خیبرپختونخوا: دہشتگردی اور ریاستی جبر سے نجات، مگر کیسے؟

|تحریر: زلمی پاسون|

19مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک مبینہ ڈرون حملے میں چار بچے ہلاک جبکہ پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد مقامی سطح پر بچوں کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کر آٹھ روز تک احتجاج اور دھرنا دیا گیا، 27 مئی کو انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ختم کر کے لاشوں کی تدفین کی گئی تھی۔ دھرنا منتظمین کے ترجمان مولانا بیت اللہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آئندہ ڈرون حملے اور شہری علاقوں میں گولہ باری وغیرہ نہیں کی جائے گی۔ 19 مئی کا واقعہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ اس سامراجی جنگ کا تسلسل ہے جس کا مرکز خیبر پختونخوا کو بنایا گیا ہے، جہاں عوام کے زخموں پر ریاست اور سامراج کی ملی بھگت سے بار بار نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سرکاری اہلکاروں کا یہ دعو یٰ بھی ہے کہ ان علاقوں میں موجود مسلح شدت پسند بھی اب ڈرون اور کواڈ کاپٹرز کا استعمال کر رہے ہیں، تاہم فی الحال اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ مگر 27 مئی کی شام کو ہی جنوبی وزیرستان میں مبینہ ڈرون حملے میں کم سے کم 23 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں چار کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی تھی۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ کواڈ کاپٹر یا ڈرون سے دھماکہ خیز مواد گرنے کا یہ واقعہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل کی مرکزی شاہراہ کے قریب اُس وقت پیش آیا جب مقامی افراد والی بال کا میچ کھیل رہے تھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

دہشتگردی کی موجودہ لہر؛ اعداد و شمار پر ایک نظر

اگست 2021ء سے مئی 2025ء تک خیبر پختونخوا میں مبینہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے نتیجے میں مجموعی طور پر تقریباً 2466 افراد ہلاک ہوئے، جن میں شہری، سکیورٹی اہلکار اور دہشت گرد شامل ہیں۔ سال 2021ء میں 300، 2022ء میں 527، 2023ء میں 929، 2024ء میں 685 سے زائد حملے ریکارڈ ہوئے ہیں۔ اس عرصے کے دوران مجموعی طور پر تقریباً 1661 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 2022ء میں 225، 2023ء میں 800 سے زائد اور 2024ء میں 636 حملے شامل ہیں۔ ان میں 6 خودکش حملے، 113 بم دھماکے اور 355 فائرنگ کے واقعات بھی شامل ہیں۔ نمایاں حملوں میں جنوری 2023ء میں پشاور پولیس لائنز مسجد حملہ جس میں 84 ہلاکتیں، جولائی 2023ء میں باجوڑ جلسے پر حملہ جس میں 63 ہلاکتیں اور نومبر 2024ء میں کرم میں شیعہ قافلے پر حملہ جس میں 54 ہلاکتیں شامل ہیں۔ 2025ء کے پہلے پانچ مہینوں جنوری تا مئی میں خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں مجموعی طور پر کم از کم 206 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں 49 سیکیورٹی اہلکار، 34 شہری، اور 123 دہشت گرد شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام تر اعداد و شمار مختلف نشریاتی اداروں کی ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں۔

امریکی انخلاء، طالبان کی واپسی اور خیبرپختونخوا

افغانستان سے امریکی سامراج کے ذلت آمیز انخلا کے بعد سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے طالبان کو دوبارہ مسند اقتدار ملنے کے بعد پاکستان، بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا اور دہشت گردی کی اس نئی لہر کے خلاف خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں جیسے بنوں، وزیرستان، لکی مروت اور کرک میں عوام نے از خود بغیر کسی قیادت یا سیاسی پارٹی کے احتجاج شروع کر دیے۔ لوگوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو چکا ہے کیونکہ وہ نہ صرف عوام کی حفاظت میں ناکام ہو چکے ہیں بلکہ کئی بار ان پر مبینہ دہشتگرد عناصر سے نرم رویہ رکھنے یا تعاون کرنے کے جرائم بھی واضح ہیں۔ یہ احتجاج عوامی غصے کا نتیجہ ہے، جو ٹارگٹ کلنگ، اغوا، بھتہ خوری اور طالبان کی واپسی جیسے مسائل پر پیدا ہوا ہے۔ عوام اب خود سڑکوں پر آ رہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں اور فورسز سے جواب طلب کر رہے ہیں۔

