟ نہیں۔ سپریم اچھا نہیں لگتا۔ اس کی آواز ہی خراب ہے۔ عوامی کمسار کیسا رہے گا؟“ میں نے کہا۔
”عوامی کمیسار“، میرا خیال ہے اس سے کام چل سکتا ہے۔“ لینن اتفاق کرتا ہے۔ اور حکومت کا نام کیا رکھا جائے؟“
”سوویت-عوامی کمیساروں کی سوویت۔“ لینن کو یہ نام پسند آتا ہے۔ ”بہت خوب، یہ انقلابی نام لگتا ہے۔“ وہ کہتا ہے۔
لینن انقلاب کی جمالیات یا اس کی رومانی خوبیوں کا زیادہ دلدادہ نہیں تھا۔ وہ جس قدر گہرائی میں جا کر انقلاب کو مجموعی طور پر محسوس کرتا تھا‘ اتنی ہی حسی تیزی سے کسی غلطی کے بغیر اس کی ”خوشبو“ بھی سونگھ لیتا تھا۔
ابتدائی ایام کے دوران میں اس نے ایک دفعہ غیر متوقع طور پر مجھ سے پوچھ لیا۔ ”اگر سفید فام فوج نے مجھے اور تمہیں قتل کر دیا تو؟ کیا سرور ڈلوف اور بخارن صورتحال کو سنبھال لیں گے؟“
”میرا خیال ہے وہ ہمیں قتل نہیں کریں گے۔“ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ تو شیطان ہی جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔“ لینن نے بھی جوابی قہقہہ لگایا۔
1924ء میں لینن کے بارے میں باتیں کرتے وقت یہ قصہ میں نے پہلی مرتبہ سنایا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سٹالن‘ زینوثیف اور کامینیف کے ٹولے نے اس کا بہت برا منایا تھا۔ اگرچہ اس وقت وہ خاموش رہے تھے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ لینن نے سرور ڈلوف اور بخارن کا نام لیا تھا۔
لینن نے اپنی دو جلا وطنیوں میں پندرہ برس باہر گزارے تھے۔ وہ روس کے اندر پارٹی کے بڑے راہنماؤں کو فقط خط و کتابت کے ذریعے جانتا تھا۔ یا ان سے ان کی چند ملاقاتیں باہر ہوئیں تھیں۔ انقلاب کے بعد ہی اسے انہیں اور ان کے کام کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا تب اسے اپنی پرانی رائے تبدیل کرنی پڑی۔ لوگوں کی طرف بے اعتناعی لینن جیسے عظیم اخلاقی آدمی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایک مفکر، ایک مشاہد اور ایک منصوبہ ساز کی حیثیت سے اس کا دل عوام کے جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ کروپسکایا نے بھی اپنی یادداشتوں میں لینن کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ لینن نے کبھی ایک نظر میں کسی کو تول کر اس کے متعلق اندازہ نہیں لگایا تھا۔ اس کی آنکھ باریک بین تھی۔ وہ ایک لمحے میں آدمی کو بہت سی خوبیاں اور برائیاں دیکھ لیتی، وہ اکثر لوگوں کی محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ اس وقت میں اسے چھیڑنے لگتا۔ ”میں جانتا ہوں آپ ایک نیا رومانس لڑا رہے ہیں۔“ لینن اپنی شخصیت کے اس پہلو سے واقف تھا۔ وہ ہنس کر بات ٹال دیتا۔ کبھی تھوڑا سا بوکھلا کر ہلکی سی ناراضگی بھی ظاہر کر دیتا۔
