|تحریر: یاسر ارشاد|

28 سے 30اگست کے دوران راولاکوٹ میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تند و تیز تنقیدی بحث دو طرفہ طوفان بد تمیزی کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کے ساتھ ذاتی حملوں کی اتنی زیادہ گرد اڑائی جارہی ہے کہ عمومی طور پر بحث و مباحثے کا معیار پستی کی انتہاؤں کو چھو چکا ہے۔ اگرچہ یہ واقعات سوالات اور تنقید کے ساتھ انتہائی سنجیدہ تجزیے کے بھی متقاضی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر جاری گالم گلوچ پر مبنی تکرار نے اس تمام بحث کو انتہائی غیر معیاری اور عامیانہ الزام تراشیوں تک محدود کر دیا ہے۔ بحث و تنقید کے معیار کو اس حد تک پست بنانے میں کمیٹی مخالف قوم پرستوں کا کلیدی کردار ہے جنہوں نے اس میں پہل اس قدر بوکھلائے انداز میں کی کہ تنقید کے نہایت اہم نکات ہونے کے باوجود بحث سیاسی پیرائے سے نکل کر گروہی الزام تراشیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک کے سیاسی عمل میں افراد کا کردار نہ صرف اہم بلکہ بسا اوقات فیصلہ کن بھی ہوتا ہے اور کبھی بھی سیاسی بحث افراد بالخصوص قیادت کے کردار کی تحسین یا تنقید کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتی۔ لیکن افراد کے کردار کی تحسین یا تنقید کو عمومی طور پر تحریک کے مختلف مراحل کے مخصوص حالات، مسائل اور تقاضوں سے کاٹ کر زیر بحث لایا جائے تو ایسی بحث سطحی، بے معنی، فروعی اور لایعنی ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث میں سب سے بنیادی غلطی یہ کی جا رہی ہے کہ اس ایک واقعے کو پورے عمل سے کاٹ کر دیکھا جا رہا ہے اور محض ان دو تین دنوں میں رونما والے واقعات میں مختلف کرداروں کے اقدامات کی سطحی توجیحات پیش کی جا رہی ہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ تمام تر بحث سطحی و واقعاتی صحافتی، قانونی اور اخلاقی دائرہ کار تک محدود ہے، جس میں محض جوائنٹ کمیٹی کے اقدامات کے قانونی اور صحافتی ثبوتوں کی بنیاد پر اسے ریاستی آلہ کار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا پھر اس کے دفاع میں اسی قسم کے دلائل کے ذریعے مخالف گروہ کو اسی قسم کے کردار کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ کشمیر اور بالخصوص راولاکوٹ کی سیاست کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی تنظیمیں چھوٹی یا بڑی ایک یا دوسرے وقت میں ایک دوسرے پر ایجنسیوں کا آلہ کار ہونے کا الزام لگاتی آئی ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور اب ایکشن کمیٹی بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔یہ سیاسی تجزیے کا گھٹیا ترین طریقہ کار ہے جس سے کسی بھی پارٹی یا ایکشن کمیٹی کے کسی اقدام کی کوئی بھی وضاحت نہیں ہوتی۔ جو کوئی سیاسی کارکن کشمیر کی تحریک اور اس کی قیادت کی خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ مختلف سیاسی تنظیموں کے کردار کی درست سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے اس حاوی سوچ اور طریقہ کار کو ترک کرتے ہوئے تجزیے کے درست طریقہ کار کو اپنانا پڑے گا۔
عوامی ایکشن کمیٹیاں اور قوم پرست و سوشلسٹ
یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف علاقوں میں علاقائی عوامی ایکشن کمیٹیاں بنانے اور عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد کا آغاز کرنے والے تمام نہیں تو اکثریتی لوگوں کا تعلق قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات کی حامل تنظیموں سے تھا۔ یہی وہ سیاسی کارکنان تھے جنہوں نے دیگر پارٹیوں کے کارکنان اور عام عوام کو ساتھ جوڑنے اور اسے وسیع عوامی تحریک بنانے کے لیے وہ طریقہ کار وضح کیا جس کے باعث الحاق پاکستان اور خود مختار کشمیر جیسے تقسیم کا باعث بننے والے دیگر نعروں سے اجتناب کرتے ہوئے عوام کا وسیع تر اتحاد ممکن ہوا۔ یہ وہی پرانے سیاسی کارکنان تھے لیکن انہوں نے موجودہ تحریک کا آغاز کرنے کے لیے اپنے پرانے طرز عمل، اپنی پارٹی کی شناخت، نعروں اور جھنڈوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے خود کو ایک نئی شکل و صورت میں سامنے لایا۔ عوام کے ساتھ اپنی جڑت بنانے کے لیے ان کارکنان نے جس بدلے ہوئے انداز کو اپنایا اور ایک نئے عوامی پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی وہ از خود اس کا اعتراف تھا کہ قوم پرست پارٹیوں کے ڈھانچے اور ان کی طرز سیاست عوام کا اعتماد جیتنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر قوم پرست تنظیموں کے قائدین آغاز سے ہی عوامی ایکشن کمیٹیوں کے خلاف تھے اور انہوں نے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے تیزی سے پھیلنے کے عمل کو اپنی پارٹیوں کے خلاف سازش قرار دے رکھا ہے۔ عوامی تحریک کے وسیع پیمانے پر پھیلنے اور حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے تجربے نے عوام اور نوجوانوں کی اکثریت کو وہ نعرے اپنانے پر مجبور کیا جو قوم پرست اور سوشلسٹ تنظیموں کے کارکنان لگایا کرتے تھے لیکن ساتھ ہی عوام اور نوجوانوں کی اکثریت نے ان پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنا یا۔ یہ وہ تضاد ہے جس کو سمجھے بغیر کوئی بھی سیاسی کارکن اس تحریک میں مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے سب سے مقبول نعرے سماج کی طبقاتی ساخت کے خلاف، کشمیری حب الوطنی اور انقلاب کے حق میں لگائے جانے والے نعرے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ جو کمیٹی کے پلیٹ فارم سے آزادی پسندوں اور سوشلسٹ کارکنان کے ان نعروں کے دلدادہ ہیں لیکن ان نعروں کو متعارف کرانے والی سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم کے ساتھ خود کو وابستہ کرنے کو تیار نہیں ہیں؟
ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آزادی و انقلاب کی دعویدار تنظیموں کی اپنی گروہ بندیوں اور ٹوٹ پھوٹ کے باوجود 5 اگست 2019ء کو بھارتی مقبوضہ کشمیر پر مودی حکومت کی جارحیت نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا تھاکہ ہم اپنی تقسیموں کو مٹاتے ہوئے عوام کو ایک وسیع مزاحمتی اور انقلابی پلیٹ فارم فراہم کریں اور PNA کا قیام اس جانب پہلا قدم ہو سکتا تھا، لیکن ہم نے اس موقع کو ضائع کیا اور ایک خلا پیدا کر دیا۔ اسی خلا میں عوامی ایکشن کمیٹیوں نے ابھرنا شروع کیا اور بتدریج پورے کشمیر کے عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی متحدہ جدوجہد کے لیے ایک عوامی مزاحمتی پلیٹ فارم فراہم کیا۔عوامی ایکشن کمیٹیوں کی جانب جن قوم پرست پارٹیوں اور قائدین کا رویہ ہمیشہ مخاصمانہ اور موقع پرستانہ رہا وہی پارٹیاں اور قائدین آج جوائنٹ کمیٹی یا اس کے چند ممبران کی مخالفت میں پوری تحریک کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں۔ عوام کا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ تعلق اور اس کی قیادت کی جانب تحسین کا رویہ ہمارے وقت کی ایک ایسی حقیقت ہے،جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ پہلے سے موجودپارٹیاں مسترد کی جا چکی ہیں،یہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ استرداد عارضی ہو گا یا مستقل اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس فیصلے کا انحصار ہمارے درست نظریات، حکمت عملی، تحریک کی جانب رویے اور اس میں ہمارے کردار پر ہو گا۔ نہ تو عوامی ایکشن کمیٹیاں اور نہ ہی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ایک سیاسی پارٹی کا متبادل ہو سکتی ہے،لیکن ایک عارضی عرصے کے لیے یہی پلیٹ فارم عوامی جدوجہد کا مرکز بن چکے ہیں۔ نہ تو ہماری انقلابی چیخ و پکار، نہ ہماری جلد بازی اور نہ ہی کوئی اور چیز اس حقیقت کو تبدیل کر سکتی ہے۔
قوم پرستوں کے اعتراضات
جوائنٹ کمیٹی کے حوالے سے ہمارے اس قوم پرست گروہ کے چند الزامات اور دعووں کا سر سری جائزہ لینے کی کوشش کریں تو انتہائی مضحکہ خیز صورتحال سامنے آتی ہے۔ ہمارے کمیٹی مخالف قوم پرستوں کا ایک بڑا ہی پسندیدہ حملہ یہ ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی موجودہ قیادت حادثاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے بانی ہیں۔ یہ بیان از خود تضاد پر مبنی ہے کہ جس کے بانی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اسی کو حادثاتی کہہ کر رد کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اگر اس بیان کے پہلے حصے کے ساتھ اتفاق کیا جائے کہ موجودہ قیادت حادثاتی ہے تو پھر بھی اس کی وضاحت ضروری ہے۔ فطرت اور انسانی سماج میں ہونے والے ہر حادثے کی کوئی معلوم یا نا معلوم وجہ ضرور ہو تی ہے اس لیے اس حادثاتی قیادت کے سامنے آنے کی بھی ضرور کوئی وجہ تو ہو گی؟ یہ سوال تو موجود ہے کہ اس ناگہانی حادثے میں یہی قیادت کیوں سامنے آئی؟ کوئی بزعم خود مہان قوم پرست کیوں نہیں سامنے آیا؟مارکسزم یہ واضح کرتا ہے کہ ہر حادثہ طویل عرصے سے پنپنے والی گہری تاریخی ضرورت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یعنی کشمیر کے عوام کو طویل مدت سے ایسی ہی کسی قیادت کی ضرورت تھی جو ان کو بنیادی حقوق کی جدوجہد کے لیے ایک لچکدار اور وسیع عوامی پلیٹ فارم پر متحد کر سکے۔ یعنی پہلے سے موجود تمام مہان قیادتوں اور ان کی پارٹیوں میں انقلاب و آزادی کے تمام بلند و بانگ دعووں کے باوجود تحریک کے اس مرحلے کے لیے درکار ضروری لچک، وسعت، اہلیت اور صلاحیت موجود نہیں تھی۔ اسی لیے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی موجودہ قیادت اپنی اس شکل میں پوری تحریک کی قیادت بن کر سامنے آئی جس کے سر یہ اعزاز تو جاتا ہے کہ اس نے کشمیر کی پوری تاریخ میں پہلی بار کشمیری عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرتے ہوئے عوام کو دو عظیم فتوحات دلوائیں اور جدوجہد کا یہ عمل، سست رفتاری سے ہی سہی، مسلسل آگے کی جانب گامزن ہے۔ ہمارے مہان قائدین اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبران کو حادثاتی کے ساتھ تاجران اور ٹرانسپوٹرز ہونے کا طعنہ دے کر انہیں کم تر اور خود کو عظیم سیاسی قائدین ثابت کرتے ہیں اور اس طرح اپنی شکستہ اناؤں کو تسکین فراہم کرتے ہیں۔
اب اسی موقف کے دوسرے متضاد حصے کا جائزہ لیا جائے کہ اس حادثاتی قیادت کے بانی بھی آپ خود ہیں تو پھر بے شمار نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اول یہ کہ اگر آپ اس کے بانی ہیں اور آج آپ اس کمیٹی کے سر جو بھی سچے یا جھوٹے الزامات تھونپ رہے ہیں تو کیا ان کے اصل مجرم آپ خود نہیں ہیں؟ اس کمیٹی کو تشکیل دیتے وقت آپ خود بطور قیادت سامنے نہیں آئے بلکہ موجودہ قیادت کو آگے لایا تو کیا یہ کوئی حادثہ تھا یا آپ کی شعوری منصوبہ بندی؟ اگر آپ کے خیال میں یہ کوئی حادثہ تھا تو آپ اس کے بانی ہونے کے دعویدار نہیں ہو سکتے اور اگر آپ واقعی بانی ہیں تو یہ حادثہ نہیں بلکہ آپ کے اپنے جرائم ہیں،جس کے خلاف آج آپ اتنی چیخ و پکار کر رہے۔ تیسری ممکنہ صورت کو دیکھا جائے کہ اگر یہ آپ کی منصوبہ بندی تھی اور عمل میں آپ کا منصوبہ الٹ شکل اختیار کر گیا، آپ کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائے اسی لیے آپ اس کو حادثاتی قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس صورت میں بھی آپ کی تمام چیخ و پکار محض بوکھلاہٹ اور شکست خوردگی کو ظاہر کرتی ہے اور اس قسم کی لفاظی اور فسطائی طرز استدلال محض حقائق کو دھندلانے کی ایک ناکام کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔
ان چند قوم پرست گروہوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ طویل مدت سے اپنے تصورات میں ایک تحریک کا خاکہ تشکیل دے چکے تھے جس کے غیر متنازعہ قائدین یہ خود تھے۔ اس خیالی تحریک میں سب کچھ ان کی ہدایات کے مطابق ہونا تھا اور تمام تر عوام نے ان کے اشاروں پر چلنا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اس سماج میں جب ایک تحریک ابھری تو وہ ان کے خیالوں کی تحریک سے بہت مختلف تھی، اس کی قیادت میں بھی ان کی بجائے بے شمار نئے اور غیر مقبول لوگ سامنے آگئے۔ آغاز میں انہوں نے تحریک کے ساتھ چلنے اور اس کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کچھ کوشش کی لیکن اس میں بھی ان کو کامیابی نہیں ملی۔اس عمل کے دوران ان کے قیادت کے ساتھ اختلافات بھی شدت اختیار کرگئے اور اسی کے نتیجے میں انہوں نے کم از کم پونچھ اور سدھنوتی سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبران کے خلاف قوم پرست پارٹیوں کے مختلف اتحاد بنانے کا عمل شروع کیا۔ جوائنٹ کمیٹی کے ساتھ ان کے اختلافات بھی فروعی، گروہی اور شخصی نوعیت کے تھے جن میں کوئی بھی سیاسی مواد موجود نہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے قوم پرستوں کا یہ گروہ پونچھ اور سدھنوتی سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ان ممبران کے خلاف قابل ذکر عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے ان کو تحریک کی قیادت سے بے دخل کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی پر کام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سازش میں انجمن تاجران کا ایک دھڑا اس قوم پرست گروہ کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ ان کی اصل منصوبہ بندی یہی ہے کہ اگر پونچھ اور سدھنوتی میں یہ ایک قابل ذکر عوامی حمایت کسی بھی طریقے سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک نئی جوائنٹ کمیٹی بنانے کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے جس کے قائدین یہ خود ہوں گے۔ گزشتہ برس یہ عمل اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ ایک نئی کمیٹی بنانے کی بحث ان کی عام محفلوں کا حصہ بن چکی تھی۔ اس گروہ کے ساتھ آغاز میں دیگر قوم پرست تنظیمیں بھی شامل رہی جن کے خیال میں اس قسم کے اتحاد کی تشکیل کا مقصد یہ تھا کہ تمام قوم پرست و ترقی پسند تنظیمیں تحریک کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اس کو درست سیاسی سمتوں میں آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ لیکن اس چھوٹے سے گروہ کے حقیقی مقاصد سامنے آنے کے بعد زیادہ تر قوم پرست و ترقی پسند تنظیموں نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
کمیٹی مخالف گروہ کا حالیہ واقعات کے بعد سیاسی اخلاقیات کے حوالے سے بھی ایک واویلا نظر آتا ہے۔ عام سادہ لوح سیاسی کارکنان کے لیے اخلاقیات کا سوال بہت اہم ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر بے شمار سیاسی کارکنان اس ماتم پر ان سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ قوم پرستوں نے جب اسی ایشو پر 30 اگست کی کال دے رکھی تھی تو کمیٹی کو اس میں نہیں کودنا چاہیے تھا اور کمیٹی نے بقول ان کے کسی کے کہنے پر یاکریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں ان کی کال سے پہلے ہڑتال کر کے ان سے زیادتی کر دی ہے۔ نام نہادسیاسی اخلاقیات کے پیچھے چھپ کر مظلوم بننے والا گروہ خود تو عوام اور سادہ لوح سیاسی کارکنان کو یہ بتانے سے گریزاں ہی رہے گا کہ جب اس گروہ کی تمام سیاست کمیٹی مخالف مقاصد کے گرد گھوم رہی ہے، جب اس گروہ کی جانب سے ہر سیاسی موقع کو چند کمیٹی ممبران کو پتہ نہیں کس کس کا آلہ کار ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب اس گروہ نے ان کمیٹی ممبران کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے اور ان کے خالصتاً پارٹی پروگراموں کے اسٹیج بھی کمیٹی کے خلاف زہر اگلنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تو کیا کمیٹی کو اپنی بقا کی لڑائی لڑنے کا حق حاصل نہیں؟ دوسری جانب کیا مختلف قوم پرست پارٹیاں اور حتیٰ کہ ایک ہی پارٹی کے مختلف دھڑے ہمیشہ ایک دوسرے کی مخاصمت میں اس قسم کے کام کرنے کی طویل تاریخ نہیں رکھتے؟ پھر محض کمیٹی پر ہی کیوں ایسی اخلاقیات کی پاسداری کرنا فرض ہے وہ بھی ایسی کیفیت میں جب قوم پرستوں کا ایک گروہ کمیٹی ممبران کے مخالفین کے ساتھ مل کر ان کی سیاست کا خاتمہ کرنے پر تلا ہو اہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کا گلا کاٹنے کے درپے ہوں لیکن عین موقع پر وہ اپنی مزاحمت کے ذریعے آپ کے منصوبے کو ناکام بنا دے تو آپ واویلا شروع کر دیں کہ اس کی مزاحمت کا طریقہ غیر اخلاقی تھا۔ راولاکوٹ کے واقعات کے اصل محرکات دوسال سے جاری کمیٹی مخالف لڑائی ہے اور ان کو نام نہاد اخلاقی پیمانے پر پرکھنے کی بجائے اسی کشمکش اور لڑائی کے تسلسل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی مخالف گروہ کی زوال پذیری
کمیٹی مخالف قوم پرست گروہوں کے قائدین اور کارکنان راولاکوٹ میں کمیٹی کے خلاف اپنا الگ محاذ بنا کر اس کے خلاف کھڑے ہیں جبکہ انہیں پارٹیوں کے کارکنان دیگر علاقوں میں مقامی کمیٹیوں میں سرگرم یا نیم سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ایسا کرنا ان کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے تو پھر بھی یہ انتہائی مضحکہ خیز حکمت عملی ہے۔ اور اگر ایسا محض کسی مصلحت اور مجبوری کی وجہ سے ہے تو پھر بھی ان پارٹیوں کا وجود، سیاسی موقف اور حکمت عملی ایک گھٹیا تماشہ بن چکی ہے۔ عمومی طور پر بھی اس سے زیادہ مضحکہ خیز کیا ہو سکتا ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی عوامی تحریک کے حوالے سے ایک گاؤں میں پالیسی کچھ اور ہو اور دوسرے گاؤں میں کچھ اور! ایک شہر میں کمیٹی ایجنسیوں کی آلہ کار ہے اور دوسرے شہر میں وہ مزاحمتی ہے! جو قوم پرست جب تک آپ کے گروہ کا حصہ ہیں تب تک سارے انقلابی چے گویرے ہیں اور جس دن آپ کی پالیسی سے اختلاف کر دیں اسی دن کیا اسی لمحے وہ غدار، رد انقلابی اور ایجنسیوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔سیاسی تنزلی، بے اصولی اور گروہی موقع پرستی کا اس سے زیادہ مضحکہ خیز اور المناک اظہار شائد ہی ممکن ہو۔
