خیسور کی چیخ

|تحریر: پارس جان|

خطے کی صورتحال میں ایک بار پھر شدید ابال امڈتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کی خبروں کے بعد سے علاقائی سامراجی طاقتوں کے افغانستان کے ساتھ اور آپسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ پھر تیز ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ادھر امریکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اپنی افواج کے مرحلہ وار انخلا کے لئے درکار سفارتی و علاقائی توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں ظاہر ہے کہ پاک۔چین گٹھ جوڑ کے توڑ کے طور پر بھارت کا مبالغہ آرائی پر مبنی کردار بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ایران بھی خطے میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر موجود ہے اور سعودی عرب کی مسلسل بڑھتی ہوئی کاسہ لیسی کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے مابین مستحکم تعلقات کی استواری بجا طور پر خارج از امکان قرار دی جا سکتی ہے۔ ملکی و بین الاقوامی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا باہمی مسابقت کے ماحول میں اس صورتحال کو اور بھی زیادہ سنسنی خیز بنانے میں محو ہے۔ سب سے زیادہ سنسنی تو پاکستانی ریاست کے ایوانوں میں محسوس کی جارہی ہے۔ اتنے بے ہنگم شور شرابے میں گزشتہ دو ہفتوں سے شمالی وزیرستان کے یخ بستہ اور مسحور کن پہاڑوں اور وادیوں میں گونجتی گھائل خیسور کی چیخ کسی کو سنائی نہیں دے رہی۔ گونگے، بہرے اور اندھے میڈیا کی یکطرفہ بے رخی اور کج روی کے باوجود یہ چیخ تھکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ شاید یہ تھکاوٹ سے تھکی ہوئی اور بیزاری سے بیزار روحوں کی اجتماعی چیخ ہے جس کو لا امتناعی وقت تک سن کر ان سنا کر دینا ممکن ہی نہیں۔ اس چیخ میں اتنا کرب، اذیت اور وحشت ہے کہ اب یہ للکار بن کر خطے کے پہاڑوں کی ہی نہیں بلکہ خطے کے نامور سورماؤں کی سماعتوں کو بھی آتش فشاں کی طرح پھاڑ کر نکل سکتی ہے۔

خیسور جو پہلے ہی برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز سرکار کے خلاف 1930ء میں کی گئی فقیدالمثال مسلح بغاوت کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے، اس بار گوروں کی جگہ بھوروں کی بے حسی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا تھا جب خیسور کے ایک تیرہ سالہ بچے جس کا نام حیات وزیر ہے، کا ایک ویڈیو انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں وہ پاکستانی سکیورٹی کے اہلکاروں پر جنسی ہراسگی جیسے بہیمانہ الزامات عائد کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا باپ اور بھائی پہلے ہی کئی ماہ سے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں جبکہ وہ گھر میں واحد مرد ہے اور سکیورٹی اہلکار نہ صرف اس کے گھر میں گھس کر چادر چاردیواری کی حرمت کو پامال کرتے ہیں بلکہ مزید غیر اخلاقی و قانونی تقاضے بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی انسانی معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے اور خاص طور پر قبائل جنہیں پسماندہ تصور کیا جاتا ہے، ان کی سماجی زندگی کا مرکز و محور ہی رسوم و رواج اور مسلمہ اقدار ہیں، ان کے لئے تو یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ ہم یہاں پر تمام رسوم و رواج کی اچھائی یا برائی کو بحث میں شامل نہیں کرنا چاہتے، ان کے حوالے سے مختلف مکاتب فکر کی آراء مختلف ہو سکتی ہیں، مگر ریاستی طاقت کے گھمنڈ اور نشے میں بدمست اس طرح کی درندگی کسی کے لئے بھی قابل برداشت نہیں ہو سکتی۔ انتہائی ترقی یافتہ اور مہذب ترین انسانی معاشروں میں بھی عورت کی سماجی مرتبت ہی بنیادی پیمانہ تر قی قرار دی جا سکتی ہے۔ جب تک بڑے پیمانے کی انڈسٹریلائزیشن کے ذریعے جدید فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر کی تعمیر کا تاریخی فریضہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاتا اس وقت کسی لبرل دانشور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی بھی ثقافت کو گالی دے۔ حکمران طبقے کی تاریخی نا اہلی کی سزا محکوموں اور لاچاروں کو نہیں دی جا سکتی۔ عظیم مارکسی اساتذہ نے تو واضح طور پر عورت کو ہی سماجیات کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے۔ عورت کی ملکیتی جنس کی حیثیت کا سوال اپنی جگہ حل طلب ہے اور عورت کو انسان کے درجے پر لانے کے بجائے مغربی گلیمرائزیشن نے اسے مزید غلامی کی زنجیروں میں ہی جکڑا ہے، اس کے لئے تو ملکیتی اور جائیداد کے رشتوں پر استوار یہ سارا نظام ہی نیست و نابود کرنا ہو گا۔ مگر اس سے قبل خاص طور پر قبائلی معاشروں میں چادر چاردیواری کا تقدس اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ عشرے میں بلوچستان سے ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ایک فوجی افسر کی زیادتی کے معاملے پر ہی مسلح مزاحمت پھوٹ پڑی تھی۔ بدقسمتی سے مقتدر حلقوں نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس بار بھی روایتی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ متاثرین کے زخموں پر مرہم لگانے کی بجائے نمک چھڑک کر بغاوت کی چنگاری کو مزید ہوا دی جا رہی ہے۔ بے دریغ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والوں کی یہ محب الوطنی کا یہ معیار ناقابل فہم تو تھا ہی، اب ناقابل برداشت بھی ہوتا جا رہا ہے۔

