کشمیر:تحریک کی انقلابی اٹھان اور سیاسی اقتدار کے حصول کا سوال

|تحریر: یاسر ارشاد|

29ستمبر سے 4 اکتوبر تک، پانچ روز میں، کشمیر کی عوامی تحریک نے ایک غیر معمولی معیاری جست لی ہے۔ چند بنیادی مطالبات کے حصول کے لیے گزشتہ اڑھائی سال سے جاری جدوجہد کے اس مرحلے کے دوران ایسے لمحات بھی آئے جب تحریک میں سیاسی سرکشی کے عناصر غالب آ چکے تھے۔ 29 ستمبر کو مظفر آباد میں مظاہرین پر ریاستی گماشتوں کی جانب سے گولیاں چلائے جانے کے بعد صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوئی۔ لاکھوں کی تعداد میں سراپا احتجاج عوام کا غم و غصہ اور موڈ یکدم تبدیل ہو گیا۔ عوام کی جانب سے لڑائی مطالبات کی منظوری کے دائرے سے نکل کر ریاستی جبر سے شہید ہونے والے اپنے ساتھیوں کے خون کے انتقام اور حکمرانوں کے اس جابرانہ نظام اور حاکمیت کے خاتمے کی لڑائی میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس صورتحال میں ایک معیاری جست اس وقت آئی جب چمیاٹی (ضلع باغ) کے مقام پر لگائی گئی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ریاست کے مسلح جتھوں نے عوام پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ اسی دوران ڈڈیال سے آنے والے قافلوں پر بھی سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ ریاستی جبر کے ان واقعات میں مظاہرین کی شہادتوں اور درجنوں مظاہرین کے شدید زخمی ہونے کے باوجود عوام نے اس وحشیانہ درندگی کا بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے ریاست کے مسلح جتھوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

خون اور بارود کی یہ ندیاں عبور کرتے ہوئے کوہالہ کے مقام پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد مظاہرین کے اجتماع نے مظفر آباد کے ایوانوں میں بیٹھے درندے حکمرانوں اور ان کے آقاؤں کی مسلح جتھوں کے ذریعے سماج پر قائم عملداری کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔ اگلے دو روز تک حقیقی معنوں میں طاقت کے دو مراکز موجود تھے، ایک مظفرآباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کا اور دوسرا کوہالہ کے مقام پر بیٹھے عوام کا۔ ان دو مراکز کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ مظفر آباد کے ایوانوں میں پرانے نظام حاکمیت کی نمائندہ طاقت کا ایک ایسا مرکز موجود تھا جس کی بنیادیں ہل چکی تھیں اور وہ اپنی بقا کے لیے کوہالہ کے مقام پر ابھی ابھی وجود پانے والے طاقت کے مضبوط مرکز سے زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور تھا۔ ان میں دوسرا فرق یہ تھا کہ مظفر آباد میں موجود پرانے سماج کے نمائندوں کو طاقت اپنے ہاتھوں سے نکل کر چوکوں اور چوراہوں میں بکھر جانے کا مکمل شعوری اداراک و احساس تھا مگر کوہالہ کے مقام پر بیٹھے عوام کے نمائندوں کو اپنے ہاتھوں میں موجود طاقت کا معمولی سا احساس اور ادراک بھی نہیں تھا۔ اسی شعوری ادراک کے فرق کی بنیاد پر پرانے سماج کے نمائندے اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ سمیٹنے میں کامیاب ہو گئے۔

تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا سوال

تحریک کے موجودہ مرحلے کی کامیابی کے حوالے سے بھی ابہامات سے بھرپور بحث و مباحثے کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ تحریک کی موجودہ مرحلے کی کامیابی یا ناکامی کو پرکھنے کے دو مختلف پیمانے ہیں۔ اول یہ کہ کیا موجودہ تحریک نے سیاسی حوالے سے فتح حاصل کی ہے یا نہیں؟ اگر اس پیمانے پر تحریک کے موجودہ مرحلے کو پرکھا جائے تو یقینا تحریک نے ایک عظیم فتح حاصل کی ہے۔ پانچ دن تک پورا کشمیر رضاکارانہ عام ہڑتال کے نتیجے میں مکمل بند رہا۔ اس قدر طویل اور منظم رضاکارانہ ہڑتال از خود تاریخ کا ایک غیر معمولی انقلابی کارنامہ ہے۔ درحقیقت کشمیر کی یہ تحریک کئی حوالوں سے کشمیر اور بالخصوص پاکستان کے حکمران طبقات کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ گزشتہ اڑھائی سال کے دوران حکمران طبقات کا اس تحریک کو توڑنے اور کچلنے کا ہر حربہ ناکامی سے دوچار ہو چکا تھا۔ کشمیر کی اپنی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے ننگے جبر کی بھی تا حال ایک حد سے زیادہ گنجائش موجود نہیں۔ اس کے باوجود اس حالیہ مرحلے کے دوران حکمران طبقات نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی مکمل بندش کے ساتھ نسبتاً پہلے سے زیادہ وحشیانہ ریاستی جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش کی۔ ڈڈیال سے لے کر مظفر آباد تک مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی ریاستی حکمت عملی کا مطلب یہی تھا کہ چند لوگوں کو سر عام انتہائی سفاکی سے قتل کرتے ہوئے باقی عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ لیکن حکمران طبقات کا یہ حربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا اور ریاست کی جانب سے سفاک قتل و غارت کی واردات نے عوام کو خوفزدہ کرنے کی بجائے انہیں مزید مشتعل کیا اور عوام نے ریاستی مسلح جتھوں کے پر خچے اڑا کر رکھ دیے۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش جیسے بلیک آؤٹ کا مقصد جہاں مختلف اضلاع کے مابین رابطوں کو منقطع کرتے ہوئے ایک انتشار پھیلانا تھا وہیں کشمیر کی عوام کی اس بغاوت کے اثرات کو پاکستان کے عوام تک پہنچنے سے روکنا بھی تھا۔ حکمرانوں کے ان تمام جابرانہ حربوں اور قتل و غارت کی سفاکی کے باوجود کشمیر کی عوام نے حکمرانوں کو مکمل شکست سے دوچار کرتے ہوئے ایک تاریخی فتح حاصل کی ہے جو مستقبل کی انقلابی لڑائیوں کی بنیاد بنے گی۔ اگرچہ جوائنٹ کمیٹی نے اپنے ہاتھوں میں موجود طاقت کا درست سیاسی استعمال نہیں کیا لیکن اس کے باوجود موجودہ پارلیمانی حاکمیت کی بنیادیں مسمار ہو چکی ہیں اور حکومت ایک کچے دھاکے سے لٹک رہی ہے جس کے وجود کی کوئی اخلاقی اور سیاسی و سماجی بنیادیں موجود نہیں۔ عوام کی انقلابی بغاوت نے موجودہ حکومتی ڈھانچے کو ایک طاقتور بھونچال کی طرح اس کی بنیادوں سے ہلا دیا ہے مگر اکھاڑ کر نہیں پھینکا۔ حکمران طبقات کے ایوانوں میں بھی ایک ہلچل مچ گئی ہے اور اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے موجودہ وزیراعظم کی تبدیلی سے لے کر دیگر بے شمار اقدامات پر مسلسل غور و فکر کر رہے ہیں۔ مہاجرین کی نشستوں پر منتخب ممبران اسمبلی سے وزارتیں واپس لینے اور ان کے فنڈز منجمند کرنے کے فیصلے نے درحقیقت موجودہ حکومت کے کئی ستونوں کو گرا دیا ہے۔ وزیراعظم سمیت کابینہ کی تبدیلی کی بحث کا جو تماشا اس وقت حکومتی ایوانوں میں جاری ہے وہ درحقیقت عوامی بغاوت کے ذریعے اکھڑے ہوئے حکومتی تخت کو چہروں کی تبدیلی کے ذریعے کسی حد تک مستحکم کرنے کی ایک مضحکہ خیز کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

