کراچی: کمیونسٹ فیسٹیول ملیر 2025ء، ”اور نکلے ہیں عشاق کے قافلے!“

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کراچی|

گزشتہ ہفتے 18 دسمبر کو جمعرات کے دن 250 سے زائد نوجوان اور محنت کش کراچی کے ضلع ملیر میں منعقد ہونے والے کمیونسٹ فیسٹیول 2025ء میں جمع ہوئے۔ یہ کمیونسٹ فیسٹیول ملیر میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کھلے عام منعقد ہونے والا سب سے بڑا انقلابی اور کمیونسٹ اجتماع تھا۔ اس فیسٹیول نے ثابت کیا کہ انقلابی سیاست نہ صرف زندہ ہے بلکہ نئی نسل میں تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔

نوجوانوں کی بھرپور شرکت، مارکسزم کو سمجھنے اور سیکھنے کی شدید خواہش، انقلابی امید اور نظریاتی وضاحت نے اس فیسٹیول کو ایک تاریخی سنگِ میل بنا دیا۔ مختلف تربیتی سیشنز، مباحثے اور مکالمے منعقد کیے گئے جن میں سرمایہ داری کے عالمی بحران اور سامراجی جنگیں، کمیونزم کے بنیادی نظریات، ملیر کے علاقائی مسائل اور ان کے انقلابی متبادل پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس فیسٹیول میں مختلف فیکٹریوں سے آئے محنت کشوں نے شرکت کی جن میں جنرل ٹائر، اوپل لیبارٹریز، یونس ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے محنت کش شامل ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ جن میں کراچی یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، ہمدرد یونیورسٹی اور کراچی سکول آف فلم کے طلبہ نے شرکت کی۔

اس فیسٹیول کا ایک خوبصورت اور منفرد پہلو انقلابی آرٹ اور ثقافت تھا۔ نوجوان فنکاروں نے انقلابی شاعری اور موسیقی کے ذریعے جدوجہد کی روح کو زندہ کیا۔

اس کمیونسٹ فیسٹیول کی تیاریوں کے سلسلے میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں نے ملیر ماڈل کالونی سے لے کر کاٹھور تک اور ماروی گوٹھ سے لے کر سچل گوٹھ بھٹائی تک نوجوانوں اور محنت کشوں کو کمیونسٹ فیسٹیول میں شرکت کی دعوت دی، عالمی اور ملکی صورتحال پر گفتگو کی، ان کے سوالات کے جوابات دیے اور اس کے ساتھ ساتھ پورے ملیر میں کہیں فیسٹیول کے اسٹیکرز اور پوسٹرز آویزاں کیے اور کہیں نوجوانوں کے ساتھ میٹنگز کی گئیں اور چائے خانوں پر انقلابی گیت گائے گئے۔ اس فیسٹیول کی تیاریوں نے سوشل میڈیا پر بھی بیشتر نوجوانوں کی توجہ کو اپنی جانب کھینچا۔ بڑی تعداد میں لوگ فیسٹیول سے پہلے ہی اپنی رجسٹریشن کروا چکے تھے۔

کمیونسٹ فیسٹیول ملیر بروز جمعرات 18 دسمبر 2025ء کو ماسٹر امام بخش میموریل لائبریری میں منعقد کیا گیا۔ فیسٹیول کا باقاعدہ آغاز دوپہر 2 بجے کیا گیا اور اس دوران شرکاء کی دلچسپی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حمیرا احمد، جنہوں نے پہلی دفعہ کمیونسٹ فیسٹیول میں شرکت کی، نے کہا:

”میرا کمیونسٹ فیسٹیول کا یہ پہلا تجربہ ہے اور یہ تجربہ بہت زبردست رہا۔ ماحول ایک دم جوش و خروش سے بھرا ہوا تھا، ہر طرف سرخ جھنڈے اور انقلابی پوسٹرز تھے اور پھر ایک کتابوں کا سٹال تھا جو انقلابیوں کے دلوں کو خیراں کیے جاتا تھا۔ اور جب پروگرام کا آغاز ہوا تو نعروں کا ایک سیشن ہوا، اس سیشن نے اس فیسٹیول میں جان ڈال دی، لوگوں کے جذبات دیکھ کر دل خوش ہوا۔ لوگوں کی باتیں سن کر، ان کا جذبہ محسوس کر کے اور ہمارے دور دراز سے آئے ہوئے کامریڈز کے نظریات کے بارے میں جان کر واقعی بہت کچھ نیا سیکھا۔ ہر لمحہ دلچسپ تھا اور میں ممنون ہوں کہ مجھے یہ موقع حاصل ہوا۔“

کامریڈ آنند پرکاش نے تمام شرکاء کا استقبال کرتے ہوئے فیسٹیول کا آغاز کیا اور بتایا کہ اس کمیونسٹ فیسٹیول میں اور باقی تمام فیسٹیولز میں کیا فرق ہے کہ اس فیسٹیول میں کمیونزم کے بنیادی نظریات پر گفتگو کریں گے اور ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ فیسٹیول کا آغاز ”کمیونزم کیا ہے؟“ کے سیشن سے ہوا۔ جس میں کامریڈ ثاقب اور کامریڈ جلال جان نے موجودہ عہد میں کمیونسٹ نظریات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد شرکاء کی جانب سے سوالات کیے گئے جن کا جواب کامریڈ آفتاب اشرف نے دیا۔ انکا کہنا تھا:

”کمیونیزم بنیادی طور پر جو ساری دولت سماجی محنت سے پیدا ہو رہی ہے اور نجی ملکیت کی وجہ سے چند لوگوں کی دولت میں اضافہ کر رہی ہے، اس سماجی دولت کو نجی ملکیت کے چنگل سے نکال کر اس کی ملکیت سماجی کرنا اور تمام دولت دوبارہ سے سماج پر خرچ کرنے کا نظام ہے۔“

