مزدور تحریک اور انقلابی سیاست

ملکی و عالمی سطح پر جاری اقتصادی بحران نے اس سرمایہ دارانہ نظام کی مزدور دشمن پالیسیوں اور حکمرانوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آج وہ تمام مادی حالات موجود ہیں جو مزدور انقلاب کیلئے ضروری ہوتے ہیں اور اگر کسی ایک شے کی کمی ہے تو وہ ہے محنت کش طبقے کی انقلابی قیادت کی۔ پوری دنیا میں جہاں بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہی محنت کش طبقہ بھی تحریکوں اور انقلابات کی صورت میں اس نظام کیخلاف جدوجہد کر رہا ہے۔

سربیا میں مارچ کے مہینے میں 3 لاکھ افراد کے احتجاج سے لیکر بنگلہ دیش و سری لنکا کا انقلاب اس بات کی نوید ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کیلئے محنت کش طبقے کے انقلابی نظریات کو مزدوروں تک پہنچایا جائے اور ایک انقلابی قیادت کے فقدان کو ختم کیا جا ئے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اپنے ملک کے حکمران طبقے کی پالیسیوں کو جانتے ہوئے اس کیخلاف حکمت عملی تیار کریں۔

ترقی یافتہ ممالک سے لیکر پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے مزدوروں کے حالات دن بدن بدتر ہوتے جار ہے ہیں اور تنخواہوں میں کٹوتی، جبری برطرفیاں غرض کے وہ تمام حاصلات جو محنت کش طبقے نے اپنی جدوجہد سے حاصل کیں تھیں انہیں ختم کر دیا گیا ہے۔ ابھی پاکستان کے وزیر خزانہ نے بیان دیا ہے کہ ”آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں، جلد خوشخبری ملے گی“۔

اگر ہم صرف اس جملے کی جانچ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ یہ خوشخبری صرف حکمرانوں کے لیے ہے جو ان مذاکرات کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری، عوامی اداروں کی فروخت میں اضافہ کریں گے اور صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کو چھین کر محنت کشوں کی زندگیوں کو جہنم بنائیں گے۔

پاکستان اور پوری دنیا میں اس وقت جو معاشی نظام رائج ہے اس نظام کے اصولوں کے تحت محنت کش طبقے کا کام صرف اور صرف دولت پیدا کرنا ہے اور سرمایہ داروں کا کام اس دولت کو لوٹ کر عیاشی کرنا ہے۔ اس استحصالی عمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کیلئے عدالتیں، پارلیمنٹ، پولیس، افسر شاہی، فوج اور میڈیا قائم کیے گئے ہیں۔ اور اس نظام کے تحت آج پوری دنیا میں سرمایہ دار امیر سے امیر تر اور مزدوروں کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

آج پوری دنیا میں یہ معاشی نظام ایک شدید بحران کا شکار ہے اور اس بحران کے سبب مزدوروں پر جبر کو مزید تیز کر دیا گیا ہے۔ بحران کے باعث آج مزدوروں کی ایک طویل جدوجہد کے ذریعے چھینی گئی حاصلات ختم کر دی گئیں ہیں جس میں الاؤنسز، اوور ٹائم، 8 گھنٹے کام کرنے کے اوقات کار جیسی بنیادی نوعیت کی حاصلات شامل تھیں لیکن دوسری جانب بحران کے دوران بھی سرمایہ داروں کے منافعوں میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں مزدور تحریک گزشتہ چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے زوال پذیر ہے۔ جنرل ایوب کی آمریت کیخلاف ملک گیر سطح پر ایک مزدور تحریک ابھری تھی اور مارچ 1969ء میں ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے جنرل ایوب کی آمریت کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مزدوروں کو یونین سمیت اجرتوں کے اضافے اور دیگر حقوق حاصل ہوئے تھے لیکن سوشلسٹ انقلاب کامیاب نہ ہونے کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑا نہیں جا سکا تھا۔ اس نظام کے تحت مزدور تحریک کے دباؤ کے تحت وقتی طور پر سرمایہ دار طبقہ پسپا ہوا اور بھٹو دور میں مزدوروں نے اپنے لیے بہت سے حقوق چھینے۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد مزدوروں پر حملوں کا آغاز بھی کر دیا اور بہت سی صنعتوں پر مزدوروں کے قبضے کو چھڑوانے کے لیے گولیاں بھی چلائی گئیں۔

1968-69 کے طوفانی سالوں کے دوران پاکستان کے محنت کشوں کے ایک احتجاج کا منظر

لیکن اس کے باوجود مزدور تحریک کا پلڑا بھاری تھا اور سرمایہ دار طبقہ اور سامراجی طاقتیں صحت اور تعلیم پر بڑے اخراجات کرنے کے ساتھ ساتھ پنشن اور دیگر بنیادی لیبر اصلاحات کرنے پر مجبور ہوئیں۔ درجنوں نئے ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں، تعلیم اور صحت کی فراہمی عوام کے بڑے حصے تک پہنچنے لگی اور یونین سازی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔ لیکن بھٹو نے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے سوشلسٹ نظریات کا سودا کر لیا اور مزدوروں کے انقلاب سے غداری کی۔نیشنلائزیشن کا عمل نامکمل رہ گیا اور جہاں پر یہ عمل ہوا وہاں بھی مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کی بجائے بیوروکریٹ مسلط کر دیے گئے۔ اسی طرح زرعی اصلاحات سمیت دیگر انتخابی وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اس کے بعد ضیا الباطل کی آمریت میں مزدور وں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ کالونی ٹیکسٹال ملز ملتان میں مزدوروں پر گولی چلانے سے لے کر ڈالر جہاد تک مزدور دشمن پالیسیوں کا ایک تسلسل نظر آیا جو آج تک جاری ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ یونین سازی پر عملی طور پر پابندی ہے اور یہ عمل ملکی تاریخ کی نچلی ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ٹھیکیداری اور ڈیلی ویجز عام ہو چکی ہے جس میں مزدوروں کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لیے گئے ہیں۔ سرکاری اداروں میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کے حملے تقریباً چار دہائیوں سے جاری ہیں اور ان کی شدت اب انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے اور لاکھوں سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے اور پنشن کا نظام مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔

اس کیخلاف ایک احتجاجی تحریک ملک گیر سطح پر موجود بھی ہے اور بہت بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک فیصلہ کن کامیابی نہیں مل سکی اور حکمرانوں کے بد ترین حملے شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ایسے میں تمام تر صورتحال کا گہرائی میں جائزہ لیتے ہوئے واضح نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) پنجاب کی طرف سے فروری کے مہینے میں احتجاج کی کال دی گئی۔ یہ احتجاج، نجکاری پنشن اصلاحات، 17 A جیسے قانون اور دیگر مزدور دشمن پالیسیوں کیخلاف اور تنخواہوں میں اضافے کیلئے تھا۔ اس تحریک میں ایک دفعہ پھر سرکاری ملازمین نے امید سے بڑھ کے جدوجہد کی لیکن قیادت کی نااہلی اور مفاد پرستی کی وجہ سے اس تحریک کو اور مزدوروں کے مطالبات کو قیادت کی مصالحت پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اگیگا کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے کی کال بھی دی گئی لیکن اس احتجاج کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ مان لیا گیا ہے جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں تصدیق کی کہ آئندہ مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں یا پنشنز میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ اور کہا کہ الاؤنسز اور پے اسکیل کی تبدیلیاں ایجنڈے پر نہیں ہیں۔

جبکہ اسی اسمبلی میں وفاقی کابینہ ممبران نے اپنی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا اور اس اضافے کی بدولت وزیر مملکت اور مشیروں کی تنخواہ ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے بڑھ کر 5 لاکھ 19 ہزار روپے ہوگئی ہے۔ اس سب کے باوجود اگیگا کی قیادت کی طرف سے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ اپنانے پر ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ قیاد ت حکومت کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے یا پھر نظریاتی و سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ اس زوال پذیر صورتحال کا ایک بنیاد ی پہلو مزدور تحریک کی قیادت کا خود کو غیر سیاسی کہنا بھی ہے جبکہ ماضی میں مزدور قیادتیں کمیونسٹ نظریات سے لیس ہوتی تھیں اور مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست میں حصہ لینا ان کا اولین مقصد ہوتا تھا۔