دوسری جانب مذاکرات کے ذریعے مطالبات کی منظوری کے حوالے سے دیکھا جائے تو صورتحال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ مذاکرات میں سب سے بنیادی خامی تحریک کے دوران ریاستی جبر کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ذمہ داران کا تعین کرنے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں ریاست کے مسلح حملہ آور جتھوں کو نہتے عوام کے برابر تسلیم کر لیا گیا جو تحریک کی قیادت کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ مظفر آباد میں 29 ستمبر کو مسلم کانفرنس کے مسلح غنڈے پولیس کی حفاظت میں اور پشت پناہی سے سر عام نہتے مظاہرین پر گولیاں برساتے رہے جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کھلی دہشت گردی پر کمیٹی کو واضح مؤقف پر ڈٹ جانا چاہیے تھا کہ مسلم کانفرنس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور غنڈہ گردی کرنے والے افراد پر دہشت گردی اور قتل کے مقدمات قائم کر کے ان کو فوری گرفتار کیا جائے اور اس کے ساتھ مظفر آباد پولیس کے افسران پر بھی مقدمات قائم کیے جائیں جو ان غنڈوں کے حفاظتی دستوں کا کام کر رہے تھے۔ اسی طرح ڈڈیال سے لے کر چمیاٹی تک جہاں بھی تشدد ہوا وہاں پولیس اور پاکستان سے بلائے گیے ریاستی مسلح جتھو ں نے عوام پر سیدھی گولیاں چلا کر انہیں قتل اور زخمی کیا۔ اس لیے ان تمام منظم ریاستی قتل کی وارداتوں کی سو فیصد ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ کہیں بھی اگر اس قتل و غارت کے بعد نہتے عوام نے لڑائی لڑی اور اپنے دفاع کے لیے کوئی جوابی تشدد کیا تو یہ ریاست کی سیدھی فائرنگ کے برابر نہیں ہو سکتا کہ اس پر کسی بھی قسم کی کوئی تحقیق کی جائے۔ کمیٹی ممبران اس فیصلے کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ عوام کے خلاف تو پہلے ہی مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں لیکن اس فیصلے کے بعد ریاستی اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمات قائم ہو نے کے امکانات ہیں۔ یہ نہایت کمزور اور سطحی دلائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران اور ریاستی ادارے جس طرح چاہیں ان ظالمانہ قوانین کو عوام کے خلاف استعمال کرتے رہیں۔ یہ حکمران عوام کا قتل عام کریں اور پھر عوام کو ہی قاتل قرار دے دیں اور عوام اس قانونی ناانصافی کو بے بسی سے تسلیم کر لیں۔ درحقیقت کمیٹی نے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کے قتل عام میں ملوث مجرموں کو فرار کا راستہ فراہم کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے ظالم اور مظلوم، جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح حملہ آور قاتلوں اور خالی ہاتھ اپنا دفاع کرنے والے نہتے عوام کو برابر قرار دے دیا ہے۔ کمیٹی کی اسی کمزوری کے باعث کچھ علاقوں بالخصوص باغ کے گرد و نواح میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے خلاف انتقامی کاروائیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہم ان انتقامی کاروائیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے جوائنٹ کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ریاستی بدمعاشی کو فوری بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر یہ سلسلہ فوری طور پر بند نہیں کیا جاتا تو علاقائی کمیٹیوں کے پلیٹ فارم سے اس کے خلاف فوری عملی جدوجہد کا آغاز کیا جانا ضروری ہے۔

اسی طرح جہاں بے شمار مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور ان پر بتدریج عملدرآمد کے لیے بھی طریقہ کار وضح کیا جائے گا، وہیں عوام کے انتہائی اہم اور اجتماعی مطالبات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم، روزگار یا بیروزگاری الاؤنس کی فراہمی جیسے مطالبات تسلیم نہیں کرائے گئے جبکہ ہر سطح پر مفت اور معیاری علاج کی سہولیات کو یقینی بنانے کے مطالبے پر بھی صحت کارڈ کے اجرا کو قبول کر لیا گیا۔ صحت کارڈ کے اجرا کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر میں علاج کی سہولیات میں کوئی زیادہ بہتری نہیں لائی جائے گی اور محض ایم آر آئی اور سی ٹی سکین کی مشینیں فراہم کر دی جائیں گی۔ کشمیر میں مفت اور معیاری علاج کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں کی بہتری، نئے جدید ہسپتالوں کی تعمیر اور دیہاتوں میں بنیادی مراکز صحت کو فعال بنانے جیسے اقدامات کیے جاتے۔ اس کے برعکس صحت کارڈ کے اجرا کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر میں محکمہ صحت کی دگرگوں حالت میں کوئی بہتری نہیں لائی جائے گی بلکہ محض کچھ پیچیدہ اور خطرناک بیماریوں کے علاج کے لیے پاکستان کے بڑے ہسپتالوں (چونکہ کشمیر میں ایسی بیماریوں کے علاج کی سہولیات کسی بھی ہسپتال میں موجود ہی نہیں ہیں) میں زندہ پہنچ کر ذلیل و خوار ہونے والے مریضوں کی کچھ مالی معاونت ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان میں صحت کارڈ کا یہ تجربہ چند سال قبل انتہا درجے کی بدعنوانیوں کے باعث ناکام ہو چکا ہے لیکن پھر بھی کشمیر میں اس کو قبول کر لیا گیا جو کہ مفت اور معیاری علاج کے عوامی مطالبے کی سراسر نفی ہے۔ ان تین بنیادی اجتماعی مطالبات کے حوالے سے دیکھا جائے تو مذاکرات میں عوامی مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

