مارکس، اینگلز اور ادب

تحریر: | ب۔ کرایلوف |
Marx & Engelsمارکس اور اینگلز عالمی آرٹ کو بخوبی جانتے تھے اور ادب، کلاسیکی موسیقی اور مصوری سے حقیقی آگاہی رکھتے تھے۔ اپنی جوانی میں دونوں نے شاعری بھی کی حتیٰ کہ ایک دفعہ اینگلز نے شاعر بننے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی۔
اُنہیں نہ صرف کلاسیکی ادیبوں کا علم تھا بلکہ اپنے ہم عصر اور ماضی بعید کے غیر معروف اور حتیٰ کہ کم جانے پہچانے ادیبوں کے کام کا علم بھی تھا۔ وہ ایسکیلس، شیکسپیئر، ڈکنز، فیلڈنگ، گوئٹے، ہائنے، سروینٹر، بالزاک، دانتے، چرنیشوسکی اور دوبرولیوبوف اور بہت سے غیر معروف لوگ، جنہوں نے ادب کی تاریخ میں اپنے نقوش چھوڑے، کے زبر دست معترف تھے۔ وہ پاپولر آرٹ، مختلف قوموں کی رزمیہ داستانوں اور لوک کھتاؤں کی دوسری اقسام جیسے گانے، کہانیاں، افسانے اور ضرب الامثال سے والہانہ شغف رکھتے تھے۔

مارکس اور اینگلز نے عالمی ادب کے خزانوں کو اپنی تحریروں میں بھر پور استعمال کیا۔ ان کے ادبی اور دیومالائی کرداروں کے متواتر حوالہ جات، ضرب الامثال، موازنے اور حوالاجات کے استعمال کو اپنی تحریروں میں ماہرانہ انداز میں شامل کر نا، اُن کی لکھتوں کی منفرد خاصیت تھیں۔
اُن کی تحریریں صرف مواد کی گہرائی کی وجہ سے قابل ذکر نہیں بلکہ اپنی غیر معمولی فنی خوبیوں کی وجہ سے بھی ہیں۔ ویلہم لبنیخت نے مارکس کے اس انداز تحریر کی بڑی تعریف کی اور ’’لوئی بوناپارٹ کی اٹھارویں برومےئر ‘‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا، ’’ اگر کبھی نفرت، حقارت اور آزادی کی والہانہ محبت کو سوختہ، تباہ کن اور باوقار الفاظ میں اظہار کیا جائے تو وہ ’’اٹھارویں برومےئر ‘‘ میں ہے جو ٹیسی ٹس (Tacitus) کی پر طیش شدت کو جووینال (Juvenal) کے جان لیوا طنز اور دانتے (Dante) کے مقدس قہر کے ساتھ یکجا کر تی ہے۔ اس کا طرز تحریر قدیم رومیوں کے تیز خنجر کی طرح ہے جسے لکھنے اور گھونپنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو بغیر کسی غلطی کے سینے میں اُتر جاتا تھا۔ (Reminiscences of Marx and Engels, Moscow, 1956, p. 57)
مارکس اور اینگلز صحافتی اور مناظراتی تحریروں میں اپنے خیالات کو وضاحت اور مہارت سے پیش کرنے کے لیے فنی منظر کشی کا استعمال کرتے تھے اور حتیٰ کہ بنیادی نظریاتی لکھتوں جیسے ’’سرمایہ ‘‘ اور ’’اینٹی ڈوہرنگ‘‘ میں بھی اس کا استعمال کیا۔ مارکس کا پمفلٹ Herr Vogt، جو کارل ووگٹ کے خلاف لکھا گیا تھا جو پرولتاری پارٹی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا تھا، حیرت انگیز مثال ہے۔ اس پمفلٹ کا چبھنے والا طنزیہ انداز اس وجہ سے مؤثر ہے کہ مصنف نے بڑی مہارت سے کلاسیکی مصنفین کی تحریروں کا استعمال کیا ہے جیسے ورجل، پلاؤٹس، پرسیئیس، قرون وسطیٰ کے جرمن شاعر گوٹفرائڈ، وولفرام اور عالمی ادب کے کلاسیک جیسے بالزاک، ڈکنز، شلر اور ہائنے۔

عالمی آرٹ کے بارے میں ان کے بہترین علم نے اُنہیں حقیقی معنوں میں سائنسی جمالیاتی اُصولوں کی وضاحت کرنے میں بڑی مدد کی۔ اسی وجہ سے سائنسی کمیونزم کے بانی نہ صرف سابقہ دور کے پیچیدہ جمالیاتی سوالوں کے جوابات دے سکتے تھے بلکہ جمالیاتی سائنس کے بنیادی طور پر نئے نظام کی وضاحت بھی کر سکتے تھے اور یہ سب کچھ کرنے کے قابل ہونے کی وجہ وہ عظیم انقلابی اتھل پتھل تھی جو اُنہوں نے فلسفے میں متعارف کی تھیں۔ جس نے جدلیاتی اور تاریخی مادیت اور تاریخ کے مادی نظریے کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ مارکس اور اینگلز نے آرٹ کے میدان میں کوئی بڑی تحریر نہیں چھوڑی لیکن جب اس شعبے میں اُن کے تمام کاموں کو اکٹھا کیا جائے تو ایک مربوط کُل وجود میں آجاتا ہے جو اُن کے سائنسی اور انقلابی نظریے کامنطقی تسلسل ہی ہے۔ اُنہوں نے آرٹ کی فطرت، ارتقا کی سمت، سماج میں مقام اور اُس کے سماجی مقاصد کی وضاحت کی۔ مارکسی جمالیات، مارکس اور اینگلز کی تمام تعلیمات کی طرح، سماج کی کمیونسٹ تنظیم نو کی جد وجہد کے تابع ہے۔
مارکس اور اینگلز نے اپنے جمالیاتی نظریے کی ترویج کے لیے اپنے پیشروؤں کی حاصلات پر انحصار کیا۔ لیکن اہم جمالیاتی معمے اور سب سے بڑھ کر آرٹ اور حقیقت کے درمیان تعلق کے معمے کو اُنہوں نے خود ہی نئے طریقے سے جدلیاتی انداز میں حل کیا۔ خیال پرستانہ جمالیات آرٹ کو خیال مطلق کی تصویر اور مادی حقائق سے مبرّا قرار دیتی ہے۔ آرٹ کی کسی بھی شکل کی ترویج، نشوونما اور زوال آرٹ کے نظریہ دانوں اور قبل از مارکس کے مؤرخوں کو سمجھ نہیں آیا کیونکہ اُنہوں نے اسے انسان کے سماجی وجود سے الگ کرکے مطالعہ کیا۔
مارکس اور اینگلز کے مطابق آرٹ اور ادب کو صرف اُن کے اپنے اندرونی ارتقائی قوانین کے ذریعے بالکل نہیں سمجھا جاسکتا۔ اُن کے خیال میں آرٹ کے جوہر، ابتدا، ترویج اور سماجی کردار کو صرف سماجی نظام کے کلی تجزیے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے جس میں معاشی عنصر، یعنی پیداواری قوتوں کا تعلقات پیداوار کے ساتھ پیچیدہ باہمی تعلق کے ذریعے ارتقا، اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ یوں اُن کی تعریف کے مطابق آرٹ سماجی شعور کی ایک شکل ہے اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجوہات کو انسان کے سماجی وجود میں تلاش کر نا چاہیے۔
اُنہوں نے آرٹ کی سماجی فطرت اور اس کی تاریخی ترویج کی وضاحت کی۔ اور دکھایا کہ طبقاتی سماج میں طبقاتی تضادات اور مخصوص طبقات کی سیاست اور اُن کے نظریات اُس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

اُنہوں نے جمالیاتی احساس کی ابتدا کی مادیت پرستانہ تشریح کی۔ اُنہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ انسان کی فنی صلاحیتیں، دنیا کو جمالیاتی طور پر سمجھ کر اُس کی خوبصورتی کو پرکھنے اور فنی کام تخلیق کرنے کی صلاحیتیں، انسانی سماج کے طویل ارتقا اور انسانی محنت کا نتیجہ ہے۔ 1844ء میں ’’معاشی اور فلسفیانہ مسودات‘‘ میں مارکس نے انسانی شعور کے ارتقا اور جمالیاتی قانون کے مطابق خوبصورت اشیاء تخلیق کر نے میں انسانی محنت کے کردار کی وضاحت کی۔
اس خیال کو اینگلز نے بعد میں اپنی کتاب ’’ فطرت کی جدلیات‘‘ میں آگے بڑھایا۔ جس میں اُس نے لکھا کہ محنت نے ’’انسانی ہاتھوں کو وہ کمال عطا کیا جو رافائیل (Raphael) کی تصاویر، تھوروالڈسن (Thorwaldsen) کے مجسمے اور پیگنینی (Paganini) کی موسیقی تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ‘‘ پس مارکس اور اینگلز نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی جمالیاتی حس پیدائشی نہیں بلکہ سماجی حالات کی پیداوار ہوتی ہے۔
مارکسزم کے بانیوں نے انسانی شعور کی فطرت کی جدلیاتی تشریح کو فنی تخلیقات تک پھیلایا۔ آرٹ کی نشوونما اور اس کے ساتھ مادی دنیا اور سماج کی تاریخ کا تجزیہ کر تے ہوئے اُنہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ آرٹ کی ہئیت اور مواد ایک ہی دن میں قائم نہیں ہوئی بلکہ ناگزیر طور پر مخصوص قوانین اور اس کے ساتھ ساتھ مادی دنیا اور انسانی سماج کی ترقی کے ساتھ ہی قائم اور تبدیل ہوتے گئے۔ ہر تاریخی عہد کے اپنے جمالیاتی نظریات ہوتے ہیں اور اپنے مخصوص کردار کی نسبت سے فنی کام تخلیق کرتے ہیں جو دوسرے حالات میں تخلیق نہیں ہوسکتے۔ مثلاً نشاۃ ثانیہ کے شہرۂ آفاق مصوروں رافائیل، لیونارڈو ڈاونچی اور ٹائیٹین کے کام کا موازنہ کرتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے کہا، ’’ رافائیل کے فنی کام روم کے اُس وقت کی ترقی پر منحصر تھا جو فلورنس کے زیر اثر تھی۔ جبکہ لیونارڈو کے کام فلورنس کے اُس وقت کے حالات پر منحصر تھے اور بعد میں ٹائیٹین کی تخلیقات وینس کی ایک بالکل مختلف نشوونما کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ ‘‘

شیکسپیئر

سماج کی ترقی کی سطح اور اس کی سماجی ساخت فنی اور ادبی تخلیقات کا تعین کرتے ہیں۔ مارکس کے مطابق یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے مختلف ادوار کی فنی تخلیقات اپنے آپ کو دہراتی نہیں۔ خاص طور پر انیسویں صدی کے معروض میں قدیم یونان کی دیومالا یا رزمیہ شاعری کو تخلیق کرنا ممکن نہیں۔ مارکس نے لکھا، ’’ کیا اُس فطرت اور سماجی تعلقات، جو یونانی نظریات اور آرٹ کی بنیاد تھے، کا تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ آج خود کار چرخے، ریل گاڑی، انجن اور برقی ٹیلی گراف کا دور ہے ؟‘‘
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مارکسزم سماجی شعور کی مختلف شکلوں (بالخصوص آرٹ) اور اُن کی معاشی بنیادوں کے درمیان تعلق کے علم کو اتنا سادہ نہیں لیتا۔ مارکس اور اینگلز کے مطابق کوئی بھی سماجی تشکیل ایک پیچیدہ اور باہم متعامل اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے عناصر کا متحرک نظام ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں آخری تجزیے میں معاشی عنصر فیصلہ کن ہے۔ وہ آرٹ کو معاشی نظام کی ایک مجہول پیداوار نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بر عکس اُنہوں نے اس پر زور دیا کہ سماجی شعور کی مختلف اشکال بشمول فنی تخلیقات اپنی سماجی جنم بھومی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

فنی تخلیقات کی سماجی عامیانہ روی (Sociological Vulgarization) کو روکنے کے لیے مارکس اور اینگلزنے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کی کہ سماجی زندگی اور مخصوص طبقات کے نظریات آرٹ پر میکانکی انداز میں اثر انداز نہیں ہوتے۔ فنی تخلیقات سماجی ارتقا کے عمومی قوانین کے تابع ہے لیکن شعور کی ایک خاص شکل ہونے کی بنا پر اس کے اپنے مخصوص خدوخال اور انداز ہوتے ہیں۔
آرٹ کے مخصوص خد و خالوں میں سے ایک اس کی اپنی ارتقا کے دوران اس کی نسبتی آزادی ہے۔ فنی تخلیقات کا تاریخی طور پر مخصوص سماجی تشکیلات سے جڑے ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سماجی تشکیلات کے ختم ہونے سے ان کی اہمیت بھی ختم ہو جا تی ہے۔ اس مقام پر مارکس قدیم یونان کی فنی تخلیق اور رزمیہ شاعری کی مثال دیتا ہے جو ’’ آج بھی ہمیں جمالیاتی تسکین فراہم کرتی ہے اور کئی حوالوں سے معیاری اور ناقابل حصول آئیڈیل ہے ‘‘۔ وہ اس مظہر کی ایک گہری وضاحت بھی پیش کر تاہے : یونانی آرٹ حقیقت کی سادہ، مگر صحت مند اور عام تصور کی عکاسی کر تا تھا۔ جو انسانوں کی ترقی کے ابتدائی مراحل کی خاصیت تھی۔ وہ ’’فطری سچائی ‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی عکاسی کرتا تھا۔ جس میں سب کے لیے ایک کشش موجود تھی۔
یہ مثال ایک اہم مارکسی جمالیاتی اُصول کو ظاہر کرتی ہے۔ فنی تخلیقات کو بنیادی طور پر سماجی معروض اور تعلقات کی عکاسی مانتے ہوئے یہ بھی لازمی ہے کہ اُن خد وخا ل کو بھی دیکھا جائے جنہوں نے ان تخلیقات کو اَمر کر دیا ہے۔

یہ لازمی نہیں ہے کہ آرٹ کے عروج کے ادوار میں دوسرے شعبوں (بشمول مادی پیداوار) میں بھی خود بخود ترقی ہو۔ اس چیز کو مارکس اور اینگلز نے آرٹ کی خاصیت قرار دیا۔ اسی وجہ سے مارکس نے اپنے ’’معاشی مسوّدات ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا، ’’جہاں تک آرٹ کا تعلق ہے، یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ا س کی ترقی سماج کی عمومی ترقی سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی مادی زیریں ڈھانچے سے۔‘‘ مارکس اور اینگلز نے فن کی نشوونما اور بحیثیت مجموعی سماجی ترقی کے درمیان اس عدم توازن کی وجہ یہ بیان کی کہ کسی بھی عہد کے روحانی کلچر کا تعین نہ صرف مادی پیداوار کی ترقی کی سطح (سماج کی مادی بنیاد) بلکہ اس عہد کے سماجی تعلقات کی نوعیت سے بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سماجی تعلقات کے مخصوص کردار، طبقاتی کشمکش کی خاص سطح اور کسی بھی عہد میں انسان کی شخصیت کی نشوونما کے لیے خاص حالات کی موجودگی، یہ سب عوامل آرٹ پر اثر انداز ہو کر اس کی فطرت اور ارتقا کا تعین کر تے ہیں۔

جہاں تک سرمایہ دارانہ سماج کا تعلق ہے، مارکس اور اینگلز کے مطابق اس عدم توازن کو سرمایہ داری کے بنیادی تضادات کا اظہار سمجھنا چاہیے، پیداوار کی سماجی نوعیت اور ذاتی ملکیت کے درمیان تضاد۔ سرمایہ داری کے تضادات کا تجزیہ کر تے ہوئے مارکس نے جمالیات کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ایک نتیجہ اخذ کیا کہ، ’’ سرمایہ دارانہ پیداوار جمالیاتی تخلیقات کی مخصوص شاخوں کے سخت خلاف ہے مثلاً آرٹ اور شاعری۔ ‘‘ اس قضیے کا مطلب یہ نہیں کہ سرمایہ داری کے تحت آرٹ اور ادب کی نشوونما نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی فطرت ہی انسانی تصورات کے خلاف ہے جو حقیقی آرٹسٹ کو متاثر کر تی ہے۔ جتنا آرٹسٹ اپنے آئیڈیلز اور سرمایہ دارانہ حقائق کے درمیان تضادات سے آگاہ ہوگا‘ اتنی ہی شدت سے اُن کا کام (مصنف کے طبقاتی پس منظر سے قطع نظر) سرمایہ دارانہ تعلقات کی غیر انسانی خصلتوں کے خلاف احتجاج کرے گا۔ بورژوا سماج کی آرٹ سے دشمنی حتیٰ کہ بورژوا ادب میں بھی، سرمایہ داری پر تنقید کو جنم دیتی ہے جس میں سرمایہ دارانہ حقائق کو’المناک حادثے‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ مارکس اور اینگلز کے خیال میں یہ سرمایہ داری کے تحت آرٹ کی نشوونما کی جدلیاتی خصلت ہے۔ اسی وجہ سے بورژوا سماج نے شیکسپیئر، گوئٹے، بالزاک اور دوسرے ذہین لکھاری پیدا کیے جو اپنے عہد اور طبقاتی ماحول سے اُوپر اُٹھ کر عظیم فنی صلاحیتوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی برائیوں پر تنقید کرتے ہیں۔

بالزاک

اپنی تحریروں میں مارکس اور اینگلز نے طبقاتی سماج میں آرٹ کی طبقاتی فطرت کے بارے میں کئی گہرے نظریات پیش کیے۔ اُنہوں نے دکھا یا کہ کس طرح حتیٰ کہ عظیم مصنفین جو اپنی طبقاتی حیثیت کے باوجود حقیقی زندگی کی ایک سچی تصویر پیش کرنے کے قابل تھے لیکن طبقاتی سماج اور حکمران طبقات کے نظریات اور مفادات کے دباؤ میں اپنی تحریروں میں اکثر رعایت دے دیا کرتے تھے۔ گوئٹے، شلر، بالزاک اور دوسرے مصنفین کی مثال دیتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے کہا کہ اُن کی تحریروں میں موجود تضادات خالص انفرادی نفسیاتی خد و خال کی وجہ سے نہیں بلکہ سماجی زندگی میں موجود تضادات کا ایک نظریاتی عکس ہے۔

مارکسزم کے بانیوں نے اس بات پر زور دیا کہ طبقات کے مابین نظریاتی کشمکش میں آرٹ ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہ استحصال کنندگان کی طاقت کو بڑھا بھی سکتا ہے اور کمزور بھی کر سکتا ہے۔ طبقاتی جبر کا دفاع بھی کر سکتاہے اور اس کے بر عکس محنت کش عوام کو تعلیم دے کر اُن کے شعور کو بڑھا وا دے کر اپنے اُوپر جبر کر نے والوں کے خلاف کامیابی بھی دلا سکتا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے اسی وجہ سے بورژوا اور جاگیر دارانہ کلچر میں ترقی پسند اور رجعتی مظاہر کے درمیان فرق کرنے پر زور دیا اور آرٹ کی جانب پارٹی رجحان کا اُصول پیش کیا جو انقلابی طبقے کی سو چ سے اُس کی تشریح کرے۔
مارکس اور اینگلز نے طبقاتی جد وجہد اور آرٹ کے درمیان تعلق کو دکھاتے ہوئے اس تعلق کو جامد بنانے کی کوششوں کے خلاف بھی بات کی۔ اُنہوں نے یہ بتا یا کہ طبقات جامد اور ناقابل تغیر نہیں بلکہ تاریخ میں طبقاتی تعلقات تبدیل ہو تے رہے ہیں۔ سماجی زندگی میں طبقات کے کر دار پیچیدہ تبدیلیوں سے گزرے۔ پس، جاگیر داری کے خلاف جد وجہد کے وقت، بورژوازی نے قابل ذکر جمالیاتی اقدار کو جنم دیا لیکن جب وہ جاگیر داری مخالف انقلابات کے نتیجے میں بر سراقتدار آئے تو انہوں نے اُسی ہتھیار کو ہی مسترد کر دیا جس کے ذریعے وہ جاگیر داری کے خلاف لڑے تھے۔ بورژوازی اپنے انقلابی ماضی سے تب ناطہ توڑتی ہے جب تاریخ کے میدان میں ایک نئی قوت پرولتاریہ اُترتی ہے۔ ان حالات میں جب بورژوا دانش کے کچھ لوگ، بالخصوص ثقافتی اور فنی میدان کے لوگ، بورژوا تعلقات کے ڈھانچے سے باہر نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کر تے ہوئے آرٹ کی شکل میں ان چیزوں کے خلاف احتجاج کر تے ہیں تو اُنہیں سرکاری بورژوا سماج سے الجھنا پڑتا ہے جس سے اُنہیں اپنی بورژوا حیثیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
مارکس اور اینگلز نے اپنے علم کے جد لیاتی اور مادی نظریے کو آرٹ اور ادب کے تجزیے پر لاگو کیا۔ اُن کے خیال میں فنی تخلیقات بیک وقت حقیقت کی عکاسی اور اس کے ادراک اور سمجھنے کا طریقہ بھی ہے۔ یہ انسانوں کی روحانی بڑھوتری کو بڑھاوا دینے کا سب سے مضبوط ذریعہ بھی ہے۔ آرٹ کا یہ نظریہ آر ٹ کی سماجی اہمیت اور سماجی ترقی میں اس کے کردار کی مادی تجزیے کی بنیا د ہے۔

فطری طور پر، انہوں نے آرٹ اور ادب کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی توجہ حقیقت پسندی (Realism)کی طرف مبذول کی۔ کسی بھی فنی کام میں حقیقت کی سب سے درست عکاسی۔
وہ حقیقت پسندی کو ایک ادبی رجحان، فنی تخلیق کا طریقہ اور عالمی آرٹ کی سب سے عظیم کامیابی تصور کر تے تھے۔ اینگلز نے حقیقت پسندی کی عمومی طور پر کلاسیکل سمجھی جانے والی تعریف وضع کی، ’’ میری نظر میں حقیقت پسندی، سچائی کی تفصیلات کے علاوہ مخصوص حالات میں مخصوص کرداروں کی حقیقی تخلیق کا نام ہے۔ ‘‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حقیقت پسندانہ نمائش محض حقیقت کی نقل کرنا نہیں بلکہ کسی مظہر کے جوہر تک پہنچنے اور فنی تعمیم (Generalization) کا طریقہ ہے جو کسی مخصوص عہد کے امتیازی خدوخال کو واضح کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس وجہ سے اُنہوں نے حقیقت پسند مصنفین شیکسپئیر، سروینٹیز، گوئٹے، بالزاک، پشکن وغیرہ کے کام کی قدردانی کی۔ مارکس نے انیسویں صدی کے انگریز حقیقت نگاروں، ڈکنز، تھیکرے، برونٹس، گاسکیل کو شاندار ناول نگاروں کا گروہ قراردیا ’’ جن کی واضح اور فصیح و بلیغ کتابوں نے تمام تر پیشہ ور سیاست دانوں، تبصرہ کاروں اور اخلاقیت پسندوں سے بھی بڑھ کر دنیا میں سیاسی اور سماجی حقائق پیش کیے۔ یہی بات اینگلز نے فرانسیسی حقیقت پسند لکھاری بالزاک کی تحریروں کا تجزیہ کر تے ہوئے بھی کہی۔ ’انسانی مزاح‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے اُس نے مشاہدہ کیا کہ بالزاک نے قاری کو ’’ فرانسیسی سماج کی حیرت انگیز حقیقت پسندانہ تاریخ پیش کی ہے۔ جس کی معاشی تفصیلات سے (مثلاً منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تنظیم نو ) میں نے اُس دور کے تمام مؤرخوں، معیشت دانوں اور شماریات دانوں کی تحریروں سے زیادہ سیکھا۔ ‘‘

چارلس ڈکنز

چارلس ڈکنز

مارکس اور اینگلز نے 1859ء کے بہار میں لاسال (Lassalle)کو بھیجے گئے اپنے خطوط میں حقیقت نگاری کے بارے میں چند اہم نظریات پیش کیے جس میں انہوں نے اس کے تاریخی ڈرامے ’’Franz von Sickingen‘‘ پر شدید تنقید کی جو 1522-23ء کی سورماؤں (Knights )کی بغاوت سے متعلق تھیں جو جرمنی میں کسانوں کی جنگ کے وقت ہوئی تھی۔ یہ دونوں خطوط بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں مارکسی جمالیات کے بنیادی اُصولوں کا ذکر ہے۔

وہ فن کاروں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ حقائق کو سچائی سے پیش کریں، زیر مطالعہ واقعات کو ٹھوس تاریخی حوالوں سے دیکھیں اور شخصیات کے انفرادی اور متغیر خدوخال کو اس انداز میں پیش کریں کہ وہ اُس طبقاتی ماحول کی نفسیاتی کیفیت اور کردار کی عکاسی کریں جس میں وہ رہتے ہیں۔ اصلی حقیقت پسندانہ تحریروں کے مصنفین اپنے خیالات کو ناصحانہ بیزار کن انداز میں نہیں بلکہ واضح شوخ تصاویر کے ذریعے پیش کر تے ہیں جو قاری کے شعور اور احساسات کو فن کارانہ فصاحت سے جھنجھوڑ تے ہیں۔ مارکس اور اینگلز کے مطابق لاسال نے عظیم جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار شلر کے فنی طریقہ کار میں موجود بعض خامیوں کو مزید بڑھاوا دیا۔ بالخصوص تجریدی فن بیان کی طرف اس کے جھکاؤ کی وجہ سے ہیرو مخصوص خیالات کا مجرد اور یک طرفہ اظہار بن گیا۔ اس حوالے سے اُنہوں نے شلر کے طریقہ کار پر شیکسپئیر کی حقیقت نگاری کو ترجیح دی۔ دونوں نے لاسال سے کہا کہ وہ شلر کی نقل کر تے ہوئے اس بات کی اہمیت کو بھول گیا کہ حقیقت پسند لکھاری مواد کی گہرائی اور عظیم مقاصد کو یکجا کر کے شیکسپئرئین ہنر حاصل کر نے کی کوشش کر تا ہے تاکہ حقیقی احساسات اور انسانی کردار کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرے۔

سروینٹیز

اُنہوں نے لاسال کو بھیجے گئے اپنے خط میں ادب اور زندگی کے درمیان تعلق اور ’ادب اور موجودہ عہد ‘ کے بارے میں ذکر کیا۔ مارکس نے لاسال کے اس خیال کی ہرگز مذمت نہیں کی کہ وہ ڈرامے میں تذکرہ کردہ سولہویں صدی کے واقعات اور وسط انیسویں صدی کے حالات کے درمیان موازنہ پیش کرے اور حقیقی طور پر ’المناک حادثہ ‘ (Tragic Collision) کو وجود میں لائے جو ’’1848-49ء کی انقلابی پارٹی کی تباہی کو بیان کرے‘‘۔ اُس کے مطابق مصنف نے اس حادثے کی غلط اور خیال پرستانہ تشریح کی ہے جس میں اس کی وجوہات کو پرانی تجرید ’’انقلابات کا المیہ ‘‘ میں تلاش کا گیا ہے جو ٹھوس تاریخی یا طبقاتی مواد سے عاری تشریح ہے۔ مارکس نے لاسال پر اس کے ڈرامے کے سیاسی رجحان کی وجہ سے تنقید نہیں کی بلکہ اس لیے کہ وہ تاریخ کے مادی نظریے اور پرولتاری انقلابیوں کے عالمی نظریے کے نکتہ نظر سے بنیادی طور پر غلط تھے۔ مارکس اور اینگلز ان حربوں کے سخت نقاد تھے جو آرٹ کو سیاست سے الگ کر کے ’’آرٹ برائے آرٹ ‘‘ کے نظریے کو فروغ دیتے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حقیقت نگار لکھاریوں کو ترقی پسند عالمی نظریے کی عکاسی کرنی چاہیے۔ ترقی پسند نظریات سے سرشار ہو کر حقیقی مسائل سے نبرد آزما ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے اُنہوں نے ادب میں مقصدیت کی حمایت کی۔ اسے نظریاتی اور سیاسی صف بندی کا نام دیا۔ 26 نومبر 1885 ء کو اینگلز نے جرمن لکھاری مینا کاؤتسکی کو لکھا، ’’ میں کسی بھی طرح اس طرح کی میلانی شاعری کے خلاف نہیں ہوں۔ ایشیلس (المیے کا بانی ) اور ایرسٹوفینیز (مزاح کا بانی ) نہایت جانب دار شاعر تھے۔ دانتے اور سروینٹیز بھی اسی طرح تھے۔ اور شلر کے ’’سازش اور محبت ‘‘ کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ پہلا جرمن سیاسی ڈرامہ ہے۔ جدید روسی اور نارویجین لکھاری، جو عمدہ ناول لکھتے ہیں، ایک مقصد کے تحت لکھتے ہیں۔ ‘‘ مارکس اور اینگلز بیک وقت بے ہودہ میلانیت (مقصدیت) کے سخت ترین مخالف بھی تھے۔ ننگی اخلاقیت پسندی، فنی طریقہ کار کی بجائے ناصحانہ طرز، زندہ کرداروں کی بجائے مجرد کردار سازی۔ اُنہوں نے ’’ینگ جرمنی کی ادبی تحریک‘‘ کے شاعروں، اُن کے کرداروں کی فنی کمزوری اور اپنی ادبی خامی کو دور کرنے کے لیے سیاسی دلائل کے استعمال پر تنقید کی۔ اینگلز نے مینا کاؤتسکی کو بھیجے گئے اپنے خط میں حقیقی مقصدیت کی مناسب تعریف فراہم کی۔ ’’میرے خیال میں مقصد کو حالات اور عمل سے اپنے آپ کو آشکار کر نا چاہیے بجائے واضح طور پر ظاہر کرنے کے اور مصنف کو سماجی کشمکش کے مستقبل میں تاریخی طور پر طے ہونے کو قاری کو تھالی میں پیش نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘

مارکس اور اینگلز دونوں اس بات کے قائل تھے کہ ترقی پسند ادب کو اُس عہد کے اہم عوامل کو سچائی سے پیش کرنا چاہیے۔ ترقی پسند نظریات کو پھیلانا چاہیے اور سماج میں ترقی پسند قوتوں کے مفادات کا دفاع کرنا چاہیے۔ ادب میں پارٹی رجحان کی جدید اصطلاح اُن کے اسی خیال کو ظاہر کر تی ہے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ لاسال کے ڈرامے میں واحد کمی نظریے اور فن کی نامیاتی جڑت تھی۔ جو اصلی حقیقت پسند آرٹ کی اہم ضرورت تھی۔

مادی جمالیات کے اُصول اور آرٹ کی نشوونما کے سب سے عمومی اور بنیادی قوانین دریافت کرتے ہوئے، سائنسی کمیونزم کے بانیوں نے مارکسی ادب اور فنی تنقید کی بنیاد رکھی اور ادب اور آرٹ کی تاریخ کی مادی تشریح کے بنیادی اُصول وضع کیے۔ اپنی تحریروں اور خط و کتابت میں اُنہوں نے تاریخی اور ادبی عوامل کے اہم سوالوں پر روشنی ڈالی اور کلاسیکی اور ہم عصر لکھاریوں کی لکھتوں میں ایسے ایسے پہلو ڈھونڈ نکالے جو بورژوا ادبی تاریخ دانوں کی سوچ سے بہت آگے تھی۔ ان کی تحریروں میں، قا ری کو انسانی تاریخ کے اہم ترین زمانوں کے فنی کاموں کے بارے میں مارکس اور اینگلز کے خیالات ملیں گے۔ قدیم عہد اور قرون وسطیٰ کے فن، نشاۃ ثانیہ کی ثقافت اور ادب، روشن خیالی (Enlightenment) کے عہد کا ادب اور آخر میں انیسویں صد ی کے رومانوی اور حقیقت پسند لکھاریوں کا تجزیہ۔
قدیم آرٹ کے بارے میں مارکس اور اینگلز کے خیالات پہلے ہی اُوپر مختصراً بیان کیے جا چکے ہیں۔ اب دوسرے زمانوں کے آرٹ کے بارے میں اُن کے تجزیے کی طرف بڑھتے ہیں۔

اُن کی قرون وسطیٰ کے سماجی نظام اور ثقافت کے مخصوص خدوخال کی حقیقی سائنسی تشریح غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ مارکس اور اینگلز نے عہد وسطیٰ کی رومانوی تصور گری کو مسترد کیا اور اُسی لمحے روشن فکروں کی اس تجریدی سوچ کی خامیوں کو بھی دکھایا کہ وہ عہد محض سماجی اور ثقافتی زوال کا عہد تھا۔ اُنہوں نے دکھایا کہ غلام داری سے جاگیر دارانہ سماج کی طرف عبور تاریخی طور پر ناگزیر تھا اور انسانی سماج کے ارتقا میں غلام داری کی نسبت جاگیر دارانہ طرز پیداوار کا قیام آگے کی سمت ایک قدم تھا۔ اس سے وہ اس قابل ہوئے کہ قرون وسطیٰ کی ثقافت اور آرٹ کے بارے میں نئی سوچ پیش کریں اور اُن میں اُن خد و خالوں کو واضح کریں جو تاریخی ارتقا کے ترقی پسند عمل کی عکاسی کرتے تھے۔ اینگلز نے لکھا، ’’قرون وسطیٰ میں قوموں کے ملاپ سے بتدریج نئی قومیں وجود میں آئیں جو انسانوں کی مزید سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے لازمی امر تھا۔ قرون وسطیٰ کی مختلف رزمیہ نظموں جیسے Elder Edda اور آئر لینڈ اور آئس لینڈ کی رزمیہ داستانوں Chanson de Roland اورLay of Hilderbrand, Beowulf کا تجزیہ کر تے ہوئے مارکس اور اینگلز نے دکھا یا کہ یہ قبائلی نظام کے قدیم مرحلوں سے یورپی قوموں کے ظہور کے ابتدائی مرحلوں سے جڑی سماجی شعور کے نئے مرحلے کی طرف عبور کی عکاسی کر تے تھے۔ اینگلز نے مشاہدہ کیا کہ قرون وسطیٰ کی رزمیہ اور قومی سورمائی شاعری اپنی ایسی خاصیتوں کی وجہ سے قابل ذکر ہے جو (قدیم عہد کی کلاسیکی رزمیہ شاعری سے موازنہ کرتے وقت ) اُن کی نئی ثقافتی تاریخی اور جمالیاتی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں۔ یہی بات جاگیر دارانہ قرون وسطیٰ کی بعد کی غنائی شاعری کے بارے میں بھی درست ہے۔ قرون وسطیٰ کی رومانوی غنائی شاعری جس کی بہترین مثال پرونکل ٹروبیڈور کی تخلیقات ہیں۔ ’’ خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز ‘‘ میں اینگلز لکھتا ہے، ’’ قرون وسطیٰ سے پہلے انفرادی جنسی محبت نامی کسی چیز کا وجود نہیں تھا۔ ‘‘ اُس نے کہا کہ اسی وجہ سے عہد وسطیٰ میں انفرادی محبت کا ظہور اور اسکی شاعرانہ حمد و ثنا قدیم عہد کی نسبت آگے کی سمت ایک قدم تھا۔ اس کے علاوہ قرون وسطیٰ کی عشقیہ نظموں نے آنے والی نسلوں کو متاثر کیا اور جدید دور میں شاعری کی ترویج کی بنیاد ڈالی۔

دانتے

مارکس اور اینگلز نے نشاۃ ثانیہ کے بارے میں ایک نئی سوچ کو جنم دیا جو ابتدائی بورژوا ثقافتی تاریخ دانوں کی سوچوں سے بنیادی طور پر مختلف تھیں اور ہم عصر اور بعد کے بورژوا مورخوں سے بھی بہت مختلف تھیں۔ مغربی یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بنیادی تاریخی معنی کی اس تشریح کو اینگلز نے اس کی مکمل شکل میں 1875-76ء میں ’فطرت کی جدلیات‘ کے ترجمے کے تعارف میں پیش کیا۔ اینگلز نے اس بات پر زور دیا کہ بورژوا سائنس کے روایتی نظریے کے بر عکس، نشاۃ ثانیہ کو محض اُس وقت کی روحانی اور نظریاتی زندگی میں بھونچال کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیئے۔ وہ کہتا ہے کہ اس نئے عہد کی بنیاد کو سب سے بڑھ کر اُن معاشی اور سیاسی تبدیلیوں میں تلاش کرنا چاہیے جنہوں نے عہد وسطیٰ سے جدید عہد کی طرف عبور کو جنم دیا۔ اینگلز اُس مظہر کے جوہر تک پہنچ گیا جس نے ثقافت، ادب اور اس عہد کے آرٹ میں عظیم چھلانگ کو ممکن بنایا۔ اینگلز نے مشاہدہ کیا کہ نشاۃ ثانیہ کا فن پہلے سے تشکیل شدہ بورژوا سماج میں وجود میں نہیں آیا بلکہ ’’عمومی انقلاب کے دوران وجود میں آیا ‘‘۔ (فطرت کی جد لیات، صفحہ 21)اُس دور میں سماجی تعلقات مسلسل تغیر اور تبدیلی کی حالت میں تھے اور پختہ بورژوا سماج کی طرح اب تک ایسی قوت میں تبدیل نہیں ہوئے تھے جو ایک خاص حد تک ذاتی کاوشوں، قابلیت اور ہنر کی بڑھوتری کو محدود کرتے بلکہ اس کے برعکس اُن کی بڑھوتری کو مہمیز دیتے۔ اینگلز نے لکھا، ’’ اُس عہد کے انقلابی کردار اور انسانوں کی آنکھوں کے سامنے اب تک کے عظیم ترین ترقی پسند انقلاب نے نظریات، جذبات، کردار، آفاقیت اور علم کے میدان کے عظیم دیوہیکل انسان پیدا کیے۔ اس لیے جن لوگوں نے بورژوازی کی جدید حاکمیت کی بنیاد رکھی وہ ہرگز بورژوا محدودیت کے شکار نہیں تھے۔‘‘

اینگلز نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ، ’’اُس عہد کے ہیرو تقسیم محنت کے جھکڑ میں نہیں تھے۔ جس جھکڑ کے اثرات سے اُن کے جانشینوں کی تخلیقات یک طرفہ پن کا شکار ہیں‘‘۔ اس خیال کی وضاحت کے لیے اُس نے لیونارڈو ڈاونچی کی مثال دی جو ’’ نہ صرف ایک مصوّر بلکہ ایک عظیم ریاضی دان، مکینیک اور انجینئر بھی تھا۔ فزکس کی مختلف شاخوں کی اہم دریافتیں اس کے سر ہیں۔‘‘ اور البریخت ڈورر کے کاموں پر تبصرہ کر تے ہوئے اُس نے لکھا، ’’ایک مصوّر، کندہ کار، سنگتراش اور معمار ‘‘ اور قلعہ بندی کے نظام کا موجد۔ اینگلز نے نشاۃ ثانیہ کی دوسری شخصیات کے متنوع رجحانات اور علم کی وسعت پر بھی بات کی۔
مارکس اور اینگلز کا نشاۃثانیہ کے بارے میں یہ تجزیہ کہ وہ ’’عمومی انقلاب‘‘، ’’عظیم ترین ترقی پسند انقلاب‘‘ کا عہد تھا، اُس دور کے ہیروؤں کے بارے میں اُن کے لگاؤ کی وضاحت کر تا ہے۔ اُنہوں نے نشاۃ ثانیہ کے عظیم انسانوں کو صرف عظیم دانشور، آرٹسٹ یا شاعروں کی حیثیت سے نہیں بلکہ اُنہیں دنیائے سائنس اور کلچر کے عظیم انقلابی قرار دیا۔

اینگلز نے نشاۃ ثانیہ کے ہیروز کے اہم خد وخال کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’وہ سب ہم عصر تحریکوں اور عملی جد وجہد کے دوران ہی اپنی سرگرمیاں کر تے تھے۔ وہ جانبداری کر تے اور جنگ میں حصہ لیتے، کچھ لوگ لکھ کر، کچھ بول کر کچھ تلوار اور کچھ لوگ دونوں کے ذریعے حصہ لیتے تھے۔ ‘‘ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اینگلز مستقبل کے آرٹسٹوں سے بھی یہی توقع رکھتا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے لوگوں کی اپنے عہد کے مفادات کی ترجمانی کرنے، ’’جانبداری کرنے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اینگلز نے اُن خصوصیات پر زور دیا جنہوں نے اُنہیں پیشہ ورانہ طور پر تنگ نظر، بورژوازی کی کتابی سائنس، انیسویں صدی کے لکھاریوں اور آرٹسٹوں جو غیر جانب داری اور خالص آرٹ کی تبلیغ کر تے ہیں، سے بلند مقام دیا۔ یہ خصوصیات نشاۃ ثانیہ کے عظیم انسانوں کو سوشلسٹ ثقافت اور محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک سے قریب تر لائے۔

لیونارڈو ڈاونچی

وہ دانتے کو ایک عظیم مصنف تصور کرتے تھے۔ جنہوں نے قرون وسطیٰ سے نشاۃ ثانیہ کی طرف عبور کی عکاسی کی۔ وہ اُسے ایک شاعر اور ذہین مفکر اور ضمناً ایک اٹل جنگجو جس کے شاعرانہ کام میں انقلابی تحریک رچی بسی ہوئی تھی۔ جو اُس کے سیاسی عزائم اور مقاصد سے الگ نہیں تھے۔ ویلہم لبنیخت کے مطابق مارکس کو دانتے کی نظم The Divine Comedy زبانی آتی تھی اور اکثر اسے بلند آواز میں سناتا تھا۔ مارکس کے ’’سرمایہ ‘‘ کے تعارف کا اختتام عظیم فلورینٹائن کے ان فخریہ الفاظ سے ہو تا ہے، ’’اپنے راستے پر چلو چاہے لوگ جو کچھ کہیں ‘‘۔ دانتے سرمایہ کے مصنف کے محبوب شاعروں(گوئٹے، ایکلیس اور شیکسپئر ) میں سے ایک تھا۔ اینگلز نے دانتے کو ’’ کلاسیکی کاملیت کی بے نظیر شخصیت‘‘ اور ’’عظیم کردار‘‘ قرار دیا۔ مارکس اور اینگلز ہسپانوی مصنف سروینٹیز کے بھی بڑے شیدائی تھے۔ پال لیفارگ نے لکھا کہ مارکس ڈان کیخوٹے کے مصنف اور بالزاک کو تمام ناول نگاروں سے عظیم تر تصور کرتے تھے۔ آخر میں اُن کی شیکسپئیر کی ستائش (اُن کے محبوب لکھاریوں میں سے ایک) کا سب کو پتا ہے۔ دونوں ہی اُس کے ڈراموں کی اپنے وقت کے زندگی کے حالات کی دور رس عکاسی اور اُن کے لازوال کرداروں کو حقیقت پسند ڈراموں کی کلاسیکی مثال قرار دیتے تھے۔ لیفارگو نے لکھا کہ مارکس نے شیکسپئیر کا مفصل مطالعہ کیا تھا۔ اُس کا پورا خاندان اس عظیم انگلش ڈرامہ نگار کا شیدائی تھا۔ اینگلز نے شیکسپئیر کے بارے میں اپنے دوست کو اپنے تاثرات بیان کئے۔ 10 دسمبر 1873ء میں مارکس کو لکھا، ’’Merry wives‘‘ کے پہلے ایکٹ میں پورے جرمن ادب سے زیادہ زندگی اور حقیقت موجود ہے۔ ‘‘سترویں اٹھارویں صدیوں کی ادبی تحریکوں(کلاسیزم) کے بارے میں سائنسی کمیونزم کے بانیوں کا سب سے اہم تبصرہ، مارکس نے لاسال کو 22 جولائی 1861ء کے اپنے خط میں کیا، ثقافت کے ارتقا کی ماد ہ پرستانہ تشریح کی بنیاد پر مارکس نے اپنے خط میں ’تین کے اتحاد کا اصول‘ اور اس غیر تاریخی خیال کو مسترد کردیا کہ کلاسیزم کلاسیکی ڈراموں اور جمالیات کے قوانین کی نافہمی کی وجہ سے وجود میں آیا۔ اُس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اگرچہ کلاسیزم کے نظریہ دانوں نے کلاسیکی یونانی ڈراموں اور ارسطو کے شعریات کو غلط انداز میں سمجھا، یہ حادثہ یا تاریخ کی غلط فہمی نہیں بلکہ تاریخی ناگزیریت تھی۔ کلاسیسٹ ڈرامہ نگاروں نے ارسطو کو غلط طریقے سے سمجھا کیونکہ یہی اُن کے جمالیاتی تقاضوں اور آرٹ کے ذوق سے مطابقت رکھتی تھی جو اُس وقت کے ثقافتی اور مخصوص سماجی حالات کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔
سابق مورخینِ ثقافت کے بر عکس جو نظریات کے طبقاتی مواد کو سمجھنے سے عاری تھے، مارکس اور اینگلز نے اٹھارویں صد ی کے روشن خیالی کے نظریات کی سماجی، تاریخی طبقاتی نوعیت کو بے نقاب کیا۔ اُنہوں نے یہ دکھایا کہ روشن خیالی کی تحریک صرف سماجی سوچ کی تحریک نہیں بلکہ ترقی پسند بورژوازی کے مفادات کی نظریاتی علامت تھی جو عظیم فرانسیسی انقلاب کے وقت جاگیر دارانہ آمریت کے خلاف جد وجہد کر رہی تھی۔

مارکس اور اینگلز اٹھارویں صد ی کی انگلش اور فرانسیسی روشن خیالوں کی میراث بشمول جمالیات پر اُن کی تحریروں اور افسانوں کی بہت قدر کرتے تھے۔ روشن خیالوں کی سرگرمیوں کا جامع تجزیہ کرتے ہوئے اُنہوں نے اس کے سماجی زندگی اور فرانسیسی بورژوا انقلاب کی تیاری کے دوران طبقاتی جد وجہد کے ساتھ تعلق کی وضاحت کی اور اُن کی میراث میں عا میانہ رو بورژوا اور جمہوری عناصر کے درمیان خط کھینچا۔
مارکس اور اینگلز کی تحریروں اور خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ اُن کو روشن خیالی کے عہد کے انگریزی اور فرانسیسی فلسفیانہ اور معاشی ادب اور افسانوں کا گہر ا علم تھا۔ وہ محض ڈیفو، سوفٹ، وولٹےئر، دیدیرو، روسو، ایبا پریوسٹ، بیمور کائس کا ذکر نہیں کرتے تھے بلکہ اُن کے جامع پرُمغز اور شاندار، گہرے اور درست تجزیے بھی کرتے تھے اور اُن کی تحریروں کی مدد سے خرد افروزی کے دور کی ادبی زندگی کے اہم پہلوؤں کے بارے میں تعمیمات بھی اخذ کرتے تھے۔
اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ڈینس دیدیرو مارکس کے پسندیدہ مصنفین میں سے تھا۔ وہ دیدیرو کے ناولوں کو پڑھنے میں خوشی محسوس کر تا تھا بالخصوص Le Deveu de Rameau جسے وہ شاہکار کہتا تھا۔ اینگلز دیدیرو کے بارے میں اپنے دوست کی سوچ سے متفق تھا اور 1886ء میں لکھا، ’’اگر آج تک کسی نے اپنی پوری زندگی انصاف اور سچائی کے لیے وقف کی ہے توہ دیدیرو ہے۔‘‘

پیگنینی

مارکس اور اینگلز نے جرمنی کے روشن خیالی کے دور کی نمایاں شخصیات (لیسنگ، گوئٹے، شلر، ہرڈر، ویلنڈ) کے بارے میں بھی لکھا۔ جرمنی کے معاشی اور سماجی سیاسی حالات بیان کر تے ہوئے، جس کی جاگیر دارانہ تقسیم اور رجعتی چھوٹی ریاستوں کے استبدادی نظام جو تیس سالہ جنگ (1618-48ء) کی وجہ سے اور بھی مضبوط ہوگئے تھے، اُنہوں نے دکھایا کہ ان حالات نے ’’جرمن ادب کے عظیم دور‘‘ کی نمایاں شخصیات کی اکثریت کی سوچوں اور احساسات پر مخصوص اثرات مرتب کیے۔ اُس وقت کے سماجی نظام سے بغاوت اور برہمی کا اظہار جو کلاسیکی جرمن ادب کا خاصہ تھے، وہ پیٹی بورژوا زی (جرمنی کی غالب سماجی پرت) کے احساسات کی بھی عکاسی کر تی تھی جس کا خاصہ اُس وقت کی طاقتوں کے سامنے جھکنا اور چاپلوسی کرنا تھا۔ اینگلز نے گوئٹے اور ہیگل کے بارے میں لکھا، ’’ان میں سے ہر ایک اپنے شعبے میں اولمپین زیوس (Olympian Zeus) (یونان کا سب سے بڑا دیوتا، مترجم) تھا لیکن کوئی بھی اپنے آپ کو جرمن تنگ نظری سے آزاد نہ کر سکا۔ ‘‘ گوئٹے، شلر اور اُس دور کے دوسرے جرمن مصنفین اور مفکرین کی نہ صرف خوبیوں بلکہ خامیوں کی نشاندہی کر تے وقت مارکس اور اینگلز کے اس کام کا مقصد اُن کی گہری اور عالمی اہمیت کو کم تر دکھانا نہیں تھا۔ اس چیز کا ثبوت گوئٹے کی طرف مارکس کا رویہ تھا جو اُس کے محبوب شاعروں میں سے ایک تھا۔ مارکس کو جاننے والے ہم عصروں نے کہا ہے کہ وہ بلاناغہ عظیم جرمن شاعروں کی تحریریں پڑھتا تھا۔ اپنی لکھتوں اور گفتگو میں مارکس اور اینگلز اکثر فاؤسٹ اور گوئٹے کی دوسری تحریروں کا تذکرہ کر تے تھے۔ 1837ء میں جب نوجوان مارکس نے، جو ابھی برلن یونیورسٹی کا طالب علم تھا، گوئٹے کے دفاع میں پادری پسٹکشن کے خلاف ایک لطیفہ لکھا جو اُس وقت گوئٹے کے خلاف جرمن رجعتیوں کی 1830ء کی دہائی کی جدوجہد کا سرغنہ تھا۔ اینگلز نے اپنی ادبی تنقید کے مضامین میں سے ایک کو گوئٹے کی تخلیقات کے تجزیے کے لیے وقف کیا۔ اس کا نام ’’جرمن سوشلزم۔ ۔ ۔ شعر اور نثر میں‘‘ تھا۔ جس میں اُس نے جرمن تنگ نظر ’’حقیقی سوشلزم ‘‘ کی جمالیات پر تنقید کی ہے۔

اُن کا مغربی یورپ کی رومانویت کا تجزیہ ادب کی حقیقی سائنسی تاریخ مرتب کرنے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ رومانویت کو عظیم انقلاب فرانس کے بعد کے سماجی تضادات کے دور کی عکاسی سمجھتے ہوئے اُنہوں نے انقلابی رومانومیت، جو سرمایہ داری کو مسترد کر کے مستقبل کے لیے جد وجہد کر تی تھی، اور ماضی کے نکتہ نظر سے سرمایہ داری کی رومانوی تنقید کے درمیان فرق رکھتے تھے۔ وہ اُن رومانوی مصنفین کے درمیان بھی فرق روا رکھتے جو قبل از سرمایہ داری کے سماجی نظام کو بڑھا چڑھا کر پیش کر تے تھے۔ وہ اُن لکھاریوں کی قدر کرتے جو جمہوری اور تنقیدی مواد کو رجعتی یوٹوپیا اور معصومانہ پیٹی بورژوا سوچوں کا لباد ہ پہناتے اور اُن رجعتی رومانویوں پر تنقید کرتے جو ماضی سے اتنا لگاؤ رکھتے تھے کہ اشرافیہ کے مفادات کا دفاع کرتے۔ مارکس اور اینگلز بائرن اور شیلے جیسے انقلابی رومانویوں کے خاص طور پر دلدادہ تھے۔
مارکس اور اینگلز کے انیسویں صدی کے حقیقت پسند مصنفین کے کاموں کا تجزیہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ وہ حقیقت پسند روایتوں کو سابقہ ادبی سرگرمی کا عروج تصور کرتے تھے۔ اینگلز نے اُن کی اس بالیدگی اور تکامل کی وجہ گائیڈی ماؤپینٹ کے کاموں، انیسویں صدی کے دوسرے نصف کے روسی ناول کے تخلیق کاروں اور ناروے کے ہم عصر ڈرامہ نگاروں کو قرار دیا۔ مارکس اور اینگلز کو روس میں گہری دلچسپی تھی اور روسی انقلابی تحریک کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ روس کی معاشی اور سماجی زندگی کی تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے دونوں نے روسی زبان سیکھی۔ وہ نہ صرف روس کی سماجی معاشی اور صحافتی تحریروں سے آگاہ تھے بلکہ ملک کے افسانوں سے بھی آگاہ تھے۔ دونو ں نے پشکن، ترگینیف، سالتیکوف شیڈرن، چرنیشوسکی اور دوبرولائبوف کی تحریروں کو روسی زبان میں پڑھا جبکہ مارکس نے گوگول، نیکراسوف اور لر مونٹوف کو روسی زبان میں پڑھا۔ اینگلز نے لومونسوف، درژون، خیمنیٹسر، ژوکووسکی، بیٹشکوف اور کریلوف کی تحریروں کے انگریزی ترجمے بھی پڑھے تھے۔ مارکس اور اینگلز کے مطابق پشکن کی Eugene Onegin انیسویں صدی کے پہلے نصف میں روسیوں کی زندگی کی حیرت انگیز طور پر درست عکاسی کرتی تھی۔ دونوں بالخصوص چرنیشوسکی اور دوبرولیبوف کے شیدائی تھے۔ اینگلز ان انقلابی لکھاریوں کو ’’دو سوشلسٹ لیسنگ(Lessing)‘‘ تصور کرتے تھے اور مارکس نے چر نیشوسکی کو عظیم روسی دانشور اور نقاد قرار دیا۔ جبکہ دوبرولیبوف کالیسنگ اور دیدیروسے موازنہ کیا۔
مارکس اور اینگلز کا اہم خاصہ انکی ادب اور آرٹ کی جانب گہری بین الاقوامی سوچ تھی۔ وہ تمام قوموں یورپی یا غیر یورپی، چھوٹی یا بڑی، کے آرٹ کی جانب برابر توجہ دیتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب عالمی ادب اور آرٹ کے خزانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اُن کی دلچسپی مشرق کے فنی اور ثقافتی خزانوں، انگلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین اور روس میں ادب اور آرٹ کی نشوونما یا چھوٹے ملکوں جیسے آئرلینڈ، آئس لینڈ اور ناروے میں تھی۔ اُن کی تحریروں سے لگتا ہے کہ New World کے مقامی باسیوں کی قدیم ثقافت بھی اُن کی دلچسپیوں میں شامل تھیں۔

رافائل

وہ جمہوری اور انقلابی شاعروں اور لکھاریوں، جو پرولتا ریہ کے قریب تھے، کی طرف مخصوص رویہ رکھتے تھے۔ اپنی پوری زندگی وہ اپنے وقت کے بہترین ترقی پسند لکھاریوں کو سوشلسٹ تحریک کی طرف لانے، اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کو اپنے کام کے کمزور پہلوؤں کو ٹھیک کرنے میں مدد کر تے رہے۔ مارکس اور اینگلز ادب میں پرولتاری انقلابی رجحان کی تشکیل میں سرگرم رہے۔
عظیم جرمن انقلابی شاعر ہیزک ہائنے کے کاموں پر مارکس کا گہرا اثر تھا۔ وہ 1843ء میں پیرس میں ملے۔ ہائنے کی سیاسی شاعری اور تنقید کا عروج 1843-44ء تھا جب وہ مارکس کا قریبی دوست تھا۔ ہائنے پر مارکس کے اثرات اُس کی غیر معمولی نظموں جیسے A Winter Tale اور The Silesian Loom Workers and Germany سے واضح ہوتا ہے۔ مارکس اپنی پوری زندگی ہائنے کا معترف رہا جو مارکس کے خاندان میں سب سے مقبول شاعر تھا۔ اینگلز اپنے دوست کی ہائنے سے ہمدردی سے مکمل متفق تھا اور ہائنے کو تمام موجود جرمن شاعروں میں ممتاز خیال کر تا تھا۔ جرمن رجعتیت کے خلاف جد وجہد میں مارکس اور اینگلز اکثر ہائنے کے تُند طنزیہ نظموں کو نقل کرتے تھے۔ مارکس اور اینگلز کے نظریاتی اثرات نے ہائنے کی بطور آرٹسٹ اُبھرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور اُسے یہ یقین کرنے میں مدد دی کہ کمیونسٹ انقلاب ناگزیر طور پر کامیاب ہوگا۔
مارکس اور اینگلز جرمن شاعر جارج ورتھ اور فرڈنینڈ فرائیلی گریتھ کے قریبی دوست تھے جن کے ساتھ 1848-49ء کے انقلاب کے دوران اُنہوں نے Neue Rheinische Zeitung پر کام کیا۔ اینگلز ورتھ کو جرمن پرولتاریہ کا پہلا اور اہم ترین شاعر کہتا تھا۔ اُس کی موت کے بعد انہوں نے احتیاط سے ان کے ادبی کاموں کو اکٹھا کیا۔ 1880ء کی دہائی میں اینگلز نے ان کو سرگرمی سے جرمن سوشل ڈیموکریٹک پریس میں شائع کیا۔
یہ مارکس اور اینگلز کے اثرات ہی تھے جن کی وجہ سے 1848-49ء میں فرائلی گریتھ جرمن انقلابی شاعری کے کلاسیک بن گئے اُس کی اس وقت کی نظمیں مارکس اور اینگلز کے نظریات سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور وہی اس کے بہترین کام تھے۔ جو توجہ مارکس اور اینگلز نے فرائلی گریتھ کو دی، انقلابی شاعروں کی طرف ان کے رویے کی ایک اچھی مثال ہے اور یہ کہ کس طرح انہوں نے ان کے عظیم مقصد میں مدد کی۔ جب 1852ء میں مارکس نے فرائلی گریتھ کو اخبار ’’انقلاب‘‘ کے لیے کام کرنے کے لیے اپنے کامریڈ جوزف ویڈمیر کے پاس بھیجنے کی سفارش کی تو اُس نے خصوصی طور پر ویڈمیر سے درخواست کی کہ شاعر کو ایک دوستانہ خط لکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ جب 1850ء کی دہائی میں فرائلی گریتھ مارکس اور اینگلز سے دور ہوئے تو بطور شاعر اُس کی حیثیت زوال کی طرف جانے لگی۔
مارکس اور اینگلز کے بہت سے فرانسیسی اور انگلش انقلابی لکھاریوں سے قریبی روابط تھے بالخصوص چارٹسٹ رہنما ارنسٹ جونز کے ساتھ۔ 1840ء کی دہائی میں لکھی گئی اُس کی بہترین نظمیں مارکس اور اینگلز کے اُس پر اثرات کو دکھاتی ہیں۔
مارکس کی موت کے بعد اینگلز 1880ء اور 1890ء کی دہائیوں میں اُن انگریز لکھاریوں کی انقلابی تحریروں سے مکمل آگاہ رہے جو نظریاتی طورپر انگلش سوشلسٹ تحریک کے قریب تھے۔ اس کا ثبوت مارگریٹ ہارکنیس (جس نے اُسے اپنا افسانہ A poor girlبھیجا تھا ) کو لکھا گیا اُس کا خط ہے جس میں انگریز سوشلسٹ ایڈورڈ اویلنگ کے ڈراموں پر اُس کے لاتعداد تبصرے اور دوسرے لکھاریوں کی نظریاتی نشوونما پر اُس کے تبصرے ہیں۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں جرمن سوشل ڈیموکریٹک رہنماؤں کو لکھے گئے اپنے خطوط میں پرولتاری آرٹ کے موضوع پر اہم تبصرے اس کے علاوہ ہیں۔
اس طرح مارکس اور اینگلز نے نئے طرز کے لکھاری اور آرٹسٹ کی ترویج کی کوشش کی جو کلاسیکی ادب کی بہترین روایتوں کو اکٹھا کر کے، انقلابی جد وجہد کے فرائض اور تجربات کی سمجھ بوجھ سے آغاز کر تے ہوئے پرولتاریہ کی آزادی کی جدوجہد میں سرگرم اور تخلیقی کردار ادا کرے۔
مارکسز م کے بانیوں کا مشاہدہ تھا کہ سرمایہ داری کے تحت آرٹ کی نشوونما میں موجود تضادات دراصل بورژوا سماج کی طبقاتی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل پرولتاری انقلاب کے بعد سماج کی دوبارہ تنظیم نو سے ہی ممکن ہے۔
مارکس اور اینگلز نے نئے کمیونسٹ سماج کے بنیادی خدوخال کے بارے میں شاندار دوراندیشی کا مظاہرہ کیا۔ کمیونزم، سب سے بڑھ کر ہر کسی کے لیے آزادی اور فرد کی مربوط نشوونما ہے۔ مارکس نے لکھا، ’’آزادی کی اقلیم تب شروع ہوتی ہے جب مادی ضروریات کے لیے جد وجہد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ‘‘
سوشلزم کے تحت، محنت استحصال سے آزاد ہو کر روحانی اور جمالیاتی تخلیق کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مارکس اور اینگلز نے کہا تھا کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتیں تب پروان چڑھتی ہیں جب حقیقی معاشی، سیاسی اور روحانی آزادی نصیب ہو اور صرف پرولتاری انقلاب ہی ادب کی لاامتناہی ترقی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پرولتاریہ کا عظیم تاریخی مشن دنیا کی کمیونسٹ تعمیر نو ہے۔ یہ پرولتاریہ ہی تھا جس میں مارکس اور اینگلز نے وہ قوت دیکھی تھی جو دنیا کو تبدیل کر دے گی۔ اور نہ صرف معیشت اور سیاست میں پیشرفت کو ممکن بنائے گی بلکہ ثقافت میں بھی۔ ایسی قوت جو انسانیت کی عظیم اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کے حصول کے لیے حالات تیار کرے گی۔

Comments are closed.