لاہور GSO میں ہائیڈرو یونین کے داخلی انتخابات اوریونین اشرافیہ کے ہتھکنڈے

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور، ورکرنامہ|

ہائیڈرو یونین نہ صرف واپڈا بلکہ ملک کی سب سے بڑی یونین ہے جو کہ 1936 ء سے محنت کشوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے۔ 13 اگست 2018ء کو ہائیڈرو یونین کے داخلی انتخابات کا دور شروع ہواجو ہر دو سال بعد ہوتے ہیں۔ ہائیڈرو یونین کے اندر ونی انتخابات میں لاہور کے اندر GSO کے انتخابات میں ورکرنامہ اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں نے انتخابی عمل کا بغور جائزہ لیا ہے۔

اس سال کے لاہور GSO میں ہونے والے انتخابات پر تبصرہ کرنے سے پہلے پچھلے چند انتخابات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے تاکہ موجودہ حالات کو بہترطور پر سمجھا جا سکے۔ موجودہ انتخابات سے تین انتخابات قبل یعنی سنہ 2011 ء میں دو گروپوں کے درمیان انتخابی مقابلہ ہوا جو کہ چودھری اکرم گروپ اور امتیاز گروپ تھے ۔ یہ دونوں گروپ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے یونین افسر شاہی اور انتظامی بیوروکریسی کے مختلف گروپوں کی نمائندگی کر رہے تھے اور ان انتخابات سے پہلے آپس میں مصالحت کے ساتھ اقتدار کے مزے لے رہے تھے۔ ان انتخابات میں چودھری اکرم گروپ فتحیاب ہوا اور مصالحت نہ ہونے پر امتیاز گروپ کو انتقامی سیاست سے بچنے کے لیے پیغام یونین (جو کہ واپڈا میں ہائیڈرو یونین کی واحد مخالف یونین ہے اور جماعتِ اسلامی سے منسلک ہے) میں جا کر امان حاصل کی۔ اس کے بعد 2013 ء میں بغیر کسی مخالف گروپ کے چودھری اکرم گروپ بلا مقابلہ لاہور GSO میں یونین کی سربراہی میں پھر سے آ گیا ۔ آپس میں چپقلش کے نتیجے میں 2015 ء میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جو کہ کامیابی سے منظور ہو ئی اور 2016 ء میں پھر انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں چودھری اکرم گروپ کے خلاف ایک نیا گروپ میدان میں آیا جو کہ یونین اور انتظامی افسر شاہی کی پشت پناہی کے بجائے مطالبات کی بنیاد پر انتخابات لڑ رہا تھا۔ اس کا نام مزدور راج گروپ تھا۔ اس کے مطالبات کے اہم نکات میں ڈینجرس الاؤنس کا ملنا، سٹاف کی کمی کو نئی بھرتیوں سے پورا کرنا، اوور ٹائم، Off Day، TA اور ایمپریس کی کٹوتی بند کئے جانا، گرڈ سٹاف کو تمام بنیادی سہولیات، فلٹر شدہ ٹھنڈا پانی، ACاور ہیٹر کا مہیا ہونا، تمام مزدوروں کو معیاری حفاظتی سامان کا مہیا ہونا اور نجکاری کا مکمل خاتمہ شامل تھے۔ ان مطالبات کی بنیاد پر سالوں سے اقتدار سے چمٹے چودھری اکرم گروپ کا مزدور راج گروپ نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن یونین اشرافیہ اور انتظامیہ کی حمایت کے بل بوتے پر چودھری اکرم گروپ صرف دو ووٹوں کی برتری کیساتھ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔لیکن مزدور راج گروپ کو ملنے والی ورکروں کی حمایت نے ان مزدور دشمن عناصر کی نیندیں حرام کر دیں۔

اس سال پھر سے جب مزدور راج گروپ نے اپنے ان مطالبات کے ساتھ دوبارہ انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا تو چودھری اکرم گروپ بیورو کریسی اور یونین اشرافیہ کی پشت پناہی کے ساتھ حرکت میں آ گیا۔ سب سے پہلے چودھری اکرم کی اپنی سب ڈویژن میںSDO اور X-EN نے مزدوروں کو چودھری اکرم کے خلاف نہ کھڑا ہونے کے لئے براہ راست ٹیلی فون کئے اور کھڑے ہونے کی صورت میں نتائج سے ڈرایا ۔ اوور ٹائم اور TA کی ترسیل کے ذمہ دار کلرکوں اور accountant نے بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے علاوہ ایک ورکر کے گھر جا کر اس کے بزرگوں پر دباؤ کے ذریعے اسے انتخابی مقابلے سے دست بردار کروایا گیا۔ گرڈوں کے انچارجوں کو اپنے اپنے سٹاف کو پہلے مقابلے سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر اس میں ناکامی پر الیکشن میں مزدور راج گروپ کو ووٹ نہ دینے پر مجبور کیا گیا۔ یہاں تک کے مزدور راج کے ممبران سے ملنے اور فون اٹھانے سے بھی سختی سے منع کیا گیا اور رابطہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔ مزید یہ کہ دفاتر میں اکھٹا کرکے ورکرز سے حلف لیا گیا کہ کوئی بھی ورکر نہ مزدور راج گروپ کا ساتھ دے گا اور نہ ووٹ دے گا۔ مزدور راج کے ورکرز کو کیمپئین سے دور رکھنے کے لئے ڈیوٹی روسٹر میں ردوبدل کر کے بھی پھنسایا گیا۔ کچھ ورکرز کو گرڈ انچارج بنانے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا گیااور ایک جگہ پر پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزارنے والوں کو ٹرانسفر کی دھمکی بھی دی گئی۔

ان تمام دشواریوں کے باوجود مزدور راج گروپ نے نہ صرف اپنے امیدوار میدان میں اتارے بلکہ اپنے منشور اور مطالبات کے گرد بھر پور انتخابی مہم چلائی ۔مزدور راج گروپ کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں کچھ کامیابی ملی، جو کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ورکرز میں اس کی بڑھتی ہوئی حمایت کی غمازی کرتی ہے، مگر دوسرے مرحلے میں چودھری اکرم گروپ کے مقابلے میں پچاس فیصد ووٹ ملے۔ مزدور راج گروپ ایک نظریاتی گروپ ہے اور اس کے لئے انتخابی کامیابی سے زیادہ اہمیت اپنے نظریات کی ہے اور اس وجہ سے اپنی جدوجہد میں کسی قسم کی کمی لائے بغیر مزدور راج گروپ ورکرز کی ہر جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتارہے گا اور یونین قیادت میں موجود مزدور دشمن عناصر کے خلاف بر سرِ پیکار رہے گا۔

Comments are closed.