|تحریر: ولید خان|
پاکستان وفاقی بجٹ 2025-26ء کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ بجٹ پہلے 2 یا 3 جون 2025ء کو پیش کیا جانا تھا لیکن اب اسے 10 جون تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ IMF کی اسٹاف ٹیم 23 مئی کو اپنا دورہ مکمل کر کے واپس جا چکی ہے۔ وفاقی وزرا اور عالمی مالیاتی ادارہ اسے انتہائی ”مثبت“ اور کامیاب ملاقات قرار دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے معاشیات نے صدق دل سے اعتراف کیا ہے کہ یہ بجٹ IMF کی شرائط، مطالبات اور سخت نگرانی کے تحت بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست پاکستان، تمام سیاسی پارٹیاں، پارلیمنٹ، عدلیہ، مسلح ادارے وغیرہ اس کے نفاذ کے لیے مکمل طور پر ہم آہنگ، متفق اور پرعزم ہیں۔
یاد رہے کہ اس وقت پاکستان IMF کے دو پروگراموں کو پورا کر رہا ہے۔ پہلا پروگرام تین سالہ EFF (The Extended Fund Facility) ہے جسے 2024ء میں لاگو کیا گیا۔ یہ 1947ء کے بعد سے اب تک کا 23واں پروگرام ہے جس کی مالیت 7 ارب ڈالر ہے اور اس کے تحت اب تک کل 2.1 ارب ڈالر مالیت کی دو اقساط جاری ہو چکی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت محنت کش طبقے پر 1500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے؛ تنخواہ دار وں پر ٹیکس بڑھایا گیا جو رواں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں 437 ارب روپیہ ٹیکس ادا کر چکے ہیں، ابھی اگلے تین ماہ کا حساب آنا باقی ہے۔ کچھ مبصرین کے مطابق تنخواہ داروں سے کل 500 ارب روپیہ تک نچوڑا جا سکتا ہے۔ زیر بحث تجویز میں تنخواہ داروں کو معمولی ترین ٹیکس رلیف دینے کا مطلب 56 ارب روپے کے نئے ٹیکس ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ سے رلیف دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صحت اور تعلیم سمیت تمام عوامی فلاحی شعبوں میں دیوہیکل کٹوتیاں کی گئیں اور ہزاروں سرکاری سکول بیچ دیے گئے، جبکہ تمام سرکاری ہسپتال اب نجکاری کے نشانے پر ہیں۔ روزمرہ استعمال کی سہولیات جیسے بجلی، پانی، گیس، پیٹرول وغیرہ میں ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی؛ تمام خالی سرکاری اسامیاں ختم کر دی گئیں؛ محنت کشوں کی دہائیوں میں سخت جدوجہد کے بعد جیتی گئی مراعات؛ جیسے پینشن، لیو انکیشمنٹ وغیرہ کو ختم کر دیا گیا؛ تمام عوامی اداروں میں محنت کشوں کی جبری برخاستگی اور اداروں کی نجکاری کے عمل کو تیز تر کر دیا گیا اور ترقیاتی بجٹ مفلوج کر کے رکھ دیا گیا۔
اس دوران سرکاری طور پر افراطِ زر کی اوسط شرح 25 فیصد رہی، اگرچہ کئی ماہرین کے مطابق کئی مہینوں میں یہ کہیں زیادہ بلند درجہ رہی ہے۔ حکمران طبقے کو ٹیکس چھوٹ، قرضہ معافی، سبسڈیوں، تنخواہوں اور مراعات کی شکل میں تقریباً 6000 ارب روپے کی مراعات دی گئیں، سرمایہ داروں نے اعلانیہ طور پر 1600 ارب روپے سے زیادہ منافع کمایا (غیر اعلانیہ کا کوئی شمار نہیں) اور عسکری بجٹ میں 17.6 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ اسی دوران حکمران طبقے نے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 ہزار 500 ارب روپے کی اسمگلنگ کی اور تقریباً 7 ہزار ارب روپے کا ٹیکس چوری کیا۔ اس کے علاوہ پچھلے ایک سال میں قومی اور صوبائی اسمبلی ممبران، عدلیہ، اسمبلی سیکریٹریوں وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ صرف پنجاب اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں 850 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا! اس کی وجہ مہنگائی بتائی گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران 7 فیصد اضافے کے ساتھ مزید 15 لاکھ افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے گر گئے اور اب 42.5 فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ کچھ ماہرین کے مطابق یہ شرح 50-60 فیصد کے درمیان ہے یعنی آبادی کے نصف حصے سے زائد۔ زرعی کیش اجناس میں کم از کم 30-40 فیصد کمی اور جاری مالیاتی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 1.90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر صنعت اور زراعت کا GDP میں حصہ دیکھا جائے تو یہ مسلسل کم ہو رہا ہے یعنی نئی سرمایہ کاری اور پیداوار نہ ہونے کے ساتھ موجودہ صلاحیت بھی ختم ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر سرکاری اعداد و شمار پر بات کرنا بیکار ہو چکا ہے کیونکہ نئے بجٹ کی تیاری میں پاکستانی ریاست اور IMF نے ہر سیکٹر اور ہر شعبے میں۔۔ معیار زندگی سے لے کر افراطِ زر، پیداواری سرگرمیوں سے لے کر معاشی شرح نمو تک۔۔ ہر ایک میں جھوٹ اور فریب کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2022ء میں GDP (کل ملکی پیداوار) 374 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2023ء میں 337 ارب ڈالر اور اب تمام منفی اشاریوں کے باوجود 2024-25ء میں 410 رب ڈالر بتائی جا رہی ہے!۔ اتنی تیز ترین کمی اور بڑھوتری کی قلابازی شاید سرمایہ دارانہ تاریخ کا سب سے عظیم ”شاہکار“ ہے۔ لیکن اس سب سے قطع نظر ہر گھر، ہر گلی اور ہر کھیت میں محنت کش بخوبی بتا سکتے ہیں کہ پچھلے چند سالوں میں ان کی قوت خرید اور معیار زندگی کی تباہی کا کیا حال ہو چکا ہے۔ دوسرا پروگرام RSF (The Resilience and Sustainability Facility) ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہے اور 2025ء میں منظور ہوا ہے۔ اس کی کل معیاد سوا دو سال اور مالیاتی قرضہ 1.4 ارب ڈالر ہے۔
پچھلے سال کا یہ سرسری خاکہ ضروری ہے تاکہ اس سال IMF بجٹ میں جو نئی کٹوتیاں اور ٹیکس لگانے جا رہا ہے اس کو پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں، نوجوانوں اور غریب عوام پر مسلط مسلسل طبقاتی جنگ کے تسلسل میں دیکھا جائے۔ پچھلے سال 18 ہزار 877 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جس میں 2022-23ء کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ اضافے کے ساتھ 12 ہزار 97 ارب روپے کا ٹیکس ہدف رکھا گیا تھا۔ اس میں 9 ہزار 775 ارب روپیہ قرضوں کی واپسی، 2 ہزار 122 ارب روپیہ عسکری اخراجات، 1 ہزار 152 ارب روپے ریاستی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ یعنی کل اکٹھے کیے گئے ٹیکس سے زیادہ خرچہ صرف ان تین اخراجات کی مد میں کر دیا گیا جبکہ 7 ہزار 800 ارب روپے کا نیا قرضہ لیا گیا جس میں سے ابھی کچھ حاصل کرنا باقی ہے۔ صورتحال واضح ہے کہ عوام سے نچوڑا گیا ہر روپیہ سامراجی مالیاتی اداروں، بینکوں کی جیبوں میں جا رہا ہے جبکہ حکمران طبقے کی لوٹ مار عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اس سارے اللے تللے میں مزدور کی کم از کم تنخواہ محض 37 ہزار روپے رکھی گئی جبکہ تنخواہ دار افراد کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچل دیا گیا۔ اب IMF کے نئے 2025-26ء بجٹ کی مجوزہ تجاویز ہیں کہ کل بجٹ 17 ہزار 600 ارب روپے ہو گا جس میں کم از کم 1 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ اس میں 8 ہزار 700 ارب روپے قرضوں کی واپسی (شرح سود میں کمی کے متوازی کمی) اور 2 ہزار 500 ارب سے زیادہ عسکری اخراجات (12 فیصد اضافہ اگرچہ 250-300 ارب روپے کا مزید اضافہ منظور ہونے کے بعد یہ 18 فیصد اضافہ ہو گا)۔ ریاستی اخراجات میں اگر کوئی بڑا اضافہ نہیں بھی ہوتا تو بھی آنے والے مالی سال میں بجٹ کا دیوہیکل حصہ ان تین اخراجات کی نظر ہو جائے گا اور باقی کرپشن کا جن ہڑپ کر جائے گا۔ عوام کے حصے میں صرف ٹیکس، کٹوتیاں، جھوٹ، دلاسے اور حب الوطنی کے نعرے ہی آئیں گے۔
