بیگانگی اور سماج

(تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: صبغت وائیں)

ان ڈیفنس آف مارکسزم“ میگزین کے 41 ویں شمارے میں ایلن ووڈز کا اداریہ

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس شمارے کی تازہ اشاعت کے لیے آرٹیکلز پر نظر دوڑاتے ہوئے جس چیز نے مجھ کو اپنی جانب متوجہ کیا وہ بیگانگی تھی، جو کہ ان سب میں یکساں طور پر موجود تھی۔ کیوں کہ سابقہ اشاعتوں میں ہم نے اس موضوع پر بالکل بھی بات نہیں رکھی اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کو زیر نظر اداریے کا موضوع بناتے ہیں۔

آنجہانی مارگریٹ تھیچر نے ایک بار کہا تھا: ”سماج جیسی کسی شے کا وجود نہیں ہے“۔ لیکن ارسطو نے جس وقت یہ کہا تھا کہ انسان ایک سیاسی حیوان ہے، اس سے اس کی مراد یہی تھی کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔

وجودی فلسفی، ژاں پال سارتر نے کہا تھا: ”جہنم دوسرے لوگوں کا نام ہے“(L’enfer, c’est les autres)۔ اگر آپ کے بدتہذیب پڑوس والے رات کے ایک دو بجے گھر کے سامنے ڈھول ڈھمکا کر رہے ہیں تو آپ اس بات سے سہمت ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر دوسرے لوگ دوزخ ہیں، تو پھر ہمیں اس میں ایک اور چیز کا بھی اضافہ کرنا پڑے گا کہ جنت بھی دوسرے لوگ ہی ہیں، کیوں کہ ہم جو ہیں وہ محض دوسرے لوگوں ہی میں رہتے ہوئے ہیں اور انہی کی بدولت ہیں، زمانے سے الگ تنہا افراد کے طور پر ہمارا وجود ممکن نہیں ہو سکتا۔

سارتر کے برعکس ہیگل جو کہ ایک سنجیدہ فلسفی تھا اس نے اس چیز کی نشان دہی کی کہ لوگوں کے کردار کی وسعت کا دارومدار اس کے تعلقات کی وسعت پر ہے۔

ہماری ذاتی زندگی، ہمارے خیالات، ہمارے جذبات، ہماری پسند اور ناپسند۔۔۔ایک لفظ میں کہیں تو ہماری زندگی کی نفسیاتی بنیادیں۔۔۔ان سب کا تعین ہمارے سماجی معاملات سے، یا مختصراً یوں کہہ لیں کہ دیگر لوگوں کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ کئی سال تنہا کسی جزیرے پر گزارنے والا یا لمبی قیدِ تنہائی کاٹنے والا شخص سوچنے سمجھنے اور بات چیت کرنے کی صلاحیت قریب قریب کھو دیتا ہے۔

اس بدیہی [self evident جس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہ ہو] سچائی کی جڑیں ساری انسانی تاریخ میں اپنے انتہائی ابتدائی دور تک پھیلی ہیں۔ تمام انسانی ارتقاء (بشمول سوچنے و بات کرنے کی صلاحیت کے) سماجی سرگرمی ہے اور اس کی جڑیں اجتماعی محنت میں پیوست ہیں۔

سرمایہ داری لوگوں کو الگ تھلگ کرنے کا، ان کو تنہا اور اکیلا کرنے کا کام کرتی ہے، ان کو باقاعدہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ خود کو محض ”فرد“ کی طرح دیکھیں۔ لیکن خود اس تصور کی جڑیں اگرچہ بہت گہرائی تک گڑی ہوئی ہیں لیکن اس کی اپنی کوئی بنیادیں نہیں ہیں، نہ تو سائنس میں اور نہ ہی تاریخ میں۔

انسانی فطرت

مارکسسٹوں کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش میں ’سٹیٹس کو‘ [جمود۔ جیسا سماج ہے، ویسا ہی رہے] کے پہرے دار اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ مساوات پر مبنی معاشرے کا تصور انسانی فطرت کے تضاد میں ہے۔ جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے اصل میں خودغرضانہ ہے۔

