پاکستان: مظلوم قومیتوں کی تحریکیں۔۔۔نظریے اور تنظیم کی اہمیت

|تحریر: زلمی پاسون|

2008ء کے عالمی اقتصادی بحران کے بعد دنیا بھر میں اْٹھنے والی تحریکوں نے سوویت انہدام کے بعد سے چھائے جمود کو توڑ کر رکھ دیا۔ اس میں 2011 ء کی ’عرب بہار‘ ایک شاندار مثال ہے جس نے عرب ممالک میں کئی سالوں پر محیط بادشاہتوں کا خاتمہ کیا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب یہ طوفانی تحریکیں انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پسپاہوئیں تو ان کی جگہ بربریت نے لے لی۔ کسی بھی سماج میں ظلم،جبر اور استحصال کے خلاف اٹھتی ہوئی تحریکیں اپنے معروضی حالات کے مطابق اس ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف اپنی مخصوص نوعیت اور قوت کے ساتھ مزاحمت کے دلیرانہ عمل کو زندہ رکھتی ہیں۔ مگر دنیا بھر میں سماج کے اندر ’’ناہموار اور مشترکہ ترقی‘‘ کی بدولت ان تحریکوں کی حرکیات اور کیفیت جہاں الگ الگ ہوتی ہے وہیں ان سب تحریکوں میں ایک بنیادی قدر مشترک ہے کہ یہ سب موجودہ سیاسی،سماجی و معاشی نظام سے عوام کی بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتی ہیں۔ اگر ہم مزید واضح کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی دنیا میں احتجاجی تحریکوں کا محور جمہوری سے زیادہ معاشی و طبقاتی ہوتا ہے جبکہ دوسری اور تیسری دنیا میں پنپنے والی احتجاجی تحریکوں میں معاشی وطبقاتی مطالبات کے ساتھ ساتھ جمہوری مانگیں بھی ایک نہایت اہم مقام رکھتی ہیں۔ تحریکوں پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ بالآخر تحریک ہوتی کیا ہے؟ اس کا آغاز کیوں کر ہوتا ہے؟ اور تحریک کو عمومی طور پر کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟

تحریک

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ابھی تک انسانی تاریخ کا ارتقاء طبقاتی جدوجہد کا مرہون منت رہا ہے یعنی تہذیب کے مختلف ادوار میں مختلف پیداواری نظاموں کے تحت انسانی تاریخ میں آج تک جو ارتقاء ہوا ہے اس میں حرکت اور ترقی سماج کے متضاد ومتحارب طبقات کے ٹکراؤ کی بدولت ہوئی ہے اور انہی تضادات کا معیاری اظہار تحریکوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ عمومی طور پر سماج کے اندر پنپتے ہوئے حالات، واقعات اور حادثات کے پیش نظر ایسی کئی تحریکیں جنم لیتی ہیں جن میں عوام سیکھتے ہیں کہ تمام تضادات کے قلابے آخری تجزیے میں پھر اسی طبقاتی نظام سے جا ملتے ہیں۔ یہی صورتحال جمہوری حقوق کی تحریکوں کی بھی ہے۔ جیسا کہ عظیم انقلابی استاد لینن نے قومی سوال کے بارے میں کہا تھا کہ قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کی زوال پذیری کی وجہ سے قومی سوال پھر سے سر اٹھا چکا ہے جوکہ اس نظام کے ضعف اور نامیاتی بحران کی غمازی کرتا ہے ۔ 

یہاں پر ہم تحریک کی عمومیت، ابھار ،نوعیت اور اْٹھان کے حوالے سے بات کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس بحث کو ہم پاکستان کے اندر جمہوری تحریکوں کیساتھ جوڑ سکیں۔ 

