عالمی معیشت کی بحالی کی امید۔۔۔حقیقت یا سراب؟

|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: لقمان رحمانی|

حالیہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق عالمی معیشت کے زوال کی شرح میں کمی آئی ہے جس کو دیکھ کر سرمایہ داروں اور سٹاک مارکیٹوں نے سکھ کا سانس لیا۔ تاہم کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور لاک ڈاؤن میں نرمی سے آنے والی ناگزیر بہتری سے گہرے معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا منظر نامہ تبدیل نہیں ہوگا۔

حالیہ معاشی اعداد و شمار شدید ترین مسائل اور مشکلات میں جکڑے کاروباروں کے لیے خوشخبری لائے ہیں۔ IHS Markit’s (ماہانہ بنیادوں پر معیشت کی صورتحال بتانے والا ایک ادارہ)کے جاری کردہ پرچیزنگ مینیجرز انڈیکس، جو کمپنیوں کے اخراجات کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے، کے مطابق کمپنیوں کے اخراجات تاریخی کم ترین سطح سے واپس اوپر آ چکے ہیں۔ IHS کے مطابق امریکہ، جہاں اپریل میں یہ انڈیکس 27 اور مئی میں 37 پر کھڑا تھا، اب 47 پر آ چکا ہے۔ یعنی 50 کے قریب ہو رہا ہے، اور 50 سے اوپر ہونے کا مطلب سکڑاؤ کی بجائے پھیلاؤ ہوگا۔ باقی ممالک کے اعداد و شمار بھی اسی طرح ہیں جن میں تمام بڑی معیشتوں کا انڈیکس اوپر کی جانب حرکت کر رہا ہے۔

اسی طرح، روزگار کی منڈی میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے اور امریکی ریاست میں بیروزگاری کی شرح، جو اپریل میں 14.7 فیصد تھی (دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بلند سطح پر)، 13.3 فیصد تک گر چکی ہے۔ صارفین کی قوت خرید میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ اپریل میں لگ بھگ 33فیصد کمی کے بعد اس وقت 8.9 فیصد تک آچکی ہے۔ یہ اعداد و شمار ہمیں معیشت کی حقیقی صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ لاک ڈاؤن معاشی پیداوار میں زبردستی کمی کے مترادف تھا جس کے بعد کسی حد تک بحالی ناگزیر تھی۔

پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران لاک ڈاؤن میں نرمی کے سبب سٹاک مارکیٹوں میں کچھ بہتری دیکھنے کو ملی ہے جس کا اظہار حالیہ اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔ مگر اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سٹاک مارکیٹوں کا اتار چڑھاؤ حقیقی معیشت سے کس قدر بیگانہ ہو چکا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد جی ڈی پی اور صارفین کی قوت خرید (consumer spending) میں بڑھوتری ہوگی، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ معاشی بحالی کی رفتار کیا ہوگی اور کتنی بحالی ممکن ہو گی؟ سال کے دوسرے نصف میں کچھ حد تک بحالی کے باوجود اعداد و شمار انتہائی بھیانک ہیں۔

24 جون کو آئی ایم ایف نے اپنی‘ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک‘ پورٹ جاری کی جس کا موازنہ اگر اپریل کی رپورٹ (جس کے بارے میں ہم نے اپریل میں لکھا تھا) سے کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشی نمو کے اہداف میں واضح طور پر کمی کی گئی ہے۔ اپریل میں آئی ایم ایف عالمی جی ڈی پی میں 3 فیصد سکڑاؤ کی پیش گوئی کر رہا تھا، جبکہ اب جون میں یہ بڑھ کر 5 فیصد تک آ چکا ہے، جو 1930ء کی دہائی کے بعد بدترین اعداد و شمار ہوں گے۔ پیش گوئی کے مطابق بڑی معیشتیں بری طرح متاثر ہوں گی جن میں 8 فیصد سکڑاؤ دیکھنے کو ملے گا؛ فرانس، اٹلی اور سپین کو 13 فیصد سکڑاؤ کا سامنا ہوگا۔ یہ اعداد و شمار 2009ء کے بحران سے بھی بد تر ہیں جو کہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ جس طرح آئی ایم ایف کہتا ہے: ”اس بحران کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔“