اس تحریک میں خواتین، نوجوان اور بوڑھے اپنی بساط کے مطابق شامل ہیں، جس سے ان احتجاجوں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ یہ جدوجہد منظم یا مربوط نہیں، لیکن یہ عوامی شعور میں ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے کہ لوگ اب خاموش رہنے کو تیار نہیں، بلکہ اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔ ریاست، سیاسی قوتیں اور سوسائٹی سب کے لیے یہ ایک اہم پیغام ہے کہ عوامی بے چینی بڑھ رہی ہے اور اسے نظر انداز کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ مارکسی اصطلاح میں یہ صورتحال سامراجی مرحلے میں داخل شدہ سرمایہ داری کی بحران زدہ شکل کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں منافع کی خاطر خطے کو مسلسل عسکری تجربہ گاہ بنایا جاتا ہے اور قوموں کو مصنوعی تقسیم و تصادم میں الجھا کر عالمی سرمائے کی توسیع کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا کی مخدوش حالت، مختصر تاریخی خاکہ

خیبرپختونخوا ایک ایسا خطہ ہے جو جغرافیائی، سیاسی اور تاریخی طور پر بہت پیچیدہ مسائل کا مرکز رہا ہے۔ اس صوبے کی سرحد افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، جہاں موجودہ ڈیورنڈ لائن کی حیثیت نہ صرف ایک متنازع سرحد ہے بلکہ خطے میں جاری جنگوں، عسکری کشیدگی اور دہشتگردی کی بنیادی وجوہات میں ایک اہم فیکٹر بھی ہے۔ افغان جنگوں اور اس کے بعد سامراجی پشت پناہی سے طالبان کے پہلے اقتدار، پھر عالمی سامراجیت کی افغانستان میں مداخلت کے بعد سامراجی کٹھ پُتلیوں کی بھاگ دوڑ، اور 2021ء میں امریکی سامراج کے ذلت آمیز انخلاکے بعد پھر سے طالبان کے اقتدار نے اس خطے کی صورتحال کو اور بھی نازک بنا دیا ہے۔ اس خطے میں دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، غیر مستحکم سیاسی حالات اور سماجی خلفشار کا بنیادی سبب یہی متنازعہ سرحدی پوزیشن اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی و عسکری خلا ہیں۔

خیبر پختونخوا میں مبینہ دہشتگردی کو کمیونسٹ نقطہ نظر سے صرف مذہبی انتہا پسندی یا بیرونی مداخلت کا نتیجہ سمجھنا تجزیاتی سطح پر ناکافی ہے۔ درحقیقت، یہ مسئلہ سامراجی مفادات، ریاستی تضادات اور مقامی طبقاتی ساخت کی پیداوار ہے۔ سوویت مداخلت کے بعد امریکی سامراج نے مجاہدین کو پراکسی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس خطے کو عسکری تجربہ گاہ میں تبدیل کیا، جس کا تسلسل آج طالبان، داعش اور دیگر گروہوں کی شکل میں موجود ہے۔ پاکستانی ریاست نے ان گروہوں کو اسٹرٹیجک گہرائی (Strategic depth) کے نظریے کے تحت پروان چڑھایا، جس کا خمیازہ خود خیبر پختونخوا کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ یہاں دہشتگردی نہ صرف عالمی سامراجی قوتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہے، بلکہ خود مقامی حکمران طبقے کی داخلی کمپراڈور بورژوا پالیسیوں کا بھی شاخسانہ ہے، جو معاشی استحصال، قومی جبر اور سیاسی استحکام کے نام پر عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے شدت پسند عناصر کو بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔ لینن کے مطابق، دہشتگردی کا پھیلاؤ ایک ایسی سماجی فضا میں ہوتا ہے جہاں محنت کش طبقہ سیاسی طور پر منظم نہ ہو اور جہاں ریاست خود تضادات سے بھری ہو۔ خیبر پختونخوا اس کی ایک واضح مثال ہے، جہاں عوامی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی نے ریاستی جبر اور سامراجی پراکسی کو کھلی چھوٹ دی۔ اس کا واحد حل مزدور طبقے کی قیادت میں مظلوم قومیتوں کی ایک انقلابی اشتراک پر مبنی جدوجہد ہے، جو نہ صرف دہشتگردی بلکہ اسے جنم دینے والے پورے سرمایہ دارانہ سامراجی ڈھانچے کا خاتمہ کر سکے۔