جدلیات کا قانون ہے کہ مقدار اس وقت معیار میں بدلتی ہے جب مقداری تبدیلی اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تحریکیں بھی اسی جدلیاتی قانون کے تحت اٹھتی ہیں اور سماج کے اندر پنپنے والے حالات اور واقعات کے نتیجے میں برپا ہونے والی تباہی، ظلم، بربریت، استحصال اور جبر کے خلاف عوامی غصے میں مقداری اضافوں کو معیاری اظہار دیتی ہیں۔اور یوں اس مخصوص خطے کے لوگ اس تحریک سے جڑ جاتے ہیں اور تحریک کو شکتی دینے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرتے ہیں جس سے تحریک آگے بڑھتے ہوئے ایک بڑی قوت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔مگر تحریک کے آگے بڑھنے اور مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست اور حکمران طبقے کی جانب سے اس کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یعنی کہ یہاں پر وہی تضاد اور اختلاف کھل کر سامنے آنے لگتا ہے جو کہ اس ابھرتی ہوئی تحریک اور مخالف قوت یعنی ریاست و حکمران طبقے کے درمیان ہوتا ہے ۔ جمہوری تحریکوں کے حوالے سے اگر ہم پاکستان کے بارے میں بات کریں تو یہاں پر مظلوم قومیتیں اپنے جمہوری حقوق کی جدوجہد کے لئے اس وقت سے برسرپیکار ہیں جب سے یہ ریاست برطانوی وامریکی سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے تخلیق ہوئی ہے۔ مگر ان بڑے سامراجوں کی گماشتہ ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان اپنے سامراجی عزائم بھی رکھتی ہے اور پچھلے 71 سالوں میں ایسی کئی تحریکیں اٹھی ہیں جنہوں نے اس گماشتہ ریاست کے سامراجی عزائم کو للکار ا ہے۔ ان میں پشتون، بلوچ، سندھی سمیت دیگر مظلوم قومیتوں اور مظلوم طبقات کی تحریکیں سرفہرست ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام جوں جوں اپنے نامیاتی تضادات کے بوجھ تلے دب کر انتشار کا شکار ہو رہا ہے توں توں اس نظام کے خصی پن کی وجہ سے نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں لوگ اس نظام کے ظلم و استحصال کے خلاف مختلف شکلوں میں احتجاجی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ فرانس کے اندر گزشتہ تقریباً 2 ماہ سے ییلو ویسٹ (پیلی واسکٹ) تحریک نے فرانس سمیت پورے یورپ کے اندر ہلچل برپا کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ یکم اکتوبر 2017ء کو سپین کے اندر ریاست کیٹالونیا میں سپین سے علیحدگی کے مسئلے پر ریفرنڈم ہوا جس میں 92فیصد کے قریب عوام نے سپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا، مگر نظام کے خصی پن کی وجہ سے اس ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک میں بھی مسئلے کو جمہوری انداز میں حل کرنے کی بجائے تحریک کو جبر کے ذریعے کچل دیا گیا۔ اسی سال 25 اکتوبر کو کردستان کے حق میں امریکی سامراج کی در پردہ حمایت کے ساتھ کردوں نے عراق اور ترکی کے اندر منقسم کردوں کو یکجا کرنے کے لئے ریفرنڈم منعقد کیا جس میں 96 فیصد سے زیادہ لوگوں نے حمایت میں ووٹ ڈالا مگر اس خطے میں وسیع تر امریکی سامراجی عزائم کی وجہ سے ریفرنڈم پر آج تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ الٹا ترکی کے اندر کردوں پر ظلم اور جبر میں ترک سامراج نے اضافہ کردیا ہے۔ اور یوں کردوں کا قومی مسئلہ اب پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔

ہزاروں کیٹالونی باشندے آزادی کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے

اسی طرح اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو گزشتہ سال کے اوائل میں کراچی میں نقیب اللہ محسود شہید کے ظالمانہ قتل کے خلاف جو تحریک اْٹھی اس نے پوری پشتون قوم سمیت دیگر مظلوم قومیتوں کو بھی جھنجھوڑ دیا،جبکہ دوسری طرف ریاستِ پاکستان کی پشتون علاقوں میں سامراجی پالیسیوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے ریاست کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اس تحریک نے پشتون سماج کے اندر حمایت کی وسیع بنیادیں بناتے ہوئے ریاستی جبر،ظلم اور استحصال کو آشکار کیا۔ پشتون تحفظ مومنٹ دراصل پشتون سماج کے اندر ریاستی ظلم و جبر اور عالمی سامراجی دہشت گردی کے خلاف چالیس سالوں سے پنپتے ہوئے حالات اور واقعات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔ یہ تحریک بنیادی طور پر 2001ء سے شروع ہونے والی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ اور سابقہ فاٹا کے اندر اس آڑ میں ریاستی آپریشنز کے ظلم و جبر کے خلاف اْبھری ہے۔ اس تحریک نے جہاں ایک طرف ریاست کی بنیادیں ہلا ڈالیں وہیں دوسری طرف تنگ نظر قوم پرستی کا لبادہ اوڑھنے والی روایتی قوم پرست قیادتوں کو بھی تاریخ کے کوڑے دان میں دھکیل دیا۔

بلوچستان کے اندر بھی پچھلے ستر سالوں سے آزادی کی ایک تحریک موجود ہے جو کہ وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہتی ہے۔ گوکہ اس وقت نواب اکبر بگٹی کے ریاستی قتل سے شروع ہونے والی حالیہ تحریک کافی کمزور پڑ چکی ہے مگر ختم ہرگز نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان، سندھ، کشمیر اور کراچی میں بھی قومی سوال کے حوالے سے لوگوں کے اندر اضطراب موجود ہے، مگر تحریک کی کمی ہے۔جبکہ دوسری طرف ان تمام جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں معاشی مطالبات کے گرد اٹھنے والی محنت کشوں کی مختلف تحریکیں بھی موجود ہیں جو کہ اگرچہ ابھی ایک دوسرے سے الگ تھلگ چل رہی ہیں لیکن حکمران طبقے کے پے درپے معاشی حملے مستقبل قریب میں ان کو ایک یکجا قوت میں بدل سکتے ہیں۔ 

نظریہ

عظیم مارکسی استاد لینن کا قول ہے کہ ایک انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک نہیں چل سکتی۔ کامریڈ لینن کے یہ الفاظ کس حد تک درست ہیں ،اس کا بخوبی اندازہ ہمیں ہر اس عوامی تحریک سے ہوتا ہے جو کہ آج تک دنیا میں نمودار ہو ئی ہے۔ جن تحریکوں کی قیادت نے وقت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے معروضی حالات کے مطابق اپنی تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں وہ تحریکیں کامیاب ہوئیں، جبکہ غلط اور فرسودہ نظریات کے ساتھ چلنے والی تحریکیں حتمی تجزیے میں صرف ہوا کا جھونکا ثابت ہو کر سماج پر حکمران طبقے اور ریاست کے جبر میں مزید اضافے کا موجب بنیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس بہت ساری ایسی مثالیں ہیں جن کو ہم اس آرٹیکل میں زیر بحث لا سکتے ہیں۔

عام ادوار میں ہر نظام کے اندر غالب نظریات حکمران طبقات کے مفاد ات کی ترجمانی و نگرانی کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی سے حکمران طبقہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان نظریات کے علاوہ باقی سارے نظریات غلط ہیں ۔ جبکہ در حقیقت ہر نظام کے اندر حکمران طبقے کے مقابلے میں مظلوم طبقے کے اپنے نظریات ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ پرانے نظام کے ظلم جبر اور استحصال سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کسی بھی عوامی تحریک کے لیے درست اور غلط نظریات کی نشاندہی کرنا بیحد ضروری ہے کیونکہ اس نشان دہی کے بغیر تحریک ناکام ہو جائے گی۔اس حوالے سے اگر موجودہ عہد میں ابھرنے والی جمہوری تحریکوں کے بارے میں بات کی جائے تو ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جن نظریات (لبرل ازم،قوم پرستی وغیرہ) کے ذریعے سرمایہ داری نے جاگیر داری سے جان چھڑائی تھی اب انہی نظریات کے ذریعے اس ظالم اور استحصالی سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے اور سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے آج کوئی بھی مظلوم قوم اپنے جمہوری حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔یہی وجہ ہے کہ محکوم اقوام کو مرحلہ واریت کی بجائے اپنے جمہوری حقوق کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کیساتھ جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