خیالی پلاؤ

یورپین سنٹرل بینک کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کا کہنا تھا کہ ”یہ امن کے حالات میں ریکارڈ کی گئی سب سے تیز اور گہری کساد بازاری ہے“۔

آئی ایم ایف کے اندازوں اور تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس بحران کو محض کرونا وائرس کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ اسی لیے ان کے خیال میں اگر لاک ڈاؤن کے اقدامات واپس لیے جائیں تو بحالی شروع ہو جائے گی اور موجودہ کساد بازاری سے پہلے کی سطح تک بڑھوتری ممکن ہوگی۔ وہ 2021ء تک عالمی جی ڈی پی میں 5.4 فیصد بڑھوتری کی پیشین گوئی کر رہے ہیں جو 2019ء کی شرحِ نمو کا تقریباً دُ گنا ہے، اور 2009ء کی کساد بازاری کے بعد 2010ء کی بحالی سے بڑھ کر ہے۔ بنیادی طور پر آئی ایم ایف کے مطابق 2021ء کے اختتام تک، 2019ء کی سطح تک کی بحالی حاصل ہو چکی ہوگی۔ بڑھوتری کے اعداد و شمار کی تفصیلات کو پس پشت ڈال کر یہ سوچنا کہ ہم پہلے والے معمول کی طرف واپس جا رہے ہیں، خیالی پلاؤ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

متعدد اعشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوری بحالی ممکن نہیں۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی ایم ایف کی اعلیٰ معیشت دان گیتا گوپی ناتھ بہت پر اعتماد نظر آئی جب اس نے اہم اجلاس میں مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کی حکمتِ عملی کے حوالے سے بات کی۔ مگر حقیقت میں سنٹرل بینکوں کے لیے معیشت میں بہتری لانا بہت مشکل ہوگا جبکہ شرحِ سود تاریخی طور پر کم ترین سطح پر ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں مرکزی بینکوں کی شرح سود یا تو صفر پر ہے یا پھر صفر سے تھوڑا اوپر ہے۔ واحد راستہ مقداری آسانی (Quantitative Easing) کا بچتا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی تک یورپین سنٹرل بینک وباء کے خصوصی پروگرام کے لیے 1.35 ٹریلین یوروز جاری کر چکا ہے، جس کا ارادہ پہلے 750 بلین یوروز کا تھا۔ فی الحال لوگوں اور کمپنیوں کے اخراجات کو بڑا دھچکا لگا ہے اور افراطِ زر کا خطرہ نہیں ہے، مگر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تو بے تحاشا پیسہ چھاپنے کے باعث ہوشربا افراطِ زر جنم لے سکتا ہے جو کہ قابو سے باہر ہوگا۔

دوسرا طریقہ، جو ریاست معیشت میں بہتری کے لیے استعمال کرتی ہے،مالیاتی پالیسی (Fiscal Policy) ہے، جس کو پچھلے بحران سے بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ تب گورڈن براؤن نے فخریہ اعلان کیا تھا کہ G20 معیشت میں بہتری لانے کے لیے پانچ ٹریلین ڈالر خرچ کرے گی۔ اِس دفعہ G20 نے 10 ٹریلین ڈالر یا جی ڈی پی کے 12 فیصد خرچ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ چینی صحافی سے بات کرتے ہوئے گوپیناتھ نے خبردار کیا کہ حکومتی اخراجات کی کچھ حدود ہیں اور اگر بات اس سے بڑھ جاتی ہے تو ناقابلِ برداشت صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ یقینا، سنٹرل بینکوں کے بغیر، خصوصاً یورپین سنٹرل بینک کے حکومتی بانڈز خریدنے کے بغیر بھی، حکومتی قرضے برداشت سے باہر ہو چکے ہوتے۔ سابقہ نو آبادیاتی ممالک، جن کی کرنسی کم قدر کی ہے، کے لیے یہ طریقہ ممکن نہیں ہے اور 70 ممالک نے اس معاملے میں آئی ایم ایف سے مدد طلب کی ہے۔

امریکی ریاست کا بجٹ خسارہ اس سال جی ڈی پی کے 24 فیصد تک رہنے کا امکان ہے اور اگلے سال 12 فیصد تک، جس کو واپس ”معمول“ پر آنا قرار دیا جا رہا ہے۔ سال کے آخر تک ترقی یافتہ معیشتوں کا کل قرضہ جی ڈی پی کا 131 فیصد بنے گا اور امریکی ریاست کا 141 فیصد۔ ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ جب تک مرکزی بینک مسلسل پیسہ فراہم کر رہے ہیں، صورتحال قابو میں رہے گی۔ مگر جیسے ہی یہ سلسلہ رکا تو مارکیٹیں تیزی سے تباہی کی جانب بڑھیں گی۔ در حقیقت معیشت کو سستے قرضوں کی لت پڑ چکی ہے جس کے بغیر اس کا چلنا ممکن نہیں رہا۔

ریاستی قرضوں کا مسئلہ

حقیقت کچھ یوں ہے، جس طرح یورپین سنٹرل بینک کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے جمعرات (25 جون) کو ہونے والے اجلاس میں بیان کیا:

”یہ امن کے حالات میں ریکارڈ کی گئی سب سے تیز اور گہری کساد بازاری ہے“۔

سال کے پہلے نصف کے دوران یورپی یونین کے جی ڈی پی میں 16 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس نے کہا کہ بحالی نامکمل رہے گی اور ائیر لائن، ہوٹلوں اور تفریح کے شعبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

مارٹن وولف: ’’ہم پہلے ہی سے مالیاتی بحران کے ہاتھوں بڑا اور مستقل نقصان اٹھا چکے ہیں، خصوصاً مغربی ممالک میں۔ یہ نقصان کافی اہمیت کا حامل ہے اور لوگوں کو اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ سوال کہ اس کا بوجھ کس پر ڈالا جائے، آنے والے عرصے میں بنیادی سیاسی سوال ہوگا۔‘‘

اس نے سٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار کا بھی ذکر کیا جو اپریل سے زوال کا شکار تھی اور ابھی اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔

اسی اجلاس کے دوران مارٹن وولف نے بھی صورتحال کا مایوس کن تخمینہ لگا کر کہا:

”ہمیں سنٹرل بینک کی بیلنس شیٹوں میں بہت بڑے اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں ان کو سنبھالا جا سکے گا مگر یہ صورتحال مستقل، یا کم از کم لمبے عرصے تک رہے گی۔ ہماری حالت جاپان جیسی ہونے لگے گی اور یہ بہت بڑی بات ہوگی۔“

اس کا مطلب یہ ہے کہ مقداری آسانی کہیں نہیں جانے والی بلکہ مستقل طور پر موجود رہے گی۔ جبکہ شرحِ سود کا طریقہ بے کار ہو چکا ہے اور معیشت اس قدر کمزور ہے کہ مرکزی بینک اپنے اثاثے واپس نکالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

”معیشت کو مستقل طور پر اس صورتحال کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جس کا مطلب ہماری معیشتوں میں اجتماعی اور انفرادی طور پر کمی آئے گی۔ 2019ء میں لگائے گئے ہمارے اندازوں کے برعکس ان میں نمایاں طور پر کمی آئے گی۔“

اس صورتحال کو پہلے سے موجود مالیاتی بحران کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معیشت دانوں کا رویہ عموماً طبقاتی جدوجہد کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتا مگر اس اجلاس میں کہا گیا:

”ہم پہلے ہی سے مالیاتی بحران کے ہاتھوں بڑا اور مستقل نقصان اٹھا چکے ہیں، خصوصاً مغربی ممالک میں۔ یہ نقصان کافی اہمیت کا حامل ہے اور لوگوں کو اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ سوال کہ اس کا بوجھ کس پر ڈالا جائے، آنے والے عرصے میں بنیادی سیاسی سوال ہوگا۔“

اور مزید یہ کہ:

”پبلک فنانس کی حالت مستقلاً بد تر رہے گی۔ ہمیں کافی مزید قرضوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ میرے خیال میں نتیجتاً ہمیں مالیاتی خساروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان مسائل کا حل مستقبل میں بنیادی سیاسی سوال ہوگا اور ان کا حل کرنا آسان نہیں ہوگا۔“

یعنی قرضوں کو کیسے سنبھالا جائے (بوجھ کس کے اوپر ڈالا جائے) بنیادی سیاسی مسئلہ ہوگا۔ یہ حکمران طبقے کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں۔ اس کا موازنہ فرانسیسی اور انگلستانی انقلابات سے پہلے کے حالات کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ جب جاگیردارانہ ریاستیں دیوہیکل قرضوں کا شکار تھیں اور اس کا بوجھ بورژوازی پر ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ مگر جس طرح کرسٹین لیگارڈ نے کہا، بات صرف موجودہ ریاستی قرضوں تک محدود نہیں: ”قرضوں کے حجم میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ کاروباری قرضوں میں بھی۔“

یہ سنٹرل بینکوں کے لیے حقیقی مسئلہ ہے۔ شرحِ سود کو کم رکھنا پڑے گا۔ وولف نے اس اہم مسئلے کا دوبارہ ذکر کیا جب اس نے کہا کہ بہت سے بڑے ممالک میں شرحِ سود منفی میں جا چکی ہے اور اس لیے حکومتوں کو اس سے کوئی فوری مسئلہ لاحق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر صورتحال تبدیل ہوتی ہے تو بڑے مسائل پیدا ہوں گے:

”اگر اگلے دس سالوں میں شرحِ سود کو دو یا تین فیصد رکھ کر (ملکی) قرض ادائیگی کی معیاد میں اضافہ کیا جائے تو میرے خیال میں ہمیں ناقابلِ یقین مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اور اسی لیے یہ عمل ہر گز نہیں ہو سکتا۔“

اس کے مطابق حکومتوں کو 20 سے 50 سال تک کے بانڈز جاری کر دینے چاہئیں تاکہ کم شرحِ سود کی واپس فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ طریقہ شاید جرمنی، برطانیہ اور امریکی ریاست کے لیے کارگر ثابت ہو مگر اٹلی اور اسپین میں نہیں چل سکے گا اور صارفین اور کارپوریشنز کے حالات ایک جیسے نہیں ہوں گے۔ چنانچہ معیشت کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے ادھار کی قیمت کو انتہائی کم رکھنا پڑے گا۔ یہ پچھلے 40 سالوں سے جمع ہوتے ہوئے قرضوں کی کرامات کا نتیجہ ہے۔ حکومتی قرضوں کے مسئلے کا سلجھاؤ آنے والے سالوں میں بڑا اہم سوال بن کر ابھرے گا۔

کرونا ابھی ختم نہیں ہوا!

دنیا کے بڑے حصے میں ابھی وائرس کا پھیلاؤ شروع ہی ہوا ہے۔

فنانشل مارکیٹوں اور مختلف تجزیہ نگاروں کو لگ رہا تھا کہ کرونا وائرس کے مسئلے کو حل کیا جا چکا ہے۔ البتہ امریکی ریاست کے اندر لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد وائرس کے مریضوں میں یکدم اضافہ دیکھنے کو ملا جن میں کیلیفورنیا، ٹیکساس اور فلوریڈا جیسی گنجان آباد ریاستیں بھی شامل ہیں۔ ملک کے جنوب اور مغرب میں انفیکشن کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کئی ریاستوں میں دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کرنا پڑا تاکہ انفیکشن قابو سے باہر نہ ہو اور وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ علاوہ ازیں دنیا کے بڑے حصے میں ابھی وائرس کا پھیلاؤ شروع ہی ہوا ہے۔

وائرس کی وجہ سے ریاستوں نے حفاظتی اقدامات کیے جو معاشی گراوٹ کا سبب بنا۔ اگر ریاستیں یہ اقدامات نہ اٹھاتیں تو تب بھی کھپت میں کمی ناگزیر تھی۔ ظاہری بات ہے کہ لوگ ان جگہوں پر جانے سے خود کو روکیں گے جہاں انہیں وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ نتیجتاً،پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران ان امریکی ریاستوں کے اندر یا تو کھپت ایک جگہ پر رک چکی ہے یا نیچے گر چکی ہے، جہاں وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا۔ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کے باوجود یہ صورتحال ہے۔ اس کا اظہار کام کے اوقاتِ کار میں کمی سے بھی ہوا ہے جو متعدد امریکی ریاستوں میں جون کے نصف سے کمی کا شکار ہے۔ چنانچہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو، معیشت کو بہرحال منہ کی کھانی پڑے گی۔

زائد پیداوار کا شدید بحران

سرمایہ داری کی بیہودگی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اگر لوگ اشیاء اور سروسز کی خرید و فروخت ترک کر دیں تو ساری معیشت کا انہدام ہونے لگ جاتا ہے۔ زائد پیداوار کسی دوسرے سماج میں خوشی کی بات ہوتی جس کا مطلب اشیاء کو مصیبت کے دنوں کے لیے جمع کرنا یا فارغ اوقات میں اضافہ کرنا ہوتا، مگر سرمایہ داری میں زائد پیداوار اپنے ساتھ تباہی لاتی ہے۔

سرمایہ دار اب محنت کشوں سے محض باہر کام پر نکلنے کا مطالبہ نہیں کر رہے (زیادہ تر محنت کش وباء کے دوران پہلے ہی سے کام کر رہے تھے)، وہ اب ان سے خرچ کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ انہیں پریشانی ہے کہ محنت کش کچھ زیادہ ہی بچت کر رہے ہیں، جس کی وجہ یا تو خرچ کے مواقع کا نہ ہونا ہے یا پھر مستقبل کی فکر ہے۔ وباء کے عرصے کے دوران یورپی یونین میں بچت کی شرح 136 فیصد بڑھ چکی ہے۔

توقعات کے عین مطابق یہ کم اجرتوں پر کام کرنے والے محنت کش ہی ہیں جو تاحال اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ خرچ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے خرچے ریستورانوں، تفریح اور چھٹیاں گزارنے پر نہیں بلکہ روزانہ کی ضروری اشیاء پر ہوتے ہیں۔

پچھلی کچھ دہائیوں سے جاپان کو اس قسم کے ”بہت زیادہ“ بچت کے ایک مستقل بحران کا سامنا ہے جس کی وجہ سے معیشت جمود کا شکار ہے (معاشی ترقی کے دنوں میں بھی شرحِ نمو 1 فیصد سے نہیں بڑھتی) جس کی وجہ جاپانی لوگ کے کم خرچ کا رجحان ہے۔ مارٹن وولف نے اس کا ذکر موجودہ بحران کے تناظر میں کچھ یوں کیا:

”جاپان میں اشیاء کی مانگ کمی کا شکار ہے۔۔۔میرے خیال میں عالمی صورتحال بھی ایسی رہے گی اور یہ بات خارج از امکان نہیں کہ ہم ایک لمبے عرصے تک خاصے جاپانی دکھنے لگیں گے۔ اس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا مگر یہ ممکن ہے۔“

ایسی پیش رفت نتیجتاً عالمی معیشت میں لمبے عرصے کے جمود کا سبب بنے گی۔ جاپان کے معاملے میں حکومت مانگ بڑھانے کی کوشش کرے گی جس کی وجہ سے ریاستی قرضوں میں دیوہیکل اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ سرمایہ دار جو عموماً بچت کا درس دیتے نہیں تھکتے، اب محنت کشوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غیر ذمہ دارانہ قرضے اٹھا کر اپنے اخراجات بڑھائیں ورنہ نظام کے وجود کو خطرہ پڑ جائے گا۔ وہ محنت کش جنہوں نے اپنے اخراجات میں احتیاط برتی ہے، اگر مزید کفایت شعاری سے کام لیں تو سرمایہ داری کو بہت بڑی مصیبت کا سامنا ہوگا۔

عالمگیریت کا خاتمہ

ٹیڈ گرانٹ نے اپنی متعدد تحریروں میں بارہا دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی تجارت میں ہونے والے پھیلاؤ کی بدولت عالمی معیشت کی ترقی کی نشاندہی کی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑھتی ہوئی عالمی تجارت نے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جس کا ٹیڈ گرانٹ نے کئی مواقع پر ذکر کیا۔ 1997ء میں ٹیڈ گرانٹ نے لکھا تھا کہ:

”درحقیقت اس عرصے میں قرض، ادھار اور کینیشئین ڈیفیسٹ فنانسنگ وغیرہ وغیرہ کے عوض اور بالخصوص عالمی تجارت کے پھیلاؤ کی بدولت سرمایہ دارانہ نظام اپنی حدود سے کئی گنا متجاوز کرگیا جس نے عارضی اور جزوی طور پر ہی سہی مگر بورژوازی کو قومی ریاستوں کی حدود پر غلبہ حاصل کرنے کے قابل بنایا۔“ (ابتدائی جھٹکے: عالمی معاشی صورتحال کا ایک تجزیہ)

یقینا، معیشت کی ترقی میں دو بنیادی رکاوٹیں، نجی ملکیت اور قومی ریاستیں ہیں۔ جن میں سے آخر الذکر پر عالمی تجارت کی ترقی کی بدولت جزوی طور پر قابو پایا گیا۔ اگرچہ قرضوں میں مستقل اور دیوہیکل اضافے کی بلبوتے پر اس ترقی کو حد سے زیادہ طول دیا گیا مگر اس دستاویز میں معیشت کی عمومی سمت اور زوال کی صورت میں کیا نتائج بر آمد ہوں گے کا درست طور پر احاطہ کیا گیا تھا۔ ٹیڈ نے مزید لکھا کہ:

”البتہ اب ہم ایک نئے اور مختلف عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ ہلچل اور تناؤ کا عہد ہوگا جس کے اندر معیشت، سماج اور سیاست میں انتشار انگیز بحران جنم لے گا۔ وہ تمام عناصر جو بڑھوتری کا باعث بنے تھے، جدلیاتی طور پر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائیں گے۔ خصوصاً عالمی تجارت، جس نے بڑھوتری اور سرمایہ کاری میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا، اب مزید مؤثر نہیں رہی۔“

آج کل بورژوازی بالکل یہی کچھ ہونے سے گھبرا رہی ہے۔ لیگارڈ نے وضاحت کی کہ:
”یہ ممکن ہے کہ تجارت میں نمایاں طور پر کمی آئے گی اور نتیجتاً اس سے پیداوار متاثر ہوگی، جب تک دیگر عناصر کی مدد فراہم نہ ہو۔“ یعنی عالمی مقابلے بازی کی وجہ سے سرمایہ کاری جنم لیتی ہے جو پیدوار میں بڑھوتری کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ جب تک دیگر عناصر کی مدد فراہم نہیں ہوگی، عالمی تجارت کے زوال کے نتیجے میں پیداوار کی بڑھوتری رک جائے گی یا گرتی چلی جائے گی۔ البتہ اس نے ان دیگر عناصر کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ یہ کیا ہو سکتے ہیں۔

مارٹن وولف اس کے لگائے ہوئے اندازوں سے متفق ہے اور کہتا ہے کہ:

”ہم ممکنہ طور پر عالمی معیشت کی کشادگی میں مستقل تبدیلی دیکھیں گے۔ یہ عالمی معیشت میں عالمگیریت کے خلاف ایک اہم موڑ ہوگا،اس کی کئی ساری وجوہات ہیں: سیکورٹی، معاشی دھچکے کی انوکھی قسم، تحفظاتی پالیسیوں کا عروج اور دیگر کئی وجوہات۔ یہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ ہم جس دنیا میں داخل ہوں گے، وہ اس دنیا سے مکمل مختلف ہوگی جس کے بارے میں ہم نے سال پہلے، یا حتیٰ کہ چار، پانچ مہینے پہلے سوچا تھا۔“

