امریکہ: سمندری طوفان کی تباہ کاریاں اور سرمایہ داری کا بحران

|تحریر: جان پیٹرسن، ترجمہ: ولید خان|

سمندری طوفانوں کترینا اور سینڈی کی طرح ہاروی نے ایک بار پھر عوام کی فلاح و بہبود پر منافعوں کی گلی سڑی فوقیت کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ عمر رسیدہ لوگوں کی نرسنگ ہومز میں تکلیف دہ تصویریں، جن میں وہ وہیل چیئروں میں قید، چھاتی تک پانی میں ڈوبے امداد کا انتظار کر رہے ہیں، صورتحال کی عکاسی کیلئے کافی ہیں۔ ’’لیکن نظام شدید دباؤ کا شکار تھا!‘‘

To read this article in English, click here

واقعی نظام شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یہ انسانیت کی پیداواری اور تخلیقی قوتوں کا ساتھ نہیں دے سکتا کیونکہ اس پر مصنوعی حد بندیاں ہیں؛ جیسا کہ منافع کا حصول اور قومی ریاست۔ ہاروی نے عیاں کر دیا ہے کہ نظام کسی بھی تباہ کاری کا سامنا نہیں کر سکتا؛ درحقیقت سرمایہ داری خود سب سے بڑی تباہ کاری ہے۔

اسی اثنا میں، ان اعصاب شکن حالات میں انسانیت کے اجتماعی حوصلے اور انسان دوستی کے ناقابل فراموش مناظر بھی دیکھنے کو ملے: اپنی ذات سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ اور وسائل کی بے لوث شراکت داری۔ موسمی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے میں شاید دیر ہو چکی ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ سماج کی از سر نو تشکیل کر کے ان اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کیلئے ضرورت سے زیادہ دولت موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ذاتی ملکیت کی قید میں ہے۔ محنت کش طبقے کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ یہ دولت، جسے محنت کرتے ہاتھوں اور دماغوں نے پیدا کیا ہے، ان چند ہاتھوں سے چھین لی جائے اور اس کا منصوبہ بند استعمال کرتے ہوئے ہر انسان کے معیار زندگی کو ناقابل یقین بلندیوں تک پہنچا دیا جائے۔

ہاروی نے یہ بھی بتلا دیا کہ حالات کتنی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں: کیسے ایک دیوہیکل جدید شہر تباہ وبرباد ہو جاتا ہے اور روزمرہ کی زندگی اور معاشی سرگرمیاں کیسے لمحہ بھر میں برباد ہو کر رہ جاتی ہیں، کیونکہ سمندری طوفان ہی وہ واحد تباہی نہیں جو انسانیت پر منڈلا رہی ہے۔

Embed from Getty Images

عظیم اقتصادی بحران کو شروع ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اعدادوشمار کے مطابق ہم ایک نئی معاشی مندی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ کسی کو یہ خوش فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ سرمایہ داروں نے پچھلے بحران سے سبق سیکھ لیا ہے اور ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔ اتار چڑھاؤ سرمایہ داری کا قبر تک پیچھا کریں گے اور ایک قیامت خیز گراوٹ تیزی سے پک رہی ہے۔ سرمایہ داروں نے پچھلی ایک دہائی میں، اپنے تمام تر وسائل استعمال کر تے ہوئے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈال کر اس تندوتیز طوفان کے نئے تھپیڑوں سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ اب کی بار بینکوں اور بیمہ کمپنیوں کی مالی امداد کیلئے عوام کو بیوقوف بنانا آسان نہیں ہو گا۔ اب وہ وقت بیتے عرصہ ہو چکا ہے جب بحران کی شدت اور صدمے نے عوام کی اجتماعی سوچ مفلوج کر دی تھی اور انہوں نے اوبامہ کے ’’امید اور تبدیلی‘‘ کے جھوٹے وعدے پر اعتماد کر لیا تھا، جس کی وجہ سے سرمایہ داروں کو ’عظیم دھوکہ‘ دینے کا موقعہ مل گیا تھا۔ اب کی بار چوک اور گلیاں غصے سے ابل پڑیں گے اور سوشلزم اور انقلاب کی بازگزشت چاروں اطراف سنائی دے گی۔