نظریے کی افادیت اور اہمیت

جیسا کہ ہم نے انقلابی استاد لینن کے قول کا اوپر ذکر کیا ہے تو ہم ماضی کی کسی بھی ناکام ہو نے والی عوامی تحریک کا مطالعہ کرتے ہوئے باآسانی اس امر کو سمجھ سکتے ہیں کہ تحریک کی کامیابی کے لئے درست نظریات کا ہونا کیوں ضروری ہے۔ پاکستان میں-69 1968ء میں ابھرنے والے انقلاب کو سٹالنسٹ مرحلہ واریت کے غلط نظریات کی بھینٹ چڑھایا گیا جس کی وجہ سے انقلاب ناکام ہو گیا اور ضیا الحق کے رد انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر اور آج کے عہد میں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں 2011ء کے دوران ہونے والے انقلابات نے جہاں پوری دنیا اور خاص طور پر عرب خطے کو لرزا دیا مگر ان سب انقلابی تحریکوں میں درست نظریات کی عدم موجودگی ان انقلابی تحریکوں کو لے ڈوبی اور آج اس پورے خطے میں عالمی اور علاقائی سامراجیوں نے اپنے اپنے مفادات کے اڈے کھول رکھے ہیں اور قتل و غارت گری کا ایک بازار گرم ہے۔

پاکستان کے اندر مظلوم قومیتوں کی جانب سے کئی تحریکیں چل چکی ہیں اور اب بھی چل رہی ہیں مگر ان تمام گذشتہ اور حالیہ تحریکوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اکثر تحریکیں کامیاب ہونے کی بجائے ناکام ہوئی ہیں۔جو چند ایک کامیاب بھی ہوئی ہیں(مثلاً بنگالیوں کی جدوجہد آزادی)،وہاں بھی قومی حقوق تو مل گئے مگر غریب عوام آج بھی ماضی کی طرح ہی ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں غیر قوم سے تعلق رکھنے والے آقا ان کی گردنوں پر سوار تھے اور آج ان کی اپنی قوم کا طبقہ بالا ان کا خون پی رہا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مظلوم قومیتوں کی سیاسی پارٹیوں کے اندر ترقی پسندانہ نظریات اور خیالات کا بالکل خاتمہ ہوگیا اور آج ان تمام پرانی قوم پرست پارٹیوں اور دائیں بازو کی پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ غلط اور فرسودہ نظریات کی وجہ سے یہ سیاسی قوتیں یا تو موقع پرستی کا شکار ہو گئیں یا پھر مہم جوئی کا شکار ہوکر عوام سے یکسر کٹ گئیں۔ بالخصوص اگر ہم بلوچستان کے حوالے سے بات کریں تو بلوچ قومی تحریک نے آزادی کے لیے جن فرسودہ قوم پرستانہ نظریات اور انہی سے منسلک مہم جوئیانہ طریقہ کار کا سہارا لیا اس کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔گو کہ ان تمام حریت پسند بلوچ نوجوانوں کی قربانی لازوال ہے مگر غلط نظریات اور طریقہ کار کی وجہ سے انہوں نے نہ صرف خود کو بلوچ سماج بلکہ خطے کی باقی عوام سے بھی کاٹ لیا اور نتیجتاً ریاست کو ننگے جبر کا جواز مل گیا جس کی وجہ سے بلوچ سماج میں پنپتے ہوئے سیاسی عمل کو شدید دھچکا لگا۔ اس کے علاوہ خونخوار ریاست نے اپنی خونخواری کی انتہا کردی جس میں مسخ شدہ لاشیں، سرچ آپریشنز، بمباری اور لاپتہ افراد کا مسئلہ تو اب زبان زد عام ہو چکا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچ سماج میں ریاستی آلہ کاروں اور دلالوں کے علاوہ کسی بھی سنجیدہ سیاسی آواز کو ریاست کی طرف سے بزور طاقت دبا دیا جاتا ہے جس کی ایک حالیہ مثال یہ ہے کہ بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کی ایک نئی اٹھان کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا جواز بنا کر ایک بار پھر جبری گمشدگیوں کے عمل کو تیز کر دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ پر کاری ضرب لگی،بلوچ سماج میں ایک طویل عرصے بعد پیدا ہونے والی سیاسی ہلچل پیچھے چلی گئی،مسنگ پر سنز کیمپ کی خطے کی دیگر عوام میں بڑھتی ہوئی حمایت میں کمی آئی اور ریاست نے ایک بار پھر اپنے گھناؤنے عزائم میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے خوف کی فضا کو بحال کر دیا۔مگر اس تمام صورتحال کی ذمہ داری کسی حد تک بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے جوکہ ایک درست اور واضح سیاسی پروگرام دینے سے قاصر رہی۔ 


