لاہور: کرونا وبا کا مقابلہ کرتا میو ہسپتال کا نہتا طبی عملہ

|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ،لاہور|

اس وقت پوری دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں ہے اور پاکستان میں بھی یہ وبا پوری طرح پنجے گاڑ چکی ہے۔ اس وائرس کے سب سے زیادہ پھیلنے کے امکانات ہسپتالو ں سے ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہاں ایک تو کرونا وبا سے متاثرہ لوگ علاج معالجے کے لئے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہاں دیگر مختلف بیماریوں سے متاثر لوگ بھی علاج کروانے آئے ہوتے ہیں اور اکثر مریض نہایت تشویشناک حالت میں ہوتے ہیں، اور ان کے وبا سے متاثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ہم دیکھیں تو آج پاکستان کیا پوری دنیا میں وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے، لیکن اس لاک ڈاؤن کے باوجود ہسپتال ان اداروں میں سرفہرست ہیں جو اس صورتحال میں بھی کام کر رہے ہیں۔ میڈیکل سٹاف کی روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، انہوں نے اپنی ڈیوٹی پر ہر حال میں جانا ہے بھلے ان کے پاس مناسب حفاظتی لباس موجود ہو یا نہیں۔ ایسے میں ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں صحت یا نوکری۔ اب اگر وہ مناسب حفاظتی لباس نہ ہونے کی وجہ سے کام پر نہ جائیں تو ان کی ملازمت ختم ہو جائے گی، اور اگر ملازمت نہیں ہوگی تو گھر کیسے چلے گا؟ مگر دوسری طرف حفاظتی کٹس میسر نہ ہونے کے سبب ان کی جان کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس کی مثال نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کی صورت میں نظر آتی ہے جو لوگوں کو اس وباء سے بچاتے بچاتے خود جان ہار گیا۔ لیکن اس ڈاکٹر کی موت کی ذمہ دار کرونا وبا نہیں بلکہ یہ بے حس اور عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقہ ہے جو ہیلتھ سٹاف کو مناسب حفاظتی سامان فراہم کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں۔

میو ہسپتال پاکستان کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ یہاں مختلف شہروں سے مریض آتے ہیں اور لاک ڈاؤن میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے جس طرح کہ عام دنوں میں۔اب کرونا وبا کے آنے کے بعد میو میں کرونا کے دو سنٹر بنائے گئے ہیں، ایک نارتھ میڈیسن وارڈ میں اور ایک AVH میں۔ کرونا کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، لیکن ستم یہ ہے کہ تمام مشتبہ مریضو ں کے ٹیسٹ بھی نہیں کیے جارہے۔ حکومت کی پالیسی بظاہر یہی لگ رہی ہے کہ پاکستا ن میں کرونا کی ٹیسٹنگ کم سے کم کی جائے اور کہا جائے گا کہ پاکستان نے کرونا سے جنگ جیت لی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا نرس بھی ٹیسٹ کے لیے جائے تو وہ یہ تک نہیں جانتے کہ ٹیسٹ کہاں پر ہورہے ہیں؟ ٹیسٹ کون کر رہا ہے؟ اور ان کا ٹیسٹ ہو گا بھی یا نہیں؟
دوسری طرف جو میڈیکل سٹاف کرونا وارڈز میں ڈیوٹی پر ہیں انہیں درکار مقدار میں معیاری و مکمل حفاظتی کٹس نہیں مہیا کی جارہی ہیں۔ کرونا سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹرز اور نرسوں کو پولی تھین کے سرجیکل گاؤنز اور عام سر جیکل ماسک دیے گئے ہیں، اور یہ بھی ایک مرتبہ دے دیے گئے ہیں اور طبی عملہ انہیں بار بار استعمال کرنے پر مجبور ہے حالانکہ یہ سنگل ٹائم استعمال کے لئے ہوتے ہیں۔ اور کرونا کے علاوہ باقی وارڈز میں میڈیکل سٹاف کو یہ بھی نہیں دئیے جارہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی کو اپنی جان کی اتنی فکر ہے تو خود بازار سے سینیٹائیزر اور ماسک خریدے جو کہ بلیک میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہو رہے ہیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کی نمائندہ نے جب ایک نرس سے ہسپتال میں صورتحال کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو طبی عملے کے لئے سفید جھنڈے لہرائے جارہے ہیں یا سلیوٹ پیش کیا جارہا ہے،یہ سب ڈرامہ ہے۔ کیمرے کے سامنے یہ ریاست اور حکمران کچھ اور ہیں اور پیچھے کچھ اور۔ ہسپتالوں میں میڈیکل سٹاف چیخ چیخ کرPPE’s (حفاظتی کٹس)کا مطالبہ کر رہا ہے اور یہ ان کا بنیادی حق ہے۔لیکن پاکستان میں ایک ماہ سے زائد وقت ہوگیا ہے اس وباء کو آئے ہوئے اور حکومت ابھی تکPPE’s کا انتظام نہیں کر پائی۔ ایک طرف وبا کی شدت سے گھروں میں بیٹھے لوگ تک خوفزدہ ہیں تو وہ کس حالت میں ہوں گے جن کا روز کسی نہ کسی کرونا کے مریض سے بغیر PPE’s کے سامناہوتا ہے۔ ڈاکٹرز،پیرامیڈکس اور نرسوں کو اس صورتحال میں جاں بحق ہونے والے طبی عملے کو شہید کا خطاب دینا بالکل بھی منظور نہیں کیونکہ یہ شہید نہیں بلکہ مقتول ہیں اور یہ سرمایہ دارانہ نظام،اس کا حکمران طبقہ اور اس کی آلہ کار ریاست ان کی قاتل ہے۔ اور جب تک یہ نظام رہے گا یہ قتل عام جاری رہے گا۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ پاکستان کو چین اور دیگر ممالک سے کافی طبی سامان اور حفاظتی کٹس ملی ہیں؟ وہ فنڈز یا کٹس کدھر ہیں؟ انہیں کس ہسپتال میں بھیجا گیا ہے؟ اس کے علاوہ کسی کو ہسپتال کی صورتحال کی فوٹو یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے اور سرکاری ذرائع سے باہر یہی خبر پھیلائی جارہی ہے کہ ہسپتالوں میں سب کچھ مل رہا ہے۔حکومت کو یہ بھی خیال نہیں کہ اس طرح میڈیکل سٹاف حفاظتی کٹس کے بغیر کتنی دیر تک زندہ یا موثر رہے گا؟ اور اگر نہ رہا تو پھر کیا ہوگا؟

Comments are closed.