دنیا کے سنجیدہ سرمایہ دار اپنے نظام کی فعالی کے حوالے سے مکمل طور پر مایوس ہیں۔ جیکسن ہول میں سرمایہ داروں کے سالانہ اجتماع کے حوالے سے نیو یارک ٹائمز اس خوف و ہراس کا تجزیہ یوں کرتا ہے کہ ’’دنیا کی تمام بڑی معیشتیں بحران کے بعد پہلی مرتبہ بڑھ رہی ہیں لیکن یہ نمو کمزور اور بدمزہ ہے: مالیاتی نگران ڈی ریگولیشن کے خلاف خبردار کر تے رہے۔ آزاد تجارت کے حامی تحفظ پسندی کے خلاف خبردار کرتے رہے۔ فیڈرل ریزرو بینک کے ایک گورنر، جیروم ایچ پاؤل نے اس ناقابل یقین صورتحال کا عندیہ دیا کہ ہو سکتا ہے امریکہ اپنے قرضے واپس نہ کر سکے۔ ۔ ۔ مرکزی بینکوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، وہ کر رہے ہیں، اور نمو سست روی کا شکار ہے کیونکہ ایسے ساختیاتی مسائل موجود ہیں جن کیلئے کسی اور طرح کی پالیسیاں درکار ہیں۔ ‘‘

دوسرے الفاظ میں وہ، وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو کر سکتے ہیں لیکن ان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اپنے ہی نظام کو کیسے چلانا ہے۔ نہ تو مونیٹری (مارکیٹ میں روپے پیسے کی ترسیل کو گھٹانا یا بڑھانا)اور نہ ہی فسکل (شرح سود کو کم یا زیادہ کرنا) پالیسیاں نظام کے نامیاتی تضادات کو حل کر سکتی ہیں، ان کا حل صرف انقلاب میں ہی موجود ہے۔ اپنی معیشت کے دیو ہیکل حجم اور اثرورسوخ کی وجہ سے امریکہ اوسط درجے، یہاں تک کہ نا اہل قیادت کے ساتھ، ایک طویل عرصہ گزار سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی حیران کن معاشی بڑھوتری کے دور میں، عالمی معیشت کے سب سے بڑے انجن کے طور پر غلطیوں اور کچھ سماجی فلاح کے خرچوں کی گنجائش کے ساتھ دیو ہیکل سامراجی مہم جوئیوں کی گنجائش موجود تھی، جیسا کہ ہم نے ویتنام جنگ اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں دیکھا۔

لیکن حتمی تجزیئے میں، حکمران طبقے کی قیادت اس معیشت کی عکاسی کر تی ہے جس کی بنیاد پر اس کی حکمرانی قائم ہوتی ہے۔ 2008ء سے پہلے یہ ناممکن تھا کہ ٹرمپ اپنے طبقے کی مرضی کے بغیر اقتدار کے ایوان تک جا پہنچے۔ لیکن 1930ء کی دہائی کے بعد کے سب سے بڑے معاشی بحران نے پورے سماج کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ ۔ اور کسی طویل عرصے کیلئے توازن کو برقرار رکھنا اب سرمایہ داری میں ممکن نہیں۔