مسنگ پرسنز کے مسئلے پر ایک لمبے عرصے کے بعد بلوچ سماج میں سیاسی ہلچل دیکھنے میں آئی

2018ء کے اوائل میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ابھار نے پشتون قوم پرست پارٹیوں کی قیادتوں کی غداریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتے ہوئے ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کیخلاف عوامی غم وغصے کی غمازی کی۔ چونکہ یہ تحریک بنیادی طور پر وار آن ٹیرر اور ریاستی آپریشنز کے ظلم وجبر کے خلاف اْٹھی تھی، جنہیں قوم پرست پارٹیوں سمیت ملک بھر کی تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی، اور پشتون تحفظ موومنٹ نے ان تمام جابرانہ ریاستی پالیسیوں کیخلاف کھل کر عوامی نفرت کو زبان دی، مگر اسی وجہ سے ریاست اور حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ تمام روایتی قوم پرست قیادتیں بھی پی ٹی ایم سے خوفزدہ ہو کر اس کی دشمن بن گئیں۔ان میں سے بعض ایک تو کھل کر پی ٹی ایم کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن بعض کا طریقہ واردات اس سے بھی زیادہ خطر ناک ہے یعنی یہ قوم پرست قیادتیں اس تحریک کو ایک درست اور واضح سیاسی پروگرام و نظریہ اپنانے سے روک رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف پی ٹی ایم کی قیادت خود بھی اس حوالے سے شدید تذبذب کا شکار ہے اور تحریک کو واضح نظریات اور سیاسی پروگرام کے ساتھ منظم کرنے میں ناکام رہی ہے، نتیجتاً تحریک نے اب محض احتجاجوں اور جلسوں تک خود کو محدود کرلیا ہے۔ حالانکہ اس تحریک نے جہاں ریاست کے جبر پر مبنی سامراجی پالیسیوں کو للکارا وہیں اس تحریک نے نہ صرف پشتون بلکہ دیگر مظلوم و محکوم عوام کو بھی ریاستی جبر اور استحصال کے خلاف اظہار کی جرات عطا کی۔ لیکن کسی بھی تحریک کا ایک اپنا ارتقائی عمل ہوتا ہے جس میں وہ مخصوص وقت میں خود کو منظم کرتے ہوئے درست نظریات اور سیاسی پروگرام کے بلبوتے پر عوام کی وسیع ترین پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑتی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے پاس جو عوامی قوت تھی، وہ اب منتشر ہونا شروع ہو چکی ہے اور اس کی بنیادی وجہ درست سیاسی نظریے اور پروگرام کی عدم موجودگی ہے۔ کیونکہ نظریہ ہی وہ طاقت ہے جس کے اندر وہ تمام سیاسی پروگرام ہوتا ہے جو کہ سماج کے اندر پلتے ہوئے زندہ مسائل پر درست نقطہ نظر کے ساتھ خود کو عوام سے اور عوام کو تحریک سے جوڑے رکھتا ہے۔ اور جب بھی کسی تحریک کے پاس ایک درست سیاسی نظریہ نہیں ہوتا تو وہ تحریک صرف ایک ہجوم بن کر رہ جاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے ساتھ عوام کا تعلق مدہم اور کمزور ہونے لگتا ہے ۔ 