1917ء کے دوران میں میری طرف لینن کا رویہ متعدد بار تبدیل ہوا۔ پہلی دفعہ وہ مجھے گھٹا گھٹا اور محتاط ہو کر ملا۔ پھر جولائی کے دن ہمیں اچانک ایک دوسرے کے قریب لے آئے۔ جب بالشویکوں کی اکثریت کے خلاف میں نے پارلیمان کے بائیکاٹ کی تجویز پیش کی تو لینن نے اپنی پناہ گاہ سے مجھے لکھا: ”شاباش، کامریڈ ٹراٹسکی!“ پھر بعض حادثاتی اور غلط اشاروں کی بنا پر اس نے میرے بارے میں نتیجہ اخذ کیا کہ میں مسلح شورش کے معاملے میں شش و پنج میں گرفتار تھا اور اس شبہ کا اظہار اس نے اکتوبر کے دوران میں لکھے جانے والے خطوط میں کیا۔ اس کے برعکس انقلاب والے دن جب ہم نیم تاریک خالی کمرے کے فرش پر لیٹے آرام کر رہے تھے تو اس کا رویہ بلاشبہ گرم اور دوستانہ تھا۔ اگلے دن پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں اس نے مجھے عوامی کمیساروں کی سوویت کا چیئرمین چن لینے کے لیے تجویز پیش کی۔ میں اچھل پڑا اور احتجاج کرنے لگا۔ یہ تجویز بڑی غیر متوقع اور غیر مناسب تھی۔ ”اس میں کیا حرج ہے۔“ لینن نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔ ”تم پیٹروگراڈ سوویت کے چیئرمین تھے جس نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔“ میں نے کسی بحث سے بغیر یہ تجویز رد کر دی۔ لیکن تحریک منظور ہو گئی۔ یکم نومبر کو پیٹروگراڈ پارٹی کمیٹی کی میٹنگ کے دوران میں گرما گرم بحث کے وقت لینن نے کہا۔ ”ٹراٹسکی سے بہتر کوئی بالشویک نہیں ہے۔“ لینن کی زبان سے نکلے ہوئے یہ لفظ بڑے معنی خیز تھے۔ اس اجلاس کی کاروائی ابھی تک عوام سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔
اقتدار پر قبضے کے بعد یہ سوال سامنے آیا کہ مجھے کون سا سرکاری عہدہ دیا جائے۔ عجیب بات ہے کہ میں نے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔ 1905ء کے تجربے کے باوجود کبھی کوئی ایسا موقع پیدا نہیں ہوا تھا کہ میں نے اپنا مستقبل کسی سرکاری عہدے سے جوڑنے کے بارے میں سوچا تھا۔ میں نے جوانی ہی سے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بچپن ہی سے ادیب بننے کا خواب دیکھا تھا۔ پھر میں نے اپنے ادبی کام کو اپنے دوسرے کاموں کی طرح انقلاب کے تابع بنا دیا۔ پارٹی کا اقتدار پر قبضہ کرنا ہمیشہ میرے پیش نظر رہا۔ میں انقلابی حکومت کے پروگراموں کے متعلق بہت کچھ لکھتا رہا لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد میں نے ذاتی طور پر کون سا عہدہ لینا تھا، یہ خیال کبھی میرے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اس قسم کی کوئی تجویز یا پیش کش میرے لیے بڑی غیر متوقع تھی۔
اقتدار پر قبضے کے بعد میں نے حکومت سے باہر رہنے کو ترجیح دی اور پریس کی نگرانی اور اسے ہدایت جاری کرنے کی پیش کش کی۔ ممکن ہے فتح کے بعد اس کا کچھ تعلق اعصابی رد عمل سے ہو۔ انقلاب سے پہلے کے مہینے انقلاب کی تیاری کے کام میں گزر گئے تھے۔ میرے بدن کا ہر تار اپنے پورے تناؤ پر تھا۔ لوناچرسکی نے کسی اخبار میں لکھا تھا کہ ٹراٹسکی ایک بیٹری کی طرح تھا جو بھی اس کو چھوتا اس میں برقی رو بھر جاتی۔ 25 اکتوبر نے مجھے بالکل توڑ کر رکھ دیا۔ میں خود کو اس سرجن کی طرح محسوس کر رہا تھا جو ایک مشکل اور خطرناک آپریشن کے بعد اپنے ہاتھ دھوتا ہے، ایپرن اتارتا ہے اور آرام کے لیے لیٹ جاتا ہے۔
