|تحریر: زلمی پاسون|
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان 48 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی طے پائی ہے، جس کی تصدیق دونوں جانب سے کی گئی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ جنگ بندی طالبان کی درخواست پر ہوئی، مگر طالبان ترجمان کے مطابق یہ اقدام اسلام آباد کی درخواست پر کیا گیا، جو خود اس تنازع کے حقیقی توازن کو بے نقاب کرتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان اور افغانستان کے سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان پانچ دنوں تک فائرنگ، شیلنگ اور بمباری کا سلسلہ جاری رہا، جس میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو شدید نقصانات پہنچانے کی اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2025ء کے دوسرے ہفتے میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک مرتبہ پھر شدید تناؤ اور باہمی الزام تراشی کی لپیٹ میں آ گئے۔ 9 اور 10 اکتوبر کی درمیانی شب پاکستان کی جانب سے افغانستان کے مختلف صوبوں، خصوصاً کابل، کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں فضائی بمباری کی اطلاعات سامنے آئیں۔ کابل کے ضلع 8 میں عبدالحق چوک کے قریب ہونے والے دو دھماکے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنے، جنہیں مقامی عینی شاہدین اور بعض بین الاقوامی خبر رساں اداروں (AP، PressTV) نے پاکستانی ڈرون یا جیٹ حملے قرار دیا۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر فوری طور پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ حملے کا نشانہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سربراہ مفتی نور ولی محسود تھا اور وہ ”کابل میں ایک محفوظ گھر میں مارا گیا“۔ تاہم چند گھنٹوں بعد نہ صرف طالبان حکومت نے اس دعوے کی تردید کی بلکہ خود نور ولی محسود نے ایک آڈیو پیغام میں اپنے زندہ ہونے کی تصدیق کی۔ یوں پاکستانی بیانیہ، جو پہلے ہی ”دہشت گردوں کے خلاف کاروائی“ کے پردے میں چھپا ہوا تھا، اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔ طالبان حکومت نے ان حملوں کو افغان خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کیا۔
یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر متعدد مرتبہ حملے کیے گئے ہیں۔ اگست 2025ء میں ننگرہار اور خوست میں فضائی حملوں میں کم از کم تین شہری مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ اس سے قبل دسمبر 2024ء میں پکتیکا کے برمال علاقے میں پاکستانی فضائیہ کے حملے میں 46 افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ ان حملوں کی پاکستانی ریاست نے کبھی باقاعدہ ذمہ داری قبول نہیں کی، ہمیشہ کی طرح ”سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کاروائی“ کا مبہم جواز پیش کیا گیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ تمام واقعات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب طالبان کا وزیر خارجہ امیر متقی پہلی بار انڈیا کے طویل دورے پر انڈیا میں موجود ہے، جہاں اس کی مصروفیات میں سیاسی، تجارتی، سفارتی اور مذہبی امور شامل ہیں۔ جبکہ دوسری جانب طالبان حکومت کے مطابق پاکستان کی بمباری کے جواب میں افغان فورسز نے ڈیورنڈ لائن کے اس پار سات مختلف مقامات پر جوابی کاروائیاں کیں۔ ان میں انگور اڈہ، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارامچہ جیسے علاقے شامل ہیں۔ افغان وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 58 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے اور 25 پاکستانی چوکیوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس کے برعکس پاکستانی سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ 23 اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان نے 19 افغان چوکیوں پر جوابی کاروائی کرتے ہوئے متعدد ٹھکانوں کو تباہ کیا اور تقریباً 200 کے قریب طالبان اور مسلح شدت پسند مارے گئے۔