پی ٹی ایم کی قیادت خود بھی اس حوالے سے شدید تذبذب کا شکار ہے اور تحریک کو واضح نظریات اور سیاسی پروگرام کے ساتھ منظم کرنے میں ناکام رہی ہے، نتیجتاً تحریک نے اب محض احتجاجوں اور جلسوں تک خود کو محدود کرلیا ہے

پشتون تحفظ مومنٹ قومی جبر کیخلاف اور جمہوری مانگوں کے گرد بننے والی ایک عوامی تحریک ہے مگر ایک واضح سیاسی پروگرام اور درست نظریات نہ ہونے کیوجہ سے قوم پرستی کے بوسیدہ اور رجعتی نظریات اس پر حاوی ہو رہے ہیں جو کہ اس تحریک سے جڑے ہوئے عوام کے ساتھ نہایت زیادتی ہے کیونکہ قوم پرستی کے نظریات گل سڑ چکے ہیں اور موجودہ عہد میں محکوم اقوام کی کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔اس کی تازہ ترین مثال کرد قومی تحریک کی حالیہ ناکامیوں سے لی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں اب ترک سامراج بھی اس پر شدید حملے کررہا ہے جبکہ ریفرنڈم کے کامیابی کے بعد بھی عراقی کرد آبادی کو واپس عراق کی پارلیمنٹ کے لیے اپنے نمائندوں کو بھیجنا پڑا ہے۔اس پوری صورتحال سے قومی حقوق کے حصول کی خاطر عالمی سامراجی طاقتوں سے امیدیں باندھنے کے بھیانک نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ دوسری جانب اسپین کے اندر کیٹالونیا کی ریاست کے لئے چلنے والی تحریک آزادی میں محنت کش طبقہ بھی شامل تھا مگر پیٹی بورژوا تنگ نظر قوم پرست قیادت کے غلط نظریات اور پروگرام کی وجہ سے آزادی ملنا تو دور کی بات الٹا سپین کے ظلم و جبر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ 

سرمایہ دارانہ نظام اس وقت ایک اور عالمی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، جس کی نشاندہی بورژوا معیشت دان بھی کر چکے ہیں،اور اس نظام کے جبر اور استحصال کے خلاف پوری دنیا کے محنت کش عوام سراپا احتجاج ہیں۔ مگر وہی بات پھر سامنے آتی ہے کہ ان تحریکوں کی کامیابی سچے اور درست سائنسی نظریات سے لیس قیادت پر منحصر ہے۔ درست اور سائنسی نظریات سے مراد سوشلزم یا مارکسزم کے نظریات ہیں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام سے نجات اور طبقاتی و قومی جبر کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے ظلم واستحصال سے پاک سماج کی تخلیق کی راہ دکھاتے ہیں۔ پاکستان کے اندر اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ ایک عوامی تحریک ہے مگر اس تحریک نے درست سیاسی نظریات اور پروگرام اختیار کرتے ہوئے ملک کے دیگر مظلوم قومیتوں اور طبقات کو اپنے ساتھ نہیں جوڑا اور اگر یہی صورتحال رہی تو اس تحریک کی کامیابی تو دور کی بات ،اس کی بقاء بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ دیگر مظلوم قومیتوں اور بالخصوص محنت کش طبقے کی حمایت کے بغیر اس ظالم و جابر ریاست اور حکمران طبقے کے ظلم اور جبر سے چھٹکارا پانا محض ایک خواب ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کو اس خواب سے باہر نکلنا ہوگا۔ 