یہ گروہ کمیٹی کے خلاف تعصب میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ کمیٹی کے ساتھ وسیع تر عوام کی جڑت کو ہٹلر اور دیگر فاشسٹ تحریکوں سے مماثل قرار دینے جیسی بھیانک اور مجرمانہ دروغ گوئی کرنے تک گر چکے ہیں۔ جھوٹ، بہتان تراشیوں اور تحریک کی قیادت کے خلاف تعصب کونام نہاد نظریاتی تنقید کے لبادے میں چھپانے کے لیے بھاری بھر کم لفاظی اور سیاسی اصطلاحات کا اس قدر بد دیانتی سے استعمال کیا جاتا ہے کہ جس کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔تحریک کے ساتھ عوام کی جڑت کو ایک دن یہ کہہ کر جھٹلایا جاتا ہے کہ فاشسٹ تحریکوں میں بھی لاکھوں لوگ متحرک ہوتے ہیں اور دوسرے دن اسی جڑت کو تحریک کی قیادت کے گرد کوئی کلٹ بننے کا عمل قرار دے کر اپنی اس بکواسیات کو تحریک کو درست کرنے کے لیے تنقید کہا جاتا ہے۔ کلٹ کی اصطلاح کو بھی درحقیقت فاشزم یا نیم فاشزم کے معنوں میں استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ دونوں اصطلاحات اپنے لغوی اور تاریخی معنوں میں جن سماجی مظاہر کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں ان کی تحریک کی موجودہ کیفیت سے معمولی سی بھی مماثلت تو درکنار دور کا تعلق نہیں بنتا، لیکن پھر بھی تحریک اور قیادت کے خلاف کیچڑ اچھالنے کے لیے سیاسی و علمی بددیانتی کی انتہا کی جا رہی ہے۔ اس میں بھی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پورے کشمیر کی تحریک فاشسٹ یا کلٹ نہیں ہے بلکہ راولاکوٹ میں یہ فاشسٹ اور کلٹ ہے جب کہ کھائیگلہ اور پانیولہ سمیت باقی پورے کشمیر میں یہ عوامی حقوق کی شاندار تحریک ہے۔ شرمناک عمل یہ ہے کہ انتہائی شکست خوردہ، رد انقلابی اور محنت کش عوام کی غیر معمولی شکستوں اور پسپائی کے حالات میں جنم لینے والے جرائم پیشہ اور پیٹی بورژوا خونریز اور وحشیانہ رحجانات کی سائنسی وضاحت کرنے والی فاشزم جیسی اصطلاح کو ایک بھرپور انقلابی امکانات کی حامل محنت کش عوام کی تحریک پر چسپاں کر کے خود کو انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کلٹ کی اصطلاح تاریخی طور پر بڑے اور منظم مذاہب کے دائرہ کا ر سے باہر موجود چھوٹے مذہبی فرقوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے اور سیاسی معنوں میں بھی کسی فرد کے سحر کے گرد جمع چھوٹے موٹے گروہ کو کلٹ کہا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی خطے کے لاکھوں عوام کی تحریک کو کسی بھی صورت میں کلٹ نہیں کہا جا سکتا۔حالیہ عرصے کے دوران بھی عمران خان یا امریکی صدر ٹرمپ کی شخصیت کے گرد عوام کی پسماندہ پرتوں اور درمیانے طبقے کے سیاسی ابھار کو دائیں بازو کی پاپولسٹ تحریکیں کہا جاتا ہے یہ تحریکیں بھی کلٹ نہیں ہیں، تو پھر کوئی تعصب اور نفرت میں عقل کا اندھا بھی کشمیر کی تحریک کو کلٹ کیسے کہہ سکتا ہے؟
طفلانہ پن کی بیماری کا شکار ایک فرقہ پرور جب تحریک اور اس کی قیادت کی اپنے خلل زدہ دماغ میں موجود تصور کے ساتھ مطابقت بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اس میں ہزاروں خامیاں اور تضادات نظر آتے ہیں۔ کبھی اسے اس میں فاشسٹ رحجانات نظر آتے ہیں تو کبھی اسے قیادت کے گرد کلٹ نظر آتا ہے۔ کبھی اسے قیادت کی مصلحت اور تحریک سے غداری نظر آتی ہے تو کبھی اسے ایجنسیوں کی سازش۔ درحقیقت ایک فرقہ پرور سماج کی کسی زندہ حقیقی تحریک کے آغاز اور اس کی بڑھوتری کو تمام اتار چڑھاؤ، پیش قدمیوں کے ساتھ پسپائیوں، کامیابیوں کے ساتھ ناکامیوں، عارضی مصلحتوں کے ساتھ نئی نا قابل مصالحت لڑائیوں، قیادت کے مختلف مراحل کے ساتھ مطابقت اور پھر اسی قیادت کے نئے مراحل کے ساتھ عدم مطابقت جیسے پر تضاد، پیچیدہ، مسلسل جدلیاتی کشمکش کے حامل عملی جدوجہد کے بے شمار مراحل پر مبنی زندہ تاریخی عمل کے طور پر دیکھنے کی اہلیت سے ہی محروم ہوتا ہے۔ وہ تحریک کے ابھرنے کے ساتھ اس کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالنے اور اسے تمام تر تضادات سے پاک، تمام لازمی مراحل سے عاری ایک صاف شفاف اور اس کی اپنی قیادت میں سیدھی لکیر میں پیش قدمی کرنے والی ایک خالص انقلابی تحریک بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر قدم پر ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور یہ ہر مرحلے پر بوکھلاہٹ میں تحریک کے رد انقلابی ہونے، قیادت کے بک جانے، تحریک کے درمیانے طبقے کے تاجروں کے ہاتھ یر غمال ہو جانے اور اس کے اپنے خلاف سازش ہو جانے جیسی پراگندہ بکواس پورے سماج میں پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ در حقیقت ایک فرقہ پرور اپنی جاہلانہ رعونت کے باعث عوام کے شانہ بشانہ تحریک کے مختلف مرا حل سے گزرنے اور محنت کش عوام کو تحریک کے عملی تجربات سے درست نتائج اخذ کرنے میں معاونت فراہم کرنے کے عمل کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کسی چوک میں کھڑے ہو کر تحریک کی قیادت کے خلاف رد انقلابی، فاشسٹ، مصلحت کا شکار اور ایجنسیوں کے آلہ کار ہونے جیسے فتوے نما اعلانات کرنے اور خود کو خالص، حقیقی، اصلی اور قدیمی انقلابی ہونے کے اعزازت سے نوازنے کو ہی انقلابی فریضہ سمجھتا ہے۔
