|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
’’وینزویلا میں کُو ہو چکا ہے! مادورو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے!‘‘ جمہوری طریقہ کار سے منتخب سابق صدر شاویز کے خلاف ہونے والے ایک مختصر کُو کے 15سال مکمل ہونے (11-13اپریل 2002ء) سے چند روز قبل کُو کرنے والے (ونیزویلی اشرافیہ، واشنگٹن میں موجود ان کے آقا اور ان کے بیونس آئرس، برازیلیا، سانتیاگو اور لیما میں موجود پالتو کتے، اور میڈرڈ اور امریکہ میں موجود خوشامدی ذرائع ابلاغ کے خوشی سے پاگل ہوتے بھیڑیے) گیدڑوں کی طرح چیخ چلا رہے ہیں کہ صدر مادورو نے ’’اپنے ہی خلاف کُو‘‘ کر دیا ہے۔
To read this article in English, click here
حقائق کیا ہیں؟ اس منافقانہ چیخ و پکار کی فوری وجہ سپریم کورٹ آف جسٹس (TSJ) کا 29مارچ کو آنے والا فیصلہ ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یا تو اس کے تمام تر اختیارات کو TSJ اپنے قبضے میں لے گی یا کسی ایسے ادارے، جس کا تعین TSJ کرے گی، اس کے ماتحت تمام تر اختیارات کر دئیے
جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے صدر جولیو بورجز نے فوراً اس فیصلے کو ’’کُو‘‘ قرار دے دیا اور آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس(OAS) کے جنرل سیکرٹری لوئس الماگرو نے اسے ’’اپنے خلاف کُو‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر OASکی مستقل کونسل کے اجلاس کا مطالبہ کر دیا تاکہ وینزویلا کے خلاف اس کا جمہوری منشور حرکت میں لایا جا سکے۔ پیرو کی حکومت نے وینزویلا سے اپنا سفیر واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس فیصلے کی بنیادیں کیا ہیں؟ دسمبر 2015ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں دائیں بازو کی فتح کے بعد مختلف ریاستی قوتوں کے درمیان شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ پہلے ہی دسمبر 2015ء کے آخر میں TSJ نے فیصلہ سنا دیا تھا کہ ایمازوناس ریاست میں ممبران اسمبلی کے انتخاب میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں جس کے بعد انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کا حکم دیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کی ووٹوں کی خریداری سے متعلق شواہد بھی پیش کئے گئے تھے۔ اس کا اثر چار امیدواروں پر پڑا: دو حزب اختلاف سے، ایک PSUV سے، اور ایک مقامی قبائل کا مشترکہ امیدوار (حزب اختلاف کا حامی)۔ لیکن حزب اختلاف کے یہ تینوں امیدوار کلیدی اہمیت کے حامل تھے کیونکہ ان کی وجہ سے حزب اختلاف کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت اور بے تحاشہ اختیارت حاصل ہو جاتے۔ قومی اسمبلی نے TSJ کے حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ایمازوناس سے حزب اختلاف کے تینوں امیدواروں سے حلف لے لیا۔ TSJ نے پھر اس اقدام کو کالعدم اور سابقہ حکم نامے کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ قومی اسمبلی نے پسپائی کا راستہ اختیار کر لیا۔ جولائی میں پھر قومی اسمبلی نے تینوں امیدواروں سے حلف لے لیا۔ اگست 2016ء میں TSJ نے فیصلہ دیا کہ اس کے دو نوں فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے پر قومی اسمبلی کی صدارتی کونسل اور تینوں ممبران توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ریاستی اداروں کی بڑھتی ہوئی چپقلش میں قومی اسمبلی نے اکتوبر 2016ء میں ووٹ دے دیا کہ صدر مادورو کے خلاف ’’سیاسی مقدمہ‘‘ چلایا جائے اور ساتھ ہی اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کاروائی شروع کی جائے کہ مادورو نے ’’اپنے منصب سے علیحدگی‘‘ اختیار کر لی ہے۔ ان اقدامات کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک یہ دی گئی کہ مادورو وینزویلا کا شہری نہیں ہے اور اس وجہ سے صدر نہیں بن سکتا!!! بالآخر جنوری 2017ء میں قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ صدر مادورو نے واقعی ’’اپنے منصب سے علیحدگی‘‘ اختیا کر لی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں اس نے ’’منصب سے علیحدگی‘‘ اختیار کر لی اور ساتھ ہی ’’اقتدار پر غاصبانہ قبضے کیلئے کُو‘‘ بھی کر دیا، اس سوال کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں۔ اسی دوران قومی اسمبلی نے OAS سے اپیل بھی کی کہ وینزویلا کے خلاف اپنے جمہوری منشور کو نافذ کرے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وینزویلا کی خود مختاری میں مداخلت کیلئے بیرونی قوتوں کو کھلم کھلا دعوت دی جا رہی ہے جس سے وینزویلا کی اشرافیہ کے حقیقی کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ جمہوری منشور کو استعمال کرنے کی کوشش کو OAS میں ناکام بنا دیا گیا حالانکہ کچھ ممبران ممالک کو واشنگٹن کی طرف سے براہ راست دھمکیوں کا سامنا تھا۔