ذمہ دار کون؟

خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی لہر اور مجموعی طور پر امن و امان کی مخدوش صورت حال کی ذمہ داری محض چند غیر ریاستی عناصر پر ڈال کر مسئلے کی گہرائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مارکسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ریاستِ پاکستان کی ”ڈبل گیم“ جہاں وہ بظاہر دہشتگردی کے خلاف جنگ کی دعویدار رہی ہے مگر پس پردہ مخصوص شدت پسند گروہوں کو جغرافیائی اور تزویراتی مقاصد کے لیے استعمال بھی کرتی رہی ہے جو اس بحرانی کیفیت کا مرکزی محرک ہے۔ اس حکمتِ عملی نے خیبرپختونخوا کو پراکسی جنگوں کا میدانِ کار زار بنا دیا، جہاں محنت کش عوام اور مظلوم قومیتیں سب سے زیادہ قربانیاں دے رہے ہیں۔

ریاستی ذمہ داری

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے تسلسل کی سب سے واضح شکل ہے، جو اسی ”پٹرو ڈالر جہاد“ اور ریاستی پالیسیوں کی پیداوار ہے۔ کمیونسٹ نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی نہ کوئی عوامی یا مذہبی تحریک ہے، نہ ہی کسی مظلوم قوم کی نمائندہ، بلکہ یہ سامراجی مفادات کی پیداوار اور پاکستانی ریاست کے عسکری و انٹیلی جنس اداروں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج یہ گروہ عوام دشمن قوت کے طور پر نہ صرف بے گناہ شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے بلکہ محنت کش طبقے، خواتین، طلبہ، ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ریاست کی جانب سے ایسے گروہوں سے ”مذاکرات“ یا انہیں ”مین اسٹریم“ کرنے کی کوششیں دراصل دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ اس کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا عمل ہے۔ لہٰذا، کمیونسٹ مؤقف یہی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی جڑیں امریکی سامراج، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے میں پیوست ہیں اور ان کا خاتمہ صرف محنت کش عوام کی خود مختار، انقلابی تنظیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ کہ ریاست کے اندرونی دھڑوں یا مصلحتوں سے۔

حکمران طبقے کی سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری اور مؤقف

خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی اور ریاستی جبر کے حوالے سے برسرِ اقتدار پارٹیوں کا عمومی مؤقف ہمیشہ سے دوغلا رہا ہے۔ ایک طرف وہ دہشت گردی کے خلاف بظاہر سخت مؤقف اپناتے ہیں اور ریاستی اقدامات کو دفاعِ وطن قرار دیتے ہیں، تو دوسری طرف وہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ریاستی جبر اور عسکری کاروائیوں کو جائز ٹھہراتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کمیونسٹ نقطہ نظر سے یہ رویہ محض دھوکہ دہی اور طبقاتی استحصال کی ترجمانی ہے۔ برسرِ اقتدار جماعتیں، چاہے وہ ملکی یا صوبائی سطح کی ہوں، سامراجی اور سرمایہ دارانہ مفادات کی پیروی کرتی ہیں۔ ان کی پالیسیاں محض دہشت گردی کے نام پر محنت کش عوام، خاص طور پر پشتون عوام، کو ریاستی جبر اور عسکری طاقت کے ذریعے دبانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ دہشت گردی کی اصل جڑیں سماجی و اقتصادی استحصال، بے روزگاری، ناانصافی اور سیاسی جبر ہیں، جنہیں برسرِ اقتدار طبقے نظر انداز کر کے صرف عسکری حل پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست اپنی طاقت کے ذریعے مزاحمتی اور محنت کش طبقات کو نشانہ بناتی ہے، جس سے مزید بے چینی اور عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔

پشتون قوم پرست اور دہشتگردی

پشتون قوم پرست جماعتیں خیبرپختونخواہ میں دہشتگردی اور ریاستی جبر کے خلاف آواز ضرور اٹھاتی رہی ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے کافی جانی قربانیاں بھی دی ہیں، مگر ان کا مؤقف اکثر محدود، مبہم اور ریاستی اداروں کے حقیقی کردار سے صرفِ نظر پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ دہشتگردی کو محض ”غلط پالیسیوں“ یا ”چند عناصر“ کا نتیجہ قرار دے کر سامراجی جنگوں،ا سٹبلشمنٹ کی پراکسی پالیسیوں اور معاشی و طبقاتی استحصال پر سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرتی ہیں۔یہ ایک بڑی سیاسی اور نظریاتی غداری کا نتیجہ ہے، کیونکہ جب تک ریاستی جبر اور دہشتگردی کو سرمایہ دارانہ ریاست کے داخلی و سامراجی مفادات کے تناظر میں نہیں سمجھا جائے گا، تب تک پشتون عوام کی حقیقی آزادی اور امن کی جدوجہد محض قومی رومانویت کا شکار رہے گی۔ اس لیے محض قوم پرستی نہیں، بلکہ طبقاتی اور انقلابی سیاست ہی اس جبر کا مؤثر متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