انقلابی تحریک کیا ہوتی ہے؟

بے شمار سیاسی کارکنان تاریخی و کتابی تعریفوں اور فارمولوں کے ذریعے کشمیر کی تحریک کی بڑھوتری کے مختلف مراحل کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور تاریخی مماثلتوں کے ناکافی شواہد ہونے کے باعث اس تحریک کو انقلابی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ عظیم مارکسی استاد اور انقلاب روس کے قائد لینن نے 1916ء میں آئر لینڈ کی انقلابی بغاوت کو ایک ”کُو“ قرار دینے والوں کی مذمت اور سماجی انقلاب کی نشوونما کے معروضی عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا:

”آئر لینڈ کی صدیوں پرانی قومی تحریک نے طبقاتی مفادات کے مختلف امتزاجات تشکیل دینے اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالخصوص امریکہ میں آئرلینڈ کی عوامی قومی کانگریس کی تشکیل کی صورت میں اپنا اظہار کیا جس نے آئر لینڈکی خودمختاری کا نعرہ بلند کیا؛ اس نے اپنا اظہار طویل مدت سے اخبارات کی جبری بندش، عوامی احتجاجوں اور مظاہروں وغیرہ کے بعد درمیانے طبقے اور محنت کش طبقے کے ایک حصے کی جانب سے چوکوں اور چوراہوں میں عملی لڑائی کی صورت میں بھی کیا۔ جو کوئی بھی اسے ایک ”کُو“ کہتا ہے وہ یا تو کٹر رجعتی ہے یا پھر سماجی انقلاب کو ایک زندہ مظہر کے طور پر سمجھنے سے قاصر بدبخت دانشور ہے۔ یہ تصور کرنا کہ نوآبادیات اور یورپ میں چھوٹی اقوام کی بغاوتوں کے بغیر، تمام تر تعصبات سمیت درمیانے طبقے کے کچھ حصوں کے احتجاجوں کے بغیر، سیاسی شعور سے نابلد پرولتاری اور نیم پرولتاری عوام کی جاگیرداروں، چرچ اور بادشاہت کے استحصال کے خلاف اور قومی جبر کے خلاف تحریکوں وغیرہ کے بغیر سماجی انقلاب ممکن ہے۔ ایسا تصور کرنا سماجی انقلاب کو ہی مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ یعنی ایک فوج کسی مقام پر صف بندی کر کے کھڑی ہو کر کہے کہ ہم سوشلزم کے حامی ہیں اور دوسری فوج کسی دوسرے مقام پر کھڑی ہو کر کہے کہ ہم سامراجیت کے حامی ہیں، تو پھر یہ سماجی انقلاب ہو گا! صرف ایسا مضحکہ خیز نمائشی دانشورانہ نقطہ نظر رکھنے والے افراد آئرلینڈ کی بغاوت کو ”کُو“ کہہ کر بدنام کر سکتے ہیں۔ جو کوئی بھی ایک ’خالص‘سماجی انقلاب دیکھنے کا متمنی ہے وہ اسے دیکھنے تک زندہ نہیں رہے گا۔ ایسا فرد یہ سمجھے بغیر کہ انقلاب کیا ہوتا ہے، انقلاب کے بارے میں صرف لفظی جگالی کرتا ہے“۔ (وی آئی لینن، 1916ء کی آئر لینڈ کی بغاوت)۔