یہ دلیل نہ صرف یہ کہ نری بچگانہ ہے؛ جب کہ سائنس میں بھی اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اسی شمارے میں موجود کامریڈ فریڈ ویسٹن کا آرٹیکل ہمیں کافی سارا ایسا مواد مہیا کرتا ہے جس سے اس نظریے کے بالکل الٹ بات ثابت ہوتی ہے۔ اب ہم یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انسانی شعور ارتقائی لحاظ سے کیسے تشکیل پایا تھا۔

goya

دی سلیپ آف ریزن پروڈیوسز مونسٹرز (1799)، فرانسس ڈی گویا

جدید ترین تحقیقات کے مطابق ہماری نوع، ہومو سپینز کی عمر کم از کم بھی تین لاکھ سال ہے۔ اس دور کی بڑی اکثریت شکاری اور پھل سبزیاں اکٹھی کرنے والے گروہوں کی صورت میں رہتی تھی جہاں ایسی کسی ملکیت کا وجود نہیں تھا جس کو ذاتی ملکیت سے آگے جا کر نجی ملکیت کہا جا سکتا ہو، اور ان کے معاملاتِ زندگی کی اس حالت کو قطعی طور پر بطور فطرتی ہونے کے دیکھا جا سکتا ہے۔

کچھ ماہرین بشریات جنہوں نے دنیا میں بچ چکے چند شکاری گروہوں کا مطالعہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے انہوں نے ان کو انتہا کا مساوات پسند پایا ہے۔ ہمارے اجداد ہی کی طرح ان میں سے زیادہ تر خوراک کا ذخیرہ نہیں کرتے، بلکہ ملتے ہی اس کو استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ ملکیت نہیں رکھتے، وسائل کو بانٹ کر استعمال کرتے ہیں اور ان میں حکومت یا اختیارات کے کسی ڈھانچے کا وجود نہیں ملتا۔

ایسا ماحول فطرتی طور پر ایک ایسی نفسیات کو جنم دیتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کرنے یا ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی ضرورت یا خواہش محسوس نہیں کرتے—کم از کم اپنی برادری کے اندر تو ہرگز نہیں۔ درحقیقت ایسے غیر فطرتی رجحان کا اظہار قریب قریب ناممکنات میں سے ہے۔ 

معروف ماہر بشریات رچرڈ لیکیؔ نے کَنگ قبائل کا گہرا ترین مطالعہ کیا جو کہ اس وقت کالاہاری کے ریگزار کے مغربی کنارے پر چھوٹے چھوٹے ”جمع کرنے والے-شکاری“ گروہوں کی صورت میں رہتے تھے۔ اپنے حاصل کردہ نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے رچرڈ لیکیؔ نے لکھا ہے:

”ان میں حیرت انگیز حد تک مساوات پسندی کی مساوات نظر آتی ہے۔ کَنگ لوگوں کا نہ کوئی سربراہ ہوتا ہے اور نہ کوئی لیڈر۔“

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کا کوئی سربراہ نہیں ہے تو انہوں نے حیرانی کا اظہار کیا اور جواب دیا:”بے شک ہمارے پاس سردار ہیں“۔ ان میں سے ایک بولا، ”حقیقت میں ہم میں سے ہر کوئی اپنے آپ پر سردار ہے!“ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس سوال کو اچھے خاصے مخول کے طور پر لیا تھا۔

مساوات کو ترجیح دینے کی وجہ سے کسی کامیاب شکاری کے کیمپ میں واپس لوٹنے پر وہاں کچھ مخصوص رسومات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان رسومات کا مقصد واقعے کی شدت کو کم کرنا ہوتا ہے تاکہ تکبر اور خودنمائی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ لیکیؔ وضاحت کرتا ہے کہ: ”کامیاب شکاری کا وطیرہ عاجزی اور کم بیانی ہے“۔

