مائیکروفنانس: غریبوں کو لوٹنے کے لیے سود خور سرمایہ داروں کا شکنجہ

|تحریر: عدیل زیدی|

آج کل مائیکرو فنانسنگ کا خوب چرچا ہے۔ حال ہی میں اخوت نامی غالباً ملک کے سب سے بڑے مائیکرو فنانسنگ ادارے کے سربراہ کو خدمات کے اعتراف میں ایک اہم ایشین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ حکومت بھی غریب عوام کو سستے قرضوں کی فراہمی کے لیے ان مائیکرو فنانس اداروں اور بینکوں کی خدمات حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ غریب اور ضرورت مند افراد کی مالی معاونت اور غربت کا خاتمہ، مائیکرو فنانسنگ کا کاروبار کرنے والے کم وبیش تمام اداروں کا یہی مقصد ہے۔ بظاہر خوش کن لگنے والا یہ کام حقیقت میں انتہائی بھیانک اور خون آشام ہے جن کا ہدف ہی سماج کی غریب اور پسماندہ ترین پرتوں کو لوٹنا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا انتہائی غلیظ چہرہ ہمارے سامنے عیاں کرتا ہے۔

سود خوری کو نئے ناموں سے متعارف کروانے والے یہ نئے دور کے بنیے سماج کی سب سے غریب ترین پرتوں کا خون نچوڑ رہے ہیں اور ان کے چنگل میں اس وقت پورے ملک کے لاکھوں افراد پھنس چکے ہیں۔ یہاں اس سودی کاروبار کو مذہب کے تقدس میں بھی لپیٹ دیا جاتا ہے اور فراڈ، جھوٹ، ننگی غنڈہ گردی، تشدد، پولیس کے جبر اور عدالتوں کی بد عنوانی کے بلبوتے پر غریبوں کی پوری بستیوں کو لوٹ کر ان بینکوں اور این جی اوز کے مالکان اپنی تجوریاں بھرتے چلے جاتے ہیں۔ چند ہزار یا چند لاکھ روپوں کے قرضوں کے عوض محنت کشوں اور غریبوں کی زندگیاں گروی رکھ لی جاتی ہیں۔ ایک طرف اس ملک کے حکمران طبقات اپنی پالیسیوں کے ذریعے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں جس کے باعث درمیانے طبقے کے افراد بھی انتہائی ضروری علاج اور دیگر بنیادی سہولیات حاصل نہیں کر پاتے اور دوسری جانب محنت کش عوام کا جسم نوچنے کے لیے مائیکرو فنانس کے گِدھ سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ انتہائی ضروری تعلیم اور علاج کا خرچہ بھی اب لاکھوں میں پہنچ چکا ہے جس کے لیے یہ سود خور انتہائی بلند شرح سود اور سخت ترین شرائط پر قرضہ دیتے ہیں جبکہ انتہائی بنیادی سطح کا کاروبار شروع کرنے کی غرض سے بیس یا تیس ہزار روپے بھی قرض کی صورت میں دیے جاتے ہیں۔ غربت اتنی زیادہ بڑھتی جا رہی ہے کہ یہ پیسے اکثر کسی ایمرجنسی سے نبٹنے میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں کیونکہ محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد ایک دن یا ایک ہفتے بعد کا سوچنے کی بجائے زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کے لیے اگلے وقت کے کھانے کے بارے میں زیادہ سوچتی ہے اور اس کے لیے اپنے اعضا تک بیچنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ لیکن مائیکرو فنانس والے ان محنت کشوں کو سودی قرضے کے چنگل میں پھنسانے کے لیے اپنا جال بچھا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔

یہ درحقیقت اس سرمایہ د ارانہ نظام کا کردار ہے جس میں امیر شخص امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے اور غریب پہلے سے بھی غریب تر۔ اس نظام میں رہتے ہوئے صرف جرم، فراڈ اور ہیرا پھیری سے ہی دولت کمائی جا سکتی ہے اور ہر امیر آدمی کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا جرم موجود ہوتا ہے۔ خواہ اربوں روپے کے قرضے معاف کروانے ہوں یا حکومت سے سبسڈیاں اور ٹیکس چوری ہو، محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی کرنی ہو یا ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہو، بڑے کاروبار ہر قسم کے دھوکے، فراڈ اور بد ترین استحصال کے ذریعے ہی پھیلتے ہیں۔ اس نظام میں آج تک کوئی بھی محنت کر کے غربت سے نکل کر امارت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکا گوکہ اس طرح کی جھوٹی کہانیاں اکثر سنائی جاتی ہیں جبکہ ہر امیر شخص کی حقیقت سامنے آئے تو اس کا جرائم اور محنت کشوں کے خون اور پسینے سے لتھڑا چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ حکمران طبقے کی بنائی گئی پالیسیاں اس سماج میں رہنے والوں کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ کسی بھی ملکی معیشت کا بحران ہزاروں چھوٹے کاروباروں کو برباد کر دیتا ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں تبدیلی ہو یا مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے والے اقدامات، ٹیکسوں میں اضافہ ہو یا سامراجی پالیسیوں کا نفاذ، صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیاں ہوں یا بجلی، گیس اور دوسری بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ، معاشی اور سماجی زندگی کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے فیصلے حکمرانوں کے ایوانوں میں ہوتے ہیں لیکن ان کے براہ راست اثرات محنت کشوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے میں انفرادی سطح پر بھاری شرحِ سود پر قرضہ لے کرایک چھوٹے کاروبار کے ذریعے غربت ختم کرنے کا نظریہ اپنی بنیاد میں ہی ناقص ہے۔ درحقیقت اس نظام میں حکومت کی تمام تر پالیسیاں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے لیے ہی بنتی ہیں جو محنت کشوں کے مفادات سے براہ راست متصادم ہیں۔ اس لیے یہ توقع کرنا کہ حکومتی پالیسیوں کے ذریعے عوام کی زندگیاں بہتر ہوں گی، چھوٹے کاروبار ترقی کریں گے یا غربت ختم ہو جائے گی صرف ایک دیوانے کا ہی خواب ہو سکتا ہے۔ مہنگی ترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ کاروبار پہلے ختم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں مائیکرو فنانس کے ذریعے غربت ختم نہیں ہو سکتی اور یہ صرف غریبوں کو سود کی دلدل میں دھکیل کر سرمایہ داروں کے لیے مال بٹورنے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام جب ایک بحران میں داخل ہوتا ہے تو اس بحران سے نکلنے کے تمام تر طریقے ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اس بات کو اس طرح سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے آغاز میں دی ہوئی تیز ترین ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی سماج میں بے تحاشہ مسائل کو بھی جنم دیتا رہا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کے سرمایہ دارانہ طریقوں کے نتیجے میں ہمیشہ مزید مسائل ہی پیدا ہوئے ہیں لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں رہا ہے۔ ان مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ انسانی سماج میں سرمایہ داری سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی غربت اور معاشی تفریق ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی ایک فیصد آبادی کے پاس دنیا کی پچاس فیصد آبادی کی کُل دولت سے بھی زیادہ دولت موجود ہے۔

معاشی تفریق کے اس مسئلے کو سرمایہ داری نے اپنی ابتدا سے ہی پیدا کرنا شروع کر دیا تھا اور جب یہ تفریق ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آنے لگی، جس کا اظہار انیسویں صدی کے اواخر میں پیرس کمیون، شکاگو سمیت پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی کامیاب سرکشیوں کی صورت میں ہوا تو سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ دانشوروں نے ان تحریکوں کو زائل کرنے اور محنت کش طبقے کے ذہنوں میں حکمرانوں کی حاکمیت کو قائم رکھنے کیلئے آج تک دو بنیادی طریقہ کار پیش کیے۔ جن میں ایک طریقہ خیراتی اداروں کے ذریعے غریبوں کی مالی معاونت اور دوسرا طریقہ غریبوں کو قرضے دے کر کاروباری دنیا کا حصہ بنانا ہے۔ ان دونوں طریقوں کی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھتے ہوئے غربت کو ختم کیا جائے گوکہ اکثر ایسا صرف دکھاوے کے لیے ہی کیا جاتا ہے جبکہ حتمی مقصد ان طریقوں سے بھی مال بٹورنا ہی ہوتا ہے۔ یہ دونوں طریقہ کار اپنی بنیاد میں ایک ہونے کی وجہ سے عملی طور پر بھی جڑے ہوئے ہیں، جس کو سمجھنے کے لئے ان دونوں عوامل کو تاریخی پس منظر میں تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں خیراتی یا فلاحی اداروں کو فروغ دینے کی تحریک شروع کی گئی جس کا آغاز امریکہ اور پھر برطانیہ سے کیا گیا۔ اس تحریک کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ غربت کی وجہ غریبوں میں موجود اخلاقی نقائص ہیں جن کو دور کر کے غربت کو ختم کیا جا سکتا ہے اور یہ کام مختلف خیراتی اداروں کے باہمی تعاون سے کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں پہلی خیراتی اداروں کی سوسائٹیاں 1870ء کی دہائی کے اواخر میں بنیں اور 1890ء کی دہائی تک امریکہ کے سو سے زائد شہروں میں یہ سوسائٹیاں بن چکی تھیں۔ لینڈ آ ہینڈ (lend-a-hand) اور چیریٹی ریویو (Charity Review) جیسے جریدوں کے ذریعے ان سوسائٹیوں کو امریکہ میں قومی سطح پر منظم کیا گیا اور ان خیراتی اداروں کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا گیا۔ اس تحریک میں موجود ہراول رضاکار امیر یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن میں مذہبی خواتین اور پادری سر فہرست تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ غربت کا خاتمہ اس صورت ہو سکتا ہے اگر غریبوں کا امیروں اور متوسط طبقے پر انحصار رہے، یعنی امیر طبقے کی موجوگی متاثر نہ ہو۔ ان تنظیموں کے لیڈران غریبوں کی اخلاقیات پر مسلسل نظر رکھنے کے قائل تھے اور یہ کام ان خیراتی سوسائٹیوں کا سمجھا جاتا تھا۔ جس کیلئے باقاعدہ تربیت یافتہ سٹاف تیار کیا گیا جو بعد میں آج کے تنخواہ دار سوشل ورکرز میں تبدیل ہو گیا ہے اوریہ سوسائٹیاں آج ”سول سوسائٹی“ کے غلاف میں موجود ہیں۔ یہ وہ بنیاد تھی جس پر چلتے ہوئے مستقبل میں این جی اوز یا نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز کا عالمی نیٹ ورک تعمیر ہوا، جس کی بنیاد آج بھی یہی ہے کہ غربت کی وجہ غریبوں کے اخلاقی اور آفاقی مسائل ہیں نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام، اور اگر غریبوں کے یہ مسائل حل کر لیے جائیں تو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا کے امراء نے اس طریقہ کار کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دنیا کے امیر ترین افراد بڑھ چڑھ کر ان NGOs کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس دوران پچھلے ڈیڑھ سو سال میں سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم کی خلیج برھتی ہی چلی گئی جبکہ دوسری طرف شدید غربت کو فروغ دیتے اور تیزی سے امیر ہوتے سرمایہ داروں نے خیراتی اداروں کے ذریعے فرشتوں کا روپ دھارے رکھا۔

سود خوری کو نئے ناموں سے متعارف کروانے والے یہ نئے دور کے بنیے سماج کی سب سے غریب ترین پرتوں کا خون نچوڑ رہے ہیں اور ان کے چنگل میں اس وقت پورے ملک کے لاکھوں افراد پھنس چکے ہیں۔ یہاں اس سودی کاروبار کو مذہب کے تقدس میں بھی لپیٹ دیا جاتا ہے اور فراڈ، جھوٹ، ننگی غنڈہ گردی، تشدد، پولیس کے جبر اور عدالتوں کی بد عنوانی کے بلبوتے پر غریبوں کی پوری بستیوں کو لوٹ کر ان بینکوں اور این جی اوز کے مالکان اپنی تجوریاں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