لینن کی یہ طویل اقتباس نقل کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہم انقلابات اور تحریکوں کی مجرد کتابی تعریفیں کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے اردگرد موجود سماجی تحریکوں اور انقلابات کا ناقابل تسخیر عوامی طاقت، بے پناہ توانائی اور امکانات سے لبریز اور تیزی سے نشوونما کے مراحل کو عبور کرتے ہوئے ایک زندہ مظہر کے طور پر تجزیہ کرنا سیکھ سکیں۔ بعض سیاسی کارکنان حالیہ عرصے کے دوران دنیا کے بے شمار خطوں میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں اور انقلابات کے حوالے سے بھی بارہا انتہائی منفی اور غیر سائنسی مؤقف دوہراتے رہتے ہیں۔بنگلہ دیش سے نیپال تک بے شمار ممالک میں نوجوانوں اور محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں نے پرانی حکومتوں کے تختے الٹ دیے جن کو انقلابات کہنے پر بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ اعتراضات متذکرہ انقلابی تحریکوں کے دوران حکمران طبقات کے خلاف عوامی غم و غصے کے اظہار کے واقعات اور نتائج کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ان انقلابی تحریکوں میں صرف جلاؤ گھیراؤ ہوا، پرانی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن سماج تو تبدیل نہیں ہوا، اس لیے نہ تو ان تحریکوں کو انقلابی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسی تحریکوں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ٹھیک ایسے ہی نتائج حکمران طبقے کے گماشتہ دانشور اور تجزیہ نگار بھی اخذ کرتے ہیں اور اپنے اپنے ملک کے محنت کش عوام کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب نہیں کیا جا سکتا، یہ سماج نہیں تبدیل ہو سکتا، تحریکیں چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، تحریکیں چلانے کے بعد بھی سوائے چہروں کے کچھ تبدیل نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جہاں انقلابی کمیونسٹ نہ صرف ان گماشتہ دانشوروں بلکہ قنوطی سیاسی کارکنان کے مؤقف سے بھی اعلانیہ اختلاف کرتے ہوئے ان انقلابی تحریکوں کا والہانہ استقبال کرتے ہیں۔ کمیونسٹ یہ اعلان کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں ملک کے محنت کش عوام نے اپنی اجتماعی طاقت کے ذریعے سرمایہ داروں کی حاکمیت کے تخت اکھاڑ دیے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے انقلابی بغاوت کے ساتھ ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر بھی ضروری ہے۔