درحقیقت اس گروہ کی جانب سے تحریک پر فاشزم سے مماثلت یا کلٹ بن جانے جیسے الزامات حکمران طبقات کی جانب سے تحریک پر لگائے جانے والے الزامات سے بھی زیادہ گھناؤنے اور مجرمانہ اس لیے ہیں کہ یہ تحریک کی حمایت، اور اس کی سمت درست کرنے کے دعویداروں کی جانب سے مثبت تنقید کے نام پر لگائے جا رہے ہیں اور تحریک کے کچھ سادہ لوح حمایتی بھی اس غلیظ پروپیگنڈے کو درست سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب ان کی تنقید عوامی تحریک میں محنت کش عوام کے طبقاتی مفادات کے تحفظ اور بیگانے طبقات کی مداخلت کے خلاف نہیں ہے بلکہ تحریک کی قیادت کے خلاف ان کے الزامات بہت حد تک حکمران طبقات کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سے ملتے جلتے ہیں۔ کشمیر کے حکمران طبقات تحریک کو ہندوستان کا آلہ کار کہتے ہیں جبکہ یہ گروہ ان کو پاکستان کی ایجنسیوں اور فوجی اشرافیہ کا آلہ کا ر کہتا ہے۔ یہ تمام تنقید محض ان کے اپنے گروہ کے قیادت سے محروم ہو جانے کے غم و غصے کی پیداوار ہے اور اس تنقید کا مقصد یہ ہے کہ الزام تراشیوں اور جھوٹے بہتانوں کے ذریعے عوام کی نظروں میں موجودہ قیادت کی ساکھ کو برباد کیا جا سکے تاکہ انہیں قیادت حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔
دوسری جانب اس تمام تر تنقید کا وقت دیکھا جائے تو خود ان کے اپنے گروہ پر تحریک کے خلاف باقاعدہ سازش کرنے جیسے خدشات کافی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ کمیٹی نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے 29 ستمبر سے پورے کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے لاک ڈاؤن کی کال دے رکھی ہے۔ حکمران طبقات اس کال کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ آزمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں راولاکوٹ میں حکومت نے تاجران کو تقسیم کرنے اور شٹر ڈاؤن کے خلاف ایک مہم کا آغاز کرنے کے لیے اپنے گماشتوں کے ذریعے’تاجران پروٹیکشن فورم‘کے نام سے ایک نئی تنظیم بنوائی جس کا نعرہ یہ تھا کہ شٹر ڈاؤن کے دوران تاجران کا بہت نقصان ہوتا ہے اس لیے یہ فورم شٹر ڈاؤن نہیں ہونے دے گا۔ اس فورم کا بیان سامنے آنے کے ساتھ ہی راولاکوٹ کی مختلف مارکیٹوں کے تاجران نے اپنے اجلاس منعقد کر کے اس فورم کو کمیٹی کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے نہ صرف رد کیا بلکہ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ کاروبار ان کے ذاتی ہیں، وہ کمیٹی کے ساتھ ہیں اور چند دن کیا وہ کمیٹی کی کال پر مہینوں تک کاروبار بند کرنے کو تیار ہیں اور اس فورم کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اسی طرح کی مزید بے شمار کوششیں مسلسل جاری ہیں تا کہ کمیٹی کی کال سے قبل کسی طرح عوام کو تقسیم کیا جائے اور تحریک کو کمزور کیا جاسکے لیکن محنت کش عوام حکمرانوں کی ہر ایسی کوشش کو شکست فاش دیتے جا رہے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت میں اس قوم پرست گروہ کی کمیٹی کے خلاف ایک پراپیگنڈہ مہم اگر باقاعدہ کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں ہے مگر پھر بھی یہ محض اس وقت کے باعث حکمرانوں کی معاونت کے زمرے میں شمار ہو رہی ہے۔ جب کسی قوم پرست کی تنقید اور حکمرانوں کی تنقید اور الزامات کے مواد میں اس حد تک یکسانیت اور وقت بھی ایک ہی ہو گا تو کس طرح عام محنت کش اور نوجوان یہ فرق قائم کر سکیں گے کہ ایک تنقید دشمن طبقات کی جانب سے تحریک کی مخالفت میں ہے اور دوسری تحریک کی اصلاح کے لیے اس کے دوستوں اور ہمدردوں کی ہے۔
نیا انقلابی عہد
کشمیر کی تاریخ کی سب سے عظیم عوامی تحریک درحقیقت پوری دنیا میں زوال پذیر اور متروک سرمایہ دارنہ نظام کے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں اور تحریکوں کا تسلسل ہے۔ دیگر ممالک میں ابھرنے والی شاندار انقلابی سرکشیوں کی طرح ہی یہ دنیا کے ایک نئے انقلابی عہد میں داخل ہو جانے کا اعلان ہے۔ اس نئے انقلابی عہد میں جہاں یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں نوجوانوں، محنت کشوں اور استحصال زدہ عوام کی انتہائی طاقتور انقلابی تحریکیں حکومتوں کے تخت اکھاڑ رہی ہیں وہیں یہ تمام پرانی پارٹیوں اور قیادتوں کو مکمل طور پر مسترد کرتی جا رہی ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں جہاں ہم نے سری لنکا، سوڈان اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں عوامی تحریک کی بے پناہ طاقت کے سامنے حکومتوں کو زمین بوس ہوتے اور حکمرانوں کو دم دبا کر بھاگتے ہوئے دیکھا وہیں محض گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہم نے انڈونیشیا کی انتہائی شاندار عوامی بغاوت کے بعد نیپال میں نوجوانوں اور محنت کش عوام کے ہاتھوں حکمرانوں کی سر عام درگت کے شاندار مناظر دیکھے۔ کچھ قنوطی اور سکہ بند نام نہاد انقلابیوں کو اس عمل میں سوائے(انارکی) انتشار کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر دنیا بھر کے نوجوان، محنت کش اور استحصال زدہ عوام مختلف ممالک میں حکمرانوں اور اس نظام کے خلاف مجتمع شدہ غم و غصے اور نفرت کو غیض و غضب اور سرکش عوامی بغاوتوں میں تبدیل ہونے کے مسحور کن و باعث تسکین مناظر سے نہ صرف لطف حاصل کرتے ہیں بلکہ خود اپنے حکمرانوں کو اسی انجام سے دوچار کرنے کے لیے شکتی اور حوصلہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کی انقلابی بغاوتوں میں حکمران طبقات کے کچھ اہلکاروں کی عوام اور نوجوانوں کے ہاتھوں دھلائی اور حکمرانوں کے محلوں اور ایوانوں کو نذر آتش کرنے کے مناظر درحقیقت اس نظام میں طاقت کے مراکز اور ان میں بر اجمان افراد کے خلاف شدید عوامی نفرت اور غم و غصے کا ایک فطری اظہار ہے۔ کسی منظم شعوری رہنمائی کی عدم موجودگی میں عوام کی بے پناہ اور دیوہیکل انقلابی توانائی کا ابتدائی اظہار اور کس طریقے سے ممکن ہے؟