یہ اعداد و شمار چاہے جس جانب سے آئیں، دونوں ریاستوں کی پروپیگنڈہ مشینری کے کام کرنے کے انداز کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ریاستی مشینری کے لیے پروپیگنڈہ چلانا بلاشبہ ناگزیر ہوتا ہے: جنگی یا کشیدگی کی کیفیت میں حکومتیں اپنے فوجی، سیاسی اور سفارتی اقدامات کو عوامی قبولیت دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر پیغام رسانی پر انحصار کرتی ہیں۔ مگر اس ناگزیریت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسی پروپیگنڈے کو استعمال کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے، قومی جذبات کو جان بوجھ کر بھڑکایا جائے، یا سوشل میڈیا پر بدتمیزی، نفرت اور جھوٹی شہ سرخیوں کا طوفان کھڑا کیا جائے، جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
دونوں طرف کی پروپیگنڈہ مہمات کا عملی مطلب یہ ہے کہ حقیقی مسائل غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی کمی اور ریاستی جبر پسِ منظر میں دھکیل دیے جاتے ہیں، جبکہ عوامی توجہ یا تو ”دشمن کی شبیہ“ کی طرف موڑ دی جاتی ہے یا سوشل میڈیا پر جارحیت اور نفرت انگیزی کے ذریعے تعصب پھیلایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بنائی جانے والی افواہیں، تصویریں اور جھوٹی ہلاکتوں کے دعوے عام آدمی کے سیاسی شعور کو مبہم کر دیتے ہیں اور گروہی تعصبات کو ہوا دے کر طویل المیعاد سماجی زخم لگائے جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں کمیونسٹوں نے واضح مؤقف کے ساتھ پاکستان کی جانب سے افغانستان پر ہوائی حملوں اور دیگر فوجی کاروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے بیچ جنگ کا کردار انتہائی رجعتی ہو گا اور اس میں دونوں طرف کے عوام کا شدید نقصان ہو گا۔ یہ کشمکش درحقیقت ان خطوں کے محنت کش عوام کی نہیں بلکہ حکمران طبقوں کی اپنی بقا کی جنگ ہے، جو سامراجی دباؤ، داخلی بحران اور سیاسی کمزوریوں سے نکلنے کے لیے قومی دشمنی اور مذہبی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔ مزید اس بحث کو سمجھنے کے لیے پاکستان، طالبان اور پورے خطے سمیت عالمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان، طالبان تعلقات، تاریخ و بگاڑ اور ڈبل گیم کا شاخسانہ
افغانستان پر پاکستانی ہوائی حملوں کا حالیہ سلسلہ کوئی اچانک یا غیر متوقع واقعہ نہیں، بلکہ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان پنپتے تضادات کی عملی شکل ہے۔ پچھلے چند برسوں میں یہ تضادات نہ صرف گہرے ہوئے ہیں بلکہ اب کھلے تصادم میں بدل رہے ہیں۔ جب 2021ء میں طالبان نے امریکی انخلا کے بعد دوبارہ کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان کے حکمران طبقات کو یہ گمان ہوا کہ اُن کی دہائیوں پرانی ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ“ پالیسی بالآخر کامیاب ہو گئی ہے، اور اب افغانستان میں ایک ”دوست حکومت“ قائم ہو چکی ہے۔ مگر یہ خوش فہمی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ طالبان حکومت نے پاکستان کے مطالبات، خصوصاً تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کاروائی کو مسلسل نظر انداز کیا، بلکہ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ازسرِ نو منظم ہونے اور پاکستان میں حملے کرنے کے مواقع حاصل رہے۔ یہی وہ بنیادی تضاد تھا جس نے موجودہ کشیدگی کو جنم دیا۔