اس کے علاوہ پشتون قوم پرست جماعتیں، جو کسی زمانے میں قومی آزادی اور جمہوری جدوجہد کی علامت تھیں، اب ریاستی نظام کا حصہ بن کر اپنی نظریاتی اساس اور عوامی اعتماد کھو چکی ہیں، یوں وہ ایک زوال پذیر قوت میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے پی ٹی ایم (پشتون تحفظ موومنٹ) نے عوامی حمایت حاصل کی، مگر یہ عوامی حمایت بھی قیادت کی طرف سے ایک مربوط انقلابی پروگرام اور سیاسی حکمتِ عملی سے محروم رہی، جس کے باعث یہ تحریک بھی ریاستی جبر کا مؤثر طور پر سامنا کرنے اور عوام کو انقلابی متبادل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں، خیبرپختونخوا کی نجات ایک ایسی انقلابی تحریک سے جڑی ہے جو قومی و طبقاتی مسئلے کو یکجا کرتے ہوئے، ریاستی تضادات کو بے نقاب کرے اور محنت کش عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرے۔ یہی کمیونسٹ مؤقف، مسئلے کے حقیقی حل کا واحد راستہ پیش کرتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم مارکسی نقطہ نظر سے خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کی وجوہات، افغانستان کے ساتھ جغرافیائی سیاسی تعلقات اور ڈیورنڈ لائن کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف منظم عوامی مزاحمت کی ممکنہ راہوں کا تجزیہ کریں گے، تاکہ ایک حقیقی، پائیدار اور جبر سے آزاد امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔

وسائل کی لوٹ مار

خیبر پختونخوا میں قدرتی وسائل (معدنیات، زمین، جنگلات، پانی) کو سرمایہ داری، بیوروکریسی اور عسکری اشرافیہ نے جس طرح سے لوٹا ہے، وہ پاکستان کی سامراجی ریاست کی حقیقی فطرت کو عیاں کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے دراصل سامراجی سرمایہ دار اور ریاستی اشرافیہ کے مفادات کے تحت استحصالی ڈھانچے کی تشکیل ہیں۔ معدنیات پر قبضے کی صورت میں مقامی محنت کش عوام کو اجرتی مزدور بنا دیا گیا ہے، جنہیں نہ حصہ ملتا ہے نہ اختیار۔ جنگلات، پانی اور زمین پر قبضے کے تمام ماڈل، بین الاقوامی سامراجی سرمایہ، ریاستی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور مقامی سرمایہ دار طبقے کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔ کمیونسٹ مؤقف اس لوٹ مار کو محض کرپشن یا بدانتظامی نہیں مانتا بلکہ اسے سرمایہ دارانہ ریاستی استحصال کا منظم عمل سمجھتا ہے، جسے محنت کش طبقے کی منظم عوامی مزاحمت سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ مزید برآں قدرتی وسائل کی لوٹ مار یقینا ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر قوم پرست حلقے اسے محض ”مرکز بمقابلہ قوم“ کے بیانیے تک محدود رکھتے ہیں، جبکہ کمیونسٹ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ اصل مسئلہ وسائل کی طبقاتی ملکیت ہے، نہ کہ صرف وفاق کی مرکزیت۔ مائنز و منرلز بل ہو یا کسی بھی خطے کے معدنیات، ان پر قبضہ ریاست، مقامی اشرافیہ اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ کرتا ہے، جس میں نااہل، کرپٹ اور غلام قومی بورژوازی بھی برابر کی شریک ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم تبھی ممکن ہے جب وہ محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں ہوں اور ان کا استعمال ایک سوشلسٹ منصوبہ بندی کے تحت عوامی مفاد کے لیے کیا جائے، نہ کہ منافع کے لیے۔ لہٰذا کمیونسٹ مؤقف یہ ہے کہ وسائل کی لوٹ مار کا خاتمہ صرف طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلسٹ تبدیلی سے ہی ممکن ہے، نہ کہ قوم پرستانہ نعروں یا محض اختیارات کی تقسیم سے۔

