|تحریر: لیون ٹراٹسکی، ترجمہ: ولید خان|
امریکی سوشلسٹ ورکرز پارٹی میں بحث مباحثہ جمہوری اور تفصیلی تھا۔ مکمل وفاداری کے ساتھ کنونشن کی تیاریاں کی گئی تھیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اقلیت نے کنونشن میں شرکت کرتے ہوئے اس کی قانونی حیثیت اور اتھارٹی کو تسلیم کیا۔ اکثریت نے اقلیت کو تمام درکار ضمانتیں فراہم کیں کہ وہ کنونشن کے بعد اپنے خیالات کی جدوجہد جاری رکھ سکتے ہیں۔ اقلیت نے پارٹی سے بالاتر ہو کر عوام سے اپیل کرنے کی اجازت مانگی۔ ظاہر ہے کہ اکثریت نے اس مکروہ عمل کی مخالفت کی۔ اس دوران پارٹی کی پیٹھ پیچھے اقلیت نے اپنی خفیہ چالبازیاں جاری رکھیں اور ”نیو انٹرنیشنل“ پر قبضہ کر لیا جسے پوری پارٹی اور چوتھی انٹرنیشنل کی کاوشوں کے بعد شائع کیا گیا تھا۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ اکثریت متفق تھی کہ اس نظریاتی اوزار کے ادارتی بورڈ کے پانچ میں سے دو عہدے اقلیت کو دے دیے جائیں۔ لیکن ایک پرولتاری پارٹی میں ایک دانشور ”اشرافیہ“ اقلیت کے طور پر کیسے رہ سکتی ہے؟ ایک پروفیسر کو ایک محنت کش کے برابر کھڑا کر دینا۔۔ ظاہر ہے یہی تو ”افسر شاہانہ رجعت“ ہے!
میرے خلاف ایک حالیہ بحث مباحثے میں برنہام (Burnham) نے بیان دیا کہ سوشلزم ایک ”اخلاقی نظریہ“ ہے۔ یقیناً یہ الزام نیا نہیں ہے۔ پچھلی صدی کے اوائل میں ”حقیقی جرمن سوشلزم“ کی بنیاد اخلاقیات تھیں جس پر مارکس اور اینگلز نے اپنی سرگرمیوں کے اوائل سے ہی تنقید شروع کر دی تھی۔ ہماری صدی کے اوائل میں روسی سوشل انقلابیوں نے مادی سوشلزم کے مقابلے میں ”اخلاقی نظریات“ کو لا کر کھڑا کر دیا۔ صد افسوس کہ اخلاقیات کے یہ مبلغ سیاست کے میدان میں عام نوسر باز ثابت ہوئے۔ انہوں نے بورژوازی اور بیرونی سامراج کے لیے 1917ء میں محنت کشوں کو دھوکہ دیا۔
طویل سیاسی تجربے نے مجھے سکھایا ہے کہ جب بھی ایک پیٹی بورژوا پروفیسر یا صحافی بلند اخلاقی معیار کی بات کرنا شروع کر دے تو آپ کو اپنی جیب میں پڑی نوٹ بک پر ہاتھ مضبوط کر لینا چاہیے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک ”اخلاقی نظریے“ کے دفاع میں ایک پیٹی بورژوا دانشور نے پرولتاری پارٹی کی جیب کاٹ کر اس کا نظریاتی اوزار چوری کر لیا ہے۔ یہ ان اختراع پسندوں، اخلاقی مبلغوں اور جمہوریت کے علم برداروں کے حقیقی تنظیمی طریقہ کار کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔
ایک ”تعلیم یافتہ“ پیٹی بورژوازی کے لیے پارٹی جمہوریت کیا ہے؟ ایک ایسا سیٹ اپ جس میں وہ جو مرضی کہتا اور لکھتا پھرے۔ ایک ”تعلیم یافتہ“ پیٹی بورژوازی کے لیے ”افسر شاہی“ کیا ہے؟ ایک ایسا سیٹ اپ جس میں محنت کش اکثریت جمہوری طریقہ کار کے ذریعے اپنے فیصلوں اور ڈسپلن کو لاگو کرتی ہے۔ محنت کشو، یہ بات مضبوطی سے ذہن نشین کر لو!
