کراچی: نجکاری اور جبری برطرفیوں کے خلاف پاکستان سٹیل ملز کے مزدور سراپا احتجاج

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

پاکستان سٹیل ملز کے 9ہزار سے زائد ملازمین کی جبری برطرفیوں اور نجکاری کے خلاف گذشتہ روز نیشنل ہائی وے پرواقع سٹیل ملز کے مرکزی گیٹ کے سامنے سینکڑوں ملازمین نے دھرنا دیا اور نیشنل ہائی وے کو بلاک کردیا۔ دو روز قبل تبدیلی سرکار کی جانب سے ملز کی نجکاری اور اسی سلسلے میں 9 ہزار سے زائد ملازمین کو ایک ماہ کے نوٹس پر گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے اور باقی ماندہ 250 ملازمین کو دو ماہ میں مرحلہ وار فارغ کیے جانے کا اعلان کیا گیا جس کے خلاف سینکڑوں ملازمین مل کے گیٹ کے سامنے اکٹھے ہوئے اور دھرنا دے دیا۔ لیکن مزدورں کا کہنا تھا وہ گزشتہ کئی دنوں سے کبھی ملیر پریس کلب تو کبھی حکمران جماعت کے دفاتر میں احتجاج ریکارڈ کروانے جا رہے تھے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے یونین کی مرکزی قیادت کو جبراً لاپتہ کردیا گیا ہے۔ مزید برآں، دھرنے کے دوران دو محنت کش دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے۔

سٹیل ملز کی موجودہ سی بی اے یونین کا تعلق حکمران جماعت سے ہے لیکن یونین نمائندگان نے ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پارٹی قیادت نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، اقتدار میں آنے سے پہلے یہ صاحبان جن میں خود عمران خان اور اسد عمر شامل ہیں، انہوں کہا تھا کہ یہ کسی صورت سٹیل ملز کو نہیں بکنے دیں گے، بڑے بڑے دعوے کرنے والے آج عیاں ہو چکے ہیں کیونکہ نجکاری اور برطرفیوں کے فیصلے پر خود اسد عمر نے کل دستخط کیے ہیں جو کہتا تھا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو میں نہ صرف اقتدار بلکہ سیاست چھوڑ دوں گا!

یونین نمائندے نے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف یہی نہیں بلکہ ہماری قیادت کو ہی انہوں نے اٹھوا لیا ہے، وہ کسی تھانے میں موجود نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہی پولیس اور رینجرز کے اہلکار انہیں جبراً اٹھا کر لے گئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ فی الفور ہمارے رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ساتھ ساتھ برطرفیوں اور نجکاری کا فیصلہ واپس لیا جائے! تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گرفتار قیادت کو رہا کردیا گیا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ نجکاری، برطرفیوں اور قیادت کی گمشدگی کی شدید مذمت کرتا ہے اور فی الفور یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ گرفتاریاں اور ریاستی جبر مزدوروں کو جدوجہد سے ہرگز نہیں روک سکتے۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں اگر یہ فیصلے واپس نہ ہوئے تو ہم ملک گیر سطح پر تمام اداروں کے مزدور ساتھیوں سمیت احتجاج کی جانب جائیں گے۔ احتجاج کے دوران دو مزدوروں کی ہلاکت ہرگز کوئی حادثہ نہیں بلکہ ی ایک قتل جس کے ذمہ داران یہ حکمران ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری نہ صرف ایک مزدور دشمن پالیسی ہے، بلکہ خود سرمایہ دارانہ نقظہ نظر سے بھی معیشت کو دھکیلنے کا ایک ناکام اوزار ثابت ہو چکی ہے۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مثال سامنے ہے، دوسرا نجکاری کا عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسے نشی اپنی لت پورے کرنے کے لیے گھر کے برتن اور دوسرا بنیادی سامان بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ سرکاری اداروں کے خزانے پر”بوجھ“ ہونے والی بات ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ نشی حکومتیں چاہے جتنے بھی گھر کے برتن بیچ لیں (اگر بیچ سکیں) پھر بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی بحران ٹھیک نہیں ہونے والا، کیونکہ اس کے اندر تھوڑی بہت ”ٹھیک ہونے“ کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے جس اعتراف خود انہی کے سنجیدہ نمائندے بھی کر رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری مزدروں کے قتل عام کے مترادف ہے کیونکہ اس نے مزدروں کے گھر اجاڑنے ہیں جو کہ پہلے ہی کرونا وبا کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسری طرف گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر مزدروں کو دی جانے والی رقم ایک فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اس رقم سے آج کے دور میں نام نہاد متبادل آمدن کے لیے دی جانے والی یہ بھیک کسی کام نہیں آسکتی کیونکہ جب بڑے کاروبار یہاں تیزی سے ناکام ہو رہے ہیں تو یہ تھوڑی سے رقم سے شروع کیے گیے چھوٹے کاروبار بھلا کیسے چل پائیں گے! آج بھی پی ٹی سی ایل کے گولڈن ہینڈ شیک لینے والے کئی سابقہ ملازمین روزی روٹی کے لیے دربدر بھٹکتے مل رہے ہیں۔ اس لیے مزدور ساتھیوں کو کسی صورت بھی اس پالیسی کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نجکاری، ٹھیکیداری نظام، اجرتوں میں کٹوتیوں اور دیگر تمام اہم مسائل پر تمام اداروں اور فیکٹریوں کے مزدوروں کو متحد ہو کر ملک گیر سطح کی عام ہڑتال کرکے ان حکمرانوں اور اس نظام کے رکھوالوں کو یہ بتانا ہو گا کہ یہ ملک اور نظام مزدور چلاتے ہیں نہ کہ یہ صاحبان! اور جب تک ان کے مسائل حل نہیں ہونگے ملک نہیں چلایا جائے گا۔ عام ہڑتال تمام مزدوروں کا سب بڑا ہتھیار بن کر ان کی نجات کی طاقت رکھتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے۔ ہم نے اپنے اداروں شہروں اور صوبوں کی سطح تک احتجاج کر کے دیکھ لیا ہے جن کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا، بلکہ ہر بار ہمیں وعدے، دلاسے یا نوٹیفکیشن تھما کر بھیج دیا جاتا ہے لیکن ّج تک عمل کچھ نہیں ہوا۔ اسی لیے اب عام ہڑتال ہی ہمارا اگلا قدم ہونا چاہیے اور سلسلے میں رکاوٹ بننے والے تمام عناصر کو جرت سے اپنی صفوں سے نکال کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.