اگر عقل مند بورژوا بھیانک ہوتے بحران کو ختم کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ٹرمپ ان سے ہزار گنا زیادہ نا اہل ہے۔ جب تباہ کاری کا نیا دور شروع ہو گا تو ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ کی آمرانہ، بدمعاش جبلت پھٹ کر سامنے آ جائے گی جس کے ساتھ ہی وہ قصور وار ٹھہرانے والوں کی تلاش اور نظام کو بچانے کی کوشش میں اندھا ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کے سب سے زیادہ قابل اعتماد حواریوں کیلئے بھی یہ چھپانا مشکل ہو جائے گا کہ وہ درحقیقت کس طبقے کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر واشنگٹن میں گردش کرتی افواہوں میں کوئی سچائی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس سارے معاملے سے پہلے ہی ٹرمپ استعفیٰ دے دے۔ اگر ایسا ہوا، یا اس کا مواخذہ کر کے یا کسی اور طرح سے اسے ہٹایا گیا تو یہ سب سے پہلے حکمران طبقے کی جیت ہو گی جو اسے کبھی بھی وائٹ ہاؤس میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور اس وقت پوری کوشش کر رہا ہے کہ یا تو وہ راستے سے ہٹ جائے یا مکمل طور پر مطیع ہو جائے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ٹرمپ کے مخالفین کی حوصلہ افزائی تو ہو گی لیکن بنیادی طور پر کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ پورے کا پورا نظام جوں کا توں موجود رہے گا اور ہمارا مقابلہ نظام کے وفادار صدر پینس سے ہو گا، اور ڈیموکریٹک پارٹی سے ہو گا جو اس ساری صورتحال کا سہرا اپنے سر باندھ کر محنت کشوں کو ایک ایسی پارٹی کو ووٹ ڈلوانے کی کوشش کرے گی جو ان کی کسی بھی حوالے سے نمائندہ نہیں۔

افق پر امید کی ایک کرن ہے اور وہ ہے DSA(ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ) کی تیزی سے بڑھوتری اور اس کے حالیہ کنونشن کی شاندار کامیابی، جس میں موجود ہزاروں نئے ممبران کی توانائی نے اسے ایک نئی تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ بالآخر ریڈیکلائز ہوتے ہوئے امریکی مزدوروں اور نوجوانوں کو ملک بھر میں دلچسپی اور سوشلزم کی جدوجہد کیلئے ایک نقطہ آغاز مل گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تمام شہریوں کیلئے مفت علاج کے حوالے سے جدوجہد میں بھی DSA کا کلیدی کردار بنتا جا رہا ہے۔ برنی سینڈرز ’’تمام شہریوں کیلئے علاج‘‘ کا ایک بل کانگریس میں لا رہا ہے لیکن تجربے نے یہی سکھایا ہے کہ قانون سازی کی سفارش کر نے اور اسے حقیقت بنانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ صحت کی سہولیات دینے والی کمپنیوں، بڑی دوا ساز کمپنیوں، بڑے ہسپتالوں کے نیٹ ورکوں اور ان کے ساتھ جڑے کلینکوں کو قومیا کر ریاستی تحویل میں جمہوری کنٹرول کے ساتھ چلانے کیلئے محض چند ایک سیاست دان کافی نہیں جو اسے اوپر سے مسلط کریں! عوامی تحرک اور ہڑتالوں کی ضرورت ہو گی، یہاں تک کہ ایک عام ہڑتال کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ حتمی تجزیئے میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز میں سے کوئی بھی حقیقی ’’عوامی صحت کی سہولیات‘‘ نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ ہزار تانوں بانوں سے وال سٹریٹ اور بالا 1فیصد کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ خاص طور پر اپنے نظام کو لاحق جان لیوا بحران میں تو بالکل نہیں کریں گے۔