ایک کَنگ قبائلی گاؤگو ؔ نے اس کو اس طرح بیان کیا: ”شکار سے واپس آنے والے کوگھر واپسی پر شیخیاں نہیں مارنی چاہیئں کہ اس نے جھاڑیوں میں کوئی بڑی شے ماری ہے۔ بلکہ اس کو واپس آ کر خاموشی سے بیٹھ جانا چاہیے۔ یہاں تک کہ میں یا کوئی اور اس کے قریب آگ کے پاس آ کر اس سے پوچھ نہ لے کہ ’آج اس نے کیا دیکھا؟‘ وہ دھیرے سے جواب دے گا، ’آہ، شاید میں شکار کے لیے کچھ خاص مہارت کا مالک نہیں ہوں۔ میں نے یوں سمجھو کہ کچھ بھی نہیں دیکھا۔۔۔شاید وہ ایک چھوٹا سا کچھ تھا۔‘ تب میں اپنے اندر سے مسکرا اٹھتا ہوں کیوں کہ اب مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ اس نے کوئی بڑا شکار مارا ہے۔ جتنا بڑا شکارمارا ہو گا اتنا ہی اس کی شدت کو کم تر کر کے دکھایا جاتا ہے۔“

ہم کوئی ماضی پرست نہیں ہیں اور نہ ہی ہم اپنے ابتدائی آبا و اجداد کی زندگیوں کے بارے میں کوئی جذباتی یا مثالی نظریہ رکھتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہمارے اپنے ”مہذب“ زمانے کی کریہہ خود نمائی اور بڑبولے پن کی بکواس سے موازنا کرنے پر ہمیں اس نوجوان شکاری کا اپنے بزرگوں کے حضور میں پیش آنے کا انکساری والا طرز عمل کس قدر شریفانہ اور دل کو موہ لینے والا لگتا ہے۔

بیگانگی اور مذہب

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی سماج کا ایک اور زیادہ منفی پہلو موجود تھا۔ ہمارے ابتدائی ترین آبا و اجداد کی زندگیاں ایک ہول ناک دنیا کے زیر اثر تھی جس میں فطرت کی ان قوتوں نے جن کی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی تھی، انہوں نے غیر مرئی روحوں کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ان کو شانت کرنے اور ان کے شر سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ [مذہبی] رسومات اور قربانیاں ادا کی جائیں۔

یوں مردوں اور عورتوں نے پہلی بار خود کو نادیدہ قوتوں کے سپرد کر دیا جو کہ ان کے اختیار سے باہر تھیں، اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ان قوتوں کو انسانی یا نیم انسانی صورتیں فراہم کر دیں۔ مغائرت کی پہلی شکل مذہب ہے۔

مذہب کی دنیا ایک پُر اسرار دنیا ہے، حقیقت کا ایک مسخ شدہ تاثر۔ لیکن تمام تصورات کی مانند ان نظریات کا ماخذ حقیقی دنیا ہی میں ہے۔ مزید یہ کہ یہ چیزیں خود سماج کے تضادات کا اظہار ہیں۔ قدیم ترین مذاہب میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے۔

روحوں کی اس حیرت ناک دنیا میں تمام رشتے سر کے بل کھڑے ہیں۔ ایک آدمی خود اپنے ہی ہاتھوں سے ایک بُت کو تراشتا ہے اور پھر خود کو اس کے سامنے سربسجدہ ہو جاتا ہے۔ فاعل مفعول بن جاتا ہے اور مفعول فاعل۔

نجی ملکیت

شکاری اور اکٹھا کرنے والوں کے ذہن کے لیے زمین کی نجی ملکیت قطعی طور پر ناقابلِ فہم بات تھی۔ زمین کو فطرت کے ایک مقدس تحفے کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو سب کے لیے مشترک تھا۔ لیکن نجی ملکیت کے سامنے آنے سے سماج امیر اور غریب کے درمیان تقسیم ہو گیا، وہ جن کے پاس ہے، اور وہ جن کے پاس نہیں ہے۔

انتھونی برنیٹ نے اپنی کتاب ”انواعِ انسانی“ میں علاقے دار جانوروں کے رویے کو ملکیت دار انسانوں کے رویے سے متصادم بتایا ہے۔ جانوروں میں:

”علاقوں کا نظم و نسق باضابطہ اشاروں کے ذریعے سے قائم رکھا جاتا ہے جو کہ ایک پوری نوع کے لیے مشترک ہے۔ ہر نوع کے ہر بالغ یا ہر گروہ کا ایک علاقہ ہوتا ہے۔ انسان کے ہاں ایسی کوئی یکسانیت نہیں ہے: یہاں تک کہ ایک واحد برادری کے اندر وسیع و عریض علاقے ایک شخص کی ملکیت ہو سکتے ہیں جب کہ باقی تمام کے پاس ہو سکتا ہے کچھ بھی نہ ہو۔