ریاستی جبر

ریاستی جبر کا مارکسی تجزیہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کو ایک طویل عرصے سے جنگی زون کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے؛ کبھی افغان جہاد کے لیے، کبھی طالبانائزیشن کے لیے اور اب سیکیورٹی ریاست کے تحفظ کے نام پر۔ درحقیقت، یہ اقدامات قومی سلامتی یا امن کے لیے نہیں بلکہ سامراجی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے کیے جاتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں اور دہشتگرد گروہوں سے خفیہ معاہدے دراصل اس ریاستی تضاد کا ثبوت ہیں، جو ایک طرف دہشتگردی کی مذمت کرتی ہے اور دوسری طرف اسے بطور ہتھیار استعمال بھی کرتی ہے۔ یہ سب محض ریاستی تضاد نہیں بلکہ اس کی طبقاتی ساخت اور سامراجی وابستگی کا نتیجہ ہے۔ ریاستی جبر پر حکمران طبقے کی پارٹیوں کا مؤقف محض وقتی مذمت یا خاموشی تک محدود ہوتا ہے، کیونکہ وہ خود اسی ریاستی ڈھانچے کے پروردہ اور محافظ ہوتے ہیں۔ ان کی سیاست کا دارومدار اسی نظام کے تسلسل پر ہوتا ہے، جس میں جبر ایک ضروری ہتھیار ہے۔ کمیونسٹ تنقید واضح کرتی ہے کہ جب تک جبر کرنے والی ریاست اور اس کے معاشی و طبقاتی مفادات کو چیلنج نہیں کیا جاتا، ہر مذمت محض منافقت ہے۔ اصل لڑائی جبر کے خلاف نہیں، بلکہ اسے جنم دینے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونی چاہیے اور یہی انقلابی سیاست کی بنیاد ہے۔

ریاستی جبر اور پشتون قوم پرست

پشتون قوم پرستوں کے کچھ حلقے پاکستانی ریاست کو ”پنجابی استعمار“ جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور اسے پشتونوں کے استحصال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ آئینی دستاویزات میں پشتون حقوق کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، مگر ان کے قول و فعل میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ تنقید محض زبان کی حد تک رہ جاتی ہے کیونکہ عملی سیاست میں وہ اسی سرمایہ دارانہ، سامراجی اور طبقاتی نظام کا حصہ بنے رہتے ہیں جس کی وہ الفاظ میں مخالفت کرتے ہیں۔ کمیونسٹ مؤقف یہ ہے کہ حقیقی جدوجہد زبان یا قومیت سے بڑھ کر طبقاتی اور انقلابی بنیادوں پر ہونی چاہیے تاکہ حقیقی آزادی اور مساوات ممکن ہو، نہ کہ محض نعرے بازی اور سیاسی کھیل۔ گو کہ سوویت یونین کی موجودگی میں پشتون قوم پرست جماعتوں کی سیاست ماضی میں ایک مزاحمتی پہلو رکھتی تھی، لیکن چونکہ قوم پرستی کے نظریات حکمران طبقات اور سرمایہ داری کے نظریات ہیں، جن کو طبقاتی بنیاد پر استوار نہیں کیا جا سکتا اس لیے وہ ریاستی نظام میں شامل ہو کر اسی استحصالی ڈھانچے کا حصہ بن گئیں۔ وزارتوں، گورنریوں اور انتخابی سیاست میں شرکت نے انہیں عوامی مزاحمت سے کاٹ کر رکھ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اگر نیشنلزم حکمران طبقات کی سیاست سے منسلک ہو تو وہ بالآخر بورژوا ریاست کا دفاعی ہتھیار بن جاتا ہے۔ مگر یہاں یہ بات بھی واضح ہے، کہ آج کے عہد میں نیشنلزم کے حکمران طبقے کے مفادات کے خلاف ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔

پشتون قوم پر ہونے والے قومی جبر نے پرانی قوم پرست سیاست کا جنازہ نکال دیا اور نئی نسل کے اسی عدم اعتماد کے باعث پشتون سماج میں پی ٹی ایم کا ابھار ریاستی جبر کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر سامنے آیا۔ اس عمل نے نوجوانوں کو متحرک کیا، مگر چونکہ اس تحریک کی قیادت نظریاتی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کو من و عن قبول کر چکی تھی اورمحض بوسیدہ قوم پرست نظریات کے تحت ہی تحریک کو آگے بڑھانا چاہتی تھی اور اس کا کوئی سوشلسٹ یا طبقاتی متبادل موجود نہ تھا، اس لیے کئی سالوں کی جدوجہد کے باوجود قیادت تحریک کو زائل کرنے کے جرم کی مرتکب ہوئی۔ قیادت نے مختلف اصلاحات اور انسانی حقوق کے مطالبات کو تو اجاگر کیا لیکن ریاستی اداروں کی طبقاتی ساخت کو چیلنج نہ کر سکی اور نہ امریکی سامرج اور سرمایہ د ارانہ نظام کے خلاف کوئی مؤقف اپنا سکی۔ مارکسی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایسی تحریکیں صرف اس وقت انقلابی رخ اختیار کر سکتی ہیں جب انہیں سوشلسٹ پروگرام، نظریاتی قیادت اور محنت کشوں کی تنظیم کے ساتھ جوڑا جائے۔