تمام خاطر خواہ اصلاحات انقلابی دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ لیکن، جہاں ہم مثبت اصلاحات، جیسے تمام شہریوں کیلئے صحت کی سہولیات کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں، وہیں پر ہمیں اس بحران زدہ، انقلاب اور رد انقلاب کے عہد میں سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے چند سطحی اصلاحات پر اکتفا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس طرح کی اصلاحات پر ہر وقت مستقبل میں رد انقلابی حملوں کی تلوار لٹکتی رہے گی بلکہ ان اصلاحات کو جیتنے کیلئے جو منظم توانائی اور جدوجہد چاہیے اس کے ذریعے اس پورے نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقہ اکثریت میں ہے اور حکومت اور معیشت ہمارے جمہوری کنٹرول میں ہونی چاہیے، صرف امریکہ میں ہی نہیں۔ اگر ہم لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور دنیا کے حوالے سے ’’امریکی ہاتھ پیچھے ہٹاؤ‘‘ کے متعلق سنجیدہ ہیں تو پھر محنت کش طبقے کو یہ ہاتھ کنٹرول کرنے پڑیں گے۔ صرف اسی صورتحال میں ہم اپنے وینزویلی، فلسطینی، کیوبن اور شامی بہنوں اور بھائیوں کی ایک بہتر دنیا کے حصول کیلئے فیصلہ کن مدد کر سکتے ہیں!

یہ سب کچھ جیتنے کیلئے جوش و ولولے اور مستعدی سے زیادہ بڑے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں نظریات، تناظر اور تنظیم کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی عالمی سطح پر ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم آج اس انقلابی نظم و ضبط کوتراشیں جس کی ظاہری طور پر تو آج ہمیں ضرورت نہ ہو، لیکن اس کو اس وقت تخلیق نہیں کیا جا سکتا جب اس کی ہمیں واقعی ضرورت پڑے گی۔ اور ہمیں توقعات سے قبل اس کی ضرورت پڑسکتی ہے۔  

سوویت یونین کے انہدام کے بعد تمام تہمتوں، الزامات اور دباؤ کے باوجود IMT(عالمی مارکسی رجحان) نے سخت ترین حالات میں جان توڑ جدوجہد کے ساتھ مارکسزم اور سوشلسٹ انقلاب کا علم بلند رکھا۔ پوری دنیا میں انقلابی قوتیں بیدار ہو رہی ہیں اورIMT ہر جگہ اپنے کامریڈوں کے ساتھ برازیل PSOL، پوڈیموس، کوربن تحریک، باغی فرانس اور چالیس سے زائد ممالک میں اس جدوجہد میں شانہ بشانہ شریک ہے۔

شارلوٹس ویل کے واقعات سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ داؤ پر کیا کچھ لگا ہوا ہے۔ چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں، تاریخ نے آج کی نسل کے سامنے انسانیت کا سب سے سلگتا سوال رکھ دیا ہے: انسانیت کا مستقبل کیا ہو گا؟ سوشلزم یا بربریت؟ ہم رجعتی قوتوں اور انسانیت کی بقا کیلئے لڑنے والوں کے درمیان زندگی اور موت کی کشمکش دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ’’مردہ سرمایہ داری‘‘ کا خیال سوشل میڈیا کے تصور میں گھر کر گیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کو غیر شعوری طور پر ادراک ہو رہا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے، کہ نظام عمر رسیدہ اور بوسیدہ ہو چکا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا پاتے ہوئے اسے دفنا دیا جائے، اس سے پہلے کہ یہ ہمیں اپنے ساتھ دفنا ڈالے۔

انسانیت کو سوشلزم کی اسی طرح سے ضرورت ہے جیسے کہ انسانی جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر زیادہ وقت نہیں گزارا جا سکتا۔ ہاں، ہم اصلاحات کیلئے لڑتے ہیں، لیکن اصلاح پسندی سماج کو سرمایہ داری کے کینسر سے بچانے کیلئے کافی نہیں۔ آنے والے وقت میں محنت کشوں کا نصب العین ہونا چاہیے کہ ایک عوامی انقلابی سوشلسٹ پارٹی کی تعمیر کی جائے جس کا مقصد حیات ہی سرمایہ داری کا خاتمہ ہو، جس کے بغیر محنت کش اپنے منظم اور سرمائے سے لیس طبقاتی دشمنوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ نجی ملکیت، استحصال اور ظلم کا انقلابی خاتمہ عہد حاضر کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور ہم اسے قبول کرتے ہیں!

Comments are closed.