لینن کی مختلف حیثیت تھی۔ وہ ساڑھے تین ماہ بعد اپنی پناہ گاہ سے نکل کر آیا تھا اور اس عرصے میں عملی کام سے کٹا رہا تھا۔ ایک کام دوسرے کام سے جڑتا جا رہا تھا جس نے میری اس خواہش کو تیز کر دیا کہ پس منظر میں جا کر تھوڑی دیر کو آرام کر لوں۔ لینن اس سے متفق نہیں تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ میں وزارت داخلہ لے لوں۔ یہ سب سے مشکل کام تھا کیونکہ اس میں ردِ انقلاب کے خلاف جنگ کرنی پڑنی تھی۔ میں نے اعتراض کرتے ہوئے قومیت کا سوال اٹھا دیا۔ میں یہودی تھا اور دشمنوں کے ہاتھ میں کوئی نیا ہتھیار نہیں دینا چاہتا تھا۔
لینن غصے میں آ گیا۔ ”ہم نے ایک عظیم بین الاقوامی انقلاب برپا کیا ہے۔ ایسی چھوٹی باتوں کی کیا اہمیت ہے؟“
پھر اچھے مزاج میں چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی۔ ”بلاشبہ انقلاب برپا ہو گیا ہے۔“ میں نے جواب دیا۔ ”مگر ابھی بہت سے احمقوں سے نمٹنا باقی ہے۔“
”لیکن ہمیں احمقوں کے ساتھ تو نہیں چلنا۔“
”شاید ایسا نہ ہو۔ لیکن حماقت کی کچھ نہ کچھ رعایت دینی پڑتی ہے۔ ہمیں شروع ہی میں پھڈے بازی کی کیا ضرورت ہے؟“
میں پہلے ہی دیکھ چلا ہوں کہ قومی مسئلہ جو روس کی زندگی میں اس قدر اہمیت رکھتا تھا، میرے لیے عملی طور پر اہم نہیں تھا۔ جوانی میں بھی قومی تنگ نظری اور تعصبات میرے استدلال کی حس کو پریشان کر دیتے اور مجھے ان سے نفرت کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی قے آنے لگتی۔ میری مارکسی تعلیم نے میرے اس احساس کو گہرا کر کے میرے رویے کو ایک سرگرم بین الاقوامیت میں بدل دیا تھا۔ دوسرے ممالک میں میرا قیام، اتنی ساری مختلف زبانوں سے میری شناسائی، سیاسی نظاموں اور ثقافتوں نے بین الاقوامیت کو میرے گوشت اور خون میں رچا بسا دیا تھا۔ 1917ء میں اور اس کے بعد بھی میں اگر کبھی اپنی کسی تقرری کے خلاف اپنے یہودی ہونے کی دلیل پیش کرتا تو ایسا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر کرتا تھا۔
سوریڈلوف (Svyerdlov) اور مرکزی کمیٹی کے بعض ارکان کو میں نے اپنی طرف کر لیا۔ لینن اقلیت میں رہ گیا۔ وہ کندھے اچکنے، آہیں بھرنے اور میری طرف ملامت سے دیکھنے لگا۔ مگر ایک خیال میرے لیے اطمینان کا باعث تھا کہ میں نے جس محکمے میں بھی کام کرنا تھا، ردانقلاب کے خلاف کرنا تھا۔ لیکن سوریڈلوف نے میری پریس کی نگرانی پر تعیناتی کی بھی سخت مخالفت کی۔ یہ کام بخارن لینا چاہتا تھا۔ ”لیوڈیویڈو وِچ کو یورپ کے خلاف نبرد آزمائی پر لگا دینا چاہیے۔ بہتر ہو گا کہ اسے خارجی امور کا محکمہ دے دیا جائے۔“
”اب خارجی امور رہ ہی کیا گئے ہیں۔“ لینن نے جواب دیا۔ بہرحال وہ تھوڑے پس و پیش کے بعد اس پر متفق ہو گیا۔ میں نے بھی رد کر کے بعد میں اس پر اتفاق کر لیا۔ اس طرح سوریڈلوف کے کہنے پر میں کچھ عرصے کے لیے خارجی امور کا انچارج بن گیا۔
خارجی امور کا انچارج ہونے کا اصل مقصد محکمانہ کام سے آزادی تھی۔ جو کامریڈ اس کام میں میری مدد کرنا چاہتے تھے انہیں میں تجویز کرتا تھا کہ وہ کسی اور شعبے میں اپنی طاقت صرف کریں۔ ان میں سے ایک نے سوویت حکومت بننے کے بعد اپنی یاداشتوں میں میرے ساتھ اپنی ایک پرلطف گفتگو کا ذکر کیا ہے۔ اس کے کہنے کے مطابق میں نے اس سے کہاتھا۔ ”اب ہم نے کون سا سفارتی کام کرنا ہے؟ میں دنیا بھر کے لوگوں کے لیے چند انقلابی اعلانات جاری کر دوں گا اور پھر اپنی دکان بڑھا دوں گا۔“ اسے میرے سفارتی شعور کی کمی سے واقعی تکلیف پہنچی تھی۔ لیکن میں نے تو دانستہ طور پر مبالغہ آرائی کی تھی۔ میں بتانا چاہتا تھا کہ اس وقت خارجی امور مرکزی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