قوم پرستی کی سیاست کا زوال کیوں؟

قوم پرستی خاص طور پر محکوم اقوام کی تحریکوں کی ابتدائی شکل میں، جب ریاستی جبر، سامراجی استحصال اور ثقافتی دباؤ کے خلاف ابھرتی ہے، تو انقلابی کردار ادا کر سکتی ہے۔ مگر مارکسسٹ-لیننسٹ نقطہ نظر کے مطابق، اگر قوم پرستی طبقاتی سیاست، مزدور طبقے کی قیادت اور سامراج دشمنی سے کٹ جائے، تو وہ جلد ہی اپنے انقلابی جوہر سے محروم ہو جاتی ہے اور استحصالی نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ دنیا بھر میں، خاص طور پر سوویت یونین کے زوال کے بعد، قومی تحریکوں نے اسی زوال کا تجربہ کیا ہے کیونکہ وہ طبقاتی بنیاد سے محروم ہو گئیں۔ قوم پرستی کی سیاست جب محض اپنی قوم کے محدود مفادات تک محدود ہو اور اشرافیہ یا مصلحت پسند قیادت اس کی نمائندگی کرے، تو اس کا انجام زیادہ سے زیادہ قومی اشرافیہ کی مراعات یا اس اشرافیہ کی ثقافتی خودمختاری تک ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ، جو اقوام کی اکثریت ہے، ایسے پروگرام سے بیگانہ رہتا ہے کیونکہ اس میں اس کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس لیے قوم پرستی وقت کے ساتھ زوال پذیر ہو کر سامراجی مفادات کی آلہ کار بن جاتی ہے۔

پاکستان کا وفاقی ڈھانچہ

پاکستان کا موجودہ وفاقی ڈھانچہ سرمایہ دارانہ، سامراجی اور جبری ہے، جو محکوم اقوام کے وسائل اور حقوق کو دبانے پر قائم ہے۔ یہ ایک مرکزی جبری فیڈریشن ہے جو اقوام کی خودارادیت، وسائل پر اختیار اور مکمل ثقافتی آزادی کو محدود کرتی ہے۔ حقیقی حل ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہے جہاں ہر قوم کو حق خودارادیت، وسائل پر کنٹرول، اور جمہوری آزادی حاصل ہو۔ لیکن ایسا ممکن نہیں جب تک ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی نہ ہو جو عوامی تحریکوں کو منظم کرے اور سرمایہ داری، سامراج اور قومی جبر کے خلاف متبادل نظام کے نظریات پر کاربند ہو۔

پشتون قوم پرستی کا مختصر تاریخی تناظر

سوویت یونین کے زوال کے بعد پشتون قوم پرستی بھی نظریاتی اور عملی دونوں طور پر زوال پذیر ہوئی۔ ماضی میں یہ تحریک کچھ حد تک ترقی پسند اور طبقاتی تھی، مگر اب لبرل، ثقافتی شناخت پر مبنی اور انتخابی مصلحت پسندی میں بدل چکی ہے۔ پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں جیسے اے این پی (ANP) نے مزاحمتی سیاست کی بجائے ریاستی نظام کے اندر شمولیت کو ترجیح دی، جس سے ان کی عوامی ساکھ کمزور ہوئی۔ دہشت گردی، فوجی آپریشنز، وسائل کی لوٹ مار جیسے مسائل پر ان کی غیر واضح پالیسی نے انہیں عوام سے دور کر دیا۔ ”دہشتگردی کے خلاف جنگ“ کے تحت سامراجی مداخلت اور ریاستی جبر نے پشتون خطے کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ قوم پرست قیادتوں نے یا تو ریاست کے مؤقف کی حمایت کی یا سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کی، جس سے ان کی تحریک مزاحمت سے محروم ہو گئی اور عوام دشمن سیاست میں تبدیل ہو گئی۔

یہ تمام تضادات بالآخر اس وقت کھل کر سامنے آئے جب پی ٹی ایم جیسی تحریک نے نوجوانوں کو متحرک کیا۔ مگر چونکہ یہ تحریک بھی واضح سوشلسٹ یا طبقاتی پروگرام سے عاری تھی، اس لیے یہ عوامی ابھار بھی نظریاتی سمت، تنظیمی تسلسل اور انقلابی قیادت کے بغیر محدود ہو گیا۔ یہی وہ خلا ہے جسے آج صرف ایک کمیونسٹ پارٹی، انقلابی پروگرام اور محنت کش طبقے کے اتحاد کے ذریعے پُر کیا جا سکتا ہے۔ کمیونسٹ متبادل اور مارکسسٹ-لیننسٹ نظریہ اس تمام صورتحال کا واضح اور عملی حل پیش کرتا ہے۔

