بجٹ کا عذاب

|تحریر : راشدخالد|

ایک وقت تھا کہ بجٹ سال کا ایک اہم واقعہ ہوا کرتا تھا، بجٹ پیش ہونے سے قبل سماج میں بجٹ کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کا سلسلہ چلتا تھا۔ اور جس دن بجٹ پیش ہونا ہوتا تھا عوام کی ایک اکثریت بجٹ کی تفاصیل نہ سہی تو کم از کم اس میں ٹیکسوں، اجرتوں اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو ضرور خاطر میں لاتی تھی۔ کیونکہ تب تک سال میں ایک بار بجٹ پیش ہوتا تھا اور قریب قریب یہی پورے سال کی معاشی سرگرمی کی بنیاد بھی بنتا تھا۔ مگر اب بجٹ عوام کی اکثریت کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اب سال میں بار بار بجٹ آتے رہتے ہیں اور بجٹ نہ بھی آئیں تو اس کے بنا بھی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے۔

47کھرب 50ارب کا موجودہ بجٹ بھی انتہائی مہارت کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کی ایما پر ترتیب دیا گیا ہے۔ جس میں پہلی بار پبلک سروس ڈویلپمنٹ فنڈ کی مد میں ایک ہزار ایک سو ارب روپے (گیارہ کھرب روپے) کی رقم رکھی گئی ہے جس کو ایک طرف تو موجودہ حکومت بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے مگر PSDP کے بجٹ میں اس اضافے کی واحد وجہ آئندہ الیکشن کے لئے اپنے نورنظر افراد کو لوٹ مار کے لیے نوازنا ہے اور اس کے علاوہ دیگر چھوٹی موٹی سکیموں کی تختیاں لگا کر عوام کو بیوقوف بنانے کا کام بھی اسی رقم سے کیا جائے گا۔ لیکن اگر بجٹ کی تفصیلات کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو دفاع کا براہ راست بجٹ 9.5 فیصد اضافے کے ساتھ 9کھرب 20ارب روپے رکھا گیا ہے اور قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کے لئے تقریباً 16کھرب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ صرف ان دو مدوں کا مجموعہ ہی بجٹ کے نصف سے زائد بن جاتا ہے۔ لیکن یہ ان دو شعبوں کا براہ راست حصہ ہے۔ دفاع کے براہ راست بجٹ کے علاوہ ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی خریداری کی مد میں بھی 180ارب روپے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے لئے 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی توانائی ، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات (بالخصوص سی پیک سے جڑے توانائی اور شاہراہوں کے منصوبوں) کے شعبوں کے لئے ایک خطیر رقم کی تعریفوں کی سرگزشت سنائی دیتی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس عوام دشمن حکومت کے لئے عوام کے مسائل کا حل بنیادی ترجیح نہیں بلکہ اپنے ٹھیکوں اور کمیشنوں سے اپنی دولت میں اضافہ کرنا ہی ان کا مقصد ہے۔

جہاں ایک طرف موجودہ بجٹ بھی عوام پر نئے ٹیکسوں کا عذاب نازل کر رہا ہے وہیں پر سرمایہ داروں پر ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے جس کی مثال کارپوریٹ ٹیکس ہے جو 31فیصد سے کم ہو کر 30فیصد ہو گیا ہے۔ عوام کا خون چوسنے والے حکمرانوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے تین ماہ میں خاتمے کا وعدہ تو پورا نہیں کیا لیکن کارپوریٹ ٹیکس میں پانچ فیصد کمی کا وعدہ من و عن پورا کیا ہے۔ اپنے پانچوں بجٹوں میں مسلسل کمی کرتے ہوئے کارپوریٹ ٹیکس 35فیصد سے کم کر کے 30فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ریاست اور اس پر براجمان حکمران کس طبقے کے نمائندہ ہیں۔ ویسے بھی دولت مند افراد پر لگنے والے براہ راست ٹیکس کم ہی وصول ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں براہ راست ٹیکسوں کی وصولی ہمیشہ سے ہی غیر تسلی بخش حد تک کم رہی ہے اور دنیا میں حکومتی آمدن کے تناسب سے کم ترین سطح پر ہے۔ اسی لیے ٹیکس آمدنی کا بڑا حصہ بلواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں محنت کش عوام سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور اس ضمن میں عوام پر ٹیکسوں میں اضافے کی صورت میں مہنگائی کا مزید بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔ اسی لئے بجٹ کے حوالے سے بی بی سی اردو کو اپنی رپورٹ کو’’سانس کے علاوہ ہر چیز پر ٹیکس‘‘ کا عنوان دینا پڑا۔ آمدن میں اضافے کے لئے اس بجٹ میں حکومت نے ٹیکسوں میں 12کھرب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے FBR کے تحت اس سال 40کھرب روپے ٹیکسوں کی مد میں حاصل کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے جو پچھلے سال کی نسبت تقریباً 5کھرب روپے زیادہ ہے۔ ٹیکس وصولی کے اہداف کا تقریباً 60فیصد بلواسطہ ٹیکسوں کی مد میں غریب عوام کی جیبوں سے وصول کیا جانا ہے جیسا کہ سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی وغیرہ۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں دس فیصد کا اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی انتہائی کم ہے۔ جبکہ دوسری جانب مہنگائی کا عذاب اس سے کئی زیادہ بڑے پیمانے پر مسلط کیا جائے گا۔ کم از کم اجرت میں ایک ہزار روپے اضافہ کر کے پندرہ ہزار روپے کرنے سے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کا تاثر دیا گیا ہے۔حکومت نے یہ اجرت روزانہ آٹھ گھنٹے کام کے لیے مقرر کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کروڑوں محنت کشوں سے روزانہ بارہ سے چودہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے جبکہ اجرت آٹھ سے دس ہزار روپے ماہانہ یا اس سے بھی کم دی جاتی ہے۔ ہفتہ وار چھٹی بھی اکثر کام کی جگہوں پر ختم ہو چکی ہے۔ایسے میں شدید گرمی میں کوٹ اور ٹائی لگا کر بجٹ پیش کرنے والے عیاش مزدور دشمن حکمرانوں کو یہ اعلان کرتے ہوئے نہ ہی کوئی شرم محسوس ہوئی اور نہ ہی ان کے ضمیر نے کوئی ملامت کی۔ صرف اسی ایک امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حکمران طبقات کتنے سفاک درندے بن چکے ہیں اورمحنت کشوں کی زندگیوں کی تکالیف اور مسائل کا انہیں رتی بھر بھی احساس نہیں ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان ظالم اور استحصالی حکمرانوں کا کرہ ارض سے مکمل قلع قمع کرنے کے علاوہ محنت کشوں کو درپیش مسائل کا اورکوئی حل نہیں۔

معاشی بحالی اور ترقی کی تمام باتیں بھی خام خیالی اور دھوکہ دہی ہیں۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ معیشت کی شرح نمو 5.3فیصد ہے تو اس کے اثرات سماج پر کیا پڑے ہیں۔ اسحاق ڈار نے اس مالی سال کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ٹارگٹ 6فیصد مقرر کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس شرح نمو کی بڑھوتری سے کیا سماج میں بسنے والے کروڑوں عام انسانوں کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثرات پڑ رہے ہیں یا پڑیں گے تو جواب نفی میں ہے۔ شرح نمو کا یہ گھن چکر محض اعداد و شمار کی ہیرا پھیرا کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کا ملک کی حقیقی معیشت کی نمو کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیداواری شعبے میں لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔ اس بار بھی 5.3فیصد کا شرح نمو سی پیک سے منسلک 57بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے تحت تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے ہے جس میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کی حقیقت کچھ تو عیاں ہو ہی رہی ہے، باقی بھی وقت کے ساتھ سب کے سامنے آ جائے گی۔
موجودہ حکومت نے اس مالی سال کے بجٹ کو پیش کرنے سے قبل اور دوران بھی گزشتہ بجٹوں اور گزشتہ حکومتوں کی طرح بلند و بانگ دعووں اور اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ نون لیگ کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر ان میں سے کوئی سا بھی دعویٰ ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا۔ اقتدار میں آنے سے لے کر آج تک یہ حکومت توانائی کے بحران کے خاتمے کی مختلف تاریخیں دیتی چلی آ رہی ہے مگر توانائی کا بحران ختم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ نون لیگ نے اقتدار میں آتے ہی توانائی کے شعبے میں 500روپے کے گردشی قرضے ادا کئے تھے اور گردشی قرضوں کے لئے سابقہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر اب جب موجودہ حکومت اپنے پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہے تو گردشی قرضوں کا حجم ایک مرتبہ پھر480ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب ہر دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا تھا مگر اس ضمن میں نئے پراجیکٹس لگنے کے باوجود بہتری کی طرف پیش رفت کی بجائے بحران میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ حکومت امریکی امداد کی کمی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول میں مشکلات کے باعث چینی سامراج پر حد سے زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ دوسری طرف عالمی معیشت میں گراوٹ اور بحران کی وجہ سے چینی حکمران پسماندہ ملکوں کی چھوٹی منڈیوں اور وسائل کی لوٹ مار کے لئے باؤلے ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں بھی سی پیک منصوبے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ لیکن اس سرمایہ کاری کے ملکی معیشت پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہونے کے امکانات سرے سے موجود نہیں ہیں۔ شاہراہوں کے علاوہ چینی حکمران اور سرمایہ دار جن شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان میں توانائی کا شعبہ سر فہرست ہے اور اس سے قبل بھی چین سے پاور پلانٹس درآمد کئے گئے ہیں جن کی کارکردگی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ نندی پور پاور پلانٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ابھی تک اس سے بجلی کی پیداوار ممکن نہیں بنائی جا سکی، نئی آنے والی اطلاعات کے مطابق کمیشنوں اور کک بیکس کے لئے چین سے ناقص پلانٹ درآمد کروایا گیا جس سے پیداوار لینا ممکن ہی نہیں۔ اس کے بعد حال ہی میں شیخوپورہ کے نزدیک بھکھی پاور پلانٹ کا بھی افتتاح کیا گیا مگر جس دن اس پلانٹ کا افتتاح کیا گیا اسی دن اس پلانٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ساہیوال میں پاور پلانٹ کے افتتاح کی سرکاری اشتہار ملک کے طول و عرض میں تمام تر اخبارات کی زینت بنے ہیں۔ گو کہ اس پاور پلانٹ کے حوالے سے مزید خبریں ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکیں لیکن پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی تصویر کی حقیقت جب کھل کر سامنے آئی تو پتہ چلا کہ یہ کسی اور ملک کے کسی پاور پراجیکٹ کی تصویر ہے۔ اس سے ان حکمرانوں کے پاگل پن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

حکمران طبقے کی معاشی ترقی کی تمام تر لفاظی سماج میں بہتری کی بجائے ابتری کا باعث ہی بنی ہے۔ محنت کش طبقے کی زندگی آئے دن نئی سے نئی مشکلات کا شکار ہو رہی ہے۔ اور حکمرانوں کے دعووں کی قلعی بھی عام عوام کے سامنے کھلتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا پر طویل وقت کے ٹاک شوز، انٹرویوز اور بار بار کی خبروں اور بریکنگ نیوز کے ذریعے عوام پر مسلط کی جانے والی بحثوں کی اہمیت اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کئی دنوں تک بجٹ کے مباحثوں کے باوجود بجٹ عوام کی زندگیوں کے ساتھ تال میل نہ کھانے کی وجہ سے ایک غیر اہم اور روٹین کا عمل بن گیا ہے۔ یہ سیاسی افق پر محض ایک مظہر نہیں جو اپنی ساکھ کھو چکا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ماضی میں بہت اہم مظاہر بھی اب اپنی ساکھ کھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ عمل اس سیاسی عمل سے بیزاری کو عیاں کرتا ہے، وہیں یہ سماجی شعور میں بڑھوتری کی علامت بھی ہے کہ عوام اس پراسیس میں غیر اہم چیزوں کا بوجھ اپنے سر سے اتارتے جا رہے ہیں۔ ماضی کے تقدس اب پامال کرنے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل میں محنت کش طبقے کی زندگیوں کی بہتری کا نہ تو کوئی امکان ہے اور نہ ہی کوئی گنجائش۔ موجودہ سیاسی ڈھانچہ جس نظام کے تحت چل رہا ہے وہ سرمایہ دارانہ ہے اور اس نظام میں محض مٹھی بھر دولت مند افراد کے مفادات کا تحفظ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کو برپا کیا جائے جو نسل انسانی کی تمام تر محرومیوں کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

Comments are closed.