آخر میں حکومت نے TSJ سے پوچھا کہ کیا تیل کی صنعت میں مشترکہ تجارت کے حوالے سے حکومت کو اپنے فیصلے کی قومی اسمبلی سے توثیق کرانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے TSJ نے 29 مارچ کو اپنے فیصلے میں جواب دیا کہ کیونکہ قومی اسمبلی توہین عدالت کی مرتکب ہو چکی ہے اور اس کی طرف سے اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، اس لئے حکومت کو کسی فیصلے کو قومی اسمبلی میں توثیق کیلئے بھیجنے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ TSJ براہ راست قومی اسمبلی کے مقننہ اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لے گی یا پھر کسی دوسرے ادارے کے ماتحت کر دے گی۔ اس فیصلے سے ایک دن پہلے ہی یہ فیصلہ آ چکا تھا کہ قومی اسمبلی توہین عدالت کی مرتکب ہے اور اس کے ممبران اب پارلیمانی استثنا کا حق کھو چکے ہیں۔
اگر حزب اختلاف قومی اسمبلی میں واقعی اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہتی تو وہ بآسانی تینوں ممبران سے متعلق TSJ کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنے مقننہ اختیارات استعمال کرتی۔ لیکن حزب اختلاف ایسا کوئی کام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ وہ جتنا بڑا مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کسی طرح بھی مادورو کو صدارت سے ہٹانے کا جواز فراہم ہو۔ ہمیں 2002ء میں واقعی کُو کرنے والے تمام عناصر کی اس ریا کاری پر مبنی کمپین کی سخت مخالفت کرنا ہو گی جو اب مادورو کو اقتدار سے برطرف کرنا چاہتے ہیں اور وینزویلا میں بیرونی مداخلت کے مشتاق ہیں۔ اگر یہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں اس کامیابی کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہے: بولیوارین انقلاب کی تمام حاصلات کو تباہ کر دیا جائے گا، تمام سماجی فلاح کے کاموں کو ختم کر دیا جائے گا، قومیائی ہوئی اجارہ داریوں اور بڑی جاگیروں کو دوبارہ ان کے سابقہ مالکوں کو واپس کر دیا جائے گا، لیبر قانون کو ختم کر کے ریاستی اور نجی اداروں میں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو روزگار سے فارغ کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی، بعد از ریٹائرمنٹ پنشن میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی جائیں گی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کرتے ہوئے بنیادی جمہوری حقوق پر حملوں کی راہیں ہموار کی جائیں گی۔ اگر کسی کو اس تجزئیے پر کوئی شک و شبہات ہیں تو آپ کو صرف ارجنٹینا اور برازیل میں بر سر اقتدار آنے والی دائیں بازو کی حکومتوں کے ابتدائی اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وینزویلا میں یہ ہولناکی دس گنا زیادہ ہو گی۔
لیکن یہاں پر اصل سوال یہ نہیں ہے کہ قانون یا ضابطے کے حوالے سے کون صحیح ہے اور کون غلط۔ سماج میں موجود تمام بنیادی مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی اسی بنیاد پر حل ہوگا کہ حقیقی طاقت کس کے ہاتھ میں ہے: مسلح افواج اور /یا سڑکوں پر عوامی تحرک کے حوالے سے جو کہ ریاستی طاقت کو ختم کرسکے۔ فی الحال اس بات کے شواہد موجود نہیں کہ حزب اختلاف کے پاس دونوں میں سے کچھ بھی موجود ہے۔ وہ دن رات فوج سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ وہ ’’آئین کے دفاع میں‘‘ ( جو کہ بنیادی طور پر مادورو کو صدارت سے ہٹانے کی اپیل ہے) باہر نکلیں جن کی فی الحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی آخری کوشش ستمبر اور اکتوبر 2016ء میں کی گئی تھی جو کہ کسی ٹھوس اور فیصلہ کن حکمت عملی کی عدم موجودگی کی وجہ سے بری طرح ناکام ہو گئی۔ حزب اختلاف کے کچھ لیڈروں نے صدارتی محل میرافلوریس کی جانب مارچ کرنے کی کال دی لیکن جب مارچ کا دن آیا تو انہوں نے اپنے پروگرام سے پسپائی اختیار کر لی جس کی وجہ سے ان کے حامیوں میں سخت غصہ اور مایوسی پھیل چکی ہے۔
