|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|

محنت کشوں کے عظیم انقلاب، انقلاب روس1917 ء کے قائد لینن نے یوم مئی کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک پمفلٹ میں لکھا کہ:
”مزدور ساتھیو! یوم مئی قریب آ رہا ہے، وہ دن جب پوری دنیا کے مزدور اپنی طبقاتی شعور کی بیداری، اور ہر قسم کے جبر و استحصال کے خلاف اپنی یکجہتی کا جشن مناتے ہیں۔ یہ جدوجہد کروڑوں محنت کشوں کو بھوک، غربت اور ذلت سے آزاد کرانے کی جدوجہد ہے۔
اس عظیم لڑائی میں دو دنیائیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں: سرمائے کی دنیا اور محنت کی دنیا، استحصال اور غلامی کی دنیا اور بھائی چارے اور آزادی کی دنیا۔ ایک طرف چند امیر خون چوسنے والے کھڑے ہیں۔ انہوں نے کارخانے اور ملیں، اوزار اور مشینیں اپنے قبضے میں کر لی ہیں، لاکھوں ایکڑ زمین اور دولت کے انبار کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا ہے۔ انہوں نے حکومت اور فوج کو اپنا خادم بنا لیا ہے، جو ان کے جمع کردہ سرمائے کے وفادار محاظ ہیں۔
دوسری طرف کروڑوں محروم و مظلوم کھڑے ہیں۔ وہ ان دولت کے پجاریوں سے کام کرنے کی اجازت مانگنے پر مجبور ہیں۔ اپنی محنت سے وہ تمام دولت پیدا کرتے ہیں، لیکن ساری زندگی انہیں روٹی کے ایک نوالے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، کام کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے، سخت مشقت سے اپنی طاقت اور صحت کو ختم کرنا پڑتا ہے، اور دیہاتوں کی جھونپڑیوں یا بڑے شہروں کی تہہ خانوں اور بوسیدہ کمروں میں بھوک سے بلکنا پڑتا ہے۔“
ان الفاظ کے لکھے جانے کو سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آج کے حالات پر درست ثابت ہوتے ہیں۔ آج بھی ایک جانب مٹھی بھر سرمایہ داروں کی دولت اور عیاشیوں میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے اوردوسری طرف انسانی سماج کی اکثریت، اربوں محنت کشوں پر ہرآنے والا دن نئے مصائب و آلام لے کر آتا ہے۔
ایسے میں یوم مئی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے ایک امید کی کرن بن کر، اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے، اس ظالم نظام کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھنکنے کیلئے درکار ضروری تیاری اور صف آرائی کر نے کے ساتھ ساتھ نئے اور آزاد سماج کو تعمیر کرنے کا پیغام لے کر آتا ہے۔ ایسے سماج کی تعمیر کا پیغام کہ جس میں: امیر اور غریب کی تفریق کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے، تمام دکھوں سے نجات کی ضمانت ملتی ہے۔۔۔وہ ہے مزدور راج!

تاریخی طور پر تو یہ دن امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کش شہیدوں سے منسوب ہے،جو کہ 1886 ء میں مئی کے مہینے میں اپنے اوقات کار کو 8 گھنٹے مقرر کروانے کی خاطر سراپا احتجاج تھے، مگر یہ مطالبہ سرمایہ داروں کو گوارا کیسے ہو سکتا تھا! سرمایہ داروں اور ان کے پالتو ریاستی اداروں نے ان نہتے محنت کشوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس سے کئی شہید ہوئے، گرفتار کئے گئے اور پھانسیوں پر لٹکا دیے گئے۔ جس خون کو انہوں نے مقتل میں دبانے کی کوشش کی وہ آج دنیا بھر میں سرخ پرچموں اور انقلابی نعروں کی صورت میں محنت کشوں کی تحریکوں میں رواں دواں ہے۔
شکاگو میں ہونے والی اس قتل و غارت کی خبر سے عالمی سطح پر جاری محنت کشوں کی تحریک میں غم و غصے کی لہر پھوٹ اٹھی، چند سال بعداسی اثنا میں محنت کشوں کی عالمی تنظیم، دوسری انٹرنیشنل کی کانگریس میں یکم مئی کو ’عالمی یومِ مزدور‘ کے طور پر منانے کی منظوری دی گئی۔ تب سے ہر سال یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مزدور چاہے امریکہ کا ہو یا بھارت کا ہمارے اور اس کے دکھ سانجھے ہیں، انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے بقول؛ بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی!
یہ دن محنت کشوں کو طبقاتی اتحاداور یکجہتی کا درس دیتا ہے تاکہ عالمی سطح پر سرمایہ داری کو ختم کیاجائے۔لہٰذا جلسے، ہر احتجاج، ریلی، تقریر، سیمنار، سٹڈی سرکل، پروگرام اور بینر، فلیکس، پلے کارڈ و دعوت نامے کی زینت ایک نعرہ ہوتا ہے کہ، ’دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ‘ یہ نعرہ پہلی بار مزدوروں کے عالمی رہنماؤں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں درج کیا تھا۔ یہ کتابچہ ہر انقلابی محنت کش، طالبعلم، نوجوان اور کسان کو ضرور پڑھنا چاہئے۔
اس دن محنت کش اپنی جدوجہد کی تاریخ اور قربانیوں کو یاد کرتے ہیں، اپنے طبقے کی عظیم الشان روایات سے نیا ولولہ حاصل کرتے ہوئے آج جن مسائل کا سامنا ہے، ان کے خاتمے کی جدوجہد کو تیز کرنے کا عزم بھی کرتے ہیں۔ دشمن طبقے کے حملوں اور چالوں سے بچنے اور اپنی تحریک کا محاسبہ کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ دن مزدور تحریک میں ایک نئی روح پھونک گیا ہو، جس نے مزدور تحریک کو نیا جنم عنایت فرمایاہے۔ یہاں نئی روح سے مراد ہمارے طبقے کے نظریات ہیں، مزدور نظریات یعنی کہ کمیونزم کے انقلابی نظریات! اس موقع پراگر ان انقلابی نظریات کی ترویج یا احیا کی منصوبہ بندی نہ کی جائے اور نری نعرے بازی اور جلسے جلوس نکالے جائیں تو یہ دن کھوکھلا بن جاتا ہے۔ یہ کام تمام محنت کشوں بالخصوص یونین قیادتوں اورانقلابی تنظیموں کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
انقلابی نظریات جب محنت کشوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں توایک دیوہیکل مادی طاقت بن جاتے ہیں، اس کو شکست دینے کی خام خیالی میں دنیا کی ہر طاقت مات کھا جاتی ہے۔ یہی کچھ آج سے 108 قبل 1917ء میں روس میں ہوا تھا۔ محنت کشوں نے انہی نظریات پر انقلابی پارٹی بنائی تھی جسکا نام تھا ’بالشویک پارٹی‘ اور پھر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے زار ِروس کی طاقت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے مزدور ریاست قائم کی تھی۔ امیر اور غریب کی تقسیم کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، بینکوں، فیکٹریوں، زمین، معدنیات نیز تمام ذرائع پیداوار پر مزدوروں کاجمہوری کنٹرول قائم کرتے ہوئے تعلیم، علاج، گھر مفت فراہم کر دیے تھے۔ غربت، بے روزگاری اور جرائم کی بنیاد طبقاتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ یوم مئی ایسا انقلاب برپا کرنے اور اسے عالمی سطح پر پھیلانے کا سبق دیتا ہے۔

حکمرانوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان انقلابی نظریات سے ہے۔ ان نظریات کو مسخ کرنے یا پھر محنت کش طبقے کو اپنے نظریات سے بھی محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ یوم مئی کو مزدور دشمن سیاسی پارٹیاں اور حکمران طبقہ مزدوروں کا غمگسار بن کر مگر مچھ کے آنسو بہاتا ہے۔ این جی اوز اپنا دھندہ کرنے کو سرگرم ہو جاتی ہیں، میڈیا پر بھی تعفن زدہ سیاست پر بات ہورہی ہوتی ہے۔ کہیں پر صبر شکر کرنے، تو کہیں پر اصلاحات سے امیدیں لگانے اور کہیں پر محنت کش عوام کو جاہل اور بے وقوف ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہوتی ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت موجود تمام تر بحران کا ذمہ دار اشخاص کو یا پھر عوام کو بنایا جاتا ہے اورسرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اوراس کے خاتمے کے نظریات کو چھپایا جاتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس خطے کے مزدوروں کے خمیر میں انقلاب اور بغاوت نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں او ر کالجوں میں بھی جھوٹی تاریخ پڑھاکر پراگندگی پھیلائی جاتی ہے۔ بھلا انہیں کون سمجھائے کہ جھوٹ کی عمر پانی کے بلبلے جتنی ہوتی ہے۔ ہوا کا چھوٹا سا جھونکا بھی اسے تباہ کر دیتا ہے۔
آج ہم طوفانی عہد میں داخل ہوچکے ہیں، عالمی سطح پر مزدور طبقہ تحرک میں ہے۔ درجنوں ممالک میں مزدوروں نے ہڑتالوں کا آغاز کر دیا ہے۔ حال ہی میں سری لنکا، بنگلہ دیش، کینیا اور ایران کی سرکشیوں نے سرمایہ داروں کے اوسان خطا کر دیے۔ فلسطین میں جاری بربریت کے خلاف تحریک نے حکمرانوں کے تخت لرزا دیے ہیں۔ یہ محض آغاز کا بھی آغاز ہے۔پاکستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اس وقت بڑے صنعتی شہروں کے مضافات میں شاندار تحریکیں جاری ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، گلگت اور کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں نے حکمران طبقے اور ریاست کا گھیرا تنگ کرکے ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے تحت پبلک سیکٹر کے محنت کش بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ شعبہ تعلیم اور صحت کے ملازمین بھی نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، سرمایہ دارانہ کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف بھی تحریک انگڑائیاں لے رہی ہے۔ صنعتی محنت کشوں میں بھی شدید غم و غصہ موجود ہے المختصرنئے سویرے کی پہلی کرنیں اس سرزمین پر پہنچ چکی ہیں۔ لیکن یہاں پر سچے نظریات کی کھاد ڈال کر ان انقلابی تحریکوں کو پروان چڑھانا ہے اور انہیں درست سمت فراہم کرتے ہوئے حکمرانوں کیخلاف مزدور طبقے کی قیادت میں یکجا کرناہے۔ آنے والا وقت بہت بڑی بغاوت اور انقلاب کا ہے۔ اس کی تیاری ہمارا اولین فریضہ ہے۔
اسی خطے کے محنت کشوں نے برطانوی سامراج کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کیا تھا، یہیں کے محنت کشوں نے 1968-69ء کے انقلاب میں ایوب خان کی آمریت کا تختہ الٹا تھا۔ یہ نسل ان جدوجہدوں اور قربانیوں کی وارث ہے۔اب کی بار صرف تختہ الٹنے اور بھاگنے پر مجبور نہیں کیاجائے گا بلکہ ان کو شکست دے کر نیا سماج تعمیر کیا جائے گا، مزدور راج قائم کیا جائے گا۔ ہم شکاگو سے لے کر جلیانوالہ باغ تک کے شہیدوں اور بھگت سنگھ کے انقلابی سفر کا تسلسل ہیں۔ لیکن اس انقلاب کی کامیابی کا کوئی جادوئی طریقہ موجود نہیں، لہٰذا آج ہمیں تجدید عہد کرناہے اور کمیونزم کے انقلابی نظریات پر مبنی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پیغام کو ہر کوچے و کریے تک پہنچانا ہے، اپنی صفوں میں نئے انقلابی جنگجو شامل کرنے ہیں اور وسیع تر عوام کو نئی زندگی کی طرف بیدار کرنا ہے۔
ساتھیو۔۔۔محنت کشوں کی آزادی، سرمایہ داری کے جبر سے نجات،اور تمام عوام کی آزادی کی عظیم جدوجہد میں قوت کو مزید بڑھائیے! آئیے، دوگنی توانائی کے ساتھ اس فیصلہ کن معرکے کی تیاری کریں جو ہمارے سامنے ہے! یو م مئی 2025ء کا یہی پیغام ہے۔۔۔اب یہاں انقلاب آنے والا ہے!