دوسری جانب عوامی بغاوتوں کے یہ منہ زور طوفان محنت کشوں اور نوجوانوں کی ناقابل تسخیر طاقت کا اظہار بھی ہیں جو یہ دکھاتے ہیں کہ ایک بار جب محنت کش اور نوجوان تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں تو وہ کس طرح بظاہر بہت طاقتور نظر آنے والی حکومتوں اور ریاستوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں۔ انقلابی بغاوتوں کے یہ واقعات چند ممالک تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ آنے والے ماہ و سال ان ممالک میں اس سے بھی بڑی انقلابی بغاوتوں کو جنم دیں گے جن میں آج بظاہر خاموشی دکھائی دیتی ہے۔مختلف ممالک کی ان شاندار انقلابی بغاوتوں کے عملی تجربات نہ صرف ان ممالک کے محنت کشوں اور نوجوانوں بلکہ ساری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو تاریخ کا انتہائی لازمی سبق سکھارہے ہیں کہ محض پرانی حکومتوں کے تختے الٹنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تبدیل کرنے کے لیے سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنا اس عہد کا اولین فریضہ بن چکا ہے۔
عوامی تحریک اور جوائنٹ کمیٹی
کشمیری عوام کی شاندار تحریک دو سال کے عرصے میں حکمران طبقات کو دومرتبہ اپنی اجتماعی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکی اور 29 ستمبر کو ہونے والے ایک نئے لاک ڈاؤن کی تیاریاں اس وقت جوش و خروش سے جاری ہیں۔یہ سرگرمیاں واضح کرتی ہیں کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ تعداد میں عوام تحریک کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ حکمران طبقات کی جانب سے اپنے پارٹی کارکنان کو واضح ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ اگر وہ تحریک کا حصہ بنے تو انہیں پارٹیوں سے نکال دیا جائے گا اور اس قسم کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ چند قوم پرست گروہوں کی جانب سے بھی اسی قسم کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس قسم کی دھمکیوں اور شو کا ز نوٹسز جاری کیے جانے کے باوجود تحریک کے ساتھ عوام اور حکمرانوں کی سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کی جڑت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔تحریک کے خلاف حکمرانوں کا ہر اقدام اسے کمزور کرنے کی بجائے زیادہ مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقات کی جانب سے گرفتاریوں اور ریاستی جبر کے ذریعے تحریک کچلنے کی گیدڑ بھبکیاں عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے موڈ کو زیادہ لڑاکا بناتی جارہی ہیں۔ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے کے دوران جوائنٹ کمیٹی وسیع تر عوام کی نمائندہ قیادت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
عوام کی وسیع تر جڑت، لڑاکا پن اور بے پناہ اعتماد کے باوجود تحریک میں قیادت کی عملیت پسندی اور سیاسی و نظریاتی کمزوریوں کے باعث چند کلیدی کمزوریاں مو جود ہیں جو مستقبل میں بے شمار مسائل کاباعث بن سکتی ہیں۔سب سے بنیادی کمزوری یہ ہے کہ تحریک کی موجودہ قیادت کے زیادہ تر حصے تحریک کے حقیقی کردار اور اس کے مستقبل کے امکانات کا معمولی سا شعوری ادارک بھی نہیں رکھتے۔ ان کے خیال میں یہ محض چند مطالبات کی منظوری کے لیے جاری احتجاجی تحریک ہے جس کے ہر مرحلے پر عوامی طاقت کے دباؤ کے ذریعے چند مطالبات کی جزوی منظوری اس تحریک کا حتمی مقصد ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر عوام کو تمام بنیادی حقوق دیے جائیں گے تو حکمرانوں کی عیاشیاں اور لوٹ مار جاری نہیں رہ سکتی اور اگر حکمرانوں کی عیاشیاں اور لوٹ مار جاری رہے گی تو عوام کو تمام حقوق نہیں مل سکتے۔ دوسرے الفاظ میں عوام کی اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد درحقیقت اپنی بنیاد میں سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جدوجہد ہے اور سرمایہ داری نظام کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے عہد کی اس سب سے اہم اور بنیادی سچائی کا درست شعوری ادراک حاصل کیے بغیر موجودہ تحریک کے اگلے مراحل کی درست حکمت عملی بنانا اور تحریک کو درست سمتوں میں آگے بڑھانا ناممکن ہے۔
اسی نظام کو قائم رکھتے ہوئے عوامی دباؤ کے ذریعے کچھ حقوق کے حصول کی سوچ تحریک کے راستے کی ایک رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ اسی اصلاح پسندانہ سوچ و فکر کے باعث تحریک کی قیادت پر حکمران طبقات کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور قیادت بسا اوقات اسی دباؤ کے پیش نظر اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہے۔ در حقیقت جب آپ اس سوچ پر یقین رکھتے ہوں کہ موجودہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور اس کے اندر رہتے ہوئے ہی کچھ اصلاحات کی کوشش کی جانی چاہیے تو اس نظریے کی منطق آپ کو اسی نظام اور حکمران طبقے کے ساتھ کسی حد مفاہمت کی جانب لے جاتی ہے۔ تحریک کے حالیہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں مہاجرین کی سیٹوں اور ملازمتوں کے کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ قیادت پر اسی دباؤ کو قبول کرنے کے اثرات کا اظہار ہے۔ اول تو یہ مطالبہ کسی بھی علاقائی عوامی کمیٹی کی طرف سے نہیں تجویز کیا گیا بلکہ جوائنٹ کمیٹی کے ممبران نے اسے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بنا کر اس کے نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کی۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ کشمیر کی حکمران اشرافیہ اور بیورو کریسی کا مطالبہ ہے جسے عوامی تحریک کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اس مطالبے کا چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بننا کشمیر کے مقامی حکمرانوں اور بیوروکریسی کے دباؤ کو قبول کرنے کا اظہار ہے۔ اگرچہ کمیٹی ممبران اس کے غیر قانونی، غیر آئینی اور وسائل کے ضیاع پر مبنی ہونے کے بے شمار دلائل پیش کرتے ہیں جوکہ درست بھی ہیں،لیکن یہ تاویلیں اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتیں کہ یہ حکمران طبقات کے مقامی دھڑوں کا مطالبہ ہے۔ محنت کش عوام کے طبقاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو محض مہاجرین کی نشستیں نہیں بلکہ یہ پورا حکومتی و ریاستی ڈھانچہ عوام دشمن، غیر قانونی، غیر آئینی اور وسائل کے ضیاع پر مشتمل ہے اور اس پورے کا خاتمہ کیے بغیر عوام کے مسائل کا حقیقی حل ممکن نہیں۔ مہاجرین کی نشستوں کے خاتمے کے فوائد گنواتے ہوئے کمیٹی ممبران عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے کشمیر کے موجودہ حکومتی ڈھانچے کی تمام تر خامیاں انہی 12 نشستوں کی وجہ سے ہیں اور اگر یہ ختم ہو جائیں گی تو تمام خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ دوسری جانب اس کے لیے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ یک دم سب کچھ ایک ہی جھٹکے میں ٹھیک نہیں کیا جا سکتا بلکہ آہستہ آہستہ جز بہ جز نظام کی خرابیاں دور کرنا ہی حقیقت پسندی کا تقاضا ہے۔بظاہر یہ دلیل بہت عملی اور حقیقت پسندانہ دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی بنیادی میں ایک بہت بڑی خامی اور یہ غلط تصور موجود ہے کہ موجودہ عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو اصلاحات یعنی کانٹ چھانٹ کے ذریعے انسان دوست نظام بنایا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی دنیا بھر میں تین سے چار سو سال کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سرمایہ داری نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کی عوام دشمن اور حکمرانوں کی لوٹ مار اور عیاشیوں پر مبنی فطرت کو کبھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصور ایسا ہی ہے جیسے کوئی انسان کسی گوشت خور درندے کو گھاس کھا کر زندہ رہنے پر قائل یا مجبورکرنے کی سوچ رکھتا ہو۔ تحریک کی قیادت اسی سوچ کے تابع ہے اور اسی کے باعث دیگر بے شمار کمزوریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تحریک کے ساتھ وسیع تر عوام کی جڑت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکمران طبقات کی پارٹیوں کے کارکنان اپنی قیادتوں سے بغاوت کرتے ہوئے تحریک کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں لیکن جوائنٹ کمیٹی ابھی تک کوئی واضح سیاسی پروگرام دینے سے اجتناب کرتے ہوئے غیر سیاسی اور غیر نظریاتی تحریک ہونے کا راگ الاپ رہی ہے۔ درحقیقت غیر سیاسی، غیر نظریاتی اور ساری جماعتوں کے سیاسی کارکنان کی تحریک ہونے کا راگ اس لیے الاپا جا رہا ہے تاکہ تحریک کو ریڈیکل ہونے سے روکا جا سکے۔تحریک کے آغاز میں یہ طریقہ کار درست تھا اور اسی کے ذریعے وسیع تر عوام کی جڑت ممکن ہو پائی مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہو چکی ہے۔ کوئی سیاسی کارکن جب اپنی پارٹی کی قیادت اور ڈسپلن سے کھلے عام بغاوت کرکے تحریک کا حصہ بننے کا اعلان کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کو کسی حد تک چھوڑ کر اس تحریک میں شمولیت اختیار کر رہا ہے یا وہ اپنی پارٹی کو کسی بھی وقت چھوڑنے کے لیے شعور ی طور پر تیار ہے۔ کمیٹی ایک درست سیاسی پروگرام کی بنیاد پر اپنی صفوں میں مستقل طورپر شامل کرنے کی بجائے ان سیاسی کارکنان کو واپس ان کی متروک پارٹیوں کی جانب دھکیل رہی ہے۔ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے کے دوران بارہا محنت کش عوام نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ تحریک کی قیادت سے زیادہ آگے کھڑے ہیں اور قیادت یا تو ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہے یا اپنی اتھارٹی اور ڈسپلن کے ذریعے انہیں دوبارہ پیچھے لانے کی کوشش کرتی ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکمران طبقات عوامی دباؤ کی بنیاد پر تحریک کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان پر کسی مخصوص عرصے میں عملدرآمد کے جھوٹے وعدے کرتے آرہے ہیں۔ تحریک کے چند اہم مطالبات فروری 2024ء سے تسلیم شدہ ہیں جن میں اشرافیہ کی مراعات میں کمی بھی شامل ہے لیکن تا حال ان مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ گزشتہ برس دسمبر میں صدارتی آرڈیننس کے خاتمے کے خلاف ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران مذاکرات میں حکومت کو چھوٹ دیتے ہوئے کمیٹی نہ صرف مفت تعلیم، مفت علاج اور روزگار یا بیروزگاری الاؤنس جیسے عوامی مطالبات سے دستبردار ہو گئی تھی بلکہ ساتھ ہی چارٹر آف ڈیمانڈ میں کوئی نیا مطالبہ نہ شامل کرنے کا تحریری معاہدہ بھی کر چکی تھی۔ حکومت کی وعدہ خلافی کے بعد کمیٹی نے چارٹر آف ڈیمانڈ میں اضافہ کرتے ہوئے بے شمار نئے مطالبات شامل کر لیے ہیں لیکن ان مطالبات کو تسلیم کیے جانے کے باوجود عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں اور نہ ہی اس سوال پر کوئی زیادہ بحث و مباحثہ کیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو نہ صرف تحریک کی بڑھوتری کے عمومی مراحل کو واضح کرے گا بلکہ ساتھ ہی تحریک کے حقیقی کردار اور آنے والے سال میں ہونے والے عام انتخابات سمیت دیگر اہم پہلوؤں کی وضاحت کرنے میں معاونت کرے گا۔
تحریک کی قیادت کی ایک بہت بڑی کمزوری اس کا علاقائی تنگ نظر ہونا ہے۔ اس مسئلے پر بھی قیادت کا حکمرانوں کے ساتھ مصلحت کا رویہ نظر آتا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی جانب سے مشترکہ مسائل پر مشترکہ جدوجہد کی بارہا پیشکشوں کے باوجود جوائنٹ کمیٹی عملی طور پر اس جانب بڑھنے سے گریزاں ہے۔ اگرچہ تقاریر میں گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ جڑت کے حوالے سے کبھی کبھار بڑھک بازی تو کی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی کی مرکزی قیادت تین ماہ تک جیل میں بند رہی لیکن اس دوران ان پر جاری ریاستی جبر کی مذمت اور ان کی رہائی کے لیے ایک سرگرمی بھی منعقد نہیں کی گئی۔ذاتی حیثیت میں ایک دو ممبران اپنی تقاریر میں اس کی مذمت کرتے رہے مگر بطور جوائنٹ کمیٹی کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ درحقیقت پاکستان کے حکمران طبقات کی پالیسی یہی ہے کہ کسی ایک علاقے یا صوبے کے مخصوص مسائل پر ابھرنے والی تحریک کو پورے پاکستان میں پھیلنے اور دیگر علاقوں کے غریبوں اور محنت کشوں سے اس کی جڑت نہ بننے دی جائے۔ اس کے لیے وہ ہر علاقے کی قیادت کو تحریک کو اسی علاقے تک محدود رکھنے کے لیے بے پناہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ جوائنٹ کمیٹی بھی اس دباؤ کے آگے اس حد تک سر نگوں ہے کہ گلگت کی ایکشن کمیٹی کے چئیرمین کامریڈ احسان علی جب جیل سے رہا ہونے کے بعد راولاکوٹ کے دورے پر آئے تو جوائنٹ کمیٹی کے ممبران نے ان سے ملاقات کا وقت طے کرنے کے باوجود ملاقات نہیں کی۔ یہ تنگ نظری اور علاقائی محدودیت تحریک کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی خطرناک کمزوری ثابت ہو گی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے عوام اور نوجوانوں کی لڑائی جس نظام اور حکمران طبقے کے خلاف ہے اس کا خاتمہ کشمیر، گلگت اور پورے پاکستان کے محنت کش اور نوجوان آپس میں طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر ہی کر سکتے ہیں۔
درحقیقت حکومت کے ساتھ ساتھ تحریک بھی اپنی قیادت کی قدامت پرستانہ فکر کے باعث تیزی کے ساتھ ایک بند گلی میں داخل ہوتی جارہی ہے۔ کمیٹی کی سوچ و فکر کی قدامت پرستی کا اظہار نہ صرف اس صورت میں ہو رہا ہے کہ کمیٹی پوری تحریک کو اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے کچھ حقوق کے حصول کی تحریک سمجھتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کے ذہنوں میں یہ خیال بھی راسخ ہو چکا ہے کہ موجودہ نظام کو فوری طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی قدامت پرستی کے نتیجے میں کمیٹی ممبران ہر قسم کے سیاسی سوالات، تنقید اور نظام کی تبدیلی کی بحث کا آغاز کرنے والے سیاسی کارکنان سے سخت نالاں ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ایسے سیاسی عناصر کو تحریک سے کسی طرح کاٹ کرالگ کر دیا جائے۔ تحریک کی موجودہ قیادت اپنی قدامت پسندی کو جواز فراہم کرنے کے لیے سماج کے پسماندہ، غیر سیاسی حصوں اور بھولے بھالے عوام اور نوجوانوں کی حمایت پر زیادہ انحصار کرنے کی جانب راغب ہے۔ یہ درست ہے کہ چند قوم پرست پارٹیوں کی جانب سے سیاسی سوالات کے نام پر جس قسم کی مہم جوئیاں کی جارہی ہیں ان کے باعث تحریک کے اندرایک قسم کا انتشار بھی پھیلتا ہے لیکن اس قسم کی سرگرمیوں کو درحقیقت ایک جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی سنجیدہ اور ضروری سیاسی بحث کو روکنا مستقبل کے حوالے سے ایک جرم بنتا جا رہا ہے۔ تحریک کے اندر ابھی تک جمہوری بحث و مباحثے اور ہر سطح کی قیادت کے انتخاب کے لیے کوئی جمہوری طریقہ کار وضح نہیں کیا جا سکا۔ 29 ستمبر کی تیاریاں جس قدر بھرپور ہوتی جا رہی ہیں حکمران طبقات پر اس کا اتنا ہی زیادہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور حکمران یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح اس لاک ڈاؤن کو روکا جائے اور اس کے لیے وہ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا عمل بھی شروع کر سکتے ہیں۔ اگر مذاکرات کا عمل شروع ہوتا ہے تو یہ کمیٹی کی مذاکراتی ٹیم کی ہمت اور جرات پر منحصر ہوگا کہ وہ کس حد تک اس عوامی دباؤ اور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے تحریک کے مطالبات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ مذاکرات کے اس عمل کے دوران حکمران طبقات تحریک پر ایک وحشیانہ کریک ڈاؤن اور حالات کی خرابی کی دھمکی کو مذاکراتی ٹیم کوخوفزدہ کرنے کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ پہلے ہی پاکستان سے مسلح دستے اور اسلحہ منگوانے کے ساتھ متحرک کارکنان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کی فہرستیں مرتب کیے جانے کی خبریں عام پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ تمام اور اس کے ساتھ دیگر ہتھکنڈے درحقیقت محض قیادت کو خوفزدہ کرتے ہوئے کم سے کم پر مصالحت کے لیے راضی کرنے کی چالبازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کمیٹی کو بالعموم اور مذاکراتی ٹیم کو بالخصوص یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے اس قدر شاندار تحرک کی موجودگی میں حکمران طبقات جبر کا ہتھکنڈہ استعمال نہیں کر سکتے اور اگر انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ان کو عوامی غم و غصے اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس تمام تر صورتحال میں تحریک سے وابستہ تمام سنجیدہ نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ 29 ستمبر کے لاک ڈاؤن کی بھر پور تیاریوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان تمام مسائل اور کمزوریوں کو دور کرنے کے حوالے سے علاقائی کمیٹیوں کے اندر اپنے بحث و مباحثے کا بھی آغاز کریں۔ اسی بحث و مباحثے کے ذریعے نیچے سے باشعور و متحرک کارکنان پر مبنی ایک حقیقی تحریک تعمیر کی جاسکتی ہے۔ نیچے سے تحریک کو زیادہ سے زیادہ باشعور کرنے کے ذریعے ہی تحریک کو درست سمت میں آگے بڑھانے کے ساتھ قیادت کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور اس کی جگہ لینے والے سوشلسٹ نظام کو سمجھنے کے لیے بھی باقاعدہ مطالعے اور سرکلز کو منعقد کرنا ضروری ہے۔ انہی تمام سوالات پر بحث و مباحثے کے ذریعے ہی تحریک کے اندر سے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ممکن ہے جو اس نظام کے خاتمے اور ایک نئے نظام کی تعمیر کی جدوجہد میں محنت کش عوام اور نوجوانوں کو درست رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ ہم تحریک سے جڑے تمام سنجیدہ نوجوانوں، محنت کشوں اور سیاسی کارکنان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا حصہ بنتے ہوئے اس نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تبدیل کرتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج کی تعمیر میں اپنا کردار اد اکریں۔