سرمایہ داروں کو رعایتیں انقلاب کیلئے تباہ کن ہیں
قانونی اور ادارہ جاتی سوالات سے آگے بڑھ کر ہمیں یہ پوچھنا پڑے گا کہ آخر مادورو کی حکومت اپنی طاقت سے کیا کام سرانجام دے رہی ہے؟ اس کی حکمت عملی کیا ہے؟ کچھ دن پہلے نکولس مادورو نے ایکسپو وینزویلا پوٹینشیا 2017ء کے تجارتی میلے میں کچھ ایسی باتیں کیں جن کے نتیجے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ اس کی حکمت عملی عالمی اورقومی سرمایہ داروں کو رعایتیں دیتے جانا ہے۔ اُس نے اس بات کی تردید کی کہ ’’ایک گھٹیا کمپیئن ہمارے خلاف چلائی جا رہی ہے کہ ہمارا معاشی نظام کمیونسٹ ہے اور ہم نجی تجارت کو رد کرتے ہیں۔ ‘‘ اس کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے ’’90فیصد معیشت نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ‘‘ (دراصل وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ 90فیصد کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں جو کہ بہرحال معیشت کا ایک بہت چھوٹا حصہ بنتا ہے )۔ پھر ساتھ ہی اس نے مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں کیلئے مزید مراعات کا اعلان کر دیا جن میں بولیوارین اور ڈالر کرنسی دونوں میں ریاستی بینکوں سے قرضوں کی فراہمی شامل ہے اور فارن کرنسی ایکسچینج کے ضابطوں میں مزید نرمی شامل ہے جس سے نجی کمپنیوں کو ڈالروں تک زیادہ آسان رسائی حاصل ہو گی(وہ ڈالر جو تیل کی صنعت کے منافعوں سے حاصل کئے جاتے ہیں)۔
بولیوارین تحریک میں ان بیانات اور اقدامات کی وجہ سے غصہ اور بے چینی پھیل رہی ہے۔ یہ مادورو حکومت کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنائی گئی: سیاسی اور ادارہ جاتی میدانوں میں حزب اختلاف کا مقابلہ کیا جائے جبکہ معاشی میدان میں سرمایہ داروں کو مستقل اور بتدریج مراعات دی جاتی رہیں۔ یہ وہ پالیسی ہے جو صرف اندھی کھائی کی طرف لے کر جاتی ہے۔ وینزویلا کی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے جسے بے پناہ افراط زر، بنیادی اشیائے خورد و نوش اور دوائیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ پیداوار مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ حتمی تجزئیے میں یہ بحران پیداواری قوتوں۔ ۔ جو کہ سرمایہ دارانہ اصولوں کے تحت کام کر رہی ہیں۔ ۔ کی پرائس اور فارن ایکسچینج کنٹرول کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف بغاوت ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں انہدام کی وجہ سے یہ بحران اور بھی زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ خوفناک حد تک کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور تیل کی فروخت کے ذریعے حاصل ہونے والے منافعوں میں بے پناہ کمی کا سامنا ہونے پر حکومت نے درآمدات پر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے قلت میں مزید تباہ کن اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ریاستی بجٹ کو سہارا دینے کیلئے، جس کا مسلسل خسارہ GDP کا 20-15فیصد ہے، پیسے کی مستقل چھپائی چل رہی ہے جس کی وجہ سے بے پناہ افراط زر بڑھ رہا ہے۔ وینزویلا میں سوشلزم ناکام نہیں ہواجو سرے سے موجود ہی نہیں تھا بلکہ ریاستی مداخلت کے ذریعے سرمایہ دارانہ معیشت کو منظم کر کے عوام کی بہتری کیلئے چلانے کی کوشش ناکام ہوئی ہے۔
اس معاشی بحران سے باہر نکلنے کے دو ہی راستے ہیں: ایک تو یہ کہ تمام پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ منڈی کو ’’معمول‘‘ کے مطابق کام کرنے دیا جائے جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقہ بحران کی تمام تر قیمت ادا کرے گا۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر مادورو حکومت شروع سے چل رہی ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں سے تمام تر ملکیت چھین لی جائے، معیشت کو جمہوری پیداواری طرز پر منظم کیا جائے جس سے عوام کی ضروریات کی تکمیل ہو اور ساتھ ہی خطے کے محنت کشوں اور کسانوں کو ایک عالمی اپیل کی جائے کہ وہ انقلاب کی مدد کو آئیں اور اسے برباد کرنے کی اپنے حکمران طبقے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرمایہ دار اس بحران کی قیمت ادا کریں گے۔
