بے لگام مہنگائی، بے روزگاری اور سماج میں پنپتی بغاوت

|تحریر: آدم پال|

مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اس کی تباہی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ پٹرول کی قیمت ایک سو پچیس روپے فی لٹر تک پہنچنے کے بعد بھی رکتی نظر نہیں آرہی بلکہ اس میں مزید بڑے اضافے کے امکان موجود ہیں۔ بجلی کے بلوں نے پہلے ہی بہت سے لوگوں کو شدید دلی صدمہ پہنچایا ہے لیکن اب پھر اس میں تین روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا جا رہا ہے اور اس کے بعد مزید اضافے کیے جائیں گے۔ گیس کی قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں اور آنے والی سردیوں میں اس میں مزیدبڑے اضافے کیے جائیں گے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ جہاں روز مرہ کی اشیا کی قیمتوں میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے وہاں اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں سب سے تیز ترین اضافہ ہوچکا ہے، بعض معاشی ماہرین کے مطابق یہ 30 فیصد کے افراط زر سے بھی زیادہ ہے جبکہ حقیقت میں یہ اس سے کہیں بڑا ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سی اشیا کی قیمتیں پچھلے چند ماہ میں دگنی ہو چکی ہیں۔ اس دوران آٹا، گھی، دالیں اور سبزیوں سمیت ہر استعمال کی شے عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے یہاں تک کہ ایک روٹی کا حصول جوئے شیر لانے کے برابر ہو چکا ہے۔

اس سارے عرصے میں روپے کی قدر میں مسلسل تیز ترین گراوٹ ہو رہی ہے اور وہ ڈالر کے مقابلے میں تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس گراوٹ میں بھی کمی آنے یا رُکنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے بلکہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ آنے والے عرصے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی جس سے ملکی معیشت کے بحرانوں میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث ملک میں ہونے والی تمام تر درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں جس کے باعث صنعتوں کے لیے درکار خام مال سے لے کر اشیائے خورد ونوش تک ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے اثرات پھر عام صارف پر مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان اس وقت جہاں ایکسپورٹ کی صنعت کے لیے درکار خام مال بڑے پیمانے پر امپورٹ کرتا ہے وہاں زرعی اجناس کی ایک بڑی تعداد بھی اب امپورٹ ہی ہوتی ہے۔ گندم اور چینی سے لے کر چائے کی پتی تک، عام استعمال کی ہزاروں اشیاء بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں جن کے لیے ادائیگی ڈالروں میں کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں درآمدی بل میں سب سے بڑا حصہ تیل کا ہوتا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کے باعث اس کے تباہ کن اثرات ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے عوام دشمن اور ظالم حکمران ملکی ترقی کے لیے برآمدات بڑھانے کی بہت سی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایکسپورٹ کی صنعت سے منسلک سرمایہ داروں کو اربوں روپے کی سبسڈی بھی عنایت کرتے جا رہے ہیں جو ان سرمایہ داروں کی جیبوں میں ہی جاتی ہے اور اس کا انتہائی کم حصہ ہی دوبارہ سرمایہ کاری میں لگتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بوسیدگی اور بربادی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر اگر ایکسپورٹ بڑھانے کی سنجیدہ کوشش کر بھی لی جائے تو بھی اس کا مطلب خام مال کی بڑے پیمانے پر امپورٹ کی شکل میں ہی نکلے گا اور حتمی طور پر تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ یعنی تیار اشیاء ایکسپورٹ کر کے ڈالر کمانے کے لیے جو خام مال امپورٹ کرنا پڑے گا اس کیبعد ڈالروں کی آمدن کم ہو گی جبکہ اخراجات مجموعی طور پر بڑھ جائیں گے اور تجارتی خسارہ بے لگام بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جو ایک طویل عرصے سے اس ملک کی زراعت، صنعت اور معیشت کے دیگر شعبوں کو بتدریج تباہ کرتا جا رہا ہے۔

یہ تمام صورتحال اب ایک معیاری تبدیلی کے نقطے تک پہنچتی جا رہی ہے خاص کر ایسے وقت میں جب امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو چکا ہے اور امریکہ سے ملنے والی امداد اور افغانستان میں آنے والے ڈالروں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ پہلے کابل میں امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کے لیے جو اربوں ڈالر کی رقم گزشتہ دو دہائی سے مسلسل آ رہی تھی وہ اب رک چکی ہے۔ کابل سے یہ ڈالر ملکی منڈی تک پہنچ جاتے تھے جس کے باعث یہاں پر روپے کی قدر کسی حد تک مستحکم رہتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور کابل حکومت کے پاس معیشت چلانے کے لیے کسی بھی قسم کی خاطر خواہ بیرونی امداد موجود نہیں۔ افغانستان اپنی بجلی اور تیل سے لے کر آٹا اور چینی تک دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتا ہے اور اس وقت وہاں پر تمام شیائے ضرورت کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں ڈالر کابل سے یہاں آنے کی بجائے واپس جا رہے ہیں جس کے باعث ملکی منڈی میں ڈالر کی قلت پیدا ہورہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید طوالت اختیار کرتا ہے تو افغانستان کا معاشی اور سماجی بحران پاکستان کی معیشت میں تیزی سے سرایت کر جائے گا اور یہاں کا مالیاتی ڈھانچہ مزید بحرانوں کا شکار ہو جائے گا۔ افغانستان کے بحران کے باعث وہاں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے جانے والی برآمدات بھی متاثر ہوئی ہیں جبکہ دو دہائیوں سے جاری اس جنگ کے نتیجے میں بننے والے معیشت کے بہت سے شعبے منہدم ہو چکے ہیں۔ نیٹو کے ٹرکوں کی آمد و رفت سے وابستہ روزگار اور کاروبار ہو یا سرحدی علاقوں میں ہونے والی تجارت سب گزشتہ دو دہائیوں میں باقاعدہ شکل اختیار کر چکے تھے جو اب ختم ہو چکے ہیں۔

افغانستان میں جاری امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو امریکہ کا اتحادی ہونے کے باعث نہ صرف بڑے پیمانے پر مالیاتی اور فوجی امداد ملتی رہی ہے بلکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بہت سی چھوٹ بھی دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ سلسلہ اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے اور پورے خطے میں ایک بالکل نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئی ہے جس میں پاکستانی ریاست کا کردار پہلے کی نسبت مختلف ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے پہلے ہی انتہائی سخت شرائط پر موجودہ بیل آؤٹ پیکج دیا تھا اوراس میں وہ کسی بھی قسم کی نرمی کرنے کے لیے تیار نہیں اور واضح طور پر یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ایما پر ہی ہو رہا ہے۔

امریکہ کو افغانستان میں جو ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی ہے اور اس پر دنیا بھر کے حکمرانوں اور عام لوگوں کی جانب سے شدید نفرت اور تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اس کے باعث اس کی خطے کی جانب ترجیحات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اس شکست کے بعد عالمی سطح پر امریکی سامراج کا خصی پن پوری طرح عیاں ہو چکا ہے اور دنیا بھر میں تھانیداری کرنے کی اس کی صلاحیت پر واضح طور پر سوالیہ نشان ابھر چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے دیگر اتحادی اپنے دفاع کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ اب وہ امریکہ کی طاقت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح دنیا بھر میں اپنا حکم مسلط کرنے کی اس کی صلاحیت پہلے کی نسبت کئی گنا کم ہو چکی ہے۔ گوکہ ابھی بھی امریکہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت ہی ہے اور کوئی بھی دوسرا ملک اس کی مالیاتی اور عسکری قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اس کے باوجود آج سے دو دہائی قبل کا امریکہ آج کی نسبت کہیں زیادہ مستحکم تھا جبکہ آج خود امریکہ کے اپنے اندر عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور سماجی استحکام خریدنے کے لیے امریکی حکمرانوں کو ہزاروں ارب ڈالر کے نوٹ چھاپ کر عوام کو ریلیف دینا پڑ رہا ہے جس کے باعث اس کا مالیاتی خسارہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ لیکن سامراجی طاقت کے بحران کا یہ سارا عمل جو گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھا افغانستان کی شکست کے بعد کھل کر اپنا اظہار کر رہا ہے جس کے باعث امریکی حکمرانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ وہ کسی طرح بھی اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی صورتحال انہیں مزید پشیمانی، غصے اور ہیجان میں مبتلا کر رہی ہے۔ امریکی حکمران اس حقیقت پرمٹھیاں بھینچنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ اب دوبارہ افغانستان میں فوری طور پرفوجی مداخلت بھی نہیں کر سکتے اور تمام تر صورتحال میں ان کا کوئی واضح کردار اور کنٹرول بھی موجود نہیں۔ ایسے میں امریکہ میں حکمران طبقے کے بہت سے نمائندے یہ اصرار کر رہے ہیں کہ امریکی سامراجی کی اس تاریخی شکست کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جائے اور اس کا ناطقہ بند کر دیا جائے اور شکست کا تمام نزلہ اس پر گرا دیا جائے۔ لیکن دوسری جانب اب جنوبی اور وسطی ایشیا کے اس خطے میں امریکہ اگر کسی ریاست کے ذریعے بالواسطہ طور پر اپنی سامراجی مداخلت برقرار رکھ سکتا ہے تو وہ بھی پھر یہی پاکستان کی ریاست ہی ہے جو اپنے جنم سے ہی امریکی سامراج کے لیے اس خطے میں اپنی خدمات پیش کرتی آئی ہے۔ ایران، روس، چین اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کبھی بھی امریکہ کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر سکتے جو خدمت پاکستانی ریاست اپنی تمام تر کمزوریوں اور حکم عدولیوں کے باوجودکر سکتی ہے۔ اسی لیے امریکہ پاکستان کو ایک حد تک سزا دے سکتا ہے اور اس پر مالیاتی و دیگر ذرائع سے دباؤ ڈال سکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر اپنے دائرہ اثر سے باہر کر دینا فوری طور پر اس کے لیے ممکن نہیں اور نہ ہی وہ اسے مکمل دیوالیہ پن تک لے جانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن یہ تمام فیصلے خطے کی عمومی صورتحال اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی ایک بڑا جھٹکا یا حالات کی بڑی کروٹ اس صورتحال کو یکسر تبدیل بھی کر سکتی ہے اور ان دو سرمایہ دارانہ ریاستوں کا باہمی تنازعہ کسی بھی سمت مڑ سکتا ہے۔ لیکن حالات کوئی بھی رُخ اختیار کریں اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے یہاں کسی بھی صورت استحکام، معاشی بحالی اور سماجی ترقی ممکن نہیں اور نہ ہی خطے میں موجود تنازعات میں کمی ہو گی بلکہ ان کی شدت بڑھتی جائے گا اور بحران مزید گہرا ہوگا۔

اسی وقت امریکہ کی جانب سے ایک تو آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی جاری ہے تاکہ اس ملک کے حکمران طبقات کو آزادانہ کردار ادا کرنے سے روکا جا سکے اور پاکستان کی ریاست کی اپنی سامراجی پالیسیوں کو امریکی مفادات کے تابع ہی رکھا جا سکے اور دوسرا افغانستان اور خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس ریاست کو استعمال کرنے کے قابل بھی رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے جہاں آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور دیگر مالیاتی ادارے امریکی سامراج کے اشاروں پر کام کریں گے وہاں ایف اے ٹی ایف اور ایسے ہی دیگر ادارے بھی اپنا کام کرتے جائیں گے تاکہ یہ لے پالک ریاست ان کے شکنجے سے باہر نہ نکل سکے۔

اس دوران بہت سے لوگ چین اور روس کے متوازی بلاک کی جانب بھی اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ہی حصہ ہیں لیکن نظام کے بحران اور امریکی سامراج سے مسابقت کے باعث ان کا تضاد ابھر کر سامنے آیا ہے جس کے باعث امریکہ سے ناراض ہونے والے حکمران ان کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے کابل میں موجود طالبان حکومت سے لے کر پاکستان کے بہت سے وزرا گزشتہ ماہ میں ایسے بیانات دے چکے ہیں جن میں چین پر انحصار کی جانب بڑھنے پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن یہ سب محض دکھاوا ہے اور چین میں اتنی مالیاتی اور عسکری صلاحیت موجود ہی نہیں کہ وہ افغانستان اور پاکستان کی دیوالیہ پن کے قریب پہنچی ریاستوں کو مکمل طور پر بیل آؤٹ کر سکے۔ چین، روس، ایران اور دیگر ایسے ہی ممالک مل کر بھی صرف کابل حکومت کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس خونی دلدل سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں اور جیسے ہی کابل سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے انہوں نے اس صورتحال سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس کے علاوہ چین کا اپنی تاریخ کا سب سے بڑامالیاتی بحران اس کے سر پر منڈلا رہا ہے جو پوری دنیا کی معیشت کو ایک نئی کساد بازاری کی جانب لے جائے گا، ایسے میں پاکستان یا افغانستان کو مالیاتی طور پر بیل آؤٹ کرنا اور عسکری طور پر پوری صورتحال میں مداخلت کرنا فوری طور پر نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے حکمران بھی صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اسی لیے یہ بھی آخری سجدہ امریکی سامراج کی چوکھٹ پر ہی کرتے ہیں۔ لیکن امریکی سامراج کا بحران اور افغانستان میں ہونے والی حالیہ تاریخی شکست امریکہ سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہی ہے جو اِس ملک کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو گی۔

اس صورتحال میں آنے والے مہینوں میں آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات کلیدی حیثیت کے حامل ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کی خواہش ہے کہ تمام شرائط پوری کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط ہر حال میں وصول کی جائے۔ اس قسط کے اجرا کے بعد ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیں گے اور دیوالیہ پن کی آنے والی بلا پھر کچھ ماہ کے لیے مزید ٹل سکتی ہے۔ اس لیے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے لے کر ٹیکسوں میں اضافے اور نجکاری میں شدت لائی جا رہی ہے تاکہ عوام کی کھال اتارنے کی صلاحیت کا اپنے مغربی آقاؤں کے سامنے بھرپور مظاہرہ کیا جائے اور ان سے داد وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عیاشی کے لیے رقم بھی اینٹھ لی جائے۔ اس دوران صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیوں سے لے کر تمام بنیادی ضرورت کے شعبوں کو تباہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور سکیورٹی فورسز کو پہلے کی نسبت مزید طاقتور کیا جا رہا ہے تاکہ حکمرانوں کے ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والی عوامی بغاوت کو پوری قوت کے ساتھ کچلا جا سکے۔ اس تمام عمل میں اپوزیشن کی تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت بھی شامل ہے اور وہ بھی حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی ہی نمائندگی کرتے ہوئے عوام پر ہونے والے مظالم کی نہ صرف پوری حمایت کر رہی ہیں بلکہ اس مظالم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہیں۔

لیکن یہ صورتحال زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی اور عوام کا غم و غصہ انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے۔ بہت سے لوگ یہ شکوہ کرتے عام نظر آتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں تاریخ کا اتنا بڑا اضافہ ہو گیا لیکن لوگ باہر نہیں نکل رہے۔ اتنی زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری ہو گئی ہے لیکن کوئی عوامی تحریک کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ درحقیقت یہ شکوہ خود ہی اس امر کا اظہار ہے کہ صورتحال ایک بہت بڑی عوامی تحریک کی جانب نشاندہی کر رہی ہے لیکن یہ تحریک کب اور کس وقت نکلے گی اس کا عندیہ کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ لیکن عمومی طور پر واضح ہو چکا ہے کہ اب اس سماج کو پرانے طریقوں کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا اور یہ پورا سماج ایک بڑے انقلاب کو چیخ چیخ کر پکار رہا ہے۔

پاکستان کا محنت کش طبقہ آج جن بدترین حالات کا سامنا کررہا ہے وہ تاریخ میں کبھی بھی اتنے بد تر نہیں رہے۔ حکمران طبقے کا جبر اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ ایک چھوٹا سا احتجاج بھی حکمرانوں کے ایوانوں میں گھنٹیاں بجا دیتا ہے اور وہ اس کو پوری طرح کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تمام ریاستی ادارے بشمول عدالتیں اور پولیس مکمل طور پر محنت کش طبقے کے خلاف اپنے عزائم واضح طور پر ظاہر کر چکے ہیں اور ان کا عوام دشمن کردار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک جرنیل نے تو ایک ٹی وی پروگرام میں عوام سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کر دیا تھا اور اپنی گفتگو میں انہیں کیڑے مکوڑوں کے درجے تک پہنچا دیا تھا۔ اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر لیں یا کچھ اور کر لیں یہ حکمران طبقے کا حصہ نہیں بن سکتے اور نہ ہی پارلیمنٹ تک پہنچ سکتے ہیں، ان کا کام صرف دولت مند افراد کی خدمت کرنا ہی ہے۔ درحقیقت سیاسی پارٹیوں کی غداریوں اور عوامی تحریک کی عدم موجودگی نے ان حکمرانوں کے حوصلے بہت بلند کر دیے ہیں اور وہ پوری فرعونیت کے ساتھ عوام پر تاریخ کے بد ترین حملے کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ سرکاری اداروں کی نجکاری ہو اور وہاں پر ہزاروں ملازمین کی جبری برطرفیاں ہوں یا نجی شعبے کے محنت کشوں کی اجرتوں میں کٹوتیاں، اس ملک کا حکمران طبقہ کسی بھی طور پر اپنے حملوں میں کمی کرنے کے لیے تیار نہیں اور لوٹ مار کی ہر انتہا عبور کرنے میں مگن ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی ریاست اور جبر کے دیگر آلات کو مضبوط کر کے پر اعتماد ہے کہ وہ کسی بھی عوامی بغاوت کو کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر کابل میں طالبان کی وحشت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر اس وحشت کو یہاں بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اسی قسم کی قوتوں کو عوامی بغاوتوں کیخلاف پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

گزشتہ دو دہائی کی نام نہاد ”دہشت گردی کی جنگ“ میں درحقیقت دہشت گردی ایک صنعت بن کر ابھری تھی جس میں ایک طرف اس ملک کے حکمران طبقات نے بہت زیادہ مال بٹورااور دوسری جانب عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے رجعتی اور دہشت گرد قوتوں کو بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ گزشتہ دہائیوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کی ہر بڑی لہر کے ساتھ ہی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافے کا ایک مخصوص گٹھ جوڑ مسلسل نظر آتا ہے جو اب حالات کی تبدیلی کے ساتھ نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔ حکمران طبقات قومی، نسلی، مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے ہیں تاکہ محنت کش طبقے کی یکجہتی کو سبوتاژ کیا جاسکے اور اس کے لیے ہر قسم کی قوتوں کو تیار رکھتے ہیں۔ سب سے گھناؤنا کردار رائج الوقت سیاسی پارٹیوں نے ادا کیا جب انہوں نے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ان تعصبات کو سماج پر مسلط کیا اور اپنے ہی مقلدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ لیکن اس تمام عمل میں ان سیاسی پارٹیوں کی ساکھ بھی ختم ہوتی چلی گئی ہے اور اب سماج کے کسی بھی حصے کا ان پر اعتماد موجود نہیں اور پورے کا پورا سیاسی منظر نامہ ہوا میں معلق ہے۔ آنے والے عرصے کے بڑے طوفان اس منظر نامے کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیں گے اور پورے سماج کی طبقاتی کشمکش کا اظہار نئے سیاسی نعروں اور طریقوں سے ہوگا جو نئی صورتحال سے مطابقت رکھتے ہوں گے۔

حکمران طبقے کے تمام تر ہتھکنڈوں اور حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے اعتماد کے باوجود جب محنت کش طبقہ حرکت میں آئے گا تو حکمرانوں کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا اور برطانوی سامراج کے مسلط کردہ بوسیدہ اور متروک ادارے انہدام کی جانب بڑھیں گے۔ افغانستان میں ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ سامراج کے رحم و کرم پر چلنے والا مصنوعی ریاستی ڈھانچہ کسی بڑی مزاحمت کے بغیر ہی زمین بوس ہو گیا اور چند دنوں میں ہی اس کا نام و نشان مٹ گیا۔ اس کی واضح طور پر بڑی وجہ اتنے بڑے پیمانے پر بد عنوانی اور عوام دشمن اقدامات تھے جس کے نتیجے میں اس کی عوامی حمایت سماج میں موجود نہیں تھی۔ پاکستان کے حکمران طبقے کے خلاف بھی بڑھتی ہوئی نفرت اگر کسی عوامی تحریک کی شکل میں آگے بڑھتی ہے تو اس سے ملتی جلتی صورتحال یہاں بھی مل سکتی ہے گوکہ یہاں پر ایسے واقعات کا حجم اور وسعت اسے مختلف کردار عطا کرے گی۔ افغانستان کے بر عکس یہاں کروڑوں کی تعداد میں محنت کش طبقہ موجود ہے جو موجودہ حکمرانوں کی بربریت کی جگہ کسی نئی وحشت کو قبول نہیں کرے گا بلکہ اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے آگے بڑھے گا۔ ایسے میں اگر ایک منظم انقلابی قوت موجود ہوتی ہے جس کے پاس سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے ذریعے سماج کو چلانے کا پورا منصوبہ موجود ہوتا ہے تو وہ تیزی سے مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ انقلاب اور رد انقلاب کی یہ کشمکش آنے والے دور میں فیصلہ کن انداز میں اس ملک کے محنت کشوں کے سامنے ابھر کر آ سکتی ہے اور اسی طبقاتی جنگ کا فیصلہ اس خطے کو سامراجی جنگوں اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے باعث بننے والی جہنم سے نکال کر جنت ارضی بنانے کی جانب لے جا سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں ترقی، خوشحالی اور خوشی کا دور دورہ ہو اور ہر طرح کا دکھ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

Comments are closed.