ہم کمیونسٹوں نے بار ہا یہ واضح کیا تھا کہ طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی نہ کسی ”اسلامی انقلاب“ کا نتیجہ تھی، نہ عوامی حمایت کا، بلکہ یہ مکمل طور پر ”سامراجی پشت پناہی“ کے تحت وقوع پذیر ہوئی۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی پاکستان اور طالبان کے پرانے تعلقات کو بحال نہیں کرے گی، کیونکہ اس بار طالبان کو اقتدار میں بٹھانے والا وہی شکست خوردہ سامراجی آقا تھا جس کی گود میں پاکستانی ریاست دہائیوں سے پلتی آئی ہے، یعنی امریکہ۔ تاہم یہ واپسی کسی سامراجی طاقت کی مضبوطی نہیں بلکہ ”امریکی سامراج کے زوال اور عالمی گرفت کے کمزور پڑنے“ کی علامت تھی۔ اب اپنی ذلت آمیز شکست کے بعد واشنگٹن براہِ راست قبضے کی بجائے ایسے نیم خودمختار، رجعتی اور قابلِ کنٹرول گروہوں پر انحصار کر رہا تھا، جو خطے میں اس کے مفادات کا دفاع کر سکیں۔ طالبان کی حکومت اسی ”غیر مستحکم کنٹرول“ کی پیداوار تھی۔
پاکستان کی دوغلی پالیسی ایک طرف امریکہ سے سامراجی تعلقات برقرار رکھنا اور دوسری جانب طالبان کی پرورش آخرکار اسی تضاد کا شکار ہوئی۔ امریکی ریاست نے اپنی افغان جنگ میں ناکامی کا ایک بڑا ذمہ دار پاکستانی ریاست کو قرار دیا کہ اس نے طالبان کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھ کر ”دوہرا کھیل“ کھیلا۔ دوسری طرف پاکستان کی فوجی و سیاسی اشرافیہ نے طالبان کے ساتھ بھی ایک ”سمجھوتے کی شادی“ جیسے تعلقات قائم رکھے، جو وقتی ضرورتوں کے تابع تھے۔ نتیجتاً آج یہ ”نکاحِ مفاد“ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔
پاکستان وہی ریاست ہے جس نے 1980ء کی دہائی میں امریکی سامراج کے ایما پر افغانستان میں مذہبی عسکریت پسندی کی بنیاد رکھی۔ مدارس، اسلحے اور مالی امداد کے ذریعے ”جہاد“ کی فیکٹریاں قائم کی گئیں، اور انہی مجاہدین کی نئی نسل یعنی طالبان کو 1990ء کی دہائی میں پروان چڑھایا گیا تاکہ کابل میں ایک تابع حکومت قائم کی جا سکے۔ مگر تاریخ کے اس رجعتی کھیل نے بالآخر اپنے خالق کے خلاف ہی رخ کر لیا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کی پراکسی ہونے سے انکار کرتے ہوئے خود کو ایک خودمختار قوت کے طور پر منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ”دوحہ معاہدہ“ اسی تضاد کی بنیاد تھا، جہاں طالبان نے براہِ راست امریکہ سے مذاکرات کیے اور پاکستان کو عملاً نظرانداز کیا گیا، جو اسلام آباد کے لیے ایک گہرا سیاسی دھچکا ثابت ہوا۔ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کے خطے کے مختلف ممالک سے بڑھتے روابط اور نئی سفارتی سرگرمیاں اسی بدلتے رجحان اور علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کے مظہر ہیں، ایک ایسا عمل جو اسلام آباد کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں۔
طالبان کی نام نہاد ”خودمختاری“ دراصل ایک تضاد بھرا مظہر ہے: ایک طرف طالبان مذہبی بنیاد پرستی اور قبائلی قوم پرستی کے محدود دائرے میں قید ہیں اور دوسری جانب عالمی سامراجی قوتوں کے درمیان اپنی بقا کے لیے سودے بازی پر مجبور ہیں۔ نتیجتاً، افغانستان کی محنت کش عوام اس تمام تضاد کا سب سے بڑا شکار ہے، اسے حقیقی خودمختاری میسر ہے نہ طبقاتی نجات۔