نئے بجٹ میں IMF نے نئی ہوشربا شرائط رکھی ہیں جن میں پیٹرولیم لیوی کو 78 روپیہ فی لیٹر سے بڑھا کر 100 روپیہ سے زیادہ اور حد بندی ختم؛ جون 2025ء تک بجلی پر سرکلر ڈیبٹ چارج کی مد میں 3.21 روپیہ فی یونٹ کی حد بندی ختم کرنے کا قانون پاس کرنا، یکم جنوری سے سالانہ یونٹ ٹیرف کی از سر نو تشکیل، مئی 2025ء تک کیپٹیو پاور لیوی کا قانون پاس کرنا؛ 15 فروری 2026ء تک سال میں دو مرتبہ گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ؛ تمام صوبوں میں جون 2025ء تک زرعی انکم ٹیکس نافذ کرنا؛ IMF کی تجاویز پر مبنی ایک ”اصلاحات“ پروگرام شائع کرنا، افراط زر کی بنیاد پر کیش ٹرانسفر فوائد کا تخمینہ رکھنا، فنانشل سیکٹر کے لیے 2028ء کے بعد تفصیلی ادارہ جاتی اور ریگولیٹری اصلاحات جاری کرنا؛ جولائی سے پانچ سال پرانی تک گاڑیوں کی در آمد کی اجازت دینا؛ 2035ء تک اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اور صنعتی پارکوں کے لیے تمام ٹیکس چھوٹوں کا مکمل خاتمہ وغیرہ شامل ہے۔
حکمران طبقے اور مالیاتی اداروں کی لوٹ مار
پاکستان اس وقت سیاسی، سماجی اور معاشی ہر حوالے سے تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں اس وقت نوجوانوں اور ہنر مندوں کی بیرون ملک دوڑ میں تیز ترین اضافہ ہو چکا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں لاکھوں افراد ملکی حالات اور معیار زندگی سے مایوس ہو کر ملک چھوڑ چکے ہیں۔ آئے دن نیوز چینل اور اخبارات میں غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش میں ڈوب جانے والوں کی خبریں لگتی رہتی ہیں۔ عوام غربت اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب رہی ہے۔ بیروزگاری اور جرائم کا گلی گلی ننگا ناچ جاری ہے۔ حکمران طبقہ اور ریاست سامراجی قوتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے محض گماشتہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی ذمہ داری سامراجی آقاؤں اور عالمی مالیاتی اداروں کی لوٹ مار میں معاونت کرتے ہوئے اپنا حصہ بٹورنا ہے۔ ریاست اور حکمران طبقہ لوٹ مار کی ہوس میں اس قدر اندھا اور عوام سے بیگانہ ہو چکا ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے برعکس اس کے مختلف دھڑے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ تمام متفق بھی ہیں کہ جہاں محنت کش عوام کا خون چوسنا مقصد ہو، سب ایک ہیں۔
ریاستی اور سامراجی لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ بینک کی ’عالمی قرضہ رپورٹ 2024ء‘ کے مطابق مقروض ممالک نے 2023ء میں سامراجی ممالک اور اداروں کو 1 ہزار 400 ارب ڈالر کی ادائیگی کی! اس میں پاکستانی ریاست نے عوام کا خون نچوڑ کر صرف ایک سال میں 30 ارب ڈالر حصہ ڈالا ہے جبکہ IMF کے مطابق اگلے دو سالوں میں یہ رقم 33 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی۔
