خیبرپختونخوا: سیلاب کی تباہی، ماحولیاتی بحران اور نظام کی ناکامی

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبرپختونخوا|

حالیہ سیلاب نے پاکستان کے شمالی حصوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے، جن میں خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ پورے کے پورے گاؤں مٹ گئے اور سینکڑوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ انسانی اور معاشی نقصان بے پناہ ہے۔ گزشتہ برسوں کی موسمیاتی آفات نے عام عوام کو اس بھیانک خواب کا شدت سے احساس دلایا ہے جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔ صرف بونیر کے ایک گاؤں میں چار سو سے زیادہ افراد کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں بننے والے سیلاب میں جاں بحق ہو گئے ہیں، پورے کے پورے خاندان ختم ہو گئے ہیں جبکہ ہزاروں متاثرین زخمی ہو گئے ہیں اور ہزاروں مال مویشی اور گاڑیاں سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ اسی طرح باجوڑ، سوات دیر اور گلگت بلتستان میں بھی درجنوں لوگ جاں بحق اور زخمی ہو گئے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی تمام محنت کش عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور امدادی کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

یہ ایک نظام کا بحران ہے، جس کا نام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ پاکستان میں ٹمبر مافیا، رئیل اسٹیٹ اور سب سے بڑھ کر ریاستی سکیورٹی اور بیوروکریسی کے اداروں نے جنگلات کی کٹائی اور بے تحاشہ شہری پھیلاؤ میں ایک بھیانک کردار ادا کیا ہے۔ اس ملک کے حکمران طبقے کی نااہلی اور بے حسی پر عوام کی جانب سے تنقید کرنا بالکل درست اور ضروری ہے، عوام کے تئیں ان کی لا پرواہی اور ان عظیم مسائل کے حل کے لیے غیر سنجیدگی بالکل واضح ہے جن کا لوگ سامنا کر رہے ہیں۔ تاہم، اس مسئلے کی جڑ کو سمجھنا نہایت اہم ہے تاکہ اصل حل تلاش کیا جا سکے۔ موسمیاتی بحران محض مقامی یا انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس نظام کا پیدا کردہ مسئلہ ہے، یہ کوئی ”قدرتی آفت“ نہیں، بلکہ سرمایہ داری اور حکمران طبقے کے جرائم کا نتیجہ ہے۔

مرحوم ہیوگو شاویز نے 2009ء میں کوپن ہیگن کے ماحولیاتی اجلاس میں اس مسئلے کو یوں بیان کیا:

”ایک بھوت کوپن ہیگن میں منڈلا رہا ہے، کارل مارکس کے الفاظ کو دہراتے ہوئے، ایک بھوت کوپن ہیگن کی گلیوں میں گھوم رہا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ بھوت خاموشی سے اس کمرے میں بھی گھوم رہا ہے، ہمارے درمیان، ہالوں میں، نیچے سڑکوں پر۔ یہ ایک ہولناک بھوت ہے جس کا ذکر کرنے کی کسی میں ہمت نہیں: وہ بھوت سرمایہ داری کا بھوت ہے، جس کا کوئی ذکر نہیں کرنا چاہتا۔“

گزشتہ تین سو سالوں سے منافع کی لالچ میں سرمایہ داری نے قدرت کو بپھرا دیا ہے، جو اب ناقابلِ تصور پیمانے پر تباہ کاریاں برپا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ قومی سطح پر کچھ حد تک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا میں سرمایہ دارانہ ترقی کی ناہمواری کے باعث نوآبادیاتی ممالک مؤثر حل نافذ کرنے سے قاصر ہیں، چاہے وہ اس حوالے سے سنجیدہ بھی ہوں اور ان ممالک کے عوام کو سرمایہ داری کے بحران کی سب سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

موسمیاتی بحران دراصل ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اور بڑی کارپوریشنز اس تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں، لیکن اس کا سب سے زیادہ بوجھ محنت کش طبقے اور غریب عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ روزگار کے خاتمے، معاشی بوجھ اور ”گرین پالیسیوں“ کے نام پر عائد کیے جانے والے اخراجات کی صورت میں۔ یورپ کے کئی ممالک میں، مثال کے طور پر، سبز ٹیکس نافذ کیے گئے ہیں یا ان پر غور کیا جا رہا ہے۔ جو بنیادی ضروریات جیسے فضائی سفر یا کھانے کی اشیاء مثلاً گوشت پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ دراصل مزدوروں اور غریبوں کو اس بحران کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے، جسے سرمایہ دار طبقے نے پیدا کیا ہے۔ کسان، محنت کش اور غریب بستیاں ڈوبتی ہیں، جبکہ امیر طبقہ محلوں میں یا بیرونِ ملک محفوظ ہے۔

حل کیا ہے؟

سرمایہ داری طبقاتی تفریق، نجی ملکیت، اور قومی ریاست کے ڈھانچے پر قائم ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دائرے میں اس آفت کا کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اب یہ نظام انسانوں کی جان و مال کی حفاظت اور معاشرے کو ترقی دینے میں ناکام ہو چکا ہے اور صرف مٹھی بھر اشرافیہ ہی اس نظام میں اپنی لوٹ مار اور منافع خوری جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک کمیونسٹ معاشرے میں حل ہو سکتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں پیداوار کے ذرائع کی اجتماعی ملکیت ہو اور جو انسانی ضرورت کے گرد منظم ہو، نہ کہ بورژوا قومی ریاست کے مفادات کے گرد۔ یہ وہی مسئلہ ہے جس کا ذکر اینگلز نے اس وقت کیا تھا جب اس نے ”قدرت پر فتح“ اور ”کائنات پر فتح“ کی بات کی تھی۔ یہ بحران سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے حل نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ داری ذاتی ملکیت اور قومی ریاست پر قائم ہے۔ یہ نظام صرف تباہی پیدا کر سکتا ہے، کوئی حل نہیں۔

اصل حل ایک کمیونسٹ معاشرے میں ہے، ایک ایسا معاشرہ جس میں جنگلات، زمین، پانی، توانائی اور ذرائع پیداوار کو محنت کش طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں لیتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار اور منافع خوری کا خاتمہ کیا جا سکے۔ سرمایہ دار طبقہ قدرتی وسائل کو اپنی منافع خوری کے لیے استعمال کرتا ہے جو ماحولیاتی بربادی کا باعث رہا ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں تمام قدرتی سائل محض چند سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کی بجائے، عام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔ قومی ریاستوں کی تنگ دیواریں توڑ کر عالمی سطح پر منصوبہ بندی معیشت ایک سوشلسٹ نظام میں ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ بنیادوں پر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو سرمایہ داری حکمران طبقے کی منافع خوری پہلے سے کہیں زیادہ شدید ماحولیاتی بربادی اور ماحولیاتی بحران کو جنم دے گی، جس کی قیمت سماج کی پسی ہوئی پرتوں، محنت کشوں اور کسانوں کو ادا کرنی پڑے گی۔ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہے۔

Comments are closed.