|تحریر: ابن حسن|
”سوال یہ نہیں کہ مادیت کی کوئی بھی صوابدیدی شکل اپنا لی جائے، بلکہ یہ مادیت اور عینیت کے فلسفوں کا سوال ہے جو فلسفے کے دو بنیادی مکتبہ ہائے فکر ہیں۔ کیا ہم اشیا سے حسیات اور سوچ کی طرف جائیں گے، یا سوچ اور اشیا سے چیزوں کی طرف آئیں گے۔“
(Lenin, Materialism and Empirio-criticism, P 42)
اب تک کی ہماری بحث اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ فلسفہ اشیا کی سائنس ہے جو خیال، شعور، سوچ، نظریے کے ذریعے اپنی تشریح پاتی ہیں، یعنی جس میں خارجی دنیا میں پائی جانے والی مختلف اشیا اور عوامل کو ہمارا خیال ایک ترتیب دیتا، یا اس کی تشریح کرتا ہے۔ خارجی دنیا کا مطالعہ کرنے والی عقل کی مثال اس چہرے کی سی ہے جسے آئینے میں ایک عکس ملتا ہے۔ یہ دو طرفہ ہم آہنگی کا سوال ہے۔ وہ عقل جو خیال کی تشکیل ہے اور خارجی دنیا جو اس عمل کا مقصد ہے ایک ہی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مجہول نہیں کہ ایک دوسرے پر کوئی اثر ڈالے اور پھر اس کا کام ختم ہو جائے۔ اصل سوال ان دونوں کے مابین تعلق کی نوعیت کا تعین ہے۔
یہ دونوں فعال ہیں۔ ذہن ایسا ذریعہ نہیں جو صرف اثر قبول کرتا ہے اور صرف اور صرف تشکیلی اثرات کے تحت رہتا ہے، یعنی ان حسیات کے زیرِ اثر جو اس پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ نہ ہی ذہن فوٹوگرافی کی پلیٹ کی سی ہے جس پر خارجی عوامل اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ دنیا کی تخلیقی قوت عقل کی قوت ہے۔ اس کا اگلا مرحلہ انسانی عمل ہے جو خود اس سوچ کے عمل سے مربوط ہے۔
اس عمل کی دوسری خوبی یہ ہے کہ حسیات سے حاصل کیے گئے ابتدائی اور بے شکل ڈاٹا کو انسانی سوچ علم کے تسلسل کی systematic شکل دیتی ہے۔ حسیات، ادراکات، احساسات اور اس طرح کے بے شمار ڈاٹا سے ایک ترتیب شدہ دنیا بنتی ہے۔ اس ترتیب شدہ شکل میں ہمیشہ خیال کا عنصر موجود ہوتا ہے لیکن یہ عنصر اسے غیر حقیقی نہیں بناتا۔ اس کے برعکس دنیا کا سطحی ادراک جو صرف حسیات کے درجے پر ہے اب علم اور عقل کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ علم کی تخلیقی قوت اس حسیاتی ڈاٹا کو اس طرح سے ترتیب دے پاتی ہے کہ ہم سچائی کو جان پاتے ہیں جو کہ پہلے بے ربط اور نا قابلِ فہم تھی۔ فلسفیانہ زبان میں ہم یہ کہیں گے کہ شعور ہر جزئیاتی اور مخصوص تجربے کی یونیورسل اہمیت تلاش کرتا ہے۔
جانور ایک مخصوص یا جزئیاتی تجربے تک محدود رہتا ہے اور اس میں ان تجربات کو کوئی مربوط شکل دینے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہی ہوتی ہے۔ ایک مخصوص تجربے کو اس سے متعلقہ اور مناسب یونیورسل سے جوڑنے کی صلاحیت صرف انسان میں ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ انسان بطور شعور رکھنے والی ہستی کے، جانوروں سے اس طرح ممیز ہوتا ہے کہ اس کے پاس یونیورسل خیالات تشکیل دینے کی صلاحیت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں، ’یہ کتاہے‘، ’یہ بلی ہے‘، تو ہمارا تجربہ صرف حسیاتی ادراک تک محدود ہے جو اس خاص لمحے کے تجربے تک محدود ہے۔ اس تجربے کی اپنی اہمیت ہے اور اس کے بغیر یونیورسل کی تشکیل ممکن نہیں، لیکن سارا معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ مزید براں زبان بھی شعور کی تشکیل کا لازمی جزو ہے، جسے شعور نہ صرف حسیاتی تجربے بلکہ خیال، سوچ وغیرہ کی تشکیل میں بھی استعمال میں لاتا ہے۔