اب مائیکرو فنانس کی پیش رفت کو بھی دیکھا جائے تو اس کی ابتدا بھی انیسویں صدی کے وسط کے بعد کے عرصہ میں چھوٹے پیمانے پر، خاص کر زرعی قرضے دینے کی حد تک، جرمنی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ طریقہ کار سرمایہ دارانہ نظام کی کیفیت کے ساتھ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا، لیکن اس مائیکرو فنانس کے سیکٹر کو 1970ء کی دہائی میں تب مہمیز بخشی گئی جب بنگلہ دیش میں بغیر کسی گارنٹی کے انتہائی اونچی شرح سود پر غریبوں کو قرضے دیے گئے اور بڑی تعداد کو جھانسے دے کر اس نظام میں شامل کیا گیا اور بغیر گارنٹی قرضوں کی واپسی کے لئے ریکوری آفیسرز (Recovery Officers) کو تعینات کیا گیا، یعنی غنڈا گردی کے ذریعے زبردستی قرضوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے جس میں پولیس سمیت تمام ریاستی ادارے واضح طور پر سرمایہ دار کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ اس پورے نظام کو بنگلہ دیش اور پھر عالمی سطح پر فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار عالمی این جی اوز کے نیٹ ورک کا رہا، جو کہ پہلے سے پوری دنیا میں موجود تھا۔ 1970ء کی دہائی ایک ایسا عہد تھا جب سرمایہ دارانہ نظام کا 50ء اور 60ء کی دہائیوں میں اپنا انتہائی عروج دیکھنے کے بعد 68ء اور 69ء میں پوری دنیا کو محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں نے ہلا کر رکھ دیا تھا اور انقلاب کے خطرات حکمران طبقے پر منڈلا رہے تھے۔ لیکن محنت کش طبقے کی قیادت کی غداریوں کے نتیجے میں یہ انقلابات کامیاب نہ ہو سکے اور پھر سرمایہ دارانہ نظام کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع ملا۔

مائیکرو فنانس کی بنیاد بھی خیراتی اداروں کے ہی بنیادی نظریہ پر ہے کہ غریب افراد اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لئے امراء پر توکل کریں لیکن خیراتی اداروں کے برعکس یہ اخلاقی بنیادوں کے ساتھ ساتھ معاشی بنیادوں پر بھی استوار ہے یعنی خیراتی ادارے پیسہ دے کر واپس نہیں مانگتے لیکن مائیکروفنانس کے ادارے 30 فیصد سے زیادہ کے شرح سود پر قرضوں کو واپس طلب بھی کرتے ہیں، جسے عام طور پر ’کرائے‘ کا نام دے کر بلا سود قرضہ بنا کر جھوٹ بولا جاتا ہے، جو کہ اسے خیراتی اداروں کے کردار سے زیادہ خوف ناک بنا دیتا ہے۔ اخلاقی بنیادیں تو بظاہر بہت اچھی نظر آتی ہیں جن میں ’اپنے پیروں پر کھڑا ہونا‘ اور ’معاشی آزادی‘ کی بات کی جاتی ہے لیکن حقیقت میں کوئی کاروبار چلانے کے لئے جو عوامل درکار ہوتے ہیں، ہر کاروبار شروع کرنے والے کو میسر نہیں آتے۔ سب سے پہلے یہ قرضے غریب افراد کو دیے جا رہے ہوتے ہیں جن کو کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں ہوتالیکن ناکامی کی صورت میں بھی قرضہ سود سمیت پورا واپس کرنا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کاروبار میں اتار چڑھاؤ ایک معمول ہے لیکن ان قرضوں پر موجود سود میں تبدیلی نہیں ہوتی، جو بدستور دینا پڑتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ قرضے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان سے شروع ہونے والا کاروبار جتنا مرضی منافع بخش ہو، اس سے ہونے والی آمدنی سے ایک خاندان کا گزارہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ قرضے نئے کلائنٹ کو عموماً پچاس ہزار سے شروع ہو کر چند لاکھ روپے تک دیے جاتے ہیں۔ کاروبار کو سمجھنے والا شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ایک کاروبار میں جتنا پیسہ لگایا جاتا ہے اس پورے پیسے پر منافع فوراً نہیں آتا بلکہ اگر کاروبار بہت اچھا بھی چل رہا ہو تب بھی سرمایہ کاری کی گئی رقم منافع کی صورت میں وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ وصول ہوتی ہے جبکہ یہ قرضے بہت کم مدتی ہوتے ہیں۔ سال سے دو سال کے دورانیے کے یہ قرضے ماہانہ اقساط پر لازمی واپس کرنے ہوتے ہیں ورنہ غنڈوں اور ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے مقروض شخص کی کھال بھی کھینچ لی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی مقروض شخص رقم ادا کرنے میں مشکلات کا شکار ہو جائے تو ان کمپنیوں نے پانچ سے بیس ہزار روپے تک کے چھوٹے قرضے بھی رکھے ہوئے ہیں جن کو اس صورت حال میں لیا جا سکتا ہے، یعنی ْقرضہ لینے والوں کی اکثریت زندگی بھر قرضے میں ڈوبی رہے اور کما کما کر ان مائیکرو فنانس کمپنیوں کے سرمائے کو تقویت دیتی رہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ نئے دور کے مہاجن ہیں جو مٹھی بھر گندم کے عوض آہستہ آہستہ پورے کھیت پر قابض ہو جاتے ہیں۔ چوتھی توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ نکتہ ہر معیشت دان اچھی طرح سمجھتاہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد مسابقت ہے، یعنی منڈی میں موجود تمام کمپنیاں آپس میں مسابقت میں ہوتی ہیں اور بڑی کمپنیوں کا چھوٹی کمپنیوں کو منڈی سے باہر کر دینا کوئی حیران کن عمل نہیں ہے۔ اور مائیکروفنانس کے ذریعے بننے والے کاروبار انتہائی چھوٹے سرمائے پر چلتے ہوئے بہت آرام سے بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں منڈی سے باہرہو جاتے ہیں، لیکن ان کو اپنے قرضے واپس کرنا مجبوری ہوتے ہیں۔

مائیکرو فنانس کے کاروبار میں اتنا منافع موجود ہونے کی وجہ سے تمام خیراتی ادارے بھی اسی کاروبار سے منسلک ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں پہلا مائیکرو فنانس بینک 2002ء میں پرنس کریم آغا خان نے شروع کیا تھا جس کی اپنی بیشتر این جی اوز پہلے سے موجود تھیں۔ اس بینک کو پچاس کروڑ روپے کے سرمائے سے شروع کیا گیا تھا اور پچھلے سال کے وسط تک پاکستان میں مائیکرو فنانس کے کاروبار میں تین سو ارب روپے سے زائد کا ایسا سرمایہ موجود تھا جس کے اعداد و شمار میسر ہیں جبکہ اصل زر کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس کاروبار سے کتنا منافع اکٹھاکیا جا رہا ہے اور اس میں سرمایہ بڑھتا جا رہاہے۔ پہلے مائیکرو فنانس بینک کے بعد سے غریبوں کو لوٹنے کا دھندا کرنے والے بے شمار بینک اور این جی اوز کھمبیوں کی طرح اُگ آئی ہیں جو کہ دونوں ہاتھوں سے سماج کی پسماندہ ترین پرتوں کو لوٹ رہے ہیں۔ مائیکرو فنانس بینکوں میں فنکا، اپنابینک، خوشحالی بینک، ایڈوانس وغیرہ کے ساتھ ساتھ کم و بیش تمام بڑی ٹیلی کمپنیوں نے بھی اپنے مائیکرو فنانس بینک کھول رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ مائیکرو فنانسنگ این جی اوز کی تو بہتات ہے جن میں اخوت، کشف فاؤنڈیشن، سی ایس سی، آگاہی، نعمت ٹرسٹ، اسلامک ریلیف، ساتھ فاؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں جو کہ تعلیمی قرضوں سے لے کر سلائی مشین، موٹر سائیکل، آٹو رکشہ وغیرہ کے لیے قرض دیتے ہیں۔ اب تو حکومتی سطح پر بھی غریب عوام کو ’اوپر اٹھانے‘ کے لیے ان اداروں کے توسط سے قرضے دینے کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ بظاہر خوش کن دکھنے والے اس کاروبار کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ یہ ادارے سماج کی غریب ترین اور پسماندہ ترین پرتوں کو لوٹتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ ان اداروں کے ایجنٹ پہلے خوشنما خواب دکھا کر غریب عوام کو قرضے لینے پر مجبو رکرتے ہیں۔ عمومی طور پر کسی ایک اکیلے فرد کا قرضہ لینا مشکل ہوتا ہے اور ایک گروپ کی شکل میں قرضے فراہم کیے جاتے ہیں جس کو نیٹ ورک کا نام دیا جاتا ہے۔ پورے کے پورے خاندان یا گلی محلے کی سطح پر نیٹ ورک تشکیل دیا جاتا ہے۔ قرض کی وصولی کے لیے مقامی کرائے کے غنڈوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ عدم ادائیگی کی صورت میں مصیبت کے مارے غریب عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے جاتے ہیں۔ اور ان خونخوار اداروں کے چنگل میں پھنسے لوگوں نے اوپر تو کیا اٹھنا، گھر کا سامان اونے پونے داموں بیچ کر ان سے جان خلاصی کرواتے ہیں جبکہ جسمانی تشدد سے لے کر ذلت اور رسوائی الگ اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کام کا ایک اور بھیانک پہلو یہ ہے کہ ان قرض خواہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف این جی اوز اور ان کے سیاسی ونگ ان کسٹمرز کو اپنے جلسوں اور پروگراموں میں لا کر اپنی سیاست اور دیگر کاروباربھی خوب چمکاتے ہیں۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریقہ کار سے بھی غربت کا مسئلہ پچھلے پچاس سال سے کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن سرمایہ داروں کو محنت کش طبقے کا استحصال کرنے کا ایک اور طریقہ مل گیا ہے۔ بظاہر محنت کشوں کے مسائل حل ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اور غربت کے اس مسئلے کو حل کرنے کے نام پر سرمایہ داری میں حتمی طور پر پھر محنت کش طبقے کے استحصال ہی کا ایک طریقہ استعمال کیا گیا۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی تضاد سرمائے اور محنت کا تضاد ہے اور اس نظام میں سرمائے میں بڑھوتری کا واحد راستہ محنت کشوں کی محنت کو نچوڑنا ہی ہے اور اس کے نتیجے میں ناگزیر طور پر دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس طرح وقتی طور پر غریبوں کو خیراتی اداروں کے ذریعے بھیک دینے سے یا چھوٹے قرضے دے دینے سے غربت میں کمی نہیں آتی بلکہ اس سارے کھیل کی آڑ میں چند لوگوں کی دولت میں مستقل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور دنیا کی اکثریت آبادی غربت میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ اس دنیا سے غربت کا خاتمہ کرنے کا واحد طریقہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے یعنی منافع خوری کے ذریعے سرمائے میں بڑھوتری کے بجائے انسانی ضرورت کی بنیاد پر اشیا ئے ضرورت کی پیداوار، جو کہ معیشت سمیت پورے سماج کومحنت کشوں کے اپنے جمہوری کنٹرول میں لے کر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ جس میں پیدا وار انسانی ضرورت کومد نظر رکھتے ہوئے کی جائے یعنی سوشلسٹ نظام یا مزدور راج۔

Tags: × ×

Comments are closed.