اور وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے: انسان کے پاس حقیقت میں ”علاقوں کی ملکیت“ رکھنے جیسی کوئی جبلت نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ وہ ’چوری کرنے کی جبلت‘ کا حامل ہے۔“

عظیم تبدیلی اس چیز کے ساتھ آئی جس کو گورڈن چائلڈ نیو لتھک انقلاب کا نام دیتا ہے: یہ شکار کرنے اور جمع کرنے پر زندگی کا انحصار کرنے کی بجائے آباد کاری اور زراعت کی طبع میں منتقلی تھی جس نے آخر کار زمین، جانوروں اور دیگر وسائل کی نجی ملکیت کو پیدا کیا۔

یہ کوئی ایسی خود غرضی نہیں تھی جو کہ کسی موروثی رجحان کے طور پر لازمی ہو بلکہ یہ اس سے کوسوں دور لوگوں کی زندگیوں اور شعور میں ایک متشددانہ اتھل پتھل تھی۔ پرانے کمیونسٹ رشتوں اور اخلاقیات کے ملبے سے پہلی مرتبہ خود غرضی اور مقابلے کی روح نے اپنا سر اٹھایا تھا۔ یہاں ہمیں مغائرت کی مستند جڑیں ملتی ہیں۔

بیگانگی (بُعد، اجنبیت، مغائرت) کیا ہے؟

سائنسی سوشلزم کے بانیوں نے وضاحت کی تھی کہ بیگانگی سماج میں حقیقی تضادات کا اظہار ہے جو کہ اپنے تاریخی ارتقا میں ایک مخصوص مرحلے پر ابھرے۔ جب انسانی محنت—جو کہ خود تجریدی محنت تک محدود ہے اور روپے پیسے کی شکل میں آ کر بُعد کا شکار ہے—ایک چھوٹی سی اقلیت کی اجارہ داری کا روپ دھار لیتی ہے، یہ خود کو ایک اجنبی شے کے طور پر پیش کرتی ہے، ایک ایسی طاقت کے جو سماج سے بالادست ہے۔

اپنے 1844ء کے معیشتی اور سیاسی مسودات میں مارکس نے مذہبی مغائرت اور محنت کش کی خود اپنی محنت سے بیگانگی کے مابین موازنا کیا ہے:

”خدا میں جتنا زیادہ انسان ڈالا جاتا ہے اتنا ہی وہ خود میں کم پڑتا جاتا ہے۔ محنت کش شے کے اندر اپنا جیون ڈال دیتا ہے؛ لیکن اب اس کی زندگی خود اس کی ملکیت سے نکل کر اس شے کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ لہٰذا اب یہ سرگرمی جس قدر زیادہ کی جاتی ہے، محنت کش اسی قدر اشیا سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی محنت کی پیداوار کچھ بھی ہو، بہرحال وہ خود نہیں ہے۔ اس طرح سے یہ پیداوار جس قدر زیادہ ہو تی ہے وہ خود اسی مناسبت سے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔

نجی ملکیت سماجی بیگانگی کا اصلی ماخذ ہے۔ لیکن بیگانگی نے اپنا بھرپور ترین اور قطعی اظہار صرف سرمایہ داری کے تحت کیا ہے۔ اور سرمایہ داری پچھلے تمام طرز ہائے استحصال سے معیاری طور پر مختلف ہے۔

پرانے تمام طبقاتی سماجوں میں محنت کا استحصال موجود تھا، لیکن وہ کھلا، واضح اور سامنے تھا۔ غلامانہ سماج میں غلام کو محض ایک شے کے درجے تک محدود کر دیا گیا تھا (ایک بولنے والا آلہ)۔