ایک ایسا طبقاتی اتحاد جو تمام محکوم قومیتوں، مظلوم طبقات اور محنت کش عوام کو سرمایہ دارانہ ریاستی جبر اور سامراجی لوٹ مار کے خلاف مزدور طبقے کی قیادت میں متحد کرے۔ یہ اتحاد نہ صرف قومی آزادی کی جدوجہد کو حقیقی معنی دے سکتا ہے بلکہ ایک بین الاقوامی انقلابی تحریک کا حصہ بھی بن سکتا ہے جو سامراج، سرمایہ داری اور ریاستی جبر کو ختم کرے۔ کمیونسٹ تحریک محنت کشوں، کسانوں، خواتین، نوجوانوں کو منظم کر کے ایک سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کے لیے کام کرتی ہے جہاں ہر قوم کو حق خودارادیت، وسائل پر مکمل اختیار اور جمہوری آزادی حاصل ہو۔ یہی وہ فریضہ ہے جو آج کے مارکسیوں، کمیونسٹوں اور انقلابیوں کو اپنے کندھوں پر اٹھانا ہے، ورنہ یہ خلا ہمیشہ غیر انقلابی، مصلحت پسند یا ریاستی عناصر کے قبضے میں رہے گا۔

آج دنیا بالخصوص پاکستان جیسے کثیرالقومی، سامراجی ممالک میں، قوم پرستی کی زوال پذیری کے بعد ایک خلا پیدا ہو چکا ہے۔ نوجوان نسل، جو ریاستی جبر، بے روزگاری، مہنگائی اور شناختی جبر سے بیزار ہے، ان کے سامنے کوئی واضح انقلابی متبادل نہیں۔ اسی پس منظر میں کمیونسٹ نظریات کی اہمیت اور ضرورت دو چند ہو جاتی ہے۔ کمیونسٹ تحریک نہ صرف سامراج، سرمایہ دارانہ ریاست اور قومی جبر کے خلاف ایک متبادل بیانیہ فراہم کرتی ہے، بلکہ وہ ایک نئے سماج، مزدور ریاست، سوشلسٹ معیشت اور بین الاقوامی یکجہتی کا خواب اور منصوبہ بھی پیش کرتی ہے۔

لہٰذا، آج کے عہد میں کمیونسٹ نظریہ محض ایک متبادل نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف قومی آزادی کی تحریکوں کو ان کے منطقی انجام یعنی طبقاتی نجات کی طرف لے جا سکتا ہے، بلکہ یہ عوامی مزاحمت کو ایسی جہت دے سکتا ہے جو محض ردعمل یا وقتی ابھار نہ ہو، بلکہ ایک سوشلسٹ انقلابی عمل کی بنیاد بنے۔

خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے خلاف عوامی مزاحمت کے لیے عملی اقدامات اور سیاسی متبادل کی وضاحت

پاکستان کا صوبہ خیبرپختونخوا آج دہشتگردی، بدامنی، ریاستی جبر، سامراجی مداخلت اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے مسائل کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس خطے کو مسلسل پراکسی جنگوں، دوغلی ریاستی پالیسیوں اور سامراجی ایجنڈوں کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ایک کمیونسٹ پارٹی کی حیثیت سے ہمارا بنیادی فریضہ محض تجزیہ نہیں بلکہ عملی متبادل کی تعمیر ہے۔

اس مضمون میں ہم مارکسی بنیادوں پر دہشتگردی کے خلاف ایک انقلابی، جمہوری اور عوامی مزاحمت کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس کی قیادت محنت کش طبقہ، نوجوان، خواتین اور مظلوم اقوام کریں۔ اس حوالے سے ہم نے مختلف مواقع پر تحریروں، پمفلٹس، تقاریر اور سرکلز کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا ہے۔

عوامی دفاعی کمیٹیوں کی تنظیم

ریاستی سیکیورٹی اداروں کی ناکامی، پولیس کی بداعتمادی، اور شدت پسند گروہوں کی منظم دہشتگردی کے ماحول میں عوام کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور مارکسی سیاست اسے منظم عوامی طاقت میں تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی دیتی ہے۔ ”یہ کمیٹیاں محض دفاعی ردعمل نہیں بلکہ انقلابی اختیار اور عوامی اقتدار کے ابتدائی بیج ہیں، جہاں محنت کش طبقہ عملی طور پر اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کروانا شروع کرتا ہے۔“