حکومت کی موجودہ پالیسی کے تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے لئے بحران اور شدید تر ہوتا جائے گا جس کی وجہ سے بولیوارین انقلاب کی حمایت میں اور زیادہ کمی آتی جائے گی۔ حکومت کے ذہن میں یہ حکمت عملی ہے کہ اس سال تیل کی عالمی قیمتیں 70-80ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں گی جس کی وجہ سے ریاست کے پاس وہ پیسے میسر ہوں گے جنہیں سماجی پروگراموں پر خرچ کرتے ہوئے کھوئی ہوئی عوامی حمایت دوبارہ حاصل کی جا سکے گی۔ اس کے بعد وہ زیادہ بہتر صورتحال کے اندر عام انتخابات کے عمل کا آغاز کریں گے۔ یہ صرف دیوانے کا خواب ہے۔ اوپیک اور روس کی تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے بعد تیل کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہوا تھا لیکن اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوا کیونکہ جیسے ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو امریکہ میں فریکنگ کے ذریعے تیل کی پیداوار منافع بخش ہونا شروع ہو گئی جس کی وجہ سے عالمی پیداوار میں اضافہ ہوا اور تیل کی قیمتیں پھر سے گراوٹ کا شکار ہو گئیں۔
سامراج اور اشرافیہ کی جارحیت کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟
اگر ہم کھل کر بات کریں تو موجودہ حکومت کی پالیسی صدر شاویز کی میراث سے واشگاف غداری ہے۔ موت سے پہلے اپنے آخری بیانات، Golpe de Timón (منزل کی جانب بڑھو) اور the Plan de la Patria Socialista (سوشلسٹ ملک کا منصوبہ) میں شاویز نے دو باتوں پر زور دیا: 1۔ ہم ابھی بھی سرمایہ دارانہ معیشت میں ہیں اور ہمیں ہر صورت سوشلزم کی طرف بڑھنا ہے؛ 2۔ ہمیں ہر صورت بورژوا(سرمایہ دار)ریاست کو تباہ کرنا ہو گا اور اس کی جگہ ’’کمیونل ریاست‘‘ تشکیل دینی ہو گی(یعنی جو سوشلسٹ کمیونوں پر مشتمل ہو)۔ تمام تر نقائص کے باوجود یہ درست خیالات تھے۔
بولیوارین تحریک کی موجودہ قیادت اور مادورو حکومت نے اس کے بالکل الٹ کام کیا ہے: معاشی میدان میں وہ مسلسل سرمایہ داروں کو رعایتیں دیتے جا رہے ہیں جبکہ سیاسی میدان میں انہوں نے عوامی شمولیت، محنت کشوں کے کنٹرول اورعام لوگوں کی طاقت کے تمام راستے مسدود کر دئیے ہیں۔
ان کے تمام تر ارادوں کے باوجود ہم واضح طور پر کہتے ہیں: یہ تمام تر پالیسیاں بولیوارین انقلاب کی شکست کا سبب بنیں گی اور اقتدار بورژوازی کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ یہ ایک قیامت ہو گی۔ اس قیامت کو ٹالنے کیلئے ہمیں سوشلزم کی جدوجہد اور بورژوا ریاست کی مخالفت کے راستے پر دوبارہ گامزن ہونا پڑے گا۔
سامراج اور وینزویلا کے سرمایہ داروں کے مسلسل حملوں کا سامنا کرتے ہوئے ان سب سے لڑنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟ سب سے پہلے تو وینزویلا کو واشنگٹن سے فوراً سفارتی تعلقات منقطع کر دینے چاہئیں جو اس کمپین کی نہ صرف قیادت کر رہا ہے بلکہ اسے ہر طرح کی معاونت فراہم کر تے ہوئے منظم بھی کر رہا ہے۔ دوسرا، وہ تمام ممالک جو وینزویلا کی قومی خود مختاری میں کھلم کھلا مداخلت کر رہے ہیں ان کی تمام اجارہ داریوں کو فوری طور پر قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ تیسرا، وینزویلا کی اشرافیہ کی تمام نجی ملکیت کو فوری طور پر قومی قبضے میں لے لیا جائے جو پچھلے پندرہ سالوں سے عوام کی خواہشات کا خون کرنے کی سازشوں میں لگی ہوئی ہے۔ چوتھا، فوری طور پر ہر کمپنی، ہر فیکٹری، ہر بیرک اور مضافات میں محنت کشوں، سپاہیوں اور کسانوں پر مشتمل سامراج اور سرمایہ دار مخالف کمیٹیاں بنائی جائیں۔ یہ کمیٹیاں اشرافیہ کی سازشوں کے خلاف مسلح ہوں۔ آخر میں بولیوارین انقلاب لاطینی امریکی اور عالمی محنت کشوں اور کسانوں سے اپیل کرے کہ وہ اس کی معاونت کیلئے آئیں اور رجعتی حکومتوں کی مداخلت کے خلاف جدوجہد کریں۔
صرف یہی وہ واحد پالیسی ہے جو انقلاب کے دفاع کی ضمانت ہے۔