جاگیرداری کے تحت مزارع کو اپنی محنت کی پیداوار کا ایک خاص فیصد مالک کے حوالے کرنا پڑتا تھا۔ استحصال ہر ایک پر واضح تھا۔ لیکن سرمایہ داری میں استحصال کو بہروپ میں چھپا کر کیا جاتا ہے۔ محنت کش ظاہری شکل میں آزاد ہے اور وہ اپنی محنت کرنے کی صلاحیت کو اجرت کے بدل میں ’رضا کارانہ‘ فروخت کرتا ہے۔ وہ عورت ہو یا مرد اپنی ظاہری شکل میں غلام یا پھر اپنے آجر کی ملکیت میں نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں تمام محنت کش سرمایہ دار طبقے کے بطور کُل غلام ہیں۔

اس طرح سارے نظام کے مرکز میں ریاکاری کوٹ کوٹ کے بھری پڑی ہے، جہاں سماجی رشتے الٹے ہو کر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ روپیا پیسا جو کہ ایک بے جان اور ناکارہ چیز ہے، ایک جاندار وجود کے تمام خاصے چھین لیتا ہے۔ ایک مالیاتی بحران کے دوران ہم کو ہر روز پاؤنڈ سٹرلنگ کی حالتِ صحت کے بارے روزانہ کی بنیاد پر اطلاعات دی جاتی ہیں (”آج پاؤنڈ کی حالت میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔۔۔وغیرہ“)، جیسے کوئی اپنی کسی عزیز از جان ہستی کے بارے بات کر رہا ہے جو ہسپتال کے بستر پر بیماری کی حالت میں پڑا ہے۔

دوسری جانب، ایک انسان کو ”ایک ارب ڈالر کے آدمی“ کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ اس کو ایک بے جان شے کے درجے پر گرا دیا جاتا ہے۔ اس جگہ پر مغائرت اپنی مکروہ ترین اور غیر انسانی ترین شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور محنت—فرد کی زندگی کی سرگرمی—ایک حادثہ بن کر رہ جاتی ہے، جو کہ اس کے لیے کوئی خارجی شے ہے: ایک ذریعہ جس سے کہ کوئی دیگر مقصد کا حصول کیا جاتا ہے، نہ کہ اس کے اندر کوئی مقصد۔

سرمائے کا بھگوان

سرمایہ دارانہ سماج کا بھگوان میمون ]ایک قدیم یونانی سُورما[ ہے۔ اس کی پوجا اشیا کی پرستش ہے اور سمبندھ انسانوں کی بجائے اشیا کے بیچ ہیں۔ اس سب سے طاقت ور، ہر شے پر نظر رکھنے والے وجود کے اپنے مندِرہیں، جن کو سٹاک ایکس چینج کہا جاتا ہے، اور اس کے مہاپروہت ہمراہ اپنی رسومات اور جنتر منتر کے۔ وہ ایک غیر مرئی بھگوان کی جادوئی شکتیاں حاصل کرلیتا ہے جو کہ سماج سے بالا بیٹھ کر اس کے روم روم میں گھس بیٹھتا ہے۔

لیکن مرد و زن اس رشتے سے بے خبر ہیں۔ یہ بھید کہرے میں چھپا ہے، اور دوسرے تمام دھرموں کی طرح یہ جابر بھگوان کبھی اپنا اصلی چہرہ نہیں دکھاتا، بلکہ ایک ہزار ایک جھوٹے بھیس بدل کر سامنے آتا ہے۔ یہ مہان ایشورجو ہر ایک کو اپنے سامنے جھکا دیتا ہے، ایسے چمتکار دکھا نے پر قادر ہے، جن کے سامنے بائبل والے اعجاز ماند پڑ جائیں، جن کی وضاحت مارکس نے اس طرح سے کی ہے:

”پیسے کے خاصے میری –یعنی قابض کی– ملکیت اور پوشیدہ طاقتیں ہیں۔ اس طرح میں جو ہوں اور جو کچھ کر سکتا ہوں اس کا تعین میری ذات سے کسی طرح سے نہیں کیا جا سکتا۔ میں بدشکل ہوں، لیکن میں اپنے لیے دنیا کی خوبصورت ترین عورتیں خرید سکتا ہوں۔ لہٰذا میں بدصورت نہیں ہوں، کیوں کہ بدصورتی کا اثر– اس سے گھِن دلانے کا احساس– دولت ختم کر دیتی ہے۔“