چلیے ایک انقلاب کیا ہوتا ہے یا کس واقعہ کو انقلاب کہا جانا چاہیے اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایک کامیاب انقلاب کی تعریف یہی ہوتی ہے جس میں پرانی حکومت کے ساتھ پرانے نظام کا بھی خاتمہ کرتے ہوئے محنت کشوں کا اقتدار قائم ہو۔ لیکن انقلاب کوئی ایک واحد اقدام نہیں ہوتا کہ ایک دن کسی ملک کے محنت کش یہ سوچ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ آج انہوں نے انقلاب برپا کرنا ہے اور شام کو انقلاب کر کے واپس گھر لوٹتے ہیں۔ محنت کش عوام اور نوجوان اپنے بنیادی مسائل کے حل کی خاطر احتجاجی تحریکوں کا حصہ بنتے ہیں اور انہی تحریکوں اور احتجاجوں کے عملی تجربات سے گزرتے ہوئے آخرکار یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حتمی حل ایک انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان تحریکوں پر ریاستی جبر عوام کو مشتعل کرتا ہے جس کے جواب میں بسا اوقات عوام حکمرانوں کے ایوانوں کو جلا کر راکھ بھی کر دیتے ہیں۔ ایک انقلاب اسی طویل، تضادات سے بھرپور اور اتار چڑھاؤ کے بے شمار مراحل پر مبنی مسلسل عمل کا نتیجہ ہوتا۔ ایک کامیاب سماجی انقلاب درحقیقت دو مختلف عناصر کے مخصوص امتزاج کا نام ہے۔ اول، کسی بھی سماج میں محنت کش عوام کی اکثریت کی جانب سے پرانے نظام کی حاکمیت کے خلاف ایک انقلابی بغاوت جو کہ ریاست کے تمام جبر کو شکست فاش دیتے ہوئے سماج کے تمام معاملات پر اپنا عارضی کنٹرول قائم کر لیتی ہے۔ دوئم، ایک حقیقی انقلابی پارٹی جو محنت کشوں کے سماج پر اس عارضی کنٹرول کو پرانے ریاستی اور سماجی ڈھانچوں کے خاتمے اور نئے سماج اور ریاست کی تعمیر کے لیے منظم کرتے ہوئے اس کو شعوری رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ محنت کشوں کی پرانے نظام کے خلاف انقلابی بغاوت کے ابھرنے کا عمل سماج کے اپنے فطری ارتقا کا نتیجہ ہوتا ہے جو کہیں بھی اور کبھی بھی کسی حقیقی انقلابی پارٹی کی موجودگی کا انتظار نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور جبر کے خلاف سماج میں مجتمع ہونے والا غم و غصہ سماج کے اپنے معروضی قوانین کے تابع ایک خاص وقت میں انقلابات کے ابھار کا باعث بنتا ہے۔ ایک انقلابی پارٹی نہ ہونے کی صورت میں یقینا سماج کی حقیقی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوتی اور پرانے نظام کے حاکم چہرے بدل کر دوبارہ مسلط ہو جاتے ہیں۔ لیکن سماج جس عمل سے گزر کر پرانی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے ایک نئے سماج کی تخلیق کا راستہ ہموار کر دیتا ہے محض انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث سماجی تبدیلی کے عمل کی تکمیل نہ ہو سکنے کی وجہ سے کوئی دوسرا عمل نہیں بن جاتا بلکہ ایک انقلاب ہی رہتا ہے اور ہم اس کو انتشار ہرگز نہیں کہہ سکتے! ہم یہ وضاحت کرتے ہیں کہ کسی بھی انقلاب کو حتمی کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے محنت کش عوام کی انقلابی بغاوت کے ساتھ کمیونسٹ نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی بھی لازمی ہوتی ہے اور ہمارے عہد میں دنیا بھر میں محنت کش عوام کے ابھرنے والے انقلابات میں سب سے بڑی کمزوری یہی ہے۔ ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں بھی یہ انقلابات تاریخی حوالے سے یکسر ضائع نہیں جاتے بلکہ خود ان انقلابی تحریکوں میں شریک محنت کشوں کے ہر اول اور باشعور حصے انتہائی اہم اسباق سیکھتے ہیں اور دوسری جانب دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے بھی ان انقلابات سے سیکھنے کے لیے نہایت اہم اسباق موجود ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہمارے عہد میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں ابھرنے والے انقلابات اس نظام کے خاتمے کے لیے معروضی حالات کے پختہ ہو جانے کے اعلانات ہیں۔ اب کوئی سنکی اور بدبخت یا پھر حکمران طبقے کا وظیفہ خور ہی ان ولولہ انگیز انقلابی بغاوتوں سے مایوس کن نتائج اخذ کر سکتا ہے۔

نتائج اور مستقبل کے امکانات

کشمیر کے محنت کش عوام کی اڑھائی سال سے جاری بنیادی حقوق کی تحریک لڑائی کے موجودہ مرحلے سے گزرتے ہوئے ایک انقلابی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے۔اگرچہ اگلے مراحل کی لڑائیاں بھی پہلے سے تسلیم شدہ مطالبات پر عملدرآمد کے وعدوں کی تکمیل یا غیر تسلیم شدہ مطالبات کو تسلیم کرانے کی بنیاد پر ہوں گی مگر ان کے دوران مطالبات کی بجائے اس نظام کی تبدیلی کی بحث زیادہ سے زیادہ حاوی ہوتی جائے گی۔ محنت کش عوام کے زیادہ باشعور حصے تحریک کے تجربات سے گزرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے جا رہے ہیں کہ عوامی مسائل کا حتمی حل جدوجہد کے موجودہ طریقے سے ممکن نہیں ہے۔ جوائنٹ کمیٹی کے اکثریتی ممبران تحریک کے حقیقی کردارکی درست سمجھ بوجوھ نہیں رکھتے۔ ان سے زیادہ درست نتائج حکمران طبقات کے کچھ حصے اخذ کر چکے ہیں اگرچہ وہ اس کا اظہار اپنے گروہی مفادات کے پیش نظرکر رہے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس بنیادی سچائی کا برملا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ عوام نے موجودہ نظام کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کی بنیاد پر تحریک کے مستقبل کی حکمت عملی اور امکانات کو زیر بحث لایا جانا ضروری ہے۔ کشمیری عوامی کی اکثریت نہ صرف اس نظام کو یکسر مسترد کر چکی ہے بلکہ عملی طور پر غیر منظم انداز میں اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے نیم شعوری ارادوں کا اظہار بھی کر چکی ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جہاں عوام تحریک کی موجودہ قیادت سے بہت آگے کھڑی ہے۔ انہی بنیادوں پر تحریک کے اگلے مراحل کی لڑائی لڑی جائے گی۔