کرونا وباء خصوصاً بین الاقوامی تجارت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ مگر اس نے محض اس پیش رفت کو تیز تر کیا ہے جس کے بارے میں ہم کچھ عرصے سے لکھ رہے تھے۔ پچھلے سال مئی کے مہینے میں ہم نے سامراجی طاقتوں کی تحفظاتی پالیسیوں پر لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ داری کے گماشتے اس بات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ یہ نظام کرونا وائرس سے پہلے بھی زوال کا شکار تھا اور یہ امید کریں گے کہ وباء گزر جانے کے بعد تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ دور اندیش یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ پہلے والے حالات واپس نہیں لوٹیں گے، مگر وہ ضروری نتائج اخذ نہیں کر پاتے۔

نیا معمول

اگر آپ سیاستدانوں، معیشت دانوں اور تجزیہ نگاروں (کم از کم جو سنجیدہ ہیں) کے تجزیے پڑھیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نئے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نائکی کے لوگو(Swoosh) کی طرح ایک بھنور کی سی بحالی کی بات کر رہا ہے۔ کرسٹین لگارڈ ”محدود“ بحالی کی بات کر رہی ہے۔ جس بات پر سب متفق ہیں وہ یہ ہے کہ بحالی تیز رفتار نہیں ہوگی اور پہلے جیسے حالات واپس نہیں آئیں گے، چھ مہینے پہلے والے حالات بھی نہیں۔

عالمی معیشت کو لگنے والے ہر دھچکے کے ساتھ ہم سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ سرمایہ داری کی کامیابیوں کے بارے میں اپنی توقعات کم کر دیں۔ دائمی کم شرحِ نمو کو لے کر اب مارٹن وولف عالمی معیشت کا موازنہ جاپان سے کر رہا ہے، اتنی کم شرحِ نمو کہ اسے جمود سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی ایک ملک کی ایسی حالت ہونا بہت برا ہوتا ہے اور پوری عالمی معیشت کا اس طرح ہو جانا بہت بڑی تباہی مچائے گی۔

سرمایہ داری اپنے وجود کا دفاع صرف پیداواری قوتوں اور پیداوار کو مسلسل ترقی دینے سے کر سکتی ہے، معیشت کی پیداواری استعداد بڑھانے کے ذریعے۔ اس عمل کے بغیر یہ واضح طور پر ایک دیوالیہ نظام بن جاتا ہے، جس طرح جان مینارڈ کینز نے 1920ء کی دہائی کے سوویت یونین سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ یہ نظام (سرمایہ داری) ابھی تک اس وجہ سے باقی ہے کیونکہ یہ کم از کم سامراجی ممالک میں کسی حد تک بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کے قابل ہے۔

مگر اب حالات ویسے نہیں رہے۔ کرونا وباء ایک آفت بن کر ابھری، جس کی وجہ سے ابھی تک پانچ لاکھ سے زائد اموات واقع ہوچکی ہیں۔ حکومتوں نے یکے بعد دیگرے ضروری اقدامات لینے میں ٹال مٹول کی اور صورتحال اب بھی مزید بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ معاشی نظام صرف وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ہی ناکام نہیں رہا بلکہ اس نے ایک ایسی معاشی تباہی کے لیے راستہ ہموار کیا جس سے بچا جا سکتا تھا۔

سرمایہ داری محنت کش طبقے کو کٹوتیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ اب ہم دیوہیکل بے روزگاری کے دہانے پر کھڑے ہیں جس کی ابتدا خدمات کے شعبے سے ہو چکی ہے۔ مالکان اپنی شرائط و ضوابط کے مطابق محنت کشوں سے کٹوتیاں برداشت کرنے کا کہیں گے تاکہ کمزور کاروباروں (جن کے اثاثوں اور مال و دولت کو دیکھا جائے تو کمزور نہیں لگتے) کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح فلاحی ریاستوں میں عوام کے فائدے کا جو کچھ بچا ہے، بے رحم حکومتی حملوں کا نشانہ بنے گا تاکہ وسیع ریاستی قرضوں کو لوٹایا جا سکے۔ یہ ناگزیر طور پر طبقاتی جدوجہد کی ایک بے نظیر لہر کو اشتعال دے گا جو پورے سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرے گا۔ یہ صاف طور پر اس سوال کو سامنے رکھے گا: سوشلزم یا بربریت؟ انسانیت کو ان دونوں میں سے ایک کو چننا پڑے گا۔

Comments are closed.