اصلی کام اکتوبر انقلاب کو آگے بڑھانا، ملک میں پھیلانا اور پیٹروگراڈ پر کرنسکی اور جنرل کراسنوف کے حملوں کو روکنا تھا۔ یہ سب مسائل محکموں سے باہر کے تھے اور ہم سب انہیں حل کرنے میں لینن سے مسلسل اور بھرپور تعاون کر رہے تھے۔
سمولنی میں لینن کا کمرہ میرے کمرے سے عمارت کی مخالف سمت میں تھا۔ ہمیں آپس میں جوڑنے یا تقسیم کرنے والا برآمدہ اس قدر طویل تھا کہ لینن مذاق میں کہا کرتا تھا کہ ہمیں سائیکل پر آنا جانا چاہیے۔ ہم دن میں متعدد بار فون پر بات کرتے تھے۔ مگر کسی کانفرنس کے سلسلے میں لینن کے کمرے میں جانے کے لیے برآمدے کو عبور کرنا بڑا مسئلہ بن جاتا۔ ایک نوجوان جہاز ران جو لینن کا سیکرٹری تھا، لینن کے مراسلے لے کر اس برآمدے میں مسلسل دوڑتا رہتا۔ ان مراسلوں میں حکم نامے ہوتے جنہیں فوری طور پر جاری کرنا ہوتا تھا۔ سوویت کے عوامی کمیسار کے ریکارڈ روم میں اس زمانے کی ایسی بہت سی دستاویزیں موجود ہوں گی جن میں میرے یا لینن کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ترمیمات پائی جائیں گی۔
پہلے دور میں، اندازاً اگست 1918ء تک، میں سوویت کے عوامی کمسار کے امور میں مصروف رہا۔ سمولنی کے زمانے میں لینن معاشی، سیاسی، تنظیمی اور ثقافتی مسائل حل کرنے میں شدت سے مصروف رہا۔ وہ یہ مسائل نوکر شاہی کے طریقوں سے نہیں بلکہ پارٹی پروگرام کے مطابق حل کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انقلابی احکام پوری طرح بجا نہیں لائے جا رہے تھے۔ ان کی تکمیل کے لیے ایک متحرک مشینری، وقت اور تجربے کی ضرورت تھی۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ہمارے پاس کتنا وقت تھا۔ ابتدائی ایام میں ہمارے احکام تنظیمی اقدامات کی بجائے پراپیگنڈہ نوعیت کے تھے۔ لینن عوام کو یہ بتانے کی جلدی میں تھا کہ نئی حکومت کیا تھی، یہ کیا چاہتی تھی اور یہ کیسے اپنے مقاصد کی تکمیل کرے گی۔ وہ حیران کن بے تکانی سے ایک کے بعد دوسرے سوال کا جواب دیتا رہتا۔ وہ کانفرنس منعقد کرتا، تجربہ کار لوگوں کو بلاتا اور کتابوں میں گم ہو جاتا۔ میں اس کی مدد کرتا رہتا۔
لینن کو اپنے کام پر سخت اعتماد تھا۔ ایک عظیم انقلابی ہونے کے ناطے وہ تاریخی روایت کا مطلب سمجھتا تھا۔ ہمارے لیے یہ بتانا مشکل تھا کہ ہم اقتدار میں رہیں گے یا نہیں۔ ہر دو حالتوں میں ہم اپنے انقلابی تجربے کو عوام کے سامنے واضح حالت میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ ہمارے بعد جو بھی آئے، ہمارے تجربے کو ایک قدم آگے ہی بڑھائے۔ پہلے مرحلے میں قانون سازی کا بڑا مقصد یہی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لینن مادیت اور سوشلزم کی پرانی کتابوں کا روسی ترجمہ جلد از جلد شائع کرنے کے لیے بے چین تھا۔ وہ ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ انقلابی مینار کھڑے کر دینا چاہتا تھا تاکہ ہم جو کام کر رہے تھے وہ لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو جائے۔