اگرچہ جوائنٹ کمیٹی کے کچھ ممبران بھی یہ کہتے ہیں کہ موجودہ نظام میں مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ ممبران بھی یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ کس نظام کی بات کر رہے ہیں۔ آیا ان کی مراد کشمیر میں رائج موجودہ حاکمیت کے ڈھانچے کی بے اختیاری ہے یا وہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی بات کر رہے ہیں۔آنے والے انتخابات کے سوال پر بھی اسی قسم کی مبہم گفتگو کی جاتی ہے کہ اس نظام میں انتخابات میں حصہ لینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتخابات میں مسترد شدہ پارٹیوں کے لیے خالی میدان نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ تمام بیانات انتہائی گہرے نظریاتی اور سیاسی ابہامات کی عکاسی کرتے۔ درحقیقت کشمیر کی عوامی تحریک احتجاجوں، لانگ مارچوں اور غیر معینہ مدت کی عام ہڑتالوں جیسے انتہائی اقدامات کے ذریعے عوامی مسائل کے حل جیسے بے شمار تجربات سے گزر چکی ہے۔ ان تجربات کے عملی نتائج سے اس نظام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مسائل کے حل کی محدود سی گنجائش واضح ہو تی جا رہی ہے۔ سستی بجلی تو محنت کش عوام نے اپنی اجتماعی طاقت کے بلبوتے پر حاصل کر لی ہے لیکن بجلی کی وولٹیج کی کمی اور لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل شدت اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ آٹے کی قیمت میں کمی تو ہوگئی ہے لیکن آٹے کا معیار انتہائی نا قص کر دیا گیا ہے۔ ان مسائل کے خلاف آئے روز مختلف علاقائی کمیٹیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اسی طرح حکمران کسی لانگ مارچ یا عام ہڑتال کے دوران جن مطالبات کو تسلیم کر لیتے ہیں ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ٹال مٹول اور وعدہ خلافیوں کا سلسلہ ایک معمول ہے۔پانچ روز کی مکمل ہڑتال، درجنوں شہادتوں اور دیگر کئی درجنوں زخمیوں کی قربانیوں کے بعد بھی اگر مفت اور معیاری علاج، مفت اور یکساں تعلیم اور روزگار یا بیروزگاری الاؤنس جیسے بنیادی حقوق حاصل نہیں کیے جا سکے تو پھر ان مطالبات کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟ یہ سوال از خود اس نظام کے اندر عوامی مسائل کے حل کی گنجائش کی بحث کو سامنے لے آتا ہے۔ دوسری جانب اگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے تو اس کو بھی یہ واضح کرنا پڑے گا کہ ان بنیادی مسائل کے حل کے لیے آخر عوام کو مزید کیا کرنے اور کتنی قربانیاں دینے کی ضرورت ہے؟ درحقیقت تحریک کی تمام پیش رفت اور بالخصوص موجودہ مرحلے نے اسی نظام کو قائم رکھتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کی سوچ، جدوجہد اور طریقہ کار کی محدودیت کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس نظام کو قائم رکھتے ہوئے عوام کے اجتماعی مسائل کو جزوی طور پر بھی حل کرنا ممکن نہیں۔خود تحریک کے تجربات یہ ثابت کر چکے ہیں کہ لاکھوں کے مارچ اور کئی روز کی ہڑتالوں کے ذریعے کچھ مطالبات کو تسلیم کرانے اور پھر حکمرانوں کی وعدہ شکنیوں کے خلاف نئے سرے سے احتجاج کا طریقہ کار اب کار آمد نہیں رہا۔ اس کے برعکس تحریک کی اپنی پیش رفت اور تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہوئے ایک انقلابی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ تحریک کا موجودہ مرحلہ واضح طور پر سیاسی طاقت اور اقتدار کے سوال کو سامنے لے آیا ہے۔یہ سوال اب مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ سیاسی اقتدار اسی حکمران ٹولے کے پاس رہے گا یا محنت کش عوام سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے؟