تنظیم کاری

تحریک، نظریات، تنظیم کاری اور عوام کا آپس میں جدلیاتی تعلق ہوتا ہے،گو کہ عمومی طور پر تنظیم کاری میں جہاں معروضی حالات کا سوال اہمیت کا حامل ہے وہیں موضوعی عنصر یعنی تحریک کی قیادت کی حکمت عملی اور طریقہ کار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تنظیم کاری کے لئے جہاں قیادت کے پاس مستقبل کا تناظر ہونا چاہئے وہیں موجودہ صورتحال کا درست ادراک بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مگر اس سب کے لئے پھر درست نظریات کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں ریاست کے داخلی تضادات ان بحرانات کو مزید گہرا کرتے جارہے ہیں ۔ان بحرانات اور تضادات کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ملک کے اندر مختلف تحریکوں نے جنم لیا ہے جن میں ریاستی وقومی جبر اور طبقاتی استحصال کے خلاف مختلف تحریکیں شامل ہیں۔ معاشی بحران کی وجہ سے حکمران طبقہ آئے روز محنت کشوں پر شدید ترین معاشی حملے کر رہا ہے جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں طبقاتی کشمکش میں مزید شدت آئے گی اور پہلے کی نسبت بہت بڑی تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ 

مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ تحریکوں کو منظم کرنے کے لئے تنظیم کاری کی اہمیت کیا ہے اور کیا تحریکیں بغیر کسی نظریے اور تنظیم کاری کے کامیاب ہوسکتی ہیں۔ اس سوال کا جواب لازمی طور پر نفی میں ہے۔ کیونکہ تحریک کے اندر لوگ صرف ہجوم اور اکٹھ کی شکل میں ہوتے ہیں جو کہ اپنے مشترکہ مقاصد اور مفادات کے تحت متحد ہو جاتے ہیں مگر نظریے اور تنظیم کاری( جو کہ لازم و ملزوم ہیں) کے بغیر کوئی بھی تحریک نہ تو آج تک کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 

کوئی بھی تحریک اپنے ارتقائی عمل کے دوران مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے بالآخر نظریے اور تنظیم کاری کی ناگزیریت تک پہنچ جاتی ہے اور جب کوئی تحریک یہ عمل کامیابی سے مکمل کر لیتی ہے تب جاکر اس تحریک کا عمومی کریکٹر منظم اور نظریاتی بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں نظریے اور تنظیم کاری کے طریقہ کار کا چناؤ کرتے وقت عالمی، علاقائی اور ملکی حالات سے خود کو الگ تھلگ سمجھنا انتہائی بے وقوفی ہوگی اور خصوصاً عالمی سطح پر تندوتیز تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ نظام کی حالت زار پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ایسا کونا نہیں ہے جو کہ سرمایہ داری کے غلبے اور اثرات سے آزاد ہو۔ تو جب نظام ایک ہو پھر اس نظام کے اندر بدلتے ہوئے حالات اور واقعات کے نتیجے میں جو بھی تحریکیں اٹھتی ہیں ان کے اندر عمومی طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے گو کہ معروضی حالات میں ناہموار ترقی کی وجہ سے ان کے کچھ خصائص ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتے ہیں۔ 

آئیے اب ہم حالیہ عرصے میں پاکستان میں چلنے والی ان تحریکوں پر نظر دوڑاتے ہیں جو درست نظریات اور تنظیم کاری نہ ہونے کے سبب پسپا ہوگئیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ درست نظریات اور تنظیم کاری کا صحیح طریقہ کار اختیار کرنا تحریک کی قیادت کی ذمہ داری ہوتا ہے ۔ 2005 ء میں پی ٹی سی ایل میں ایک انتہائی شاندار تحریک چلی جو کہ PTCL کی نجکاری کے خلاف ملک گیر سطح پر موجود تھی مگر اس تحریک کو نظریاتی قیادت کے فقدان کی وجہ سے پسپا ہونا پڑا۔ تحریک کے پسپا ہونے پر ریاست نے بدترین ظلم و استحصال کرتے ہوئے PTCL کو بیرونی کمپنی کے ہاتھوں فروخت کرکے ہزاروں محنت کشوں کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح 2016ء کے اوائل میں PIA کی ایک زبردست تحریک دیکھنے کو ملی جس میں ادارے کی نجکاری کیخلاف ملک گیر ہڑتال بھی ہوئی، مگر نظریاتی قیادت اور درست تنظیم کاری کے فقدان کی وجہ سے تحریک ریزہ ریزہ ہو گئی حالانکہ دو محنت کشوں کی شہادت بھی واقع ہوئی ۔ 