سرمایہ داری ایک عالمی استحصالی نظام ہے جس میں تمام حکمران طبقات انفرادی اور مشترکہ مفادات، باہمی مسابقت اور چپقلشوں کے درمیان ایک مخصوص توازن کے تحت پوری دنیا کی اور خاص طور پر اپنی محنت کش عوام کا منافعوں کی ہوس میں خون نچوڑتے ہیں۔ کمزور حکمران طاقتور سامراجی حکمرانوں کے مطیع و باجگزار ہوتے ہیں اور ان کے فراہم کردہ ہتھیاروں اور ذرائع سے اپنی عوام کو محکوم رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پر اپنے داخلی و خارجی مفادات کے لیے دیگر ریاستوں سے جنگ و جدل کا سامان بھی کرتے ہیں۔ اسی پیرائے میں ہم حالیہ انڈیا پاکستان جھڑپ کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا دیگر دنیا کی طرح سامراجی قوتوں، امریکہ اور چین، کے درمیان اثر و رسوخ کے لیے رسہ کشی کا میدان بن چکا ہے۔ اگرچہ حالیہ جھڑپ کی دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان کو بھی اشد ضرورت تھی۔ ہمیشہ کی طرح مودی کو انتخابات سے پہلے ایک بیرونی جھڑپ کی ضرورت تھی جبکہ ملک میں تمام تر نام نہاد ترقی کے باوجود ایک ارب غریب عوام کی موجودگی اور محنت کشوں اور کسانوں کی تحریکوں کی اٹھان نے حکمران طبقے کو پریشان کر رکھا ہے۔ پاکستان میں بھی معاشی اور سماجی بربادی سے تنگ عوام ملک کے مختلف حصوں میں تحریکیں برپا کر رہے ہیں، جن میں کشمیر میں معاشی مطالبات پر عوامی تحریک؛ گلگت بلتستان میں زمینوں پر غیر قانونی قبضوں اور وسائل کی لوٹ مار پر تحریک؛ سندھ میں کنال کے مسئلے پر عوامی تحریک؛ پنجاب میں ہسپتالوں، سکولوں، پینشنوں کے خاتمے وغیرہ کے خلاف تحریکیں شامل ہیں جبکہ بلوچستان میں ایک عوامی بغاوت جاری ہے۔ اس کے ساتھ تمام سیاسی اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام میں شدید نفرت کی موجودگی میں IMF کا پروگرام لاگو کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس لیے ایک طرف جنگی جھڑپ نے حکمران طبقے کو کچھ سانس لینے کا موقع دیا ہے تو دوسری طرف بجٹ عید تک ملتوی کر دیا گیا ہے تاکہ جب عوام عید کی چھٹیوں میں مشغول ہو تو بجٹ کا میزائل چلا دیا جائے۔
سوشلسٹ انقلاب کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں!
حکمران طبقہ واضح کر چکا ہے کہ اس کے پاس دینے کو کچھ نہیں اور وہ سب کچھ چھیننے کے لیے تیار ہے جس میں عوام کے خون کا آخری قطرہ تک شامل ہے۔ یہ طبقہ ایسا وحشی درندہ بن چکا ہے جو جتنا خون پیتا ہے اس کی بھوک اور اشتہا اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اس طبقے کا نظام سرمایہ داری اپنی تاریخی مدت پوری کر چکا ہے۔ یہ نظام اس وقت قرضوں کے پہاڑ، محنت کشوں پر خوفناک حملوں، عالمی جنگ و جدل، ماحولیات کی بربادی، طبقاتی خلیج میں تاریخی اضافے اور زندگی کی ہر رمق کی تباہی کا ذمہ دار بن چکا ہے۔ ایسے میں اس نظام سے مستفید ہونے والا حکمران طبقہ مجبور ہے کہ وہ اپنے نظام اور اپنی بقا کے لیے اس تباہی و بربادی کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے اور پھیلائے۔ محنت کش طبقے کا خون ہی حکمران طبقے کی بقا کا ضامن ہے!
اس لیے اگر اس تباہی و بربادی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو محنت کش طبقے کو کمیونزم کے نظریات کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا اور حکمران طبقے اور سرمایہ داری کا خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کرنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی ایسا غیر طبقاتی سماج اور ایسی منصوبہ بند معیشت تعمیر کی جا سکتی ہے جو منافعوں کی ہوس کی بجائے انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استوار ہو، جس میں دولت کا پیداکار محنت کش طبقہ اپنے ہاتھوں سے تخلیق کی ہوئی دولت سے مستفید ہو اور اسے لوٹنے کے لیے ایک مٹھی بھر خون آشام حکمران طبقہ موجود نہ ہو۔ یہ کام محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی کے ذریعے ہی سر انجام ہو سکتا ہے۔ اسی جدوجہد کو انقلابی کمیونسٹ پارٹی پورے ملک میں منظم کر رہی ہے اور ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ ایک بہتر مستقبل، ایک روشن مستقبل، ایک سرخ سویرے کی جدوجہد میں ہمارے ساتھ شامل ہوں!