تھائی لینڈ کے عوامی احتجاج: بادشاہت مردہ باد!

|تحریر: بین گلینیکی، ترجمہ: سرخا رام|

تھائی لینڈ کی احتجاجی تحریک، جس سے وہاں کی حکومت لرز رہی ہے، نے 19 اور 20 ستمبر کواپنی اب تک کی سب سے کاری ضرب لگائی۔

بینکاک میں اس تحریک کا اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تب دیکھنے کو ملا جب ہزاروں لوگوں نے گرینڈ پیلس (بادشاہ کا محل) کی طرف مارچ کیا۔ مظاہرہ ہفتے کے دن شروع ہوا اور اتوار کی رات مظاہرین نے پولیس کے منتشر ہو جانے کے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے ’سانم لوانگ‘ (شاہی محل کا میدان) میں ڈیرا ڈال دیا۔

اتوار کی صبح انہوں نے محل کے سامنے ایک تختی کو نصب کیا جس پر لکھا تھا: ”یہ ملک لوگوں کی ملکیت ہے، بادشاہ کی نہیں، جس طرح ہمیں دھوکا دیا جاتا رہا ہے۔“ مظاہرے کے رہنماؤں میں سے ایک نے پولیس کے بیچ میں سے گزرتے ہوئے شاہی محافظوں کے کمشنر کو بادشاہت میں بنیادی اصلاحات کے حوالے سے ایک خط تھما دیا۔ مظاہرین ”جاگیرداری مردہ باد، عوام زندہ باد“ کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک رہنما نے اپنی تقریر میں بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”میں عوام میں سے ایک ہوں جس کو تم اپنے پاؤں کے نیچے پڑی گرد سمجھتے ہو۔ میں تم کو بتانا چاہوں گا کہ ہمارے جیسوں کے بھی حقوق ہیں اور ہم بھی آواز اٹھانا جانتے ہیں۔“ یہ الفاظ عوام کے غصے اور غیظ و غضب کی عکاسی کرتے ہیں جو تھائی لینڈ کے محنت کشوں اور غریبوں میں پنپ رہا ہے۔

تھائی حکمران طبقہ دہائیوں سے مکمل آزادی کے ساتھ حکومت کرتا آرہا ہے جس کی سربراہی فوج اور بادشاہت نے کی ہے۔ مگر اب ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے اور عوام نے مزاحمت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عمل کے انقلابی نتائج کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سڑی ہوئی بادشاہت

حالیہ احتجاجوں کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کا آغاز جولائی میں ہو چکا تھا جو کرپشن سکینڈلز، ریاست کا مشہور لبرل ’فیوچر فارورڈ پارٹی‘ کو تحلیل کرنے اور کورونا وباء کی وجہ سے تھائی لینڈ میں بڑے پیمانے پر موجود عدم مساوات میں شدید اضافے کے خلاف ایک تحریک تھی۔ تحریک کا آغاز طلبہ کے احتجاجوں سے ہوا جس میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے، جمہوریت کے حامی کارکنوں کی ہراسگی کا خاتمہ کرنے اور نئے آئین کے بارے میں مطالبات شامل تھے۔ یہ اس شاہی خاندان کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا جس کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا تھا۔

تھائی لینڈ میں بادشاہت کی مخالفت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ 2015ء میں ایک شخص انٹرنیٹ پر بادشاہ کے کتے کی تصویریں طنزیہ انداز میں شئیر کر رہا تھا جس کو عدالتی نمائندوں نے 15 سال جیل کی دھمکیاں دیں۔ تھائی لینڈ میں دہائیوں سے بادشاہت ریاست کا اہم ستون ہے جو ’کو‘ اور کرپشن کے لیے جواز فراہم کرتی ہے۔ بادشاہت پر تنقید پورے نظام پر تنقید کرنے کے مترادف ہے اور ان کے اقتدار پر جاری حملے یقیناً بہت سنجیدہ عمل ہے۔

جب احتجاجی تحریک میں پہلی دفعہ بادشاہت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو تھائی حکمران طبقے نے اس کی جانب اپنی توجہ بہت سنجیدہ طریقے سے مبذول کرائی۔ اگست میں ’تامہ ساٹ یونیورسٹی‘ کے اندر مظاہرین نے بادشاہت میں اصلاحات کرنے کے لیے دس نکاتی پروگرام پیش کیا۔ مطالبات میں پارلیمنٹ کو بادشاہت کی بدسلوکیوں کے بارے میں تحقیق کرنے کی اجازت دینا، بادشاہت پر تنقید کو قانونی قرار دینا، بادشاہت کو کسی بارے میں بھی سیاسی آراء دینے سے روکنا، اور بادشاہت کے قومی بجٹ کا ملک کے معاشی حالات کے مطابق تعین کرنا شامل تھا۔ مظاہرین کے مطالبات میں یہ ایک بڑی جست تھی جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔

عوام کا بادشاہت کو تنقید کے کٹہرے میں گھسیٹنا تھائی حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم ’پریوت چن-اوچا‘ جو 2014ء میں ’کو‘ کے نتیجے میں اقتدار میں آیا تھا، اور جس کی رہی سہی طاقت بادشاہت کے بل بوتے پر قائم ہے، نے کہا کہ وہ مظاہرین کے بعض مطالبات پر غور و فکر کرے گا مگر انہیں بادشاہت کو قطعی طور پر زیر بحث نہیں لانا چاہیئے۔

اب تک تقریباً 28 رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن پر بغاوت جیسے مقدمات چلائے جائیں گے۔ حالیہ مظاہروں کے دوران 2200 سے زیادہ ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بادشاہت پر تنقید کرنے کے پاداش میں بند کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کے کچھ وکیلوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے بادشاہت کے اصلاحات پر مبنی مطالبات کے ہزاروں پمفلٹس کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا جس کو مظاہروں میں تقسیم کیا جانا تھا۔

وزیراعظم نے بار بار مظاہرین کو مخاطب کر کے شاہی محل میں داخل ہونے سے منع کیا ہے۔ اس نے ان لوگوں کے خلاف سخت اقدامات لینے اور قید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو بادشاہت پر تنقید کر رہے ہیں۔ اس نے متنبہہ کیا ہے کہ اگر احتجاجوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا تو تھائی لینڈ شعلوں میں گھر جائے گا۔

مگر یہ دھمکیاں مظاہرین پر کوئی بھی اثر نہیں کر رہیں۔ مظاہرین نے بادشاہت پر تنقید کو تحریک کا محور بنایا ہوا ہے جیسا کہ محل کے باہر حالیہ مظاہروں سے ظاہر ہوا۔ ایک اور مطالبہ ملک کے بڑے بینکوں میں شامل ’سیام کمرشل بینک‘ کے بائیکاٹ کا ہے جس میں بادشاہ کا سٹیک 23.4 فیصد ہے۔ مظاہرین اس بینک کو ”جاگیرداری کا خزانہ“ کہہ رہے ہیں اور لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اس سے اپنے پیسے نکال کر اکاؤنٹس کو ختم کر دیں۔

تھائی حکومت فالج کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ تحریک کا زور کم ہونے کا انتظار کریں اور پھر جبر کے ساتھ مظاہرین پر حملہ آور ہو جائیں۔ مگر وہ جتنا انتظار کریں گے، تحریک اتنی ہی شدید ہوتی جائی گی۔ شاہی خاندان کے خلاف غصے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر قدم کے ساتھ مظاہرین کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کے مطالبات مزید بیباک اور انقلابی ہوتے جا رہے ہیں۔ جاگیرداری کے خلاف لگنے والے نعروں کو آسانی سے بادشاہت کے خلاف نعروں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور بادشاہت کے بغیر فوجی بیوروکریسی والی حکومت کے لیے اپنے قدم جمانا مشکل ہو جائیں گے۔

حکومت کمزور ہو چکی ہے۔ ایک مضبوط دھکا بادشاہت، حکومت اور پورے نظام کو گرا سکتا ہے۔

حالیہ مظاہروں میں مظاہرین نے 14 اکتوبر کو عام ہڑتال کا اعلان کیا جو 1973ء کی طلبہ بغاوت کی برسی ہے۔ مظاہرین کا تناظر واضح طور پر آگے بڑھنے کا ہے اور وہ حکومت کی دھمکیوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ محنت کش طبقے کی اس تحریک میں شمولیت، جس کا آغاز طلبہ نے کیا تھا، حکومت کو گرانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔

کامیابی حاصل کرنے کے واسطے عام ہڑتال کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ہر شہر اور کام کی جگہوں پر عام ہڑتال کی ایکشن کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے۔ کام کی جگہوں پر لوگوں کو منظم طریقے سے متحرک کرنے اور محنت کشوں کی تنظیموں کو تحریک میں لانے کی باہمی کوشش کی ضرورت ہے۔ آنے والے تین ہفتوں میں مظاہرین کو یہ کام لازمی کرنے پڑیں گے۔

مگر اس کے لیے سب سے اہم چیز سیاسی طور پر تیار ہونا ہے۔ کن مطالبات کے گرد عام ہڑتال کو منظم کیا جائے؟ واضح اور بے باک مطالبات محنت کش طبقے کو حرکت میں لانے کا بہترین ہتھیار ہے۔

مظاہرین کی جانب سے پیش کیا گیا مطالبات کا دس نکاتی پروگرام بادشاہت کے پر کاٹ کر رکھ دے گا۔ یہ وہ اصلاحات ہیں جو تھائی عوام کے لیے آگے کی جانب ایک بڑا اور بے مثال قدم ثابت ہوگا۔ مگر بڑھتا ہوا غصہ پروگرام کی حدود کو پار کرتا جا رہا ہے اور ان مطالبات کے لیے حالات سازگار ہو رہے ہیں جو بادشاہت کا مکمل خاتمہ کرنے کا باعث بنیں گے۔ شاہی خاندان کی مثال پیسے ہڑپنے والے مفت خور کی ہے جس نے تھائی معاشرے کو کرپشن، تشدد اور جمہوریت پر حملوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔ ہمیں بادشاہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟

شروع سے ہی تحریک میں لازمی طور پر ”بادشاہت مردہ باد“ کے نعرے بلند ہونے چاہئیں اور آئین ساز اسمبلی کے قیام کی جانب بڑھنا چاہیئے، جس سے تھائی حکومت کی پورا عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ ان جمہوری مطالبات کے ساتھ تنخواہوں میں اضافے اور بہتر حالاتِ زندگی کے معاشی مطالبات بھی شامل کرنے چاہئیں۔

عام ہڑتال کے لیے ایک واضح اور بے باک قیادت کی ضرورت ہے۔ بادشاہت، حکومت اور تھائی لینڈ کے سرمایہ دار طبقے کے بیچ جڑت پر روشنی ڈالنی ہوگی اور اس کی وضاحت کرنی پڑی گی۔ درحقیقت جاگیرداری کا یہ یادگار سرمایہ دارانہ نظام کا مضبوط ترین ستون ہے۔ بادشاہت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں متواتر جدوجہد کو اس صورت کامیاب بنایا جا سکتا ہے جب یہ جدوجہد سارے سرمایہ دار طبقے کے خلاف جدوجہد بن جائے۔

قیادت کا سوال

مگر جیسے جیسے نوجوان، مزدور اور کسان بے باک اور پر اعتماد ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ان کے رہنماؤں کے قدم لڑکھڑاتے جا رہے ہیں۔ احتجاجی تحریک کے صف اول میں موجود رہنماؤں نے ابھی تک درکار قیادت مہیا نہیں کی ہے۔ ’پانوپونگ جاڈنوک‘ احتجاجی تحریک کے ان چار رہنماؤں میں شامل تھا جس نے بادشاہت کے مسئلہ کا سوال اٹھایا۔ حالیہ احتجاجوں میں اپنی تقریر کے دوران اس نے ہجوم کو مخاطب کر کے کہا: ”ہم بادشاہت کو صحیح مقام دلانے کے لیے لڑ رہے ہیں، اس کا خاتمہ کرنے کے لیے نہیں۔“ ایک دوسرے رہنما ’پاریت چیوارک‘ نے اعلان کیا: ”سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہم جیسے عام لوگ بادشاہت کو خط بھیج سکتے ہیں۔“ یہ اس تنگ نظری کی جانب اشارہ ہے جس سے یہ قائدین شاہی اقتدار کے سوال کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مذکورہ بیانات تحریک کے اندر بورژوا لبرلز کی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں ’فیوچر فارورڈ پارٹی‘ اور ’ریڈ شرٹس‘ کی قیادت میں دیکھنے کو ملا ہے، جنہوں نے حالیہ مظاہروں میں بھی شرکت کی، اور جو اپنے پارلیمانی اتحادیوں کے ساتھ بار بار حکومت کو گرانے میں ناکام رہے ہیں۔

تھائی معاشرے کے اندر موجود ان عناصر سے اور ان کے اثر و رسوخ سے ہمیں الگ ہونا پڑے گا۔ کسانوں اور شہر کے غریب طبقے سے متحد ہو کر مزدور طبقہ اس حکومت کو اپنے زور بازو پر گرانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ انہیں زندگی کی ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے بورژوا لبرلز، ”آئینی بادشاہت“ یا اور کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں۔

سالوں کی کرپشن، جبر اور استحصال نے ایک بہت بڑا سماجی دھماکہ تیار کیا ہے۔ لبرلز کے نقطۂ نظر کے بر خلاف عوام کو حکومت گرنے سے کوئی بھی نقصان نہیں پہنچے گا۔ موجودہ نظام ان کو کبھی نہ ختم ہونے والی تکلیف اور اذیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ سطح کے نیچے انقلاب پنپ رہا ہے۔ مزدور، نوجوان، کسان اور غرباء ان علامات کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جدوجہد کے میدان میں داخل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک دفعہ ایسا ہو گیا اور ساری عوام متحرک ہو گئی تو بادشاہ، ریاستی مشینری اور فوج میں سے کوئی بھی ان کو روکنے کی مجال نہیں کر سکے گا۔

Comments are closed.