SWPکی پیٹی بورژوا اقلیت انقلابی مارکسزم کے خلاف جدوجہد کی بنیاد پر محنت کش اکثریت سے علیحدہ ہو گئی۔ برنہام نے اعلان کیا کہ جدلیاتی مادیت اور اس کی غلیظ ”سائنس“ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ شاخت مان (Shachtman) نے اعلان کیا کہ ”عملی فرائض“ کے نکتہ نظر سے انقلابی مارکسزم کی کوئی حیثیت نہیں۔ اپیرن (Abern) نے فوری طور پر مارکسزم مخالف بلاک کے ساتھ مل کر اپنی دکان کھول لی۔ اور اب یہ حضرات پارٹی سے چوری کردہ میگزین کو ”انقلابی مارکسزم کا ایک ہتھیار“ بتا رہے ہیں۔ اگر یہ نظریاتی نوسر بازی نہیں تو پھر کیا ہے؟ قارئین ان مدیران سے مطالبہ کریں کہ وہ اقلیت کا پروگرام پر واحد کام یعنی برنہام کا مضمون ”سائنس اور اسٹائل“ شائع کر دیں۔ اگر مدیران ایک پھیری والے کی تقلید کرنے کی تیاری نہیں کر رہے تھے، جو خوشنما لیبل کے ساتھ گھٹیا سامان بیچتا ہے، تو انہیں خود ہی یہ مضمون شائع کر دینا چاہیے تھا۔ پھر سب کو پتا لگ جاتا کہ کس قسم کا ”انقلابی مارکسزم“ یہاں بیچا جا رہا ہے۔ لیکن ان میں ہمت نہیں ہے۔ وہ اپنا اصلی چہرہ دکھانے سے ڈرتے ہیں۔ برنہام کو اپنے راز افشا کرتے مضامین اور قرار دادیں بریف کیس میں چھپانے میں کافی مہارت حاصل ہے جبکہ اپنے خیالات کی عدم موجودگی میں شاخت مان کا تو پیشہ ہی دوسرے افراد کے خیالات کی وکالت کرنا ہے۔
چوری شدہ میگزین میں ”پروگرام“ پر ابتدائی مضامین نے پہلے ہی اس نئے مارکسزم مخالف گروہ کی پست عقل اور کھوکھلے پن کو واضح کر دیا ہے جو ”تیسرے کیمپ“ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ یہ کیسا جانور ہے؟ ایک سرمایہ داری کا کیمپ ہے، ایک محنت کشوں کا کیمپ ہے۔ لیکن کیا ایک ”تیسرا کیمپ“ بھی ہے۔۔ ایک پیٹی بورژوا پناہ گاہ؟ حقیقت میں یہ اور کچھ بھی نہیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح پیٹی بورژوا اپنے ”کیمپ“ کو لفاظی کے کاغذی پھولوں میں چھپا لیتا ہے۔ غور سے سنو! ایک کیمپ ہے: فرانس اور انگلینڈ۔ ایک اور کیمپ ہے: ہٹلر اور سٹالن۔ اور ایک تیسرا کیمپ: شاخت مان کے ساتھ برنہام۔ ان کے لیے چوتھی انٹرنیشنل ہٹلر کا کیمپ ہے (سٹالن نے عرصہ دراز پہلے یہ دریافت کر لیا تھا!)۔ پس پھر ایک نیا عظیم نعرہ ہمارے سامنے ہے: دنیا بھر کے حواس باختہ اور امن پسندو، قسمت کے دھتکارے لوگو، ”تیسرے“ کیمپ میں شامل ہو جاؤ!
لیکن سارا مسئلہ یہ ہے کہ دو متحارب کیمپوں سے بورژوا دنیا کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی۔ غیر جانب دار اور نیم جانب دار ممالک کا کیا بنے گا؟ امریکہ کا کیا ہو گا؟ اٹلی اور جاپان کو کس کیمپ میں ڈالنا ہے؟ اسکینڈانیویا کے ممالک؟ انڈیا؟ چین؟ ہمارے ذہنوں میں انقلابی انڈین یا چینی محنت کش کے برعکس انڈیا اور چین بطور جبر کے شکار ممالک ہیں۔ تین کیمپوں کے حوالے سے بچگانہ سوچ ایک اہم تفصیل نظر انداز کر دیتی ہے: نوآبادیاتی دنیا جو انسانیت کا سب سے بڑا حصہ ہے!