مختصراً، اس عمل کے تین لازمی پہلو ہیں: ایک تو تجریدی یا تجزیاتی تفہیم (حسیات) سے متعلقہ پہلو؛ دوئم، جدلیاتی عنصر یا تنسیخ؛ سوئم، خیال سے متعلقہ یا مثبت طور پر تعقُلی پہلو۔ یہ تینوں پہلو علیحدہ سے نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ ان کی بیک وقت موجودگی سوچ کے عمل کو جدلیاتی خاصہ دیتی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور خیال کی تشکیل میں ان کا حصہ ضروری ہے۔
ہر چیز جو سچ ہے، یعنی حقیقی وجود، اس مربوط طریق کار کا نتیجہ ہے۔ اسے ہیگل ’خیال‘ Concept کا نام دیتا ہے۔ جیسا کہ ’مظہریات میں اس کا کہنا ہے کہ، ”کوئی تجریدی نظریہ نہیں جسے حقیقی وجود سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بیک وقت منطقی اور حقیقی ہے، یعنی ایک حاصل کیا گیا نظریہ concept جسے ہم جانی گئی حقیقت بھی کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا ان معنوں میں شعور خارجی وجود کو جیسا کہ یہ ہے ویسا ہی بیان کرتا ہے اور اس میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہیں کرتا، نہ ہی اس سے کسی چیز کو منفی کرتا ہے، نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی لاتا ہے۔ اس طرح شعور کی ساخت کا تعین حقیقت کی ساخت سے ہوتا ہے۔ اگر شعور کے تین پہلو ہیں، اگر یہ جدلیاتی ہے تو ایسا اس لیے ہے کہ وجود بھی جدلیاتی ہے کیونکہ اس کے تشکیلی عنصر میں تنسیخی پہلو موجود ہے۔ سوچ اسی حد تک جدلیاتی ہے جس حد تک یہ وجود کی جدلیات کو بیان کر پاتی ہے۔
با الفاظِ دیگر: نرا وجود، یعنی ایسا وجود جو ابھی حسیاتی درجے پر ہے جدلیاتی نہیں، لیکن وہ وجود جو نظریے یا خیال کے ذریعے سے بیان کیا گیا ہے، جدلیاتی کے درجے پر ہے۔ جب وجود کو خیال کے ذریعے بیان کیا جائے تب ہی یہ جدلیاتی ہے اور خیال اس وقت جدلیاتی ہے جب اسے یہ خاصہ وجود سے ملتا ہے۔ موجود حقیقت کی اصلی جدلیات، دوسرے عوامل کے علاوہ، یہ ہے کہ اس کا اظہار زبان یا سوچ کے ذریعے ہوتا ہے اور سوچ اور زبان اس لیے، اور اسی حد تک جدلیاتی ہیں کہ وہ حقیقی کی جدلیات کو بیان کرتے ہیں۔
اس سب کے ساتھ فلسفیانہ یا مارکسی_ہیگلیائی انداز میں ’سائنسی سوچ‘ کا مقصد سچائی کو مربوط ڈسکورس Logos کے ذریعے منکشف کرنا ہے، یعنی وجود کو اس کی مکمل معروضی حقیقت کے ساتھ۔ اس لیے اس طریق کار میں وجود اور شعور کے ہم آہنگ ہونے کو لازمی بنانا ہے۔ سوچ کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو وجود کے مطابق ڈھالے۔ یعنی فلسفی کا رویہ ’سائنسی‘ ہونا چاہیے۔ لیکن کیا یہ مکمل مجہول نظریہ ہے جس میں انسانی ذہن صرف خارج سے تاثرات یا عکس حاصل کرتا ہے۔ در حقیقت معروضیت پُر زور تقاضا کرتی ہے کہ ذہن موضوعی طور پر اپنے آپ سے خارجی وجود کے ساتھ کچھ اضافہ نہ کرے کہ خود اس کی شکل تبدیل یا مسخ ہو جائے۔ سائنسی سوچ کی جدلیات اسی لیے ہے کہ یہ وجود کی جدلیات ہے جسے منکشف کرنا شعور کا کام ہے۔ جدلیاتی، سائنسی علم وجود کی زندگی کو جاننا ہے، یعنی وجود کی اپنی اندرونی لازمیت کو بیان کرنا۔ اس طرح شعور کنندہ شے کی زندگی اور حرکت کو اولیت دے کر شے کو اس طرح سے نہیں جانتا کہ خود اس کے نظریات یا تعصبات شے سے منعکس ہو کر آئیں، بلکہ سائنسی علم میں شعور شے سے منعکس ہو کر واپس شعور میں آتا ہے۔ اس کا مافیہا شے سے بھرتا ہے نہ کہ اپنے آپ سے۔ شعور اپنے آپ کو مخصوص تخصیصات سے بھرتا ہے۔ اگرچہ علم کا پہلا درجہ یہی ہے جو تجرباتی یا حسیاتی ہے لیکن اس سے اگلے مرحلے پر شعور علم کے اعلیٰ درجوں تک جاتا ہے جس میں شعور اور وجود کا کُلیت بننا خیال کی تشکیل کا اعلیٰ مرحلوں تک جانا ہے۔
سائنسی علم کے معروضی پہلو پر اتنا زور اس لیے ہے کہ اس کا نام نہاد فلسفے کے غور و خوض اور وجدان وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ فلسفے کی یہ قسم حقیقی کا علم اس طرح پیش کرنے کی کوشش ہے کہ جس میں شعور کنندہ آزاد اور خود مختار ہے جو کہ منکشف کی گئی حقیقت کا علیحدہ سے اور غیر ارتباطی پہلو ہے۔
یقینی بات ہے کہ آخر کار سائنسی علم خود سے آگے آتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے آپ سے منکشف کرتا ہے۔ اس کا حتمی مقصد خود اپنے آپ کو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اپنے آغاز اور ارتقا میں بیان کرنا ہے۔ یہ خود کا علم self-knowledge ہے، لیکن یہ مکمل اور کافی ہے۔ یہ اس لیے سچ ہے کہ خود اپنے آپ کی طرف واپسی میں یہ مافیہا کی جدلیاتی حرکت، یعنی وجود کے تابع ہے۔ وجود خود اپنے آپ کو منظم کرتا ہے اور مقرونی شکل دیتا ہے تاکہ ایک متعین وجود بن سکے جسے عمومی خیال کے ذریعے بیان کیا جا سکے۔ یعنی حقیقی اپنے آپ کو مربوط علم سے اس طرح سے منکشف کرتا ہے اور اس طرح جانا جاتا ہے۔ اس طرح تجرباتی علم دو حصوں، یعنی ایک وہ جو جانتا ہے، دوسرا وہ جسے جانا گیا، میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
حقیقی کی جدلیاتی حرکت کو جاننے سے علم اس پورے عمل کے شروع میں موجود ہوتا ہے اور خود اس کے اپنے ارتقا کا عمل ہے۔ آخر میں یہ اپنا مقصد پا لیتا ہے جو کہ مکمل علم ہے۔ یہ حقیقی وجود کا زبان کے ذریعے سے منکشف ہونا ہے جسے حقیقی پیدا کرتا ہے اور تشکیل دیتا ہے۔ اسی لیے یہ علم کا کُلیت میں بیان ہے کیونکہ اسی عمل میں جاننے کے عمل کی کُلیت تشکیل پاتی ہے۔ یہ غیر منقسم کُل ہے کیونکہ اس میں حقیقی وجود پوری طرح سے منکشف ہوا ہے یا یوں کہیے کہ مکمل طور پر منکشف شدہ کُلیت ہے، مربوط کُل جسے حقیقی دنیا میں جانا گیا ہے۔ فلسفے کی سائنس میں یہ کُلیت سادہ، حسیاتی وجود سے ارتقا پاتی ہے جو پہلے پہل تو علیحدہ اور غیر مربوط اشیا، یا ادراکات پر مبنی تھی جن میں کوئی ارتباط نہ تھا نہ ہی تسلسلی علم۔
اگر شعور اور وجود کو علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو یہ دونوں تجریدیں ہیں جو نہ تو معروضی حقیقت ہیں نہ ہی تجرباتی وجود۔ جب ہم خیال کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اس میں لازمی طور پر ایک جاننے والا اور ایک وہ چیز جسے جانا گیا ہے، موجود ہیں۔ یہ دو پہلو بہرحال ایک ہیں کیونکہ یہ کُلیت ہیں اور مل کر ہی خیال کو تشکیل دے پاتے ہیں۔ اس طرح کی تشریح ہیگل کو سر کی بجائے پاؤں کے بل کھڑا کرنا ہے کیونکہ شعور اور وجود کی اس طرح کی کُلیت یا ہم آہنگی کو وہ سپرٹ یا خیال (Geist) کا نام دیتا ہے۔
٭٭٭٭
اس اختصار کے بعد ہم علم کے انعکاسی نظریے کو زیرِ بحث لا سکتے ہیں۔ لینن اور اس سے پہلے اینگلز اس نظریہ علم کو پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب ’لڈوگ فیورباخ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ‘ میں اینگلز نظریہ وجود کے حوالے سے مادیت اور عینیت میں فرق کرتا ہے کہ کس طرح فطرت کے بنیادی ہونے کے بارے میں دونوں مختلف ہیں۔ پھر اسی سوال کے دوسرے رخ یعنی نظریہ علم کی رو سے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارد گرد کی دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات اس دنیا سے کس تعلق میں آتے ہیں۔ کیا ہماری سوچ اس کا ادراک کرنے کے قابل ہے؟ کیا ہم اس دنیا کے بارے جو نظریات اور خیالات تشکیل دیتے ہیں وہ اس کا ٹھیک عکس ہیں؟ Materialism and Empirio-criticism میں لینن کا کہنا ہے کہ ”خیالات اور حسیات اشیا کی نقل یا عکس ہیں“۔ ”حسیات خارجی دنیا میں اشیا کا عکس ہیں“۔ ”مادہ ایک فلسفیانہ اصطلاح ہے جس سے مراد معروضی دنیا ہے جو انسان کو اس کی حسیات کے ذریعے مہیا ہوتی ہے اور جو ہماری حسیات کے ذریعے ہمارے ذہن میں نقل ہوتی ہے، اس کی تصویر بنتی ہے یا یہ منعکس ہوتی ہے“۔ شعور اور وجود کا دوہرا پن یہ مطلب دے سکتا ہے کہ شعور حقیقت کا حصہ نہیں ہے۔ ہم ”کُل حقیقت“ کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں جس سے مراد تمام حقیقت ہے جس سے شعور منہا کر دیا جائے، ہو سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ خارجی حقیقت وجود رکھ سکتی ہے چاہے سوچ ہو یا نہ ہو۔ ان دونوں کو گڈ مڈ کر کے بعض مفکرین نے جدلیات کو سوچ تک محدود کر دیا اور اسے خارجی حقیقت سے خارج کر دیا۔
کیا علم کے عکسی نظریہ کی رو سے ذہن میں خارجی دنیا کا ایک مجہول عکس ہی بنتا ہے؟ کیا ہمارا ذہن اس میں کسی قسم کا تشریحی یا ترتیب دینے کا کردار ادا نہیں کرتا؟ حسیاتی ادراک سے خیال کی تشکیل تک اگر ذہن مجہول ہی ہے تو وہ خارجی دنیا کے صرف اور صرف بے ترتیب عکس کو کوئی شکل دینے سے قاصر رہے گا اور ہم اس کے ظاہر appearance سے آگے جوہر essence تک نہیں جا سکیں گے۔ جب تک ظاہر اور اصل میں امتیاز قائم نہیں کیا جاتا، اور ایسا علم تشکیل نہیں پاتا جو ظاہر سے جوہر تک جائے، خیال کی تشکیل ممکن نہیں ہے اور مجہول ذہن کبھی بھی نہیں جان سکتا کہ حقیقت کیا ہے۔ خارجی دنیا کو جاننے کا یہ علم یا نظریہ ذہنی اور سماجی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس عمل میں ذہن کا کردار فعال ہے نہ کہ مجہول کیونکہ موجود ڈاٹا کو ترتیب دینا یا اس کو کاٹنا چھاٹنا عکسی نظریہ کو رد نہیں کرتا۔ اسی بنیاد پر لفظ correspondence استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں الفاظ ایک ہی معنی دیتے ہیں کہ ہم فعال طریقے سے خیال کی تشکیل کر سکتے ہیں جو خارجی دنیا سے ہم آہنگ ہو۔ اس طرح ہم ان دونوں سوالات کا جواب دینے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ انسان کیسے نظریہ کی تشکیل کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ نظریہ اور حقیقت کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ بات ہے کہ نظریہ کی تشکیل میں کسی نہ کسی قسم کا ذہنی عمل رواں ہے جبکہ ہم آہنگی یا عکس کے حوالے سے خارجی دنیا میں جو کچھ اصلاً، اپنے جوہر میں essential ہے، اس میں شامل ہے۔ لینن لکھتا ہے کہ، ”کانٹ اور ہیوم جیسے فلسفی ظاہر اور شے بالذات میں حد فاصل قائم کر دیتے ہیں۔ ظاہر سے، یعنی حسیات (ہمارے ادراک سے باہر اشیا) سے اوپر اٹھنا ماورایت transcendence ہے جس کی صرف اعتقاد کو اجازت ہے علم کو نہیں۔ اینگلز کے نزدیک اس فلسفیانہ بکھیڑے کا بہترین جواب (انسانی) عمل، محنت ہے۔ اگر ہم کسی سائنسی عمل کو خود کر سکتے ہیں تو ہم اس کے صحیح ہونے کی سب سے عمدہ دلیل دیتے ہیں۔ ہم اسے ضروری حالات میں ہی بنا پاتے ہیں اور اس سے ہمارا کوئی نہ کوئی مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس سے کانٹ کی شے بالذات کا جھنجھٹ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اینگلز مختلف علوم سے بے شمار مثالیں دیتا ہے کہ وہ کیمیکلز یا اشیا جو فطرت میں پائی جاتی ہیں کس طرح انسان ان کو خود بنا کر ان کے اندرونی اصول اور ان کے وجود کی شرائط کو جان لیتا ہے۔“ اس طرح شے بالذات thing-in-itself تبدیل ہو کر thing-for-us بن جاتی ہے۔ اشیا کو جاننا اور پھر تبدیل کرنا بلا وجہ نہیں بلکہ اس میں انسان ایک طرح سے شے کے وجود کی بنیادی شرائط کے خلاف نہیں جا سکتا۔ انڈوں سے چوزے نکالنے کے لیے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ہے اور پھر انڈے میں موجود embryo اس میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔ اینگلز نے اس نکتے کی مزید تشریح یوں کی ہے کہ، ”جب تک ہم احتیاط کرتے ہیں کہ اپنی حسیات کو صحیح طریق سے استعمال کریں اور اپنے عمل کو درست یا لازم حدود میں رکھیں، تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے عمل کا نتیجہ ہماری حسیات فطرت کے معروضی وجود سے ہم آہنگی ظاہر کرے گا۔“ مارکس کا کہنا ہے کہ، ”معروضی سچائی سے متعلق انسانی سوچ کا سوال نظریہ سے زیادہ عمل سے متعلق ہے۔ انسان عمل ہی میں سچائی کو ثابت کرتا ہے۔ یعنی اپنی سوچ کی طاقت اور حقیقت، اور حقیقت کا شے بالذات کی اس طرف سے تعلق صرف عمل ہی میں صحیح یا غلط ثابت ہوتا ہے۔ اگر اسے عمل سے علیحدہ کر دیا جائے تو فضول بحث رہ جاتی ہے۔“
اس دوسرے یعنی مادی پہلو کے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنے خیالات کو مادی حالات کے مطابق ڈھالتے ہیں تاکہ ہمارے خیالات ان کا صحیح عکس ہوں یا ان سے ہم آہنگ ہوں۔ ہم نے ان کی ایٹمی ساخت نہیں بنائی نہ ہی وہ اشیا جو فطرت عطا کرتی ہے۔ لہٰذا ہمارے جاننے کا عمل سوچ کو ان کے مطابق ڈھالنا ہو گا نہ کہ خود اپنے پاس سے کوئی تشریحاتی ساخت، موضوعی طور پر ان پر ٹھونسی جائے۔ اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ کیا علم کا انعکاسی نظریہ انسانی عمل (جس میں ذہنی اور جسمانی دونوں شامل ہیں) کے اس کردار کی وضاحت کر سکتا ہے جس کی رو سے شے میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔ اس سے متعلقہ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح یہ نظریہ ظاہر اور اصل کے فرق کے جدلیاتی تعلق کی تشریح کر سکتا ہے۔
لینن اس سوال سے متعلقہ مضمرات سے پوری طرح واقف تھا۔ اسی لیے وہ لکھتا ہے کہ، ”ممکن ہے آپ مادیت کا فلسفہ تسلیم کریں اور اس سوال کا جواب مثبت میں نہ دیں۔ (یعنی شعور اور وجود میں بنیادی حیثیت کس کی ہے؟) لیکن آپ مادیت پسند رہ کر بھی اس بات سے اختلاف کر سکتے ہیں کہ ہماری حسیات جو عکس مہیا کرتی ہیں ان کی ساخت کے درست ہونے کا پیمانہ کیا ہے۔۔“ وہ اس ضمن میں بازاروف کا حوالہ دیتا ہے کہ ان ”محدودات“ جن میں ہم خارجی دنیا کے عمل سے تعلق میں آتے ہیں، اشیا اور اس کی خصوصیات کا ادراک کرتے ہیں، خارج میں موجود حقیقت سے برابر coincide ہوتا ہے۔ یہ خارجی دنیا کا علامتی یا تصویری اظہار نہیں۔ حسیاتی ادراک خارج میں موجود حقیقت ہے“۔ لینن اس نظریہ کو مضحکہ خیز قرار دیتا ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ زمین خارج میں وجود رکھنے والی حقیقت ہے اور یہ کسی بھی طرح ہماری حسیات کے ماتحت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اس وقت بھی موجود تھی جب انسان نہیں تھا۔
اس بحث کا دوسرا رخ: ”حقیقت خارج میں ہے اور سوچ سے آزاد ہے۔ اس تعلق کے حوالے سے سوچ پر محدودات لاگو ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم سچائی تک استخراجی deductively طریقے سے ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اس عمل میں سوچ کا کام کانٹ چھانٹ کرنا اور ترتیب دینا ہے۔ دوسری جانب چونکہ ہم ٹھوس حقیقت تک سوچ کے ذریعے پہنچتے ہیں لہٰذا ٹھوس حقیقت سوچ میں ظاہر ہوتی ہے۔ جو کچھ سوچ ہے، سوچ کی پیداوار ہے اور حقیقت کی سمجھ بھی سوچ ہی کا کام ہے“۔ یہ الفاظ مارکسی دانشور Colletti کے ہیں (روسو سے لینن تک، ص 119) اور ان کا لب لباب یہ ہے کہ سوچ خارجی حقیقت کا عکس نہیں بلکہ اس کی تشریح کرتی ہے۔ اس اقتباس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ تجریدی تعریفیں بھی خالصتاً ذہن کی پیداوار ہیں اور ان کو خارجی حقیقت سے اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کا انداز دلیل اس طرف بھی لے جاتی ہے کہ تجریدی تعریفیں عقل مجرد کا حصہ ہیں اور ان کا وجود خارجی حقیقت سے بالا ہے۔ کانٹ کی a priori سچائیوں پر پہلے ہیگل اور بعد ازاں فلسفہ مادیت کے حوالے سے ہم کافی بحث کر چکے ہیں۔ کانٹ کا فلسفہ بنیادی طور پر عینیت پسندی پر مبنی تھا لیکن نظریہ وجود کی رو سے وہ مادی دنیا کا وجود تسلیم کرتا تھا اگرچہ بقول اس کے اسے جانا نہیں جا سکتا۔ اس کا عینیت پسندانہ نظریہ وجود اور عقل مجرد کے بنے بنائے رمزیے categories متضاد ہیں۔ تاریخِ فلسفہ میں یہ تضاد دو مختلف مکاتیب کے جنم کی صورت میں ظاہر ہوا، یعنی ہیگل اور فیورباخ میں۔ لینن کا تجزیہ ”کانٹ پر دائیں اور بائیں اطراف سے تنقید“ میں ہم دیکھتے ہیں کہ دائیں طرف والوں نے کانٹ پر اس حوالے سے تنقید کی کہ اس نے شے بالذات کے وجود کو برقرار رکھا۔ جب کہ ”ہم تشکیک پسند اور کانٹ کو ماننے والے شے بالذات کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے جو کہ ہر قسم کے تجربے سے باہر ہے۔ ہم انکار کرتے ہیں کہ زمان و مکاں ہم سے باہر آزادانہ طور پر وجود رکھتے ہیں۔ ہم اپنے تجربہ میں لازمیت، علت وغیرہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے“۔ اس تنقید کے پس منظر میں یہ بات ہے کہ شے بالذات کے وجود کو ماننا مادیت کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ فلسفہ مادیت نے کانٹ کو اس کے عینیت پسند رویہ کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا اور دکھایا کہ شے بالذات کو جانا جا سکتا ہے اور انسانی عمل کے ذریعے اس کو بدلا بھی جا سکتا ہے۔ لینن Rau کا حوالہ دیتا ہے کہ: ”شے بالذات وہ فلسفیانہ اصطلاح ہے جو کانٹ کی عینیت پسندی کو برکلے کی عینیت پسندی سے ممیز کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ عینیت اور مادیت کے فرق کو بھی وسیع کرتی ہے۔ مادیت کے لیے a priori علمِ محض اور شے فی الذات فالتو ہیں۔ کیونکہ یہ فلسفہ کہیں بھی فطرت کے تسلسل کو نہیں توڑتا۔ نہ ہی ذہن اور مادے کو دو مختلف چیزیں سمجھتا ہے، بلکہ ایک ہی چیز کے دو پہلو۔“
ہم پہلے بھی اس نکتے کو زیرِ بحث لا چکے ہیں کہ شعور اور وجود کا دوہرا پن اس غلطی کی طرف لے جاتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی حقیقت کا جزو نہیں۔ اسی لیے کُلیت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس میں وجود سے سوچ منفی کرنے پر ہمیں باقی وجود ملتا ہے۔ اس لیے شعور اور وجود کے دوہرے پن کا یہ مطلب ہو گا کہ حقیقت اس صورت میں بھی وجود رکھتی ہے جب اس کا شعور نہ حاصل کیا گیا ہو۔ کولیٹی یہی غلطی کر رہا ہے کہ وہ حقیقی کی جدلیات کو تسلیم نہیں کر رہا اور تضاد کو صرف سوچ کے دائرے تک محدود کیے ہوئے ہے۔
سوچ کا تشریحی اور انعکاسی، ہر دو اقسام کا کردار ہے۔ ثبوتیت کے خلاف دلیل دیتے ہوئے ہم سوچ کے تشریحانہ کردار کو نمایاں کرتے ہیں جس سے کہ مشاہدے میں آنے والے شواہد یا حقائق شعور کا حصہ بنتے ہیں۔ کوئی ایسے حقائق نہیں جو منطقی اعتبار سے نظریاتی عمل یعنی سوچ کی تشکیل سے علیحدہ یا علاوہ ہیں۔ یعنی خارجی حقیقت کی کوئی نیوٹرل تشریح ممکن نہیں۔ مراد یہ کہ کسی حسیاتی ادراک کو بغیر شعوری کوشش کے شکل نہیں دی جا سکتی۔ مظہریاتی درجے پر حقائق صرف ظواہر ہیں اور سوچ کا کام ان کی تشریح کرنا یعنی انہیں ان کے جوہر سے جوڑنا ہے۔ مثال کے طور پر قدرِ مبادلہ اور اس کے حجم کی تشریح ہم ایسے نظریات سے کر سکتے ہیں جو سرمایہ دارانہ طبعِ پیداوار میں شے commodity کی ساخت کو بیان کر سکیں۔ جو نظریہ ان ظواہر کو درست طور پر بیان کرے گا وہ اس کے لیے صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب اس کے جوہر کو درست انداز میں بیان کرے۔ اس طرح سوچ نظریے کے درجے پر، تشریح کی بجائے انعکاس کا کردار سر انجام دے گی۔ اس طرح ہم ہر اس نظریے کو رد کر سکتے ہیں جس میں سوچ کے حقائق اور خارجی حقیقت کے قابل مشاہدہ حقائق میں فرق نہ کیا جائے۔ یا ایسا نظریہ جو قابل مشاہدہ حقائق کو خود مختار قرار دیتا ہے اور اس کے پاس سوچ کے لیے کسی قسم کا تشریحی کردار نہیں۔
ہمارا شعور وجود کی تشریح کرنے کی بجائے اس کا انعکاس کرتا ہے تو یہ اس صورت میں ممکن نہیں کہ ہمارا ذہن مجہول طور پر حسیات کے اشارے ہی حاصل کرے۔ اگر کوئی اس طرح سے مجہول ذہن ہے تو وہ صرف مشاہدے کے ظواہر تک ہی محدود رہے گا۔ جب تک ظواہر سے جوہر تک جانے کی ضرورت ہے، یعنی جب تک سائنسی علم کی ضرورت ہے تو صرف ظواہر تک قناعت نہیں کی جا سکتی۔
ایک لحاظ سے نظریہ سازی فعال ذہن کا عمل ہے۔ یعنی صرف ذہنی اور جسمانی محن کے نتیجے میں نظریہ یا خیال تشکیل پاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انعکاس Reflection کی بجائے مطابقت Corresponding کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن دونوں الفاظ کا مافیہا ایک ہی ہے۔ ہم فعال طریقے سے ایسے نظریے کی تشکیل کر سکتے ہیں جو خارجی دنیا سے ہم آہنگ ہوں۔ اس لیے ہم ان دو سوالات میں فرق کرتے ہیں کہ نظریہ سازی کس طرح ہو پاتی ہے اور نظریے اور حقیقت کے مابین کیا تعلق ہے۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ نظریہ سازی میں کسی نہ کسی طرح سے ذہن کا فعال ہونا ضروری ہے۔ دوسرے پہلو کی تشریح یہ ہو گی کہ دونوں کے مابین توازن یا ہم آہنگی یا مطابقت ضروری ہے۔ کم از کم اس صورت میں جب خیال یا نظریہ فقط ظاہر appearance تک محدود نہیں۔
علم کے انعکاسی نظریے پر سب سے بڑا یہی اعتراض ہے کہ اس میں ذہن مجہول ہے لیکن جیسا کہ یہاں بحث کی گئی ہے یہ خارجی دنیا کے ڈاٹا کو موضوعی عمل کے تابع نہیں کرتا۔ کئی جدید مکتبہ ہائے فکر ’نظریہ علم‘ کی خود مختاری اور یک طرفہ پن کا اس قدر شکار ہو گئے کہ ان میں خارجی ڈاٹا صرف اس لیے وجود رکھتا ہے کہ وہ موضوعی عمل کا حصہ بنے۔ انعکاسی نظریہ خارجی دنیا کو بنیادی مانتے ہوئے اس کی معروضیت کو خیال یا نظریے کا تابع نہیں بناتا۔ اس عمل کی مارکس نے Grundrisse میں یوں وضاحت کی ہے:
”ہیگل اس واہمے میں پڑ گیا کہ اس نے حقیقت کو خود سے تحریک دینے والی، خود کا احاطہ کرنے والی اور خود کی تشریح کرنے والی سوچ گردانا۔ جبکہ تجریدی سے مقرونی تک جانے کا طریقہ صرف وہی ہے جس میں سوچ مقرونی کا حصول کرتی ہے اور اس کی بطور مقرونی باز تخلیق کرتی ہے جس نے ذہنی کی بنتر حاصل کر لی ہوتی ہے۔ تاہم یہ وہ عمل نہیں جو مقرونی کو پیدا کرتا ہے۔“(Grundrisse, P 45)
اس کتاب میں اس مقام پر جہاں سے یہ حوالہ دیا گیا ہے مارکس نظریہئ علم کو زیر بحث نہیں لا رہا بلکہ طریقِ کار method کی تشریح کر رہا ہے کہ معاشرے سے متعلق ہمارا علم کیسے تشکیل پاتا ہے۔ مارکس یہ مسئلہ نہیں اٹھا رہا جو کانٹ اور بعد ازاں ہیگل اور خود اس کے ہاں جدید فلسفیانہ روایت کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے کہ جانی گئی یا ’خیال‘ کی تشکیل کے مرحلے میں حقیقت عقل مجرد کے اصولوں سے شکل پاتی ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر مارکس کہتا ہے کہ، ”جب مقرونی بطور سوچ کے کُل (یا اجماع) کے ہماری سوچ کا مقرونی موضوع بنتا ہے، تو یہ ہماری سوچ، ہمارے ادراک، سمجھ کی پیداوار ہے۔“ اس طریق کار سے مراد یہ ہے کہ حقیقت کی سمجھ سادہ، ابتدائی شواہد کے حصول سے ہوتی ہے اور پھر ہمارے شعوری عمل کے ذریعے وہ مربوط شکل اختیار کر کے حقیقت کی مقرونی تصویر بن جاتی ہے۔ مارکس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس خارجی حقیقت کو بھی تخلیق کرتے ہیں جو ہمارے شعوری عمل کا مقصد ہے، یعنی جس پر شعوری عمل کام کرتا ہے۔ اسی جگہ مارکس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ، ”مقرونی نکتہئ آغاز ہے اور مشاہدے اور ادراک کی ابتدا بھی“۔ وہ اصطلاحات یا تشریحات جن کے ذریعے خارجی حقیقت جانی جاتی ہے بذات خود مقرونی، خارجی حقیقت کی ہی پیداوار ہیں۔ ہم حقیقت کا شعور اتنی دیر تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم اسے نظریے کے ذریعے ترتیب نہیں دیتے، اسے نظری تشکیل نہیں دیتے۔