کراچی: تھل انجینئرنگ کے محنت کشوں کی ہڑتال کا دوسرا روز، مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا عزم!

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|

تھل انجینئرنگ کے محنت کشوں کی اپنے آئینی، سیاسی، قانونی اور معاشی حقوق کی جدوجہد کو شروع ہوئے کئی مہینے گزر چکے۔ اس دوران انتظامیہ نے وقفے وقفے سے کل 22 محنت کشوں کو مختلف طریقوں سے برطرف کیا ہے، کچھ محنت کشوں کے تبادلے اور دیگر انتقامی کاروائیاں بھی کی گئی ہیں۔ چند دن پہلے اس سلسلے میں ایک جزوی ہڑتال اور دھرنے کے بعد تھل کے محنت کش اپنے ایک مزدور ساتھی کے تبادلے کی کوشش ناکام بنا دینے میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔ اس کامیابی نے محنت کشوں کے حوصلے اور عزم میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اور اب کی بار پھر انہوں نے برطرف کیے گئے تمام 22 محنت کشوں کی غیر مشروط بحالی، یونین سازی کے حق کو تسلیم کیے جانے سمیت دیگر مطالبات کے لیے کام چھوڑ کر دھرنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے روز صرف تھرمل ڈیپارٹمنٹ کے محنت کشوں نے ہی کام چھوڑ ہڑتال کی تھی۔ یاد رہے کہ مزدوروں کی طرف سے اس قسم کے اقدامات سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ نے گزشتہ چند ہفتوں میں دو تین درجن کے قریب نئے مزدور بھرتی کیے ہیں جن سے نائٹ شفٹ میں کام لیا جا رہا ہے۔

کل دھرنے کا دوسرا دن تھا۔ انتظامیہ نے ہڑتال توڑنے کے لیے اپنی تیاری کی ہوئی تھی اور پہلے دن ہڑتال کرنے والے فعال اور سرگرم ترین 37 مزدوروں کو انہوں نے کل مورخہ 11 جنوری بروز جمعرات صبح فیکٹری گیٹ پر ہی روک دیا اور ان کا فیکٹری میں داخلہ بند کر دیا۔ گیٹ پر محنت کشوں نے شدید مزاحمت کی اور ان میں سے چار مزدور جرات کے ساتھ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے اندر جاتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کر دی اور اپنے محنت کش ساتھیوں سے انتظامیہ کے اس مزدور دشمن رویے کے خلاف دھرنا دینے کی اپیل کی۔ انتظامیہ کو لینے کے دینے پڑ گئے اور پہلے روز صرف تھرمل ڈیپارٹمنٹ کے مزدور ہی ہڑتال پر تھے اور اس انتقامی کاروائی کے بعد دیگر ڈیپارٹمنٹ کے محنت کشوں نے بھی کام نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ جن محنت کشوں کو اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا وہ بھی گیٹ کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ انتظامیہ نے صورتحال کو بے قابو ہوتا ہوا دیکھ کر لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کو موقع پر بلا لیا۔ 

جوائنٹ لیبر ڈائریکٹر سمیت یہ تمام افسران تقریباً سات گھنٹے تک فیکٹری میں ہی رہے اور انہوں نے نام نہاد مصالحت کروانے کی کوشش کی۔ وہ کئی بار فیکٹری کے اندر دھرنے پر بیٹھے محنت کشوں کے پاس گئے اور ان کو کام کرنے پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان محنت کشوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہماری گیٹ کے باہر موجود قیادت ہی فیصلہ کرے گی۔ یہ صاحبان پھر گیٹ کے باہر دھرنے پر بیٹھے محنت کشوں کے پاس بھی آئے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ان محنت کشوں کے ارادوں کو متزلزل کرنے کی کوشش کی مگر ان کا کوئی حربہ کارگر نہ ہو سکا۔ اس دوران میرٹ پیکجنگ، جنرل ٹائر ورکرز یونین اور دیگر اداروں کے محنت کش بھی یکجہتی کے لیے فیکٹری گیٹ پر آتے رہے اور ایک میلے کا سا سماں بندھا رہا جس سے انتظامیہ کی پریشانی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔

فیکٹری کے اندر مزدوروں کا دھرنا

محنت کشوں نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5 بجے شفٹ کے خاتمے کے باوجود فیکٹری سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ محنت کشوں کو خدشہ یہ تھا کہ اگر ہم باہر نکلے تو کل انتظامیہ کوئی اور اوچھا ہتھکنڈا بھی استعمال کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ادارے میں انتظامیہ کی بنائی ہوئی ایک پاکٹ یونین بھی موجود ہے جس کے ساتھ تقریباً 25 فیصد لوگ ہڑتال کے خلاف کام کر رہے ہیں اور باقی ماندہ 75 فیصد ہڑتال پر ہیں ۔ لیکن پروڈکشن کے اہم ڈیپارٹمنٹ بند ہونے کی وجہ سے ہڑتال کے غدار مزدوروں سے انتظامیہ کام لینے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔ نئے مزدوروں کو بھرتی کیا گیا ہے ، جنہیں کام نہیں آتا اور وہ بہت سا خراب مال تیار کر رہے ہیں۔ یوں ہر حوالے سے فیکٹری مالکان کو اس ہڑتال سے بڑے پیمانے کا نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ محنت کشوں نے رات کو بھی گھر نہ جانے کا فیصلہ کر کے انتظامیہ کو سخت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے بھی دھرنا توڑنے کی کوشش کی مگر محنت کشوں نے انتہائی انقلابی انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے یہ کوشش بھی ناکام بنا دی۔ تا حال فیکٹری کے اندر اور باہر یہ دھرنا جاری ہے۔ آج انتظامیہ فرسٹریشن میں محنت کشوں پر پولیس کے ذریعے تشدد سمیت کوئی بھی حربہ استعمال کرنے کی طرف جا سکتی ہے۔ 

فیکٹری کے باہر مزدور ساری رات دھرنا دیے بیٹھے رہے

ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی تھل کے محنت کشوں کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دیگر اداروں کے محنت کشوں سے بھی تھل کے محنت کشوں کی حمایت اور یکجہتی کی اپیل کرتا ہے۔