انڈیا سامراجی جنگ میں برطانیہ کی جانب سے شامل ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا انڈیا۔۔ انڈین بالشویک نہیں بلکہ انڈیا۔۔ کی جانب وہی رویہ ہے جو برطانیہ کی جانب ہے؟ اگر شاخت مان اور برنہام کے علاوہ اس دنیا میں دو ہی سامراجی کیمپ ہیں تو پھر مجھے سوال کرنے کی اجازت دیں کہ، انڈیا کا کیا کرنا ہے؟ ایک مارکس وادی کہے گا کہ انڈیا برطانوی سلطنت کا ایک کلیدی حصہ ضرور ہے اور سامراجی جنگ میں شامل ہے، لیکن گاندھی اور دیگر قومی قائدین کی غلیظ پالیسیوں کے باوجود، ہمارا انڈیا کی جانب رویہ برطانیہ کے بارے میں رویے سے بالکل مختلف ہے۔ ہم برطانیہ کے خلاف انڈیا کا دفاع کرتے ہیں۔ تو پھر سوویت یونین کی طرف ہمارا رویہ جرمنی کی طرف رویے سے مختلف کیوں نہیں ہو سکتا اگرچہ کہ سٹالن ہٹلر کا اتحادی ہے؟ ہم محض انحطاط کے حامل رجعتی رجحانات کے خلاف ممکنہ طور پر ترقی پسندانہ سماجی بنتروں کا دفاع کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم یہ کام کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں یہ ہر صورت کرنا ہے! چوری کردہ میگزین کے نظریہ دان طبقاتی تجزیے کی جگہ ایک میکانیکی سمجھ بوجھ تعمیر کر رہے ہیں جو اپنی بظاہر ہم آہنگی کی وجہ سے پیٹی بورژوازی کے لیے بہت پُرکشش ہے۔ جس طرح سٹالنسٹ قومی سوشلزم (نازیوں) کی اپنی جی حضوری کو سامراجی جمہوریتوں پر شدید تنقید کے پردے میں چھپاتے ہیں، اسی طرح شاخت مان اور دیگر امریکی پیٹی بورژوا عوامی رائے کے سامنے سجدہ ریزی کو ”تیسرا کیمپ“ کی بھونڈی لفاظی میں چھپاتے ہیں۔ جیسے یہ ”تیسرا کیمپ“ (کیا ہے؟ ایک پارٹی؟ ایک کلب؟ مردہ امیدوں کی ایک لیگ؟ ایک ”عوامی فرنٹ؟“) پیٹی بورژوازی، ٹریڈ یونینز، انڈیا اور سوویت یونین کے حوالے سے ایک درست پالیسی بنانے کی ضرورت سے آزاد ہے!
ابھی پریس میں شاخت مان نے اپنے آپ کو ”ٹراٹسکائیٹ“ کہا ہے۔ اگر یہ ٹراٹسکی ازم ہے تو کم از کم میں ٹراٹسکائیٹ نہیں ہوں! شاخت مان اور برنہام کے موجودہ نظریات سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں ماضی میں ”نیو انٹرنیشنل“ کے ساتھ فعال تعاون کرتا رہا ہوں۔ میرے خطوط شاخت مان کی نظریات کی جانب غیر سنجیدگی اور برنہام جیسے مغرور پیٹی بورژوا مسخرے کو غیر اصولی چھوٹ دینے پر تنقید سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن اس وقت برنہام اور شاخت مان کو پارٹی اور انٹرنیشنل نے قابو کر کے رکھا ہوا تھا۔ آج پیٹی بورژوا جمہوریت کے دباؤ نے ان کو شتر بے مہار بنا دیا ہے۔ ان کے نئے میگزین پر میرا وہی رویہ ہے جو مارکسزم کے خلاف تمام جھوٹی نوسر بازیوں کے بارے میں ہے۔ جہاں تک ان کے ”تنظیمی طریقہ کار“ اور سیاسی ”اخلاقیات“ کا تعلق ہے، تو میرے پاس ان کے لیے حقارت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اگر طبقاتی دشمنوں کے ایجنٹ دانستہ طور پر شاخت مان کے ذریعے کام کر رہے ہوتے تو اب تک وہ جو کچھ خود کر چکا ہے اس کے حوالے سے وہ اسے مزید کوئی اور مشورہ نہ دیتے۔ وہ مارکس وادیوں کے مخالفین کے ساتھ مل کر مارکسزم کے خلاف ایک جدوجہد کر رہا ہے۔ اس نے محنت کشوں کے خلاف ایک پیٹی بورژوا دھڑا قائم کرنے میں مدد کی ہے۔ اس نے داخلی پارٹی جمہوریت کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش اکثریت کو قائل کرنے کی کوئی ایماندار کوشش نہیں کی۔ اس نے ایک عالمی جنگ کی موجودگی میں ایک سپلٹ منظم کی ہے۔ اس سب سے بڑھ کر اس نے اس سپلٹ پر ایک نیچ اور گھٹیا اسکینڈل کا پردہ ڈال دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خاص طور پر ہمارے مخالفین کو مسلح کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ ہے ان ”جمہوریت پسندوں“ کی اوقات، یہ ہیں ان کی ”اخلاقیات“۔
لیکن اس سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ یہ دیوالیہ ہیں۔ پاگل دانشوروں کی غداریوں اور ان کے جمہوری رشتہ داروں کی سستی لفاظی کے باوجود، چوتھی انٹرنیشنل اپنا مارچ جاری رکھے گی، حقیقی محنت کش انقلابیوں کی آبیاری اور ان کی تربیت کرتی رہے گی، جنہیں ادراک ہو گا کہ پارٹی کیا ہے، جھنڈے سے وفاداری کے کیا معنی ہیں اور انقلابی ڈسپلن کا کیا مطلب ہے۔
محنت کشو، آگے بڑھو! پیٹی بورژوا کے ”تیسرے فرنٹ“ پر ہمارا ایک ٹکے کا اعتماد نہیں!
23اپریل، 1940ء