تحریک کے اپنے تجربات اور اس کی بڑھوتری کے مراحل کے پیش نظر انقلابی کمیونسٹ پارٹی اپنے اس مؤقف کا واضح اعلان کرتی ہے کہ کشمیر کی تحریک کے مستقبل کے حوالے سے واحد راستہ یہی ہے کہ محنت کش عوام کی خدمات کے شعبے کے محنت کشوں سے جڑت بناتے ہوئے سیاسی اقتدار کی محنت کشوں کی منتخب کمیٹیوں کو منتقلی کے لیے سیاسی تیاری کا آغاز کیا جائے۔محنت کش عوامی کی سیاسی اقتدار کے حصول کی تیاری سب سے پہلے سرمایہ داری نظام کی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمے کی نظریاتی سمجھ بوجھ حاصل کرنے اور ساتھ ساتھ ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیرکو تیزی سے آگے بڑھانے کا عمل ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی محنت کشوں کی منتخب کمیٹیوں کے سیاسی اقتدار کے حصول کی جدوجہد کے آغاز کا اعلان کرتی ہے اور تمام باشعور انقلابی کارکنان کو انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنتے ہوئے اس جدوجہد کو تیزی سے آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتی ہے۔کشمیر کے محنت کشوں کے حق ملکیت اور حق اقتدار کے حصول کا واحد انقلابی راستہ اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے تمام وسائل کی ملکیت اور حکمرانی کاا ختیار محنت کشوں کی منتخب کمیٹیوں کو منتقل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ اس کے ساتھ اس جدوجہد کو گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان کے محنت کش طبقے کی اس نظام کے خاتمے کی لڑائی کے ساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے حکمران طبقات اور ریاست کشمیر میں اپنے گماشتہ حکمرانوں کی حاکمیت کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی وہ ایسا کرتے رہیں گے۔ کشمیر کے محنت کشوں کی اس نظام کے خاتمے کی لڑائی میں پاکستان سمیت دنیابھر کے محنت کش ان کے فطری اتحادی ہیں لیکن اس اتحاد کو عملی شکل دینے کے لیے مارکسزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد ضروری ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں قومی تنگ نظری اور محدودیت سے زیادہ خطرناک کوئی دوسری سوچ نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچ کہ کشمیر کے اس چھوٹے سے پسماندہ خطے کے اندر ہماری جدوجہد کو ئی بالکل الگ ہے اور اسے پاکستان کے محنت کشوں سے جوڑنا ضروری نہیں درحقیقت کسی دیوانے کا خواب اور تحریک کے لیے زہر قاتل ہے۔ حکمران طبقات کی بھی یہ کوشش ہے کہ کشمیر کی جدوجہد کو پاکستان کے محنت کشوں تک پھیلنے سے روکا جائے اور اسی لیے وہ نہ صرف میڈیا بلیک آؤٹ جیسے گھناؤنے حربے استعمال کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اپنے گماشتہ میڈیا اور دانشوروں کے ذریعے اس تحریک کے خلاف بہتان تراشی کی سبھی حدوں کو پار کر چکے ہیں۔ حکمرانوں کے اس حربے کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنی تحریک کو بالخصوص پاکستان اور بالعموم پورے خطے کے محنت کشوں تک لے جانے کی عملی کوششوں کا آغا زکرنا ہوگا۔کشمیر کے باشعور نوجوانوں اور محنت کشوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس تحریک کی درست سمتوں میں نظریاتی اور تنظیمی رہنمائی کو یقینی بناتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی لڑائی کو حتمی کامیابی سے ہمکنار کریں۔ پاکستان اور خطے بھر کے محنت کشوں کی عملی حمایت اور یکجہتی سے کشمیر سے اس نظام کا خاتمہ برصغیر سمیت پوری دنیا سے اس نظام کے خاتمے کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.