سوویت کے عوامی کمیسار* کا ہر اجلاس ارکان کے رد و بدل سے قانون سازی کے کام میں بری طرح مصروف رہتا۔ ہر کام شروع سے کرنا پڑتا تھا۔ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں تھی۔ لینن سوویت اور عوامی کمیساروں کے اجلاس میں ہر روز پانچ چھ گھنٹے بے تکان بیٹھا رہتا۔
مسئلے کسی تیاری کے بغیر لائے جاتے اور وہ فوری نوعیت کے ہوتے، بعض اوقات سوویت کے ارکان کو یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ وہ سوویت میں کس مسئلے پر بات کرنے جا رہے تھے۔ مباحث بڑے گرما گرم ہوتے۔ گزشتہ اجلاس کی کاروائی پڑھنے کے لیے فقط دس منٹ دیے جاتے۔ وقت بچانے کی خاطر لینن ارکان سے کہتا کہ ان کے پاس جو اطلاع تھی فوری طور پر لکھ کر بھجوا دیں۔ ارکان کی طرف سے جو مواد آتا وہ بعض اوقات قانونی نقطہ نظر سے بڑا مزیدار ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے ان کازیادہ حصہ اب موجودہ نہیں ہے۔ یہ مواد اس نوٹ کی پچھلی طرف لکھا ہوتا تھا جو لینن ارکان کو بھجواتا تھا۔ لینن پڑھ کر ان میں سے اکثر کاغذ پھاڑ دیتا۔ مناسب وقت پر لینن اپنے فیصلے سنا دیتا۔ اس وقت اس کی آواز بڑی گھمبیر ہوتی۔ اس کے بعد بحث بند ہو جاتی۔ کسی نے کوئی تجویز دینی ہوتی تو دے دیتا۔ اس کے بعد لینن کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ قانون کا درجہ حاصل کر لیتے۔
اس کام میں دوسری خوبیوں کے علاوہ تخلیقی فکر کی بے حد ضرورت تھی۔ ایسی فکر کی ایک بڑی خوبی لوگوں، اشیا اور واقعات کو نہ دیکھنے کی صورت میں بھی ان کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنا ہوتا ہے۔ یعنی کوئی چیز حقیقت میں کس طرح وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ لینن کا تصور حقیقت پسندانہ تھا اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی تھی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قانون سازی میں غلطیوں اور تضادات کا ارتکاب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن لینن نے مجموعی طور پر سمولنی کے ایام میں جو قانون سازی کی، انقلاب کا بحرانی اور طوفانی زمانہ ہونے کے باوجود وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک نئی دنیا کے قوانین کی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ اس سے ماہرین عمرانیات اور مؤرخ ہی نہیں، قانون ساز ادارے بھی استفادہ کریں گے۔
حواشی
*عوامی کمیسار کی سوویت (مجلس) یو-ایس-ایس-آر کی مجلس عاملہ کا بااختیار ادارہ ہے۔ یہ سوویتوں کی کانگریس کے جلسوں میں قانون سازی کا کام کرتی ہے۔ مرکزی مجلس عاملہ کو ”مرکزی کمیٹی“ سے غلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر یوں ہو جاتا ہے۔ مؤخرالذکر کا تعلق روسی کمیونسٹ پارٹی سے ہے۔ (مترجم)



















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance