اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور: جنسی ہراسمنٹ اور منشیات فروشی کے خلاف طلبہ کی منظم جدوجہد ہی واحد حل ہے

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

گزشتہ لمبے عرصے سے انتظامیہ کی جانب سے اپنی لوٹ مار، منشیات فروشی اور طلبہ کے جنسی استحصال کے دھندے کو برقرار رکھنے کیلئے مسلسل طلبہ کو جمہوری سیاسی عمل سے دور کیا جارہا ہے اور اپنے غلیظ دھندے کو بلاتعطل جاری رکھنے کیلئے کیمپسز کو جیل خانے میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ عمل پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں بالعموم اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بالخصوص شدت کے ساتھ جاری ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا منشیات فروشی اور جنسی ہراسانی پر مبنی قبیح کردار ایک دفعہ پھر جمعہ کے روز منظرعام پر آیا جب پولیس کی کاروائی کے نتیجے میں یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر میجر(ر)اعجاز شاہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں۔ میجر (ر) اعجاز کی گرفتاری کے بعد مزید کاروائی کے نتیجے میں پولیس کو سیکورٹی انچارج کے سیل فون سے سینکڑوں طالبات کی نازیبا فوٹوز اور ویڈیوز ملیں۔ بعدازاں یونیورسٹی کے ٹرانسپورٹ انچارج کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی جس کی ملکیت سے بھی منشیات برآمد ہوئیں۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 جون کو یونیورسٹی کے خزانچی کو بھی منشیات کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پولیس ذرائع کی رپورٹ کے مطابق ملزمان نے کیمپس میں منشیات فروشی اور طالبات کو بلیک میل کرنے اور ان سے زبردستی جنسی تعلقات (ریپ) قائم کرنے کے جرم کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اپنے ساتھ اس دھندے میں شریک دیگر دسیوں پروفیسروں کا نام بھی بتایا ہے جن میں کئی ایک مختلف شعبہ جات کے چئیرپرسنز ہیں۔ یقیناً یہ سکینڈل پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سنگین ترین سکینڈل ہے جس میں دو چار طالبات نہیں بلکہ سینکڑوں خواتین اور طالبات کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے شواہد ملے ہیں۔

یہ شواہد بظاہر حیران کن ضرور ہوسکتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان ساری پولیس رپورٹس میں بیان کردہ جرائم گراؤنڈ پر ہونے والے جرائم کا عشر عشیر بھی نہیں۔ نیز ہر ایک طالبِ علم ان تمام تر جرائم سے بخوبی آشنا ہے کہ ہاسٹلوں تک آئس و دیگر منشیات کی ترسیل کس رستے سے ہوتی ہے اور عمومی طور اچھے نمبروں سے لے کر کنٹریکٹ تک ملازمت کی کنجی کیا ہے؟

واضح رہے کہ اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بغیر کسی معیاری انفراسٹرکچر کے ستر ہزار سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جبکہ گزشتہ چند سالوں میں فیسوں میں دوگنا اضافہ کیا گیا ہے مگر بکاؤ صحافیوں اور لالچی پروفیسروں سمیت انتظامیہ کی جانب سے اس کو یونیورسٹی کی کامیابی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اور اب حالیہ واقعہ پر بھی ان بکاؤ پروفیسروں اور صحافیوں کی جانب سے اس سارے غلیظ دھندے کی نہ صرف پردہ پوشی کی جارہی ہے بلکہ اس غلیظ دھندے میں ملوث انتظامیہ کے پروفیسروں اور دیگر عملے کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور ان واقعات کو معمول کا واقعہ قرار دیا جارہا ہے اور اسی طرح ان واقعات میں جن پروفیسرز پر الزامات آئے ہیں وہ اپنے دفاع میں زبردستی طلبہ سے کمپئینز کا آغاز کروا چکے ہیں۔

اس سنگین واقعہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے صاف شفاف تحقیقات کرانے کا عہد کیا جارہا ہے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ جلد مجرمان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ مگر تمام طلبہ کو اس حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ منشیات فروشی سے لے کر جنسی ہراسانی تک تمام تر معاملات میں یہ پروفیسرز شریک ہیں اور یہی پروفیسرز ان انکوائری کمیٹیوں میں شریک ہوں گے۔ ہم ان کمیٹیوں کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں جن میں مجرم ہی منصف ہوں گے۔

اسی طرح ایک اور صورتحال بھی ہمارے سامنے عیاں ہے کہ اس واقعے میں صرف دو شخصیات کو موردِ الزام ٹھہرا کر باقی تمام مافیا کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے جس میں صحافیوں سے لے کر تمام پالتو اساتذہ اور چاپلوس طلبہ ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے بھی ہمیں انتظامیہ کی ان انکوائری کمیٹیوں اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو مکمل رد کرنے کی ضرورت ہے۔