Watts Mammon

میمون (1884)، جارج فریڈرک واٹس

مجھ کو میری انفرادی حیثیت کو دیکھیں تو لنگڑا ہوں، لیکن دولت نے مجھے چوبیس پاؤں عطا کر دیے ہیں۔ اس طرح میں لنگڑا نہیں ہوں۔ میں برا ہوں، بددیانت، بے ایمان، احمق ہوں؛ لیکن عزت پیسے کی بدولت ہوتی ہے، اور اسی کارن اس کے مالک کی۔ دولت اعلیٰ ترین اچھائی ہے لہٰذا اس کا حامل سراپا خیر ہے۔ روپیا، اس سب کے علاوہ مجھ کو بے ایمان ہونے کی مصیبت سے چھٹکارا دلاتا ہے: اسی لیے مجھے پرہیزگار باور کیا جاتا ہے۔“

”میں بے مغز احمق ہوں لیکن پیسا ہر شے کا حقیقی دماغ ہے اور پھر اس کا مختار کس طرح سے بے دماغ ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ وہ اپنے لیے دنیا کے عقل مند ترین لوگ خرید سکتا ہے، اور کیا وہ جو عقل مندوں پر قدرت رکھتا ہے چالاکوں سے زیادہ چالاک نہیں؟ اپنی دولت کی وجہ سے وہ تمام انسانی صلاحیتیں جن کے لیے انسان صرف خواہش کر سکتا ہے کیا میرے قبضے میں نہیں ہیں؟ تو کیا میرا پیسا میری تمام معذوریوں کو ان کے الٹ میں تبدیل کر کے نہیں رکھ دیتا؟“ [مارکس نے یہ سطور یوحان گوئٹے کے فاؤسٹ سے لکھی ہیں]

واحد حل

ایک ایسے سماج میں جہاں قدرِ زائد کو نچوڑنا ہی معاشی زندگی کا واحد محرک ہو لالچ اعلیٰ ترین نیکی کا درجہ پا لیتی ہے۔ اس کی اخلاقیات جنگل والی ہے، جہاں طاقتور کمزور کو ہڑپ جاتا ہے اور ناتواں کے لیے تباہی اور ہلاکت ہے۔ اس کی طمع، خود غرضی، مفاد پرستی، اور انا پرستی پر مبنی ثقافت انسانی رنج و الم کی جانب بے حسی کے برتاؤ کو جنم دیتی ہے۔

عورتوں، بوڑھوں، اور اپنا بچاؤ نہ کر پانے والے چھوٹے بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ان سماجوں کے لیے ناقابلِ تصور ہو گا جن کو آج ہم ”وحشی سماج“ کہتے ہیں۔ لیکن یہ درندگی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ اس کو معمولی انداز میں ”انسانی فطرت“ کا خاصہ بتایا جاتا ہے۔

یہ ایک وحشیانہ توہینِ نسلِ انسانی ہے۔

یہ انسانی فطرت نہیں ہے، بلکہ ایک وحشیانہ درندہ صفت غیر انسانی نظام ہے جو مردوں اور عورتوں کو جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر اپاہج بنا دیتا ہے، ان سے ہر طرح کی اپنائیت کو چھین کر تقسیم اور مسابقت کی راہ ہموار کرتا ہے تاکہ ایک چھوٹی سی ننگی اور غلیظ دولت مند اقلیت کی آمریت برقرار رہے۔

بورژوا کا نقطہ نظر خود ان کی فطرت کے حساب سے خود غرضانہ ہی ہے۔ لیکن محنت کش طبقے میں آ کر چیزیں بالکل مختلف ہو جاتی ہیں۔ محنت کش اپنی پیدوار کرنے کے اصول میں اجتماعی محنت کرتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں طبع پیداوار (Mode of Production) انفرادی نہیں ہوتا، سماجی ہوتا ہے۔

محنت کشوں کا شعور اسی لیے فطرتی طور پر اجتماعی ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد کے ہتھیار اپنی نوعیت میں اجتماعی ہیں: ہڑتال، عام ہڑتال، اجتماعی جلسے اور بڑے پیمانے پر مظاہرے۔ انفرادیت ایک ہڑتال سے انکار کرنے والے کی پہچان ہے جو اپنے ساتھیوں کے مفادات پر اپنے خودغرضی پر مبنی مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار پریس ہمیشہ ہڑتالیوں کے غدار کی ”جرات“ کی تحسین کرتا ہے، جو کہ مبینہ طور پر ”انفرادیت کی آزادی“ کی خاطر ڈٹ کے کھڑا ہو گیا ہے۔ اپنے باقی ماندہ طبقے کی جانب سے دیکھیں تو ہڑتال توڑ کسی جانور کی اسفل ترین شکل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس زوال پذیر کھوسٹ نظام کا مزید جاری رہنا انسانی تہذیب کے مستقبل کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔۔۔ممکن ہے خود نسلِ انسانی کے اپنے مستقبل کے لیے بھی۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو مرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ یہ بری طرح سے زندگی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور یہ تشدد اور مکاری کے ملغوبے کو استعمال کرتے ہوئے خود کو اکھاڑ پھینکنے کی ہر کوشش کی راہ میں مزاحم ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ تسلیم کر لے کہ اس کا خاتمہ ہو چکا ہے، یہ ساری نوعِ انسانی کو اپنے ساتھ کھائی میں گھسیٹ کر گرانے کے لیے تیار ہے۔

اس کہن زدہ اور دقیانوسی طرز فکر کا جامع متبادل فراہم کرنا مارکسزم کا فرض ہے۔ بورژوازی کے گلے سڑے نظریے کے سامنے یہ کمال جرات کے ساتھ ایک نئے فلسفے کا پرچم بلند کرتا ہے۔۔۔انقلاب کے فلسفے کا۔

ایک نئے عالمی انقلابی نقطہ نظر کے ساتھ ہمیں ایک نئی اخلاقیات کی ضرورت ہے – ایک پرولتاریہ اخلاقیات۔ اور اس انقلابی طبقاتی اخلاقیات کے جھنڈے پر اس کا اولین فرمان یوں کندہ ہے: وہی اخلاقی ہے اور وہ ہی ترقی پسند ہے جو پرولتاریہ کے طبقاتی شعور کو بلند کرتا ہے؛ اور جس کا رجحان اس کو پست یا مسخ کرنے کی جانب ہے وہ غیر اخلاقی اور رجعتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے نام نہاد مابعد جدیدیت کی جانب سے بیان کردہ تمام جھوٹے نظریات مکمل طور پر رد انقلابی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ محنت کشوں کو گمراہ کرنے اور ان کو ”شناختی سیاست“ میں الجھا کر تقسیم کرنے کی جان توڑ کوشش کر رہے ہیں، جو محنت کش طبقے کو منتشر کرنے اور اس کے طبقاتی شعور کو نیست و نابود کرنے کا کام کرتی ہے۔ لینن نے وضاحت کی کہ حکمران طبقے کے خلاف لڑائی فیکٹریوں، سڑکوں، پارلیمنٹ اور مقامی کونسلوں تک محدود نہیں رکھی جا سکتی۔ ہمیں لازمی طور پر نظریاتی میدان میں بھی جنگ لڑنی پڑے گی، جہاں جھوٹی غیر جانبداری اور سطحی معروضیت کی آڑ میں چھپے بیٹھے بورژوازی کا اثر و رسوخ کسی طور بھی کم مہلک اور کم ایذا رساں نہیں۔ پھر بھی، ان لوگوں کے برعکس جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ترقی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ ایک سماجی نظام کسی بھی دوسرے نظام کے جیسا اچھا (یا برا) ہے، 10,000 سال کی تاریخ بیکار نہیں گزری۔ پیداواری قوتوں کے ارتقا کے ذریعے حقیقی کمیونزم کے قیام کی خاطر مادی بنیادیں تیار ہو چکی ہیں، جس کی بنیاد عالمی قلت پر نہیں بلکہ زائد پیداوار کی کثرت پر ہے۔ صرف کمیونزم ہی ایسی دنیا کے لیے سازگار حالات فراہم کرنے کا اہل ہے جس کی بنیادیں حقیقی انسانی تعلقات، مرد اور عورت کے درمیان حقیقی مساوات پر ہوں۔ یہ جبر کی حدود سے نکل کر آزادی کی قلمرو کی جانب انسانیت کی عظیم جست ہوگی۔

لندن، 3 مارچ 2023ء

Comments are closed.