اس کے بعد فیسٹیول میں ایک پینل ڈسکشن کا آغاز ہوا جس کا عنوان ”سرمایہ داری کا عالمی بحران اور انقلابی تحریکیں“ تھا۔ جس میں بطور مہمان کامریڈ آدم پال (رہنماء انقلابی کمیونسٹ پارٹی)، کامریڈ اینا اعظم (ممبر انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کینیڈا)، اسد الرحمان (پروفیسر سماجیات حبیب یونیورسٹی) اور کامریڈ یاسر ارشاد (رہنماء انقلابی کمیونسٹ پارٹی و رہنماء عوامی ایکشن کمیٹی، کشمیر) شریک تھے۔ اس سیشن میں میزبانی کے فرائض کامریڈ پارس جان نے سرانجام دیے۔ اس کے بعد کامریڈ پارس جان نے پہلے سوال سے آغاز کیا کہ ہمارے شرکاء کو سمجھائیں کہ سرمایہ داری کا یہ بحران دراصل ہے کیا؟ اس کے بعد آدم پال نے تفصیلی جواب دیا کہ، ”درحقیقت یہ بحران اپنے جوہر میں زائد پیداوار کا بحران ہے، مشینری کی جدت اور اس کی پیداواری ترقی کے ساتھ اب سرمایہ داری میں پیداوار زیادہ ہو رہی ہے لیکن چونکہ یہ پیداوار ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہیں ہو رہی بلکہ منافع کمانے کی عوض سے ہو رہی ہے اس لیے یہ بحران اب سرمایہ داری کا ایک نامیاتی بحران ہے۔“

اس سیشن پر شاہداد بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ:

”مجھے پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ دنیا کتنی تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم کتنے دھماکہ خیز عہد میں جی رہے ہیں۔ ہماری نسل کے کاندھوں پر بلاشبہ اہم تاریخی فریضہ ہے اور وہ سرمایہ داری کا قلعہ قمع کرنے کا فریضہ ہے۔“

اس کے بعد فیسٹیول کا تیسرا اور آخری سیشن شروع ہوا۔ جس میں میزبانی کے فرائض کامریڈ وحید بلوچ نے سر انجام دیے۔ اس سیشن کا عنوان ”ملیر کی تباہی، اسباب، محرکات اور حل“ تھا، جس میں بطور مقرر خفیظ بلوچ (رہنماء انڈیجینیس رائیٹس الائنس، ملیر)، سلمان بلوچ (کلامائیٹ ایکٹیوسٹ)، اکبر ولی (سیاسی و سماجی رہنماء) اور کامریڈ پارس جان تھے۔ اس سیشن میں ہر مقرر نے ان مسائل کے کسی نہ کسی پہلو پر بات کی۔ اکبر ولی نے ملیر میں گزشتہ دنوں سے جاری ریاستی جبر پر بات کی۔ (یاد رہے اس فیسٹیول سے پہلے ماسٹر امام بخش لائبریری بھی ریاستی جبر کی وجہ سے بند تھی)۔ حفیظ بلوچ نے ملیر آبائی لوگوں کی زمین کے مسائل پر تفصیلی بات کی کہ جس طرح ترقی کے نام پر آبائی لوگوں کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں لیکن حفیظ بلوچ نے اپنی گفتگو میں انقلاب کے تناظر مسترد کیا۔ اس کے بعد سلمان بلوچ نے ماحولیات کے مختلف پہلوؤں پر بات کی کہ کس طرح ملیر کی ماحولیات تباہی کے دہانے پر ہے۔ آخر میں کامریڈ پارس جان نے سیشن میں بات کی اور بتایا کہ کس طرح ماحولیات کا مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔

نورل امیر نے اس سیشن پر اپنی رائے دیتے ہوا کہا:

”ایک طرف تو ہمیں ناامیدی اور مایوسی کی باتیں سنائی دے رہی ہیں اور دوسری طرف پُرامید اور روشن مستقبل کی باتیں۔ اس سیشن میں یوں محسوس ہوا جیسے دو متضاد سوچوں اور نظریات کا ٹکراؤ ہو رہا ہو۔“

اس کے بعد مشاعرے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت میر احمد نوید صاحب نے کی۔ نظامت کے فرائض سید جوہر مہدی نے سرانجام دیے۔ شعراء کرام میں دانیال اسماعیل، اسامہ امیر، پارس جان، وحید نور اور سلمان ثروت شامل تھے۔ تمام شعراء نے اپنا کلام پیش کیا اور شرکاء سے داد وصول کی۔ مشاعرے نے کمیونسٹ فیسٹیول کو چار چاند لگا دیے۔

اس کے محفلِ موسیقی نے فیسٹیول میں سماں باندھ دیا۔ سب سے پہلے صمد مجید بلوچ نے بلوچی گیتوں اور دھنوں سے محفل کو چار چاند لگا دیے۔ ہر شخص ان دھنوں میں جھومتا ہوا نظر آیا۔ اس کے بعد عدنان حمید اور سہیل خورشید نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ آخر میں لاہور سے آئے مہمان استاد ناصر خان نے غزلیں پیش کیں، جن کو خوب پذیرائی ملی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے اس کمیونسٹ فیسٹیول میں شرکاء کی تعداد ان کی دلچسپی کا واضح ثبوت ہے کہ آج کمیونسٹ نظریات کی پیاس نوجوان نسل میں پہلے سے زیادہ موجود ہے کیونکہ کمیونزم ہی واحد نظریہ ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں رونما ہونے والے واقعات، ان کی وجوہات اور موجودہ مسائل کا حل دیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.