تو اب جو سوال ہمارے سامنے درپیش ہے کہ ایک تو یہ پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی انتظامیہ یہ اہلیت رکھتی ہے کہ وہ ہراسمنٹ، عصمت فروشی اور منشیات فروشی کا دھندہ روک سکے کیوں کہ وہ خود ہی یہ دھندہ چلا رہی ہے۔ اسی طرح یہ ریاست اور اس کے ادارے بھی کسی صورت مجرمان کو کیفرِ کردار پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتے، جس کا عملی ثبوت بلوچستان یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں ہونے والے ہراسمنٹ کے واقعات کے مجرمان کی آج بھی اپنے عہدوں پر موجودگی ہے۔

ایک اور اہم بات ہمارے سامنے واضح ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بہت بڑی تعداد میں سیکورٹی کا عملہ موجود ہے۔ اور طلبہ کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ گارڈز اور جاسوسوں کے دستے آپ کے تحفظ اور جرائم کے خاتمے کیلئے موجود ہیں۔ لیکن اسی ایک واقعے نے واضح کردیا ہے کہ گارڈز کی اتنی بڑی فوج جو 5 طلبہ کے سٹڈی سرکلز اور برتھ ڈے پارٹیز پر تو غنڈوں کی طرح حملہ آور ہوتی ہے مگر منشیات فروشی سمیت تمام غلیظ دھندوں میں برابر کی شریک ہے۔ یہ واقعہ بالکل واضح کرتا ہے کہ کیمپس کو جیل خانہ بنانے کا مقصد طلبہ کا تحفظ نہیں بلکہ صرف طلبہ کی تذلیل کرنا اور ان کو ڈرائے رکھنا ہے تاکہ وہ اس طلبہ دشمن انتظامیہ کے خلاف جدوجہد منظم نہ کرسکیں۔

پروگریسو یوتھ الائنس اس وحشیانہ عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ اس ہراسانی اور منشیات فروشی کا واحد حل یہ ہے کہ تمام فیصلہ سازی کے امور اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں طلبہ کو نمائندگی دی جائے اور طلبہ اپنے ووٹوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ مگر یہ واضح ہے کہ انتظامیہ کسی طور طلبہ کو فیصلہ سازی سے متعلقہ اور انتظامی امور میں شریک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیوں کہ اس صورت میں ان کے تمام کالے کرتوت سب کے سامنے آجائیں گے۔ آج سے تقریباً 40 سال پہلے طلبہ کے واحد جمہوری پلیٹ فارم، جس میں ان کی نمائندگی ہوتی تھی یعنی ”طلبہ یونین“، پر ضیا الباطل کی جانب سے پابندی لگائی گئی تھی۔ اس پابندی کا مقصد طلبہ کو سیاسی عمل سے دور کر کے اپنی حکمرانی کو چلائے رکھنا تھا۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد سے آج تک ہر تعلیمی ادارے میں انتظامیہ اور پروفیسر فرعون بنتے چلے گئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی بیٹھے یہ بھیڑیے بھی اسی لیے آج دندناتے پھر رہے ہیں۔

اس وقت ہراسمنٹ، بلیک میلنگ اور منشیات فروشی کا مسئلہ طلبہ کے منظم اتحاد اور جدوجہد کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔ سٹوڈنٹس کو یہی بھیڑیے کیمپس میں سیاست سے روکتے ہیں۔ جب بھی طلبہ یونین کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے یہی بھیڑیے اسے وقت کا ضیاں قرار دیتے ہیں اور بات کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔ مگر ہم ان ڈرپوک اور کرپٹ انسان نما بھیڑیوں کی دھمکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ، ہم طلبہ کو IUB سمیت ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں منظم کرتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔

اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کو فی الفور ہر کلاس کی سطح پر طلباء و طالبات کو ووٹنگ کے عمل میں شریک کرتے ہوئے ہر فیکلٹی اور یونیورسٹی کی سطح پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ اس کے بعد ملک بھر کی دیگر یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ سے بھی رابطے قائم کرتے ہوئے یکجہتی کی اپیل کرنا ہو گی۔ اسی طرح ہر شہر میں موجود ہر تعلیمی ادارے میں منظم ہو کر ملک گیر سطح پر ایک منظم نیٹ ورک قائم کرنا ہوگا۔ منظم ہوکر جنسی ہراسمنٹ، فیسوں میں اضافے، طلبہ یونین کی بحالی و دیگر مسائل کے حل کیلئے ایک کامیاب جدوجہد کی جا سکتی ہے۔

طلبہ کی ان اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے ہر ایک ہراسمنٹ کے واقعے کے گرد طلبہ فی الفور احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے انتظامیہ پر دباؤ ڈال سکیں گے اور انتظامیہ کو مجبور کرسکیں گے کہ وہ ان عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ ان منظم اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے جب کسی ایک واقعہ کے گرد طلبہ یونیورسٹی کی تمام تر کلاسوں کا بائیکاٹ کریں گے تو اس وقت طلبہ کو ادراک ہوگا کہ یہ تمام تر یونیورسٹی کے معاملات ان کے وجود کے بغیر اور ان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اس طرح وہ مستقبل میں انتظامی معاملات اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہو سکیں گے۔ نتیجتاً وہ نہ صرف ہراسمنٹ بلکہ فیسوں میں اضافے اور دیگر طلبہ دشمن اقدامات کا بھی قلع قمع کرسکیں گے۔

Comments are closed.