طالبان کی نسبتاً خودمختار پالیسی اور خطے کے سامراجی ممالک کے ساتھ تعلقات
طالبان کی نام نہاد ”نسبتاً خودمختار“ پالیسی دراصل اس تضاد کو ظاہر کرتی ہے جو ایک طرف ان کے سامراج دشمن نعروں اور دوسری طرف سامراجی و علاقائی طاقتوں کے ساتھ بڑھتے تعلقات کے درمیان موجود ہے۔ وہ بظاہر ”آزاد خارجہ پالیسی“ کی بات کرتے ہیں، مگر ان کی معیشت، سفارتی حیثیت اور اقتدار کا تسلسل انہی عالمی و علاقائی قوتوں کے توازن پر منحصر ہے جنہیں وہ زبانی طور پر رد کرتے ہیں۔
افغانستان کی حالیہ خارجہ سمت میں ایک اہم پہلو طالبان حکومت کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے۔ ماضی میں بھارت نے طالبان کے ابھار کو نہ صرف اپنے ”سیکولر، جمہوری“ ریاستی تصور کے لیے خطرہ سمجھا تھا، بلکہ طالبان کے دشمنوں کو اعلانیہ سپورٹ کرتے تھے۔ مودی کے دور اقتدار میں ہندوتوا کی ہندو بنیاد پرست پالیسی کے باعث بھی طالبان کو دشمن تصور کیا جاتا تھا۔ مگر اب نئی دہلی ان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ خطے میں امریکی سامراجی اثر کے تحت توازن قائم رکھنا ہے۔
بھارت بخوبی جانتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے باوجود واشنگٹن کا بالواسطہ اثر و رسوخ ختم نہیں ہوا جبکہ چین، روس اور ایران بھی افغانستان میں اپنا سامراجی اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ اسی لیے بھارت کے سامراجی عزائم کے لیے بھی افغانستان میں اپنے قدم جمائے رکھنا ضروری ہے اور اس لیے طالبان سے رابطہ رکھنا اس کی ایک عملی مجبوری ہے۔ یہ تعلقات بظاہر بھارت کی اپنی پالیسی ہیں، مگر حقیقت میں وہ دیگر سامراجی طاقتوں سے متصادم نہیں، گو کہ پاکستان کے لیے یہ جان لیوا خطرہ ہے جو افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ یا ”کابل میں دوست حکومت“ بنانے کے نام پر اپنے سامراجی عزائم رکھتا ہے۔ افغانستان میں 2001ء کے بعد امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ اور اس دوران بننے والی کٹھ پتلی حکومت کے دوران بھی انڈیا کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا جو امریکہ کی شکست اور اس حکومت کے خاتمے کے بعد منہدم ہو گیا۔ پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی تھی جبکہ مودی کو انڈیا میں اس حوالے سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب صورتحال پھر تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستان کے حکمران اس کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ مودی سرکار اس حوالے سے تیز پیش رفت کر رہی ہے۔
طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا حالیہ بھارت کا دورہ اسی پالیسی کی عملی شکل تھا۔ دہلی میں طالبان وفد نے بھارتی حکام سے اقتصادی تعلقات، خطے میں استحکام اور انسدادِ دہشت گردی پر بات چیت کی۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ اسی دوران پاکستان کی جانب سے کابل پر فضائی حملہ ہوا، جو اپنی نوعیت کا پہلا براہِ راست حملہ تھا۔ ماضی میں پاکستانی کاروائیاں عموماً سرحدی علاقوں تک محدود رہتی تھیں۔ کابل پر حملہ اس بات کی علامت تھا کہ اسلام آباد طالبان کی سفارتی خودمختاری برداشت نہیں کرے گا، جبکہ طالبان کا سخت ردِعمل خطے میں تعلقات کے بدلتے توازن کی علامت ہے۔ دوسری جانب یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ کابل میں امریکی سامراج کے گماشتے برسر اقتدار ہوں یا طالبان کے نام پر وحشی درندے، ریاست کا کردار تبدیل نہیں ہوا اور دوسری طرف پاکستان اور انڈیا کے حکمران طبقات کو بھی مذہبی بنیاد پرستی یا لبرل ازم سے مسئلہ نہیں بلکہ اپنے سرمایہ دار طبقے اور سرمایہ دارانہ ریاست کے مفادات عزیز ہیں جن کے تحت پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔
بھارت اور طالبان کے تعلقات اگرچہ محدود ہیں، مگر ان کا مقصد افغانستان میں پاکستان کے اثر کو کم کرنا اور وسطی ایشیا میں سفارتی موجودگی برقرار رکھنا ہے۔ یہ روابط امریکی مفادات کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ واشنگٹن اس رجحان کو غیر اعلانیہ تائید فراہم کرتا ہے، کیونکہ افغان سر زمین پر بھارتی موجودگی چین اور پاکستان کے جغرافیائی توازن کے خلاف کام کرتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ تمام پیش رفت امریکی سامراج کے خطے میں بالواسطہ نفوذ (indirect penetration) کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جہاں ایک ہی طاقت متضاد قوتوں کو اپنے وسیع تر مفاد کے اندر سموئے رکھتی ہے۔
دوسری جانب، امریکہ اور بھارت کے درمیان بظاہر سرد مہری برقرار ہے، مگر یہ تضاد محض وقتی نوعیت کا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امریکہ کا واحد حقیقی اسٹریٹیجک اتحادی بھارت ہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی حالیہ چند مہینوں میں پاکستان سے وقتی قربت کو بعض مبصرین نے پالیسی کی تبدیلی سمجھا، مگر دراصل وہ ٹرمپ کی شخصی حکمتِ عملی تھی، نہ کہ واشنگٹن کے ادارہ جاتی سامراجی مفاد کا حصہ۔ پینٹاگون، محکمہ خارجہ اور کانگریس کے لیے واضح ہے کہ پاکستان کی ریاست اب اپنی پرانی تزویراتی اہمیت کھو چکی ہے، جبکہ بھارت ان کے لیے ایک پائیدار اور قابلِ اعتماد پارٹنر ہے۔
ٹرمپ کا بھارت پر تجارتی ٹیرف لگانا یا پاکستان سے وقتی گرمجوشی پیدا کرنا دراصل نئی دہلی کو متنبہ کرنے کی ایک عارضی پالیسی تھی، تاکہ اسے مکمل خودمختار خارجہ روش اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی ساز حلقوں میں ایک جزوی تفاہم پایا جاتا ہے کہ بھارت کو نہ تو چین اور روس کے قریب جانے دیا جائے، نہ ہی واشنگٹن سے مکمل انحصار توڑنے کی اجازت دی جائے۔ طویل المدتی سطح پر امریکہ بھارت اتحاد برقرار رہے گا، کیونکہ چین کے خلاف امریکی سامراج کے عالمی مفادات کی نمائندگی بھارت ہی کرتا ہے۔
یہ تمام علاقائی حرکات پاکستان کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔ اسلام آباد طالبان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے تعلقات کو اپنی تاریخی ”Strategic Depth” پالیسی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ طالبان کا دہلی کی طرف جھکاؤ دراصل افغانستان میں پاکستانی اثر و رسوخ کے زوال کی علامت ہے۔ اسی لیے پاکستانی ریاست اس رجحان کو ”غداری“ یا ”بھارت نوازی“ کے طور پر پیش کرتی ہے، تاکہ اپنی سامراجی ناکامیوں کو نظریاتی پردے میں چھپایا جا سکے۔
طالبان کے لیے بھارت سے تعلقات استوار کرنا ان کی سفارتی تنہائی اور معاشی بحران سے نکلنے کی مجبوری ہے۔ ایک غیر تسلیم شدہ حکومت کے طور پر انہیں سفارتی سانس کی ضرورت ہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات انہیں ”پاکستانی پراکسی“ کے تاثر سے نجات دلاتے ہیں۔ دہلی کے ساتھ معاشی تعاون طالبان کی کمزوری بھی ہے اور حکمتِ عملی بھی۔ امیر خان متقی کا یہ بیان کہ ”ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک کو ہم سے دہشت گردی کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں، صرف پاکستان شکایت کر رہا ہے۔“، اسی امیج سازی کا اظہار تھا۔