یہ کمیٹیاں کیا ہیں؟

یہ گلیوں، محلوں، دیہاتوں، فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، کھیتوں، کھلیانوں، کام کی جگہوں اور دیگر مقامات پر جمہوری طور پر منتخب عوامی دفاعی کمیٹیاں ہیں جن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے محنت کش، طلبہ، خواتین اور مقامی لوگ شامل ہوں۔ ان کا مقصد صرف دفاعی ردعمل نہیں بلکہ انقلابی عمل کا ابتدائی مرحلہ ہے۔

تشکیل کا طریقہ اور تنظیمی اصول

کھلے عوامی اجلاس کے ذریعے نمائندوں کا انتخاب۔

تمام فیصلے اجتماعی مشاورت سے کیے جائیں؛ کسی فرد یا خفیہ ادارے کو بالادستی حاصل نہ ہو۔

عسکریت پسندی، بھتہ خوری اور دہشتگردوں کی سرگرمیوں کے خلاف مقامی سطح پر رپورٹنگ، مزاحمت اور بائیکاٹ۔

مزدور اور کسان یونینوں کے ساتھ ہم آہنگی۔

عوام دشمن اداروں، پارٹیوں اور حکمران طبقے کے نمائندوں کی کمیٹیوں میں آنے پر پابندی۔

سیاسی تربیت، طبقاتی شعور اور انقلابی تعلیم کی ترویج۔

ان کمیٹیوں کا مقصد محض دفاع نہیں بلکہ سیاسی بیداری بھی ہے۔ ان میں مارکسی تعلیمات، سوشلسٹ نظریات اور سامراجی حرکیات سے متعلق شعور کو منظم طریقے سے فروغ دیا جائے تاکہ عوام اپنے دشمنوں کی اصلیت کو سمجھ سکیں، چاہے وہ طالبان ہوں یا ریاستی پراکسیز۔ یہ کمیٹیاں اپنے علاقوں میں روزمرہ مسائل میں کمیٹیوں کی مداخلت کرتے ہوئے بنیادی سہولیات کی نگرانی کریں، ریاستی ناکامیوں کو ریکارڈ کریں۔ تعلیم، صحت اور انصاف کے شعبوں میں عوامی خودمختاری کے چھوٹے ماڈل تیار کریں۔ یوں دہشتگردی کے خلاف جدوجہد ایک جامع عوامی تحریک میں بدل جائے گی۔ علاوہ ازیں مقامی کمیٹیوں کو ضلع، تحصیل، یونین کونسل، وارڈز سے ہوتے ہوئے صوبائی اور ملکی سطح پر مربوط کیا جائے، تاکہ ایک متحد، جمہوری، نچلی سطح سے اُبھرتا ہوا عوامی متبادل اقتدار وجود میں آ سکے۔ ایسی تنظیمی شکلیں عوام کے اپنے اعتماد کی بنیاد پر طالبانائزیشن اور ریاستی جبر کا متبادل ہوں گی۔

ملکی و بین الاقوامی سوشلسٹ یکجہتی

یہ جدوجہد صرف خیبرپختونخوا تک محدود نہیں۔ بلکہ پشتون، بلوچ، سندھی، گلگتی، کشمیری اور پنجاب کے محنت کشوں کے مابین طبقاتی جڑت اور انقلابی انٹرنیشنل ازم ہی اس خطے کی حقیقی آزادی اور امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ افغان محنت کش طبقے سے یکجہتی، ڈیورنڈ لائن کے سامراجی جرم کے خاتمے کی جدوجہد اور طالبان کے جبر و استبداد اور حاکمیت کو رد کرنا، اس پروگرام کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ دہشتگردی کا خاتمہ بندوقوں یا ریاستی آپریشنز سے نہیں ہو گا، کیونکہ یہ خود ریاست کی سامراجی پالیسیوں کا پروردہ ہے۔ ہمیں محنت کش طبقے کی خودمختار، انقلابی تنظیم کے ذریعے ایک ایسا سوشلسٹ متبادل دینا ہو گا جو طبقاتی، قومی اور جمہوری سوالات کا یکساں طور پر حل پیش کرے۔ عوامی دفاعی کمیٹیوں کی تعمیر اسی جدوجہد کا عملی نقطہ آغاز ہے، جہاں جبر اور خوف کے مقابل طبقاتی اتحاد اور انقلابی مزاحمت کو کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.