لاہور: کوٹ لکھپت صنعتی علاقہ میں مزدوروں کے بدترین حالات زندگی

رپورٹ:| RWF لاہور|
آج پاکستان کے سارے محنت کش طبقے کے حالاتِ زندگی دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور RWF کے کارکنان مسلسل مختلف صنعتی علاقوں میں مزدوروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں لاہور کے کوٹ لکھپت کے صنعتی علاقے میں RWF کے کارکنان مزدوروں سے ان کے حالات زندگی پر بات کرنے کے لئے وزٹ کیا۔ مختلف فیکٹریوں کے ورکرز سے انٹرویو کئے، جن میں سے ایک HP پلاسٹک کے ورکر تھے، جن سے بات کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ فیکٹری میں 100 کے لگ بھگ ورکرز ہیں جو کہ دن میں دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں یعنی 12 12 گھنٹے کی شفٹ، جو کہ رمضان میں سات گھنٹے تک کم کی گئی ہے اور مالکوں کی طرف سے یہ ایک احسان کر کے کیا گیا ہے۔ کسی قسم کی سوشل سکیورٹی نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی یونین موجود ہے۔ کچھ مزدوروں کو رہائش دی گئی ہے جس کے بدلے تنخواہ میں چھ سو روپے کاٹ لئے جاتے ہیں جبکہ مزدوروں کی تنخواہیں10,000سے 14,000 کے درمیان ہیں۔ عید پر بھی پوری تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ کوئی بھی پالیسی مزدوروں کے مفادات میں نہیں۔ پلاسٹک کی فیکٹری کا کام انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک کام ہے لیکن فیکٹری میں کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے حادثات ایک معمول کی بات ہے اور تقریباٌ ہر مزدور کے ہاتھ یا کوئی انگلی کٹی ہوئی ہوتی ہے۔ گرمی اور پلاسٹک کے بخارات کی وجہ سے مزدوروں کا بیمار ہونا بھی کوئی عجیب بات نہیں سمجھی جاتی۔
ایک اور فیکٹری فریم امبرائیڈری کے ورکر سے جب بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی 12 گھنٹے کی دو شفٹیں چلتی ہیں اور مزدوروں کی تنخواہ 9,000 سے 14,000 تک ہے۔ سوشل سکیورٹی اور یونین دونوں موجود نہیں ہیں۔ فیکٹری مالکان نے بڑا احسان کر کے رہائش کے لئے مزدوروں کو دو چھوٹے چھوٹے کمرے دئے ہوئے ہیں جن میں بارہ سے تیرہ مزدور ایک وقت میں سوتے ہیں۔ فیکٹری میں پچیس مزدور ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہیں جن کی تنخواہ اور بھی کم ہے۔
اسی علاقہ میں ایک چودہ سالہ بچے سے بھی بات کرنے کا موقعہ ملا، اس بچے کے معصوم سے چہرہ پر افسردگی اور ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔یہ بچہ ایک امبرائیڈری کی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ اس بچے کے تو ابھی کھیلنے اور سکول جانے کے دن ہیں لیکن حالات نے اسے پچھلے دو سال سے مستقل محنت میں جکڑ رکھا ہے، یہ بچہ اور اسی طرح کے اور بچے اس فیکٹری میں بارہ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں ۔ یہ بچہ ماہانہ 9,000 روپے تنخواہ لیتا ہے لیکن مالکان نے ان کے لئے نام نہاد بونس بھی رکھا ہوا ہے اور وہ بھی 100 روپے 300,000 ٹانکے لگانے پر، جو کہ روز ہو بھی جاتا ہے مشین پر، یعنی یہ بچہ ماہانہ11سے 12ہزار کما رہا ہے۔
ان کے علاوہ ایک اور فیکٹری زہرہ جہاں کے ورکر سے بھی بات ہوئی، اس فیکٹری میں14گھنٹے کی شفٹ ہے۔ تنخواہ وہی 9,000سے 15,000 تک اور تین سو کے لگ بھگ مزدور کام کرتے ہیں۔ کسی قسم کی سوشل سکیورٹی موجود ہیں ہے۔ اس فیکٹری میں پینے کے صاف پانی کے لئے فلٹر لگایا گیا ہے جو کہ ایک دفعہ خراب ہو جائے تو عرصہ تک ٹھیک نہیں کرایا جاتا، اور اس دوران کئی مزدور گندہ پانی پینے سے بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں۔
ان تمام بات چیت کے دوران ہم نے مزدوروں سے پوچھا کے کیا وہ ان حالات سے خوش ہیں، تو کسی نے اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ تمام مزدوروں نے ایک ہی بات کی کہ یہ سماج اور یہ دنیا مزدور کی محنت سے چلتی ہے، امیر مزدور کا خون چوس کر امیر بنتا ہے اور مزدور کووہ حقوق بھی حاصل نہیں جو کہ قانون میں موجود ہیں۔ ہم نے ان سے یہ دریافت کیا کہ کس طرح ان حالات میں بہتری آسکتی ہے توانہوں نے کہا کہ اگر مزدور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے ایک ہو جائیں اور صرف ایک فیکٹری کے ہی نہیں بلکہ تمام مزدور ایک ہو کر جدوجہد کریں تو ہی وہ اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اگر مزدور ہاتھ روک دے تو یہ سماج اور یہ دنیا رک جائے۔

Comments are closed.