اسلام آباد کی بے چینی کی اصل وجہ یہی جھکاؤ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چین اور روس دونوں طالبان سے سفارتی و معاشی سطح پر روابط رکھتے ہیں، مگر پاکستان ان تعلقات پر خاموش رہتا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری اور روس کے توانائی تعاون کو وہ ”غیر خطرناک“ سمجھتا ہے، جبکہ بھارت کے ساتھ طالبان کے روابط کو اپنی اسٹریٹیجک کمزوری کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی دوہرا معیار پاکستانی ریاست کی سامراجی تابعیت کو بے نقاب کرتا ہے، جہاں خارجہ پالیسی کا پیمانہ اصولی نہیں بلکہ عسکری مفاداتی توازن پر قائم ہے۔
مارکسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو طالبان کی یہ نسبتاً خودمختار پالیسی دراصل سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے اندر ایک ”تابع خودمختاری“ (dependent autonomy) کی شکل ہے۔ بظاہر وہ خود کو آزاد ظاہر کرتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ عالمی طاقتوں کے تضادات میں اپنی بقا تلاش کر رہے ہیں۔ یہ اس نیم کالونیل سماج کا المیہ ہے جو بیک وقت سامراج کی مخالفت کا نعرہ بھی لگاتا ہے اور اسی کے توازن پر اپنی حکومت بھی قائم رکھتا ہے۔
دونوں ریاستوں کا پروپیگنڈا اور عوام کی گمراہی
پاکستان اور افغانستان دونوں میں ریاستی پروپیگنڈا اپنی پوری شدت سے متحرک ہے۔ ہر ریاست اپنے بیانیے کو ”قومی مفاد“ اور ”خودمختاری“ کے لبادے میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کرتی ہے، جبکہ اس کے پس منظر میں دراصل حکمران طبقوں کے اپنے مفادات، اقتدار کی بقا اور طبقاتی استحصال کے تسلسل کی لڑائی جاری ہے۔
افغانستان میں اس پروپیگنڈے کا مرکز پاکستان مخالف بیانیہ ہے۔ افغان عوام کے اندر پاکستان کے خلاف نفرت طالبان کے آغاز سے ہی پروان چڑھتی آئی ہے، وہ نفرت جو اسلام آباد کی دہائیوں پر محیط مداخلت، انٹیلی جنس اثر و رسوخ اور عسکری پشت پناہی کے تجربے سے پیدا ہوئی۔ طالبان حکومت آج شعوری طور پر اس ”پاکستانی پراکسی“ کے لیبل سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ خود کو ”سچے افغان“ اور ”خودمختار اسلامی امارت“ کے طور پر پیش کر کے عوامی مقبولیت کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کابل کی قیادت سرحدی جھڑپوں، تند و تیز بیانات اور پاکستان دشمن میڈیا مہمات کے ذریعے ”قومی غیرت“ کے بیانیے کو ہوا دے رہی ہے۔
افغانستان کے اندرونی تاریخی بحرانات غربت، بھوک، بے روزگاری، خواتین اور مظلوم قومیتوں پر جبر اور سیاسی جمود نے طالبان حکومت کی سماجی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ اس کمزوری کو چھپانے کے لیے وہ بیرونی دشمن کا تصور پیدا کرتے ہیں، تاکہ عوام کی توجہ داخلی تباہی سے ہٹ جائے۔ یوں ”پاکستان دشمنی“ کا بیانیہ طالبان کے لیے محض نظریاتی نہیں بلکہ سیاسی بقا کا آلہ بن چکا ہے۔ تاہم طالبان کے اندر بھی مکمل اتفاق رائے موجود نہیں۔ طالبان کے کچھ لیڈرز اور بالخصوص ان کا ایک دھڑا اب بھی پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ روابط رکھتا ہے، مگر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے باعث وہ خاموشی میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ ان کے لیے یہ ایک متضاد کیفیت ہے، پاکستان پر جزوی انحصار بھی اور عوامی تاثر کی خاطر اس سے فاصلہ رکھنے کی مجبوری بھی۔