ریاستی رویے کا اندازہ قومی اسمبلی میں اس مدعے پر ہونے والی بحث سے لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں نہ صرف پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے اس معاملے پر آواز اٹھائی بلکہ جمعیت علمائے اسلام کے قبائل سے تعلق رکھنے والے ممبران نے بھی اپنے دل کے زخم عریاں کر دیئے اور نسلوں کی وفاداری کے بدلے میں ملنے والی تذلیل پر دل کھول کر آہ و فغاں کی۔ مگر اس کے ردعمل میں حکومتی بنچوں سے ایک ریاستی کٹھ پتلی ممبر اسمبلی کی طرف سے جو زبان استعمال کی گئی اس نے اشتعال اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے اور بھی بھڑکا دیا۔ مذکورہ ممبر اسمبلی کے لئے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بہت سے حکومتی ذمہ داران بھی برملا اظہارخیال کرتے ہیں کہ موصوف ایوان میں جمہوری حکومت کے نہیں بلکہ خطے کے حقیقی ٹھیکیداروں کے نمائندے ہیں۔ کراچی کے لوگ موصوف کو ملنے والے ووٹوں کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں۔ اس سے پہلے ٹی وی پر مذہبی جذبات کی ہتک آمیز نیلامی کے ذریعے اس شخص کی مقبولیت کے غبارے میں مصنوعی طور پر ہوا بھری گئی تھی تاکہ اس قیمتی اثاثے کو حسب ضرورت و منشا کہیں بھی استعمال کیا جا سکے۔ لیکن ایک بحران زدہ نظام کی پروردہ ریاست کے مہرے بھی ثقافتی طور پر اور زیادہ مکروہ اور غلیظ ہو جایا کرتے ہیں۔ اس شخص کی موجودگی بھی ایوان میں سوائے تعفن کے اور کچھ نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان ایوانوں میں پہلے ہی بہت غلاظت موجود ہے مگر مذکورہ ممبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ اور اس کی بد زبانی کے بعد پشتون ممبران میں مزید اشتعال بالکل منطقی تھا۔ یاد رہے کہ موصوف اپنے ایک ٹی وی شو میں پہلے بھی پشتون قبائل کی سیاسی قیادت کے خلاف زہریلے پراپیگنڈے میں ملوث رہے ہیں۔ اس وقت بھی کھلی صحافتی بد دیانتی کے باوجود اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی اور اب کی بار بھی اس کے پروردگاروں کی معنی خیز خاموشی خطرناک پیغام دے رہی ہے۔ ہم تو اس نام نہاد مذہبی و محب الوطن پیشوا کے لئے بس اتنا ہی کہیں گے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔

اس کے بعد حال ہی میں ریاستی ذمہ داران نے وزیرستان کے دورے کے دوران انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔ انہوں نے حیات وزیر کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو یکطرفہ طور پر بے بنیاد قرار دے کر ملک کے خلاف ہونے والی دیگر سازشوں کا ہی تسلسل قرار دے دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ واقعی کوئی سازش ہے بھی تو اسے تمام تر با ضابطہ کاروائی کے ذریعے بے نقاب کرنے کی بجائے محض مسترد کر دینا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ ایسے میں جب امریکہ نے بھی پاکستان کے دیرینہ مطالبے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں درندہ صفت طالبان سے بھی مذاکرات شروع کر دیئے ہیں تو ہر ذی شعور کے دماغ میں ایک ہی سوال سر اٹھا رہا ہے کہ ان پرامن مظاہرین کے ساتھ آخر مذاکرات میں کونسی ایسی رکاوٹ حائل ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا جن کے مطالبات کو وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر بہت سے حکومتی و اپوزیشن کے رہنما سراسر آئینی اور قانونی قرار دے چکے ہیں۔ یہاں تک کہ خود چیف آف آرمی سٹاف اور ابھی حال ہی میں مسلح افواج کے ترجمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا اعتراف کیا کہ یہ بالکل جائز اور آئینی مطالبات ہیں جن پر بیٹھ کر گفت و شنید کی گنجائش نہ صرف موجود ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور خاص طور پر خیسور کے معاملے کی حساسیت تو اور بھی زیادہ احتیاط اور توجہ کی مستحق ہے۔ ابھی عوامی سطح پر اس دلسوز چیخ کی ملکی سطح پر پذیرائی نہ ہو سکنے کی ایک بڑی وجہ انہی دنوں میں رونما ہونے والا سانحہ ساہیوال تھا جس پر لوگوں نے دل کھول کر سوشل میڈیا پر اپنی بھڑاس نکالی۔ بلاشبہ وہ سانحہ بھی ریاستی وحشت کی المناک داستان ہے مگر اس سے خیسور کے معاملے کی حساسیت کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پنجاب اور پشتونخوا دونوں جگہ پر دور اندیش اور سائنسی نظریات سے لیس قیادت کے فقدان نے موجودہ ریاستی اداروں کو مصنوعی آکسیجن فراہم کی ہوئی ہے۔ مگر ریاست کا معاشی، سیاسی، سفارتی بحران ایک ملک گیر انقلابی تحریک کی تیاری میں عمل انگیز کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جلد یا بدیر یہ لاوا ضرور پھٹے گا۔

ایسے میں لبرل دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ اس خطے میں پھر ایک نئی گریٹ گیم شروع ہونے جا رہی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں افواج اور مقامی آبادی کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ حالانکہ ریاستی اداروں کا اپنا طرزعمل دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ فاٹا میں بھی بلوچستان کی طرح مسلح مزاحمت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مسلح مزاحمت بظاہر ریاست کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوتی ہے مگر جس نظام کی یہ ریاست پروردہ ہے اس کو کمزور کرنے کی بجائے اور مضبوط کرتی ہے اور ہر سطح اور طرز کی ریاستی سفاکیت کا سماجی و سیاسی جواز بن جاتی ہے۔ جس کا سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف تحریک کے مراکز میں بلکہ خطے میں بھی بالعموم تحریک کی سماجی حمایت مسلسل کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے نہایت صبر ، ظرف اور استقامت کے ساتھ نہ صرف اس پرامن سیاسی جدوجہد کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو ایسے نظریات اور پروگرام سے لیس کیا جانا چاہئے جو سارے خطے کے محنت کشوں کی توجہ، امید اور تڑپ کا محور بن سکے کیونکہ یہ لڑائی تمام قوموں اور مظلوم طبقات کی باہمی جڑت کے دم پر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ ہم مارکس وادی لبرل کالم نگاروں اور دانشوروں کے جواب میں بس یہی کہنا چاہیں گے کہ یہاں کوئی نئی گریٹ گیم شروع نہیں ہونے والی۔ لڑائی بھی وہی ہے اور میدان بھی وہی۔ لڑائی کل بھی امیر اور غریب، ظالم اور مظلوم، سرمایہ دار اور مزدور کی تھی آج بھی درپردہ یہی دونوں اصلی دشمن ہی صف آرا ہیں اور مظلوم طبقات کو نظریاتی، سیاسی و ادبی ہر محاذ پر درست رہنمائی اور اتحاد کی ضرورت ہے، سرفروشی، جرات اور ولولہ تو پہلے ہی بدرجہ اتم موجود ہے۔

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

Comments are closed.