جمہوری حقوق کی جنگ میں اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ نے ریاست پاکستان کے اندر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے مگر یہ تحریک اب تک بغیر کسی واضح تنظیم کاری، سیاسی پروگرام اور نظریے کے چل رہی ہے، جس کی وجہ سے پشتون تحفظ مومنٹ کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے صرف پانچ مطالبات ہیں اور ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل سیاسی پروگرام نہیں ہے حالانکہ تحریک کے ساتھ جڑا ہوا ہر عام آدمی ایک متبادل سیاسی پروگرام کی تلاش میں پشتون تحفظ مومنٹ کے ساتھ جڑ ا ہے مگر تحریک کی قیادت اس امر کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ تحریک کی اعلیٰ قیادت اس وقت تحریک کو صرف پشتون قوم اور غیر پارلیمانی کی گردان میں مشغول رکھے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ پھر درست نظریات اور تنظیم کاری کی عدم موجودگی ہے۔ مگر ایک بات یہاں پر واضح کرنا ضروری ہے کہ اس تحریک کو پارلیمانی سیاست سے روکنے کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک سے جڑے عوام روایتی پارلیمانی پارٹیوں کی غداریوں سے بیزار آ چکے ہیں جس کی وجہ سے غیر پارلیمانی تحریک تک رکنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ دوسری طرف تحریک کی قیادت کے ساتھ جڑے ہوئے روایتی زوال شدہ قوم پرست پارٹیوں کے موقع پرست اور کیریئرا سٹ لوگ ہیں جو کہ اپنی پارٹیوں کی رہی سہی سیاسی دکانداری کو بچانے کی خاطر پشتون تحفظ موومنٹ کو پارلیمانی سیاست سے روک رہے ہیں۔ اور تحریک کے دو ایم این ایز کو کور کمیٹی سے خارج کرنے کے اقدام کی وجہ نیچے سے پڑنے والا پریشر نہیں تھا بلکہ دوسری پارٹیوں سے آئے ان قوم پرست اور کیرئیراسٹ کیڈرز کے دباؤ کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔ اس تحریک پر رجعتی اور بوسیدہ قوم پرستانہ نظریات مسلط کرنے والوں نے بالواسطہ طور پر ریاست کا کام کیا ہے جو کہ اس تحریک کو صرف پشتون قوم اور حتمی طور پر صرف قبائلی عوام تک محدود کرنا چاہتی ہے تا کہ پھر اسے کچلنے میں آسانی ہو۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے اندر جاری قومی آزادی کی تحریک بھی غلط نظریات اور مہم جوئیانہ طریقہ کار کی بدولت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اس تحریک کے اندر کبھی جو ایک حد تک ترقی پسندانہ کردار تھا وہ بھی آج ختم ہو چکا ہے اور اس کا نتیجہ بد ترین نسل پرستانہ رویوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔

اس پوری بحث میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کسی بھی تحریک کے لئے درست نظریات،پروگرام اور تنظیم کاری کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ انسان کے زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ہوتی ہے۔ اورآج کے عہد میں یہ نظریات صرف اور صرف مارکسزم کے نظریات ہیں جو تمام طبقاتی اور جمہوری تحریکوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو کہ اس تمام جبر واستحصال کی اصل وجہ ہے۔ 

ہم چھین کر لیں گے آزادی!
سرمایہ دارانہ نظام مردہ باد! 
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.