پاکستان میں بھی یہی منطق مختلف انداز میں جاری ہے۔ ریاست کے اندر مکمل یکسوئی موجود نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑے پالیسی کے سوال پر تقسیم ہیں۔ یہ تقسیم کسی نظریاتی یا اصولی بنیاد پر نہیں، بلکہ طاقت، وسائل اور کمائی کے بندوبست پر مبنی ہے۔ فوج، انٹیلی جنس اور سول بیوروکریسی کے مختلف حلقے اپنی مالیاتی مفادات اور دائرہ اثر کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس باہمی کھینچا تانی نے ریاستی پالیسی کو غیر مستحکم، موقع پرست اور دوغلا بنا دیا ہے، کبھی مفاہمت، کبھی جارحیت، کبھی امن مذاکرات، کبھی بمباری۔
ٹی ٹی پی کے معاملے میں پاکستانی ریاست کا تضاد سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ مختلف ادوار میں تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑوں اور ریاستی اداروں کے مخصوص عناصر کے درمیان خفیہ روابط، مفاہمتیں اور سودے بازی کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ یہ تعلقات محض اتفاق نہیں تھے بلکہ انہیں سیاسی دباؤ، داخلی توازن اور وقتی عسکری فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی دوغلے پن نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے بیانیے کو کھوکھلا کر دیا، جہاں ایک طرف شدت پسندی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انہی گروہوں سے رابطے رکھے جاتے ہیں۔
اسی تضاد کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ جب ٹی ٹی پی یا بلوچ مزاحمت کار سیکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں، تو اس کے ردِعمل میں عام سپاہیوں کا غصہ افغانستان کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ ایسے مواقع پر سرحد پار بمباری یا ڈرون حملے کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ ”ہم نے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا“، حالانکہ حقیقت میں ان کاروائیوں کا نشانہ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے نہیں بلکہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار کے عام محنت کش عوام بنتے ہیں۔
یہ حملے محض عسکری حکمتِ عملی نہیں بلکہ داخلی دباؤ سے فرار کا ایک سیاسی ذریعہ ہیں۔ جب عسکری ہلاکتیں بڑھتی ہیں اور فوج کے اندر بے یقینی پھیلتی ہے، تو قیادت اس دباؤ کو بیرونی ”کامیابیوں“ کی مصنوعی تشہیر سے کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میڈیا پر ”دہشت گردوں کے خاتمے“ کے دعوے اور ”عزمِ نو“ کے نعرے اسی داخلی بحران پر پردہ ڈالنے کے حربے ہیں۔
درحقیقت، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی تمام پالیسیاں عملی طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔ دو دہائیوں کی جنگ، اربوں ڈالر کے اخراجات، اور ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود ریاست اس بحران کو ختم نہیں کر سکی بلکہ یہ مزید پھیل چکا ہے۔ عسکریت پسندی کے سماجی و معاشی اسباب، طبقاتی استحصال، قومی جبر اور سامراجی انحصار، کو حل کیے بغیر ”انسدادِ دہشت گردی“ محض ایک لامتناہی فوجی دائرہ بن چکا ہے۔
یوں اسٹیبلیشمنٹ کی یہ وقتی ”ایڈونچر پالیسی“ نہ صرف انسانی المیوں کو جنم دیتی ہے بلکہ اندرونی تضادات کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کے خلاف جاری یہ بے سمتی دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی ریاست کے پاس نہ کوئی واضح نظریاتی بنیاد باقی رہی ہے، نہ کوئی مستقل حکمتِ عملی، محض وقتی ردِعمل، سرحد پار بمباری اور داخلی بحران سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوششیں باقی ہیں۔
جدلیاتی منطق کے مