مارکسی تعلیم (قسط نمبر 2)

سوال: وہ کون سے حالات ہوتے ہیں کہ محنت کش طبقہ اپنی قوت محنت سرمایہ دار طبقے کے پاس بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے؟

جواب: سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی حیثیت محض ایک جنس کی مانند ہوتی ہے، اس کی قدر کا تعین ان قوانین کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے جو دوسری اجناس کیلئے روبہ عمل ہوتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر صنعتی دور یا آزادانہ مقابلے کے عہد میں انسانی محنت اور جنس ایک ہی شے کی مانند ہوتے ہیں۔ کسی بھی جنس کی طرح قوت محنت کی قدر کا تعین بھی اس کی پیداوار پر آنے والی لاگت اور گزر بسر کیلئے درکار ضروری لوازمات کی مقدار پر مشتمل ہوتا ہے تا کہ محنت کش کام کاج کے قابل رہیں، مزدوروں کی اگلی نسل کی پرورش کر سکیں اور بطور محنت کش طبقے کے ختم نہ ہو جائیں اور بدلے میں ان کو صرف اتنا ہی معاوضہ دیا جاتا ہے جتنے میں وہ صرف زندہ رہ سکیں اور اپنی نسل بڑھا سکیں۔ اس نظام میں محنت کش طبقے کو زندہ رکھنا اس لئے ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ صنعت کو متحرک رکھ سکیں اور سرمایہ دار منافع بٹور سکیں۔ محنت کش کو تنخواہ یا کام کے بدلے میں اجرت اس قدر کم دی جاتی ہے کہ بس اس کی زندگی کی سانسوں کی بقا ممکن رہ سکے اور وہ اپنی قوت محنت استعمال کر سکے۔ تاہم کاروبار کبھی اچھا ہوتا ہے کبھی خراب۔ محنت کش کو کبھی کم معاوضہ ملتا ہے کبھی تھوڑا زیادہ۔ لیکن جس طرح فیکٹری کا مالک اچھے اور خراب کاروبار کی اوسط کی بنیاد پر اپنی اجناس کی پیداواری لاگت (حقیقی قدر) سے نہ تو کم وصول کرتا ہے اور نہ ہی زیادہ، اسی طرح محنت کش بھی زندہ رہنے کے لئے درکار اس کم از کم اجرت سے نہ تو زیادہ وصول کرے گا اور نہ ہی کم۔ بڑے پیمانے کی صنعت جس قدر زیادہ پیداواری شعبوں پر غالب آتی جائے گی اجرتوں کا یہ معاشی قانون اتنی ہی شدت سے نافذ ہوگا۔ سرمایہ دار کے پاس تو ذرائع پیداوار اور آلات پیداوار ہوتے ہیں۔ جبکہ محنت کش طبقے کے پاس سوائے اپنی قوت محنت بیچنے کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور اسے چارو ناچار زندہ رہنے کیلئے اور اپنے خاندان کی کفالت کیلئے سرمایہ دار کے پاس اپنی قوت محنت بیچنا پڑتی ہے۔

سوال: محنت کش طبقہ غلاموں سے کن بنیادوں پر مختلف ہے؟

جواب: غلام ایک ہی مرتبہ اور عموماً ہمیشہ کیلئے فروخت کر دیا جاتا تھا۔ مزدور بھی اپنے آپ کو بیچتا ہے مگر دنوں یا گھنٹوں کے حساب سے۔ غلام اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے۔ جو ساری زندگی اس کے پاس رہتا ہے اس کی حالت زندگی کتنی بھی خراب کیوں نہ ہو اس کی بقاء یقینی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے آقا کا مفاد اسی میں ہوتا ہے۔ مزدور کو اپنی زندگی اور بقاء کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ روزگار سمیت غذا، تعلیم اور صحت کا تحفظ نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار جب چاہے اسے روزگار سے نکال سکتا ہے۔ اور اس کے گھر فاقوں کی نوبت آ سکتی ہے۔ بقاء کی ضمانت صرف مجموعی طور پر پورے محنت کش طبقے کو حاصل ہوتی ہے۔ غلام ہمیشہ مقابلے بازی سے باہر رہتا ہے۔ جبکہ مزدور مقابلے بازی کے چنگل میں بری طرح پھنسا ہوتا ہے اور اس سے منسوب تمام ذلتوں کا شکار بھی ہوتا ہے۔ غلام کی شکل سماج میں ایک شے کی مانند ہوتی ہے نہ کہ انسان کی۔ جبکہ مزدور ایک تسلیم شدہ سماجی فرد ہوتا ہے اور ایک معاشرے کا رُکن بھی۔غلام کو مزدور کی نسبت بقاء کی بہتر ضمانت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی ذمہ داری اس کے آقا پر ہوتی ہے۔ جبکہ مزدور سماجی ارتقاء میں اعلیٰ مرحلے سے تعلق رکھنے کے باوجود روزگار سمیت دوسری بنیادی ضرورتوں کے عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے۔ غلام اسی وقت اپنے آپ کو آزاد کرا سکتا ہے جب نجی ملکیت کے رشتوں میں سے محض غلامی کے رشتے کو مٹایا دیا جائے۔ تب وہ محنت کش کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جبکہ محنت کش طبقہ اپنے آپ کو صرف اسی وقت اور صرف اسی صورت میں آزاد کرا سکتا ہے جب وہ کلی طور پر ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر دے۔

سوال: محنت کش طبقہ کن بنیادوں پر مزارعوں سے مختلف ہوتا ہے؟

جواب: جاگیردارانہ نظام میں جاگیروں پر پیداواری محنت کرنے والے دہقانوں کو مزارع کہتے ہیں۔ مزارع کے پاس جاگیردار کی طرف سے الاٹ کردہ زمین کا قطعہ ہوتا ہے جس کو وہ پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ تاہم وہ اس کے بدلے میں اپنی محنت یا پیداوار کا بڑا حصہ اپنے مالک یعنی جاگیردار کو دینے کا پابند ہوتا ہے۔ عمومی طور پر مزارع اپنے آلات پیداوار (ہل وغیرہ) کا مالک خود ہوتا ہے جبکہ مزدور جن جدید آلات پیداوار کے ساتھ کام کرتا ہے وہ ان کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی پیداوار کے بدلے میں اُجرت وصول کرتا ہے۔ مزارع کی بقاء یقینی ہوتی ہے لیکن مزدور کی نہیں۔مزدور کے پاس متبادل کچھ نہیں ہوتا۔ مزارع آزادانہ مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوتا ہے۔ جبکہ مزدور مقابلے کے دنگل کا استحصال زدہ حصہ ہوتا ہے۔ ایک مزارع اسی وقت اپنے آپ کو آزاد کراتا ہے جب وہ بھاگ کر قصبے یا شہر میں جا کر صنعتی نظام کا حصہ بنے۔ اور وہاں ایک ہنر مند، دستکار یا مزدور کی شکل اختیار کرے۔ یا پھر وہ اپنے مالک یعنی جاگیردار کو یکمشت پیداوار یا نقد رقم دے کر بھی اپنی آزادی خرید سکتا ہے۔ اس کے آزاد ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ جاگیردار کو مار بھگائے اور بذات خود قطعات زمین کا مالک بن بیٹھے یعنی کہ وہ ایک دوسری صورت میں مالکوں کے طبقے اور دوڑ میں شامل ہو۔ اس کے برعکس محنت کش طبقہ اپنے آپ کو صرف اسی صورت میں آزاد کرا سکتا ہے جب وہ مقابلے کی دوڑ کا خاتمہ کرے، نجی ملکیت اور طبقاتی تقسیم کی ہر شکل کو مٹا دے۔

قسط نمبر 1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

Comments are closed.