لتا منگیشکر اور سُروں کا تاج محل

|تحریر: آدم پال|

لتا منگیشکر کی وفات پر کروڑوں دل سوگوار ہیں اورہر آنکھ اشکبار ہے۔ اپنی انتہائی خوبصورت، مدھر اور ریشم جیسی آواز سے انہوں نے گزشتہ سات دہائیوں میں کئی نسلوں کے دلوں پر حکمرانی کی اور آنے والی کئی نسلیں بھی انہیں بھول نہیں پائیں گی۔ اس برصغیر میں رہنے والا شاید ہی جیتا جاگتا کوئی شخص ہو جو اس آواز کے جادو سے محروم رہا ہو اور اپنے انتہائی حساس جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس نے زندگی میں کسی لمحے خود کو کبھی لتا کی آواز کے سحر میں گرفتار نہ پایا ہو۔ اس آواز کی تعریف میں الفاظ کم پڑ تے ہیں اوران کی گائیکی کے ہنر کے قصیدے سنانے کے لیے شاید وقت کم پڑ جائے۔ لیکن یہ آواز اور انداز گائیکی اس پورے خطے کی تاریخ کا ایک ایسا ان ٹوٹ دھارا بن چکاہے جو وقت، سرحدوں اور زبانوں کی قید سے آزادکروڑوں انسانوں کے دلوں میں لطیف جذبات کی موجیں اُبھارتا رہے گااور ان کے جمالیاتی ذوق کی تشفی کرتا رہے گا۔

ان کی بیماری اور تشویش ناک حالت کی خبریں سن کر ہی دل اداس ہو رہا تھا لیکن شاید کہیں یہ امید تھی کہ وہ ہم سے کبھی جدا نہیں ہو سکتیں اور یہ سب خبریں جھوٹ لگ رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کی خبروں نے بہت دل دکھایا اورجیسے اداسی ہر سو چھا گئی۔ اسی اداسی میں بہت سے پسندیدہ پرانے گانے دوبارہ سنے اور ہر استھائی اور انترے پر دل سے واہ واہ نکلتی رہی اور تخیلات کی پرواز اڑانیں بھرتی رہیں۔ اس آواز کو آج جتنا دل کے قریب محسوس کیا شاید اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ دل کی گہرائیوں میں محفوظ ہو گئی ہے اور یہ تعلق شاید کبھی نہیں ٹوٹ سکے گا۔

لتا منگیشکر جیسی قد آور شخصیت کی وفات پر سماجی اور سیاسی حوالے سے گفتگو کاسامنے آنا لازمی امر ہے بلکہ ایسا شخص اپنی زندگی میں خود کو سماج کی رائج الوقت سیاست اور سماجی تبدیلیوں سے جتنا بھی دور رکھنے کی کوشش کر لے وہ ممکن نہیں رہتا اور وفات پر تو خاص طور پر اس کی سیاسی وابستگیاں اور زندگی میں موجود تنازعات زیر بحث آتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں فنکار کا اصل ہنر اور اس کی مقبولیت کی وجوہات بہت پیچھے رہ جاتی ہیں جبکہ بہت سی دیگر بحثیں سطح پر اُبھرآتی ہیں۔ لتا کی مقبولیت کی وجہ ان کی آواز تھی اور جس خوبصورتی کے ساتھ یہ آواز سروں کی منجدھار پر تیرتی ہوئی سامعین تک پہنچتی تھی اس نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ذاتی، سیاسی کردار اور خیالات سے اختلافات کے باوجود ان کے فن کی تحسین اور قدر کرنا انقلابیوں پر فرض ہو جاتا ہے۔ بقول مرزا غالب،

وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

لتا نے جس طرح اپنے فن کی پوجا کی اور اسے بلندیوں تک پہنچایا اور مقبول عام کیا اس کے لیے ان کے فن اور جمالیاتی پہلو کاتاریخی مادیت کے نقطہ نظر سے جائزہ لینا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے۔ لتا کی آواز درحقیقت اپنے اندر ایک تاریخ لیے ہوئے ہے اور ایک طویل اور اہم عہد کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ اس عہد کی سیاست، ثقافت، تمدن اورسماج کے دیگر تمام حصوں کی عکاسی بھی اس آواز میں موجود ہے اور یہ آواز اس پورے عہد کے عروج و زوال کی داستان بھی سناتی ہے۔ اس پورے خطے کی تاریخ اور اس آواز کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

لتا اور فلمی سنگیت

لتا کے فن کا ذکر کرتے وقت اس عہد کے مقبول شاعروں، ساتھی گلوکاروں اور عظیم موسیقاروں کا ذکر بھی درست طور پر ساتھ ہی کیا جاتا ہے اوردرحقیقت انہی سب کے سنگم سے ہی وہ گیت تخلیق ہوئے جو زمانوں کی قید سے آزاد ہیں اور اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں وقت کی دست برد انہیں کبھی بھی کم تر نہیں کر سکتی۔ لیکن اس میں بھی شاعروں اور خاص طور پرموسیقاروں کو جہاں درست طور پر بہت سراہا جاتا ہے اور ان کے فن اور ہنر کی تعریفیں بجا طور پر کی جاتی ہیں وہاں گلوکاری اور آواز کی ستائش شاید کچھ پیچھے رہ جاتی ہے۔ اسی طرح چونکہ یہ گیت پردۂ سکرین پر فلمبند کرنے کے مقصد کے تحت ہی ریکارڈ کیے جاتے ہیں اس لیے ان گیتوں پر اداکاری کرنے والے افراد وقتی طور پر کہیں زیادہ مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی پر سرسری سی نگاہ بھی ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کی دھول نے اس وقت کے حسین چہروں، خوبصورت اداؤں اور مقبول کرداروں کو دھندلا دیا ہے جبکہ دل کو چھو لینے والے خوبصورت گیت اور ان میں موجود آوازیں آج بھی پہلے دن کی طرح تر و تازہ ہیں۔ درحقیت اس خطے کی فلمیں عمومی طور پر بیکار کہانیوں، غیر حقیقی کرداروں اور سطحی جذباتیت کے لیے ہی مشہور ہیں لیکن اس صنعت کو کئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اگر کچھ زندہ رکھے ہوئے ہے تو وہ اس کی موسیقی ہے، گو کہ وہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح گزشتہ کچھ دہائیوں سے زوال پذیر ہے۔ اگرآفات زمانہ کے تحت گزشتہ ایک صدی کی تمام تر فلمیں اور ان کی کہانیاں کبھی ختم بھی ہو جائیں لیکن ان کے گیتوں کی آڈیو محفوظ رہ جائے تو کچھ زیادہ نقصان نہیں ہو گااور مستقبل کا انسان ا س خطے کی جمالیاتی تاریخ کوباآسانی سمجھ بھی سکے گا اور اس کا لطف بھی لے گا۔ اسی موسیقی کا ہی کمال ہے کہ یہ فلمیں پوری دنیا میں مقبولیت کا سکہ جما چکی ہیں اور اپنی تمام تر زوال پذیری کے باوجود آج بھی کسی نہ کسی طرح سانس لے رہی ہیں۔ اس سارے عمل میں لتا کی آواز کا کردار بلاشبہ انمول ہے۔

اس پورے خطے کی کلاسیکی موسیقی کی ہزاروں سال کی زرخیز تاریخ میں دراصل فلمی گیت ایک ایسا نکتہ ہیں جہاں تمام مختلف اقسام اور رنگ مرکوز ہو جاتے ہیں اور سننے والے کے لیے اس میں لطف اٹھانے کے مواقع تہہ در تہہ مختلف پرتوں کی شکل میں موجودہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی کی ابجد سے نابلد ایک عام سننے والے سے لے کر جیدکلاسیکی اساتذہ اور نابغہ روزگار فنکار بھی اس سے کسی نہ کسی سطح پر لطف ضرور اٹھاتے ہیں اور اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ دھرپد اور خیال گائیکی جیسی انتہائی اعلیٰ اور ارفع اقسام کی موسیقی سے لے کر عوامی سطح پر معروف و مقبول مقامی زبانوں کی فوک گائیکی تک، روح پرور قوالیوں اور بھجن سے لے کر ٹھمری اور دادرا تک اور غزل سے لے انقلابی ترانوں تک موسیقی کی تمام اقسام اس ایک نکتے پر آ کر ایک دوسرے میں تحلیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں اور یہاں پر لتا کی آواز اپنے پورے سحر اور جوبن کے ساتھ ان سب کا استقبال کرتی ہے اور انہیں اس فن کی معراج پر لے جاتی ہے۔

فلمی گیتوں کی مقبولیت میں ان کی دل کو چھو لینے والی شاعری اور دُھن بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور سننے والا اپنی زندگی کے تجربات خواہ وہ تلخ ہوں یا خوشگوار، ان کا تعلق ان گیتوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے اپنے جذبات کو جمالیاتی احساس کے بلند مقام تک لے جاتا ہے اور حظ اٹھاتا ہے۔ سننے والے کا اپنا ثقافتی معیار اور موسیقی کا علم بھی یہ طے کرتا ہے کہ وہ اس جمالیاتی احساس کے کس زینے پر ہے اور انسان کی سب سے خوبصورت حس کی کتنی بلندی پر جا کر لطف اٹھاتا ہے۔ لتا کو سننے والے دنیا بھر میں موجود کروڑوں مداحوں میں ہر قسم کے افراد موجود تھے۔ جہاں بڑے غلام علی خاں جیسے عظیم گلوکار ان کی سروں کی پختگی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے وہاں لاکھوں محنت کشوں کے روز مرہ کے انتہائی تلخ معمول میں یہ آواز ہمیشہ کانوں میں رس گھولتی رہی اور انہیں حسین لمحوں کے تخیل کی جانب مائل کرتی رہی۔

فلمی گیتوں کے حوالے سے اگر کسی گلوکار کی عام طور پر تعریف کی جاتی ہے وہ سروں کی پختگی، تلفظ کی ادائیگی اور آواز میں لوچ اور تاثرات کی موجودگی کے بارے میں اظہار رائے تک محدود رہ جاتی ہے جن میں بلاشبہ لتا بلند ترین مقام رکھتی تھیں۔ لیکن ایک خوبصورت آواز کا کردار اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور وہ مخصوص آواز اگر اس تمام عمل میں سے منہا کر دی جائے تو اس گیت کی پوری عمارت منہدم ہو سکتی ہے۔ ویسے تو ہر شعبے کا فنکار اپنے آرٹ سے اپنے مداحوں تک اپنے خیالات، جذبات اور احساسات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر آواز اور سروں کا مقام باقی تمام فنون سے بلند ترہو جاتا ہے۔

موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ

ایک مصور اپنا شاہکار تخلیق کرنے کے لیے رنگوں اور کینوس کا استعمال کرتا ہے اور اپنے تخیل کو ایک تصویر کی صورت میں مادی شکل عطا کرتا ہے، ایک مجسمہ ساز پتھر کی تہوں میں سے ایک ایسی مورت تراشتا ہے جو اس کے تخیلات کو مجسم اظہار دے سکے، کسی بھی زبان کے لفظوں اور مخصوص وزن کا سہارا لے کر شاعرانہ خیالات کو دوسروں تک پہنچانا اور سننے والوں کا تخیل ابھارنا شاعر کا فن ہے جبکہ ادیب اپنے کرداروں اور ان کے گرد بننے والی کہانیوں کے ذریعے اپنے خیالات دنیا تک پہنچاتا ہے۔ لیکن گلوکار کا تمام تر انحصار آواز کے زیر و بم پر ہی ہوتا ہے اور اس کا کینوس سروں میں ہی موجود ہوتا ہے۔ آواز کا اتار چڑھاؤ بھی مادی حقیقت ہی رکھتا ہے لیکن سروں کی مخصوص ترتیب سے ادائیگی کے ذریعے وہ سننے والے کے غیر مادی تخیل کو جلا بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھرپد اور خیال گائیکی کو موسیقی کی اعلیٰ ترین شکل مانا جاتا ہے کیونکہ اس میں لفظوں کا استعمال واجبی سا ہی ہوتا ہے اور سُروں کی مخصوص ترتیب اور راگ کے چلن کے ذریعے ہی سننے والے کے لیے ایک پر کشش ماحول اور موڈ تخلیق کیا جاتا ہے جو اسے جمالیاتی حظ فراہم کرتا ہے۔ کسی راگ کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی کے ذریعے خیال گائیک سننے والے کے خیالات میں وہ مسحور کن ارتعاش پیدا کرتا ہے جس سے تخیل میں ہی تصویریں بن کر ابھرتی ہیں، مجسمے زندہ ہوتے اور مٹتے ہیں، خوبصورت مناظر کا سلسلہ ابھرتا اور ڈوبتا ہے اور محبت، دکھ، خوشی، غمی، غصے اور پیار سمیت تمام مختلف جذبات کی موجیں کسی کردار، واقعے اور کہانی سے تعلق میں آئے بغیر ہی ابھرتی اورگرتی رہتی ہیں۔

لتا منگیشکر کی جوانی کی تصویر

راگ اور ان میں موجود سروں کی مخصوص ترتیب اور ردھم سے سننے والے کے تصور میں نیرنگی خیال اور جمالیاتی تاثیر کی آمیزش سے ایک ایسی تخیلاتی دنیا تخلیق ہوتی ہے جو کسی رنگ، پتھر یا زبان اور الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ گانے والے کے گلے اور سازوں سے نکلنے والے سُر جب اپنی ہم آہنگی سے فضا میں بکھرتے ہیں تو پورا ماحول اس موسیقی سے معطر ہوجاتا ہے اور سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھولوں کی خوشبو، قوس قزاح کے رنگ، قدرتی مناظر کا حسن اور انسانی جذبات ان سروں کی لہروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور یہ سر جب سننے والے کے کانوں میں رس گھولتے ہیں تو ان کے تخیل کی پرواز مخصوص سمت میں اڑان بھرتی ہے اور جمالیاتی احساس انسان کو وہ لطف دیتا ہے جو کوئی بھی دوسرا ذی روح محسوس نہیں کر سکتا۔

جس طرح تاج محل کی عمارت اپنی خوبصورتی اور کرشماتی حسن کے لیے مشہور ہے اور اپنے ارد گرد موجود افراد کو اپنے پر شکوہ سحر میں گرفتار کر لیتی ہے ویسے ہی موسیقی اور سروں میں لپٹی خوبصورت آواز اپنے سننے والے کو سحر میں گرفتار کر لیتی ہے۔ لیکن تاج محل کی طرح موسیقی کو کسی سنگ مر مر کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسے زمین پر کوئی وسیع و عریض رقبہ درکار ہے جہاں ماہر تعمیرات اپنے فن کے جوہر دکھا سکے۔ موسیقی کی دھن، اس کا ردھم، لے اور سب سے بڑھ کر ا س کارس اور رچاؤ ہی وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے فنکار اپنے فن کا جادو جگاتا ہے۔ راگ درباری کی خوبصورت انداز میں ادائیگی کے سامنے دنیا کے تمام محل اورپر شکوہ عمارتیں اپنا مقام کھو تی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جبکہ راگ توڑی کے سروں کے مقابلے میں ہیرر انجھا سمیت دیگر بہت سے المیے اور غمگین داستانیں کشمکش کا شکار ہو جاتی ہیں۔

موسیقی کی ایک اور اہم خاصیت جو اسے دیگر تمام فنون سے ممتاز کرتی ہے وہ اس میں تحرک، تغیر اور مسلسل تبدیلی کا عمل ہے اور اس میں گانے والے اور سننے والے کی موجود کیفیت کا بھی بھرپور عمل دخل ہوتا ہے۔ یہی خاصیت اسے تاج محل سے بھی بہت بلند مقام تک لے جاتی ہے جو ایک جگہ پرمنجمند ہے اورزمان و مکاں کی حدود میں قید ہے جبکہ موسیقی مسلسل حرکت اور تغیر میں ہے اسی لیے اسے نہ وقت قید کر سکتا ہے اور نہ کوئی سرحد۔ راگ کی ادائیگی میں سروں کا ایک ترتیب سے ابھرنا اور ڈوبنا اس تغیر پذیر عمل کی بنیاد ہے جس میں پہلا سُر اس سے اگلے میں موجود ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی اور سارے سر ایک کے بعد دوسرے کی نفی کرتے ہوئے گیت کو مسلسل بلندی کی جانب لیے چلتے ہیں اور تمام تر اجزا ہم آہنگ ہو کر ایک ایسا کُل بناتے ہیں جو سننے والے پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ خیال گائیکی میں یہ عمل اپنی انتہاؤں تک پہنچتا ہے لیکن خوبصورت فلمی گیتوں میں بھی اس تمام تر عمل کی جھلک بخوبی دکھائی دیتی ہے۔ درحقیقت فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں موسیقار ان تمام لوازمات کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ اکثر دھنیں مختلف راگوں پر ہی اپنی بنیاد رکھتی تھیں اور اس میں کلاسیکی موسیقی کا عنصر کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہوتا تھا۔

لیکن دوسری جانب فلمی گیت کلاسیکی موسیقی سے بالکل مختلف بھی تھے اور اس میں جذبات اور احساسات کی جانب زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ان فلمی گیتوں کو اشرافیہ کے مخصوص تربیت یافتہ افراد کے سامنے اور درباروں میں پیش کرنے کی بجائے عوامی پذیرائی کے مقصد کے لیے بنایا جاتا تھا اس لیے اس میں راگ کے تمام تر تکنیکی لوازمات پر زور دینے اور آواز کے کرتب دکھانے کی بجائے سادہ انداز میں جذبات کی ترجمانی کو ترجیح دی جاتی تھی۔ یہاں پر فلمی گیت موسیقی کے مدارج میں اپنی کم تر حیثیت کے باوجود کلاسیکی موسیقی سے آگے جاتا ہوا نظر آتا ہے اور اس میں رچاؤ اور رس کو اولین درجہ حاصل ہو جاتا ہے جسے اکثر کلاسیکی گویے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لتا کے استاد اور ان کے لیے پہلا فلمی گانا ترتیب دینے والے ماسٹر غلام حیدر نے انہیں کلاسیکی موسیقی کی تربیت لینے سے منع کیا تھا اور کہاں تھا کہ اس طرح تم اپنی آواز کی تمام تر روانی اور مدھرتا کھو دو گی جو اس کی اصل خوبصورتی ہے۔

پلے بیک گلوکاری

فلمی گیتوں کی گائیکی کو پلے بیک گلوکاری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں گانے والا شخص پردۂ سکرین پر نمودار نہیں ہوتا اور وہاں پر کوئی دوسرا اداکار اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہوتا ہے۔ اس طرح جہاں گانے والے اور اداکاری کرنے والے میں ایک دوہرا پن آ جاتا ہے وہاں گانے والے کے لیے بھی اپنے جذبات کی بجائے اس کردار کے جذبات اور احساسا ت کو اجاگر کرنا ضروری ہو جاتا ہے جس کے لیے یہ گیت بنایا گیا ہے۔ یہاں پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جذبات کی ترجمانی میں اداکاری ایک مخصوص حد تک ہی جا سکتی ہے جبکہ آواز اور سُر اس سے کہیں آگے چلے جاتے ہیں۔ آج لتا کے گیت تو زبان زد عام ہیں لیکن ان پر رقص کرنے والی اور اداکاری کے جوہر دکھانے والی بہت سی با کمال ہیروئینز کو وقت نے کسی حد تک فراموش کر دیا ہے۔ یہیں نظر آتا ہے کہ آواز کا جادو رقص اور اداکاری سے کہیں زیادہ بڑھ کر بولتا ہے۔

دوسری جانب ہمیں لتا کے نصف صدی کے سفر میں نظر آتا ہے کہ انہوں نے سینکڑوں مختلف کرداروں کو اپنی آواز کے ذریعے نبھایا جو شاید کسی بھی ایک اداکار کے لیے ممکن ہی نہ ہوسکے۔ گاؤں کی ایک الھڑ مٹیار سے لے کر شہر کی ایک خوبرو دوشیزہ تک، کالج کی طالبہ سے لے کر دکھیاری ماں تک، بے وفائی کا زخم اٹھانے والی عورت سے لے کر محبت میں قربان ہو جانے والی محبوبہ تک اس پورے برصغیر کے سماج کے سینکڑوں کردار لتا کی آواز میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان گیتوں کو سن کر لگتا ہے کہ جیسے شاعر سکرپٹ لکھتے رہے، موسیقار اس کی ہدایت کاری کرتے رہے اور لتا کی آواز ان تمام کرداروں میں زندگی کی روح پھونکتی رہی اور انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر گئی۔

لتا کے نصف صدی کے سفر میں نظر آتا ہے کہ انہوں نے سینکڑوں مختلف کرداروں کو اپنی آواز کے ذریعے نبھایا جو شاید کسی بھی ایک اداکار کے لیے ممکن ہی نہ ہوسکے۔ گاؤں کی ایک الھڑ مٹیار سے لے کر شہر کی ایک خوبرو دوشیزہ تک، کالج کی طالبہ سے لے کر دکھیاری ماں تک، بے وفائی کا زخم اٹھانے والی عورت سے لے کر محبت میں قربان ہو جانے والی محبوبہ تک اس پورے برصغیر کے سماج کے سینکڑوں کردار لتا کی آواز میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

ابتدائی دور میں لتا کو یقینا اس وقت کے سب سے بہترین موسیقار ملے جنہوں نے اس کے فن کو نکھارا اور پروان چڑھایا اور ایسی لازوال دھنیں ترتیب دیں جن کو گانے والا واقعی غیر معمولی مقام حاصل کر لیتا لیکن جب ان دھنوں کو لتا کی آواز میسر آئی تو موسیقار کی تخلیق ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ دھن اور آواز کو ایک دوسرے سے الگ کر کے کسی گانے کے معیار کو جانچنا انتہائی مشکل ہے لیکن پھر بھی کئی دہائیوں پر محیط عمل اور درجنوں موسیقاروں کے ساتھ کام کے بعد لتا کی آواز کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔

لتا کے 1949ء کے ”محل“ فلم کے لیے گایا گیاپہلامقبول گیت ”آئے گا آنے والا“ آج بھی دل کی لہروں کو تیز کر دیتا ہے۔ اسی طرح موسیقار سجاد حسین کے لیے 1963ء میں ”رستم سہراب“فلم کے لیے گایا گیا گانا ”اے دلربا“ لتا کی اپنے فن پر عبور کی آج بھی گواہی دیتا ہے اور سروں کی پختگی دلیل ہے۔ مدن موہن کی دھن پر گایا گیا 1964ء کی فلم ”آپ کی پرچھائیاں“ کا مقبول گیت ”اگر مجھ سے محبت ہے“ بھی شاید کوئی اور اس طرح کبھی گا ہی نہ پاتا۔ راگ درباری کانڑا کے گمبھیر انگ پر بننے والے اس گیت کو لتا نے جس طرح گایاہے وہ اس کا ہی کمال ہے۔ بہت سی دھنوں میں مینڈھ، کن سُراور مرکیاں بھی اس کی مہارت کا ثبوت دیتی ہیں۔ مینڈھ موسیقی میں ایک اصطلاح ہے جس میں ایک سر سے دوسرے تک جاتے ہوئے گلوکار ان میں موجود سرتیوں (microtones) کو اجاگر کر دیتا ہے جس سے سننے والے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ جبکہ کن سُر میں ایک سر لگاتے وقت دوسرے کا صرف ہلکا سا اشارہ دیا جاتا ہے۔

1950ء اور 60ء کی دہائی اس پورے خطے میں فلمی موسیقی کی معراج تھی جس کے بعد زوال کا آغاز نظر آتاہے۔ لتا کی آواز بھی اسی زوال پذیر دور میں کم تر درجے کے موسیقاروں کے ہاتھوں مسلسل گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور آخر کا ر لتا زوال کے اس دور کے بعد نئی صدی میں گلوکاری کا اختتام کرتی ہے اور اس وقت فلمی گیتوں کا سفر بھی غلاظت اور بیہودگی کی کھائی میں گرتا نظر آتا ہے۔ اب آواز کی بجائے صرف beat کی اہمیت رہ گئی ہے اور آواز سازوں کے بے ہنگم شور میں مسلسل پس منظر میں چلی جاتی ہے۔

ایک عہد کا خاتمہ

آج کا المیہ یہ نہیں کہ لتا زندگی کے بانوے سال گزارنے کے بعد اس دنیا سے چلی گئیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان جیسا اور ان سے بڑھ کر کوئی بھی گلوکار دور دور تک نظر نہیں آتا۔ یہ درحقیقت اس نظام کے شدید ترین زوال کی عکاسی کرتا ہے جو زندگی کے دیگر تمام شعبوں کی طرح موسیقی اور فن میں بھی کھل کر اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اس خطے میں فلمی موسیقی تاریخی ارتقا کے ایک مخصوص مرحلے پر اُبھری تھی جب سرمایہ دارانہ نظام سامراجی جبر تلے یہاں سماجی پیداوار کے تمام تر رشتوں کو مکمل طور پر تبدیل کر رہی تھی۔ سرمایہ داری کی آمد سے قبل اس خطے میں کئی صدیوں سے ایشیائی طرز پیداوار رائج تھا اور تمام تر سماجی اور پیداواری تعلقات قدیم طرز پر چل رہے تھے۔ اس سماج میں فنکار کو انتہائی بلند مقام حاصل تھا اور شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور سب سے بڑھ کر گلوکاروں کو سماج کا اعلیٰ ترین رتبہ دیا جاتا تھا۔ بادشاہ اور راجے مہاراجے اپنے دربار کے لیے سب سے بہترین گویا رکھنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور اس کو تمام تر مراعات اور زندگی کی آسائشیں فراہم کرنا اپنی شان و شوکت کا اظہار سمجھتے تھے۔ ایسے ہی ماحول میں گویوں نے انتہائی پیچیدہ راگوں اور موسیقی کے بنیادی اصولوں کو نکھارنے اور سنوارنے کا عمل جاری رکھا جو کئی صدیوں تک جاری رہا۔ لیکن سرمایہ داری کی آمد کے بعد تمام تر سماج دیو ہیکل تبدیلیوں کا شکار ہوا اور کارل مارکس کے بقول ماضی کی تمام تر اعلیٰ اقدار، اخلاقیات اور سماجی رتبے روپے پیسے کے تعلق میں تبدیل ہو گئے۔ تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں ایک کے بعد ایک کر کے تاراج ہوتی چلی گئیں اور سرمایہ دارانہ تعلقات قدیم سماج کے تمام تر تانے بانے کو توڑتے چلے گئے۔ اسی عرصے میں یہ تمام کلاسیکی گلوکار اور مہان گویے دربدر ہو گئے اور ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ عام لوگوں کے لیے یہ گویے باعث تعظیم تو تھے ہی لیکن ان کی تمام تر گائیکی ان سے ذرا دور تھی جو صرف درباروں اور مندروں کی لونڈی بن کر رہ گئی تھی۔ ایسے میں ان گلوکاروں نے سنگیت سمبیلن لگانے کا سلسلہ شروع کیا جس میں اپنی گائیکی کسی بھی علاقے کے عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی تا کہ اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا جا سکے اور روز مرہ زندگی کے معاملات بھی چلائے جائیں۔ لیکن اس عمل میں انہیں اپنی موسیقی کو بھی تبدیل کرنا پڑا اور طویل دورانیے کی گائیکی کو مختصر وقت میں گانے کی کوششیں شروع کیں جبکہ ولمبت سے درُت یا تیز لے کی جانب بھی بڑھنا پڑا۔ اس دوران سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہونے والی سماجی تبدیلیاں بھی اس گائیکی پر اہم اثرات مرتب کرنے لگیں اور راگ، بندشیں اور دھنیں خواہ پہلے والی ہی تھیں لیکن انداز گائیکی اور اس کا رچاؤ زمانے کی ٹھوکریں اور بے توقیری اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ ابن حسن نے اپنے مضمون”موسیقی اور بدلتا ثقافتی وجود“ میں اس پورے عمل کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

فلمی صنعت کا عروج و زوال

بیسویں صدی میں جب ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے قدیم خیالی دنیا میں رہنے والوں نے انتہائی حیرت اور تشویش سے دیکھا اور اس سے ہر ممکن حد تک دور رہنے کی کوشش کی تا کہ اپنی گائیکی کوآباؤ اجداد کے رنگ کے جتنا بھی قریب رکھا جا سکے اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن جب پورا سماج ہی تبدیلی سے گزر رہا ہو تو اس سے بچنا اس وقت تک کہاں ممکن ہے جب تک کسی کے پاس اس سے آگے جانے اور بہتر متبادل کا رستہ نہ ہو۔ قدامت پسندی اور رجعت پرستی زمانے کی رفتار کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور دھیرے دھیرے فلمی صنعت کا آغاز ہوا جس میں اس وقت کے بہت سے فنکاروں کو اپنی بقا دکھائی دی۔ جہاں بہت سی ناٹک کمپنیوں سے وابستہ افراد روزگار کے حصول کے لیے اس جانب مائل ہوئے وہاں ہی شاہی درباروں کے عروج پر انعام و اکرام کے حصول کے قصے کہانیاں سینوں میں دبائے بہت سے گویے بھی بہتر زندگی کے حصول کے لیے اس جانب آنا شروع ہوئے۔ یہی کچھ شاعروں میں بھی ہوا جو مرزا غالب کے زمانے سے ہی سرکاری وظیفوں سے محروم ہو چکے تھے اور صدیوں پرانی روایات کے امین ہونے کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے یا پھر دوسری جانب سامراجی حکمرانوں کے قصیدے لکھ کر سر کا خطاب حاصل کر رہے تھے۔ اس پورے عمل میں اس خطے کی فلمی صنعت کو موسیقی کے حوالے سے انتہائی زرخیززمین ملی جس کے لیے ہر علاقے کی مقامی فوک موسیقی، ٹپوں اور لوک داستانوں سے لے کر کلاسیکی موسیقی کی انتہائی بلندپیمانے پر تیار کی گئی گرامر اور اصول دستیاب تھے۔ اس وقت کے نوجوان موسیقاروں اور شاعروں نے اس سب کواپنے ہنر اور شوق کے تحت لازوال دھنوں میں تبدیل کر دیا اور ایسی موسیقی کو جنم دیا جو خاص و عام میں مقبول ہوتی چلی گئی۔ اس ابتدائی دور میں فلم کی کہانی، اداکاری اور ہدایت کاری کبھی بھی خاص اہمیت نہیں حاصل کر سکی اور ہمیشہ گا ئیکی ہی بنانے والوں اور سننے والوں کی اولین ترجیح رہی۔

اس فلمی صنعت کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی ہوا تھا لیکن اس وقت عالمی اور مقامی سطح پر سرمایہ داری میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ ماضی کے اس تمام تر ورثے کو ایک محدود حد تک ہی سہی لیکن اپنے اندر سمو ضرور سکتی تھی۔ اس دور کی موسیقی میں موجود تخلیق کی بلندی، آواز کی خوبصورتی، ٹھہراؤ، ادا اورشگفتگی اسی تمام تر عمل کااظہار کرتی ہے جو اس پورے عہد کا کردار تھا۔

لتا نے جب اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا تو پورا سماج ایک جانب بٹوارے کے زخموں سے گزر رہا تھا تو دوسری جانب سامراجی طاقت کی براہ راست غلامی سے نجات مل رہی تھی۔ غم اور خوشی کا ایک متضاد سا جذبہ ہر جانب موجود تھا جس میں اکثریت صورتحال کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا طوق پورے سماج کے گلے میں ڈال دیا گیا تھا جونہ تو پوری طرح پرانے سماجی رشتوں اور تعلقات کو اکھاڑ پایا تھا اور نہ ہی پوری طاقت سے اپنے آپ کو اس سماج کے ہر پہلو میں مسلط کر پایا تھا۔ ایسے میں قدیم اور جدیدکا ایک کنفیوزڈ ملغوبہ ہر جانب نظر آتا ہے جو فلمی گیت جیسی نئی صنف کے ذریعے اپنا اظہار کرنے کی بھی کوشش کر رہا تھا۔ پہلی دو دہائیوں میں لتا نے اپنے کیرئیر کے تمام بہترین نغمے گا دیے اور فن کی بلندیوں کو بھی چھوا۔ لیکن اس کے بعد پورا سماج ہی زوال کا شکار نظر آیا اور سیاست سے لے کر فن تک ہر شعبہ مسلسل گراوٹ کی جانب بڑھتا رہا۔

فیض احمد فیض اور لتا منگیشکر

اگر گزشتہ تین دہائیوں کی موسیقی کا عمومی جائزہ لیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ایک طرف اس صنعت میں تکنیک اور جدت نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور موسیقی بہت زیادہ آمدن والا پیشہ بن چکاہے لیکن اس کے باوجود اس کے معیار میں مسلسل گراوٹ آتی چلی جا رہی ہے اور دھنوں کے معیار سے لے کر گلوکاری اور شاعری تک ہر طرف بحران اور بد مزگی نظر آتی ہے۔ درحقیقت یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کی گراوٹ کا واضح اظہار ہے جو آج سماج کے کسی بھی شعبے کو ترقی دینے سے قاصر ہے اور خود اپنی ماضی کی حاصلات کو ہی جاری نہیں رکھ پا رہا۔ بالخصوص انڈیا میں تین دہائیں قبل ریاستی سرمایہ داری سے نیو لبرلزم کی جانب سفر نے سماج کی معیشت، سیاست اور ثقافت کو عمومی طور پر پراگندہ کیا ہے وہاں موسیقی اور فلمی گیت جیسا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ آج یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فلم کتنے ہفتے چلی اور کتنی تعداد میں لوگوں کو متوجہ کر سکی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کتنے کروڑ کمائے خواہ صرف چند ہفتے ہی کچھ بڑے شہروں کے سینماؤں میں چلی ہو۔ خاص طور پر کرونا کے بعد تو سینماؤں کا انحطاط انہدام کی جانب بڑھ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں پر دکھائے جانے والے مواد کی بوسیدگی اور اس میں شائقین کی عدم دلچسپی ہے۔

موسیقی کے اُفق پر آج بے سرے چھائے ہوئے ہیں اور چوری کی دھنیں یا ری مکس سے گزارا چل رہا ہے۔ رجعتی ریاستوں اور سیاست کی جکڑ بندی نے گھٹن میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور ماضی میں سرمایہ دارانہ نظام فنکار کو جو تھوڑی بہت آزادی فراہم کر سکتا تھا وہ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور تمام تر آرٹ کو حکمران طبقے کے لیے پراپیگنڈے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ ماضی میں بائیں بازوکے نظریات اور انقلابی سیاست کے ا بھار کے باعث بھی فلمی صنعت کو مسلسل نئے خیالات اور اعلیٰ پائے کے فنکار میسر آتے رہے جبکہ سماج میں موجود طبقاتی تفریق، عوامی تحریکیں اور سلگتے ہوئے سماجی مسائل موضوع بنے رہتے تھے۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے عرصے میں جہاں نظریاتی سیاست زوال پذیر ہوئی وہاں فنون لطیفہ کے مختلف شعبے بھی انحطاط اور گراوٹ کا شکار ہو گئے جن میں موسیقی بھی شامل ہے۔ گو کہ کبھی کبھار کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا ضرور آ جاتا ہے لیکن عمومی رجحان بد بودار اور غلاظت سے ہی بھرا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے تخلیقی صلاحیت ناپید ہوتی جا رہی ہے اور ایک خوبصورت گانا تخلیق کرنا جوئے شیر لانے کے متراف بن چکا ہے۔ یہ خود اس شعبے کی ماضی کی روایات کی توہین ہے۔

موسیقی اور انقلابی تبدیلی

اپنے چند آخری انٹرویوز میں لتا نے سننے والوں سے یہی اپیل کی تھی کہ سریلی دھنوں کو سنیں اور انہی کو داد دیں اور موسیقی کے نام پر بیہودگی اور بے ہنگم پن کو رد کریں۔ لیکن یہ عمل کبھی بھی یکطرفہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پورے سماج سے کٹ کر الگ سے صرف موسیقی کا شعبہ احیائے نو کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اس کے لیے اس پورے سماج کو تبدیل کرنا پڑے گا اور حکمران طبقے کے مسلط کردہ عوام دشمن نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ اس حوالے سے بہت سی تحریکیں ابھر بھی رہی ہیں اور کامیابی بھی حاصل کر رہی ہیں جن میں انڈیا میں حال ہی میں اُبھرکر کامیاب ہونے والی لاکھوں کسانوں کی تحریک شامل ہے۔ اسی طرح سرحد کے اس پار یہاں بھی ویسا ہی عوام دشمن حکمران طبقہ مسلط ہے جس کے خلاف پورے سماج میں ایک بغاوت سلگ رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ تحریکیں انقلابات کا روپ دھاریں گی اور اس پورے خطے کو اس بربادی اور تباہی سے نجات دلوائیں گی جس میں اس خطے کے حکمرانوں نے اسے دھکیل دیا ہے۔ انہی انقلابات میں اس بٹوارے کے رستے زخموں کو سینے کا موقع بھی ملے گاجنہیں یہ حکمران اپنے مفادات کے تحفظ کی ہوس میں 75 سال سے نوچ رہے ہیں۔ اسی بٹوارے نے سرحد کے اس پار لتا کو اپنے لاکھوں مداحوں سے ساری زندگی دور رکھااور وہ لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا خواب دل میں لیے رخصت ہو گئیں۔ ایک دفعہ 1954ء میں انہوں نے لاہور میں اپنے بیمار استاد کی تیمار داری کے لیے یہاں آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن ویزے کی ظالمانہ پابندیوں نے انہیں یہاں آنے نہیں دیا اور وہ واہگہ کی سرحد پر ہی اپنی دوست اور استاد میڈم نور جہاں سے مل کر واپس چلی گئیں۔ اس کے بعد بھی کبھی انہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں مل سکی۔ لتا کی آواز میں شاید یہ درد بھی کہیں نہ کہیں موجود تھا۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ تکلیفیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں، پریشانیاں بال بکھرائے اوربانہیں کھولیں ہر جانب دوڑ رہی ہیں لیکن اس درد و الم کا اظہار کرنے کے لیے کوئی کوئل موجود نہیں۔ کوئی ایسی بلبل نہیں جوگنگناتے ہوئے کسی ٹہنی پر موجود کانٹے میں اپنا دل پیوست کر دے اور اس سے ٹپکنے والے لہو سے نہ صرف گلابوں کو رنگین کر دے بلکہ بہار کی آمد کا بھی باعث بن سکے۔ زندگی کے دکھ اور مصائب بڑھتے جا رہے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں جو اپنی مدھر گائیکی سے پورے ماحول کو رومانویت سے بھر دے تاکہ ان مصائب کے خلاف لڑنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا ہو سکے۔ آج بے وفائی بے ایمانی بن چکی ہے اوررومانوی تعلقات منافقت، چالاکی اور عیاری کی حد تک گرچکے ہیں، رشتوں میں سچائیاں ختم ہو گئی ہیں اور انسانوں کا مول مٹی سے بھی کم ہو چکا ہے۔ لیکن اس سب پر آنسو بہانے والی کوئی لتا موجود نہیں۔ یہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا بحران نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے اورہمیں اس خطے کی شاندار انقلابی روایات پر یقین ہے کہ اس عفریت کا سورج جلدی غروب ہو گا۔ بہت جلد ایک سرخ سویرا ضرورطلوع ہو گا جس میں پرندے چہچہائیں گے اور بلبلیں پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت نغمے گائیں گی۔ صرف امن، ترقی اور خوشحالی سے بھرپور ایک سوشلسٹ مستقبل ہی انسانیت کی حقیقی تقدیر ہے اس کے علاوہ سب کچھ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جائے گا۔

Comments are closed.