سیاسی پارٹیوں کے عمومی زوال کے باعث سیاسی عمل کو ہی غلط کہہ دینا اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا درست نہیں۔ اسی طرح اس عمل کو سمجھے اور جانے بغیر مزدور تحریک کو کامیابی دلوانا کبھی بھی ممکن نہیں رہا اور ہمیں نظر آتا ہے کہ ماضی میں جب بھی بڑی کامیابیاں ملی ہیں ان میں باشعور اور سیاسی طور پر متحرک مزدور قیادت نے ہی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

مزدور اپنے حق کیلئے جب سڑکوں پرنکلتے ہیں اور اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اپنا جائز حق مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس نظام میں سرمایہ دار کے منافعوں کی بنیاد مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت ہی ہوتی ہے جو سرمایہ دار مزدوروں کی پیدا کردہ قدر زائد کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اپنے احتجاج کے ذریعے مزدور اپنی ہی پیدار کردہ قدر زائد میں اپنا حصہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مزدور کی پیدا کردہ دولت سرمایہ دار کے منافعوں کے ذریعے اس کے سرمائے میں اضافہ کرتی ہے یا پھر بینک، عالمی مالیاتی ادارے اور ریاستی اہلکار اس قدر زائد کو لوٹ کر لے جاتے ہیں جبکہ مزدوروں کو بدترین حالات زندگی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ مزدوروں کا اپنی اجرتوں میں اضافے کے لیے احتجاج اس لوٹ کیخلاف ہی ہوتا ہے۔

یہ احتجاج کرتے ہوئے وہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کی پالیسی کو بھی چیلنج کر رہے ہوتے ہیں جس کے تحت مہنگائی کی صورت میں ان کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب اساتذہ سکولوں کی نجکاری اور ڈاکٹرز ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو اس سے مراد جہاں ان کے روزگار کا تحفظ ہے وہاں وہ حکمرانوں کے اس سیاسی عمل کی بھی مزاحمت کر رہے ہوتے ہیں ہے جس کے تحت غریب عوام سے ان کی تعلیم و صحت اور ملازمین سے ان کا روزگار چھین کر ان ہسپتالوں اور سکولوں کو پرائیویٹ اداروں کو بیچا جا رہا ہوتاہے، تاکہ یہ لوگ صحت و تعلیم کو بیچ کر اپنے سرمائے میں اضافہ کر سکیں۔ اور یہ ساری قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے کی جاتی ہے اور اسے میڈیا میں سیاست کہا جاتا ہے اور حکمرانوں کی لڑائیوں کو سیاسی لڑائی کہا جاتا ہے جبکہ مزدور قیادتیں مسلسل اصرار کرتی رہتی ہیں کہ یہ غیر سیاسی لڑائی ہے جو سراسر غلط ہے اور احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچاتا ہے۔

دوسری جانب اس وقت کوئی بھی رائج الوقت پارٹی مزدور تحریک کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی مزدور طبقے کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔ سرمایہ داروں کے گماشتہ میڈیا اور دانشوروں کا بھی یہی مزدور دشمن کردار ہے جس کے مطابق ملک میں مزدور طبقے کا وجود ہی نہیں اور نہ ہی ان کے کسی تجزیے اور تناظر میں اس کا کوئی کردار ہے۔ درحقیقت ایک منصوبہ بندی کے ذریعے مزدوروں کے احتجاجوں کی خبروں کو ہی مین سٹریم میڈیا سے غائب کر دیا گیا ہے۔ یہی کچھ سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا ہے اور مزدور طبقے کا نام لینا گناہِ عظیم بنا دیا گیا ہے۔ قوم پرست قیادتوں کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ اس صورتحال کیخلاف مزدور قیادتوں نے مزاحمت کرنے کی بجائے اس کو من و عن قبول کر لیا ہے اور خود کو فخر سے غیر سیاسی کہلاتی ہیں جو کہ از خو د مزدور طبقے کے مفادات سے غداری ہے۔

اس وقت مزدور تحریک کو انقلابی سیاست سے روشناس کروانا اور اسے مزدور طبقے کے سیاسی نظریات سے لیس کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد مزدور طبقے کے استحصال پر ہی قائم ہے اور اس نظام کو اجرتی غلامی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔اس نظام کی بنیادوں کو سمجھنا اور اس وقت ملک میں جاری مالیاتی بحران، ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور سیاسی پارٹیوں کی زوال پذیری اور عوامی حمایت کا خاتمہ سمیت تمام مسائل کودرست انداز میں سمجھنے کے لیے انہیں مزدور طبقے کے مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مزدور تحریک کی سیاسی بنیادوں کو درست نظریات کے تحت استوار کرتے ہوئے ہی یہ تحریک آگے بڑھ سکتی ہے اور اہم کامیابیاں حاصل کر سکتی ہے۔

سرمایہ دار طبقہ اس ملک میں جاری تمام تر سیاست کو مکمل طور پر کنٹرول کر رہا ہے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ دار طبقے کے مختلف حصوں کے مفادات کی ہی ترجمانی کرتی ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی پارٹی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مزدور دشمن پالیسیوں کی مخالفت نہیں کرتی۔ فوجی آمریت یا نام نہاد جمہوریت سمیت ہر طرز حکومت میں یہی پالیسیاں جاری رہتی ہیں۔ عدالتیں، بیوروکریسی، جرنیل اور میڈیا سمیت ریاست کے تمام ادارے بھی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ ایسے میں مزدور طبقے کی نمائندہ سیاست کہیں موجود نہیں۔یہ سیاست خود بخود تخلیق نہیں ہو جائے گی اور نہ ہی رائج الوقت پارٹیوں سے رحم اورمدد کی اپیلوں سے کوئی افاقہ ہونے والا ہے۔ان پارٹیوں کے خمیر میں ہی عوام دشمنی موجود ہے اور وہ اس ظالمانہ نظام کی ہی رکھوالی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب مزدور تحریک اپنے غیر سیاسی کردارسے نجات حاصل کرے اور ملک گیر سطح پر انقلابی سیاست کا آغاز کرے۔ اس کا آغاز حکمرانوں کے حملے کے جواب میں ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال سے کیا جا سکتا ہے۔

آج محنت کشوں کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا واحد طریقہ ایک ملک گیر عام ہڑتال ہے۔ عام ہڑتال کی اگر مختصراً وضاحت کی جائے تو اس ملک میں کے تمام مزدوروں اگر ایک دن کام نہ کریں تو اس ملک کا کوئی بھی کام نہیں ہو گا کیونکہ سامان کی ترسیل سے لیکر بجلی اور ٹیلی کمیونیکیشن سے لیکر تجارت کی نقل وحرکت اور فیکٹریوں ملوں میں بننے والی تمام اشیائے ضروریات کو پیدا کرنے اور انہیں چلانے والا یہاں کا محنت کش طبقہ ہے۔

ایک عام ہڑتال کسی بھی انقلاب کی شروعات ہوسکتی ہے یا پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ مزدور دشمنوں کیخلاف اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ یہ ملک گیر سطح پر ایک نئے سیاسی عمل کا آغاز بھی ہے جس میں طبقاتی جنگ کی از سرِنو صف بندی ہوتی ہے اور مزدور طبقے کے مفادات کے حق یا مخالفت میں واضح طور پر سیاسی عمل کا آغاز ہوتا ہے اور سماج کے تمام تر حقیقی تضادات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان تضادات کو صرف مزدور طبقے کا ذرائع پیداوار پر جمہوری کنٹرول حاصل کر کے ہی حل کیا جا سکتا ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس عام ہڑتال کی تیاری کے لیے انقلابی نظریات اور سیاست پر مزدوروں کیسٹڈی سرکلز کا ابھی سے آغاز کرنا ہوگا اور اس ملک کی مزدور تحریک کے تجربات سے سیکھنے کے علاوہ دنیا بھر میں جاری سیاسی عمل، انقلابی تحریکوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کو کمیونسٹ نقطہ نظر سے سمجھنا ہو گا۔ اسی عمل سے ہم وہ مضبوط بنیادیں استوار کر سکتے ہیں جن پر مزدور طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی انقلابی پارٹی تعمیر کی جا سکے۔

ایک عام ہڑتال کے ذریعے اپنے مطالبات تو منوائے جا سکتے ہیں لیکن یہ حاصلات دیرپا نہیں ہوتے جونہی مزدوروں کی تحریک پسپائی کا شکار ہوتی ہے تو سرمایہ دارانہ ریاست اپنے اداروں اور قانون کے تحت وہ حاصلات واپس چھیننے کی طرف آتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مزدور اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی ریاست اپنا قانون اور اپنے ادارے بنائیں جو ایک انقلاب کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ مزدور ریاست میں جسے سب سے پہلے ختم کیا جائے گا وہ ہے نجی ملکیت اور اسی ملکیت کے نظام کے تحت ہی سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس نظام کا قانون اور اس کے اداروں کا وجود ہے۔ اسی نجی ملکیت کے نظام میں ہمیں طبقاتی تفریق بڑھتی نظر آتی ہے جہاں ایک طرف پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن دوسری جانب غربت اور بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔

آج ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے جو ان بنیادی حقائق کی نہ صرف نشاندہی کرے بلکہ اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد بھی کرے۔ اس کے پاس انقلاب برپا کرنے کا پروگرام ہو جس کے بعدموجودہ ریاست کو اکھاڑ کر مزدور ریاست تعمیر کی جائے اور اس نجی ملکیت کے نظام کو ختم کر کے اجتماعی ملکیت کا نظام نافذ کیا جائے جس میں فیکٹریاں، ملیں، بینک، جاگیریں، معدنی وسائل اور تمام عوامی اداروں کو اجتماعی کنڑول میں لیا جائے اور ان میں پیدا ہونے والی ہر شے منافع کیلئے نہیں بلکہ انسانی ضرورت کی تکمیل کیلئے پیدا کی جائے۔اسی نظام میں ہی ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور ہر شخص کو مفت علاج اور تعلیم فراہم کیا جائے گا۔

ایسا ہی اقدام روس کے مزدوروں نے 1917ء میں کیا تھا۔ جب مزدوروں نے کسانوں کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کیا اور وہاں کی زار شاہی کی ریاست کا خاتمہ کیا تھا اور تمام ذرائع پیدا وار کو اپنے کنڑول میں لیتے ہوئے مزدور ریاست قائم کی تھی۔ لیکن آج دنیا بھر میں ابھرنے والی انقلابی تحریکیں سرمایہ دارانہ ریاست کو ختم نہیں کر پارہیں اورسامراجی طاقتیں زوال پذیری کے باوجود اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہیں تو اس کی بڑی وجہ مزدور تحریک میں کمیونسٹ نظریات کی عدم موجودگی اور انقلابی پارٹی کا فقدان ہے۔

اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کے کمیونسٹوں نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں انقلابی نظریات کی ترویج کا عمل جاری ہے اور اس پارٹی کی برانچیں ملک کے تمام اہم علاقوں میں موجود ہے۔ اس پارٹی کے کارکنان مزدوروں کے تمام احتجاجوں میں نہ صرف شریک ہیں اور مزدوروں کے مطالبات کی حمایت کررہے ہیں بلکہ ان تک انقلابی نظریات اور تحریک کو آگے بڑھانے کا لائحہ عمل اور طریقہ کار بھی لے کر جا رہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں جاری دیگر عوامی تحریکوں میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں مزدور تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کمیونسٹ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوری حقوق کے لیے جاری تمام تحریکوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ان میں مزدور طبقہ کلیدی کردار ادا کرے۔ مظلوم قومیتوں پر جاری بد ترین ریاستی جبر، خواتین کے حقوق کی پامالی اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیوں سمیت حکمران طبقے کے تمام حملوں کا جواب مزدور طبقے کا سیاسی عمل ہی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے جہاں ان تحریکوں میں موجود کارکنان کو مزدور طبقے سے جڑت بنانے کی ضرورت ہے وہاں ملک بھر کے مزدوروں کو بھی اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی تیاری کا آغاز کرنا ہے۔ اس لائحہ عمل کے تحت انقلابی کمیونسٹ پارٹی ملک بھر میں وہ پلیٹ فارم تعمیر کررہی ہے جہاں اس نظریے اور لائحہ عمل پر کھل کر بحث ہو سکے اور ضروری نتائج اخذ کرتے ہوئے تمام مزاحمتی تحریکوں کی جڑت اور فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھا جا سکے۔

ہم تمام محنت کشوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس پارٹی میں شامل ہوں، انقلابی بنیادوں پر منظم ہوں اور اپنا تاریخی کردار کرتے ہوئے ظلم اور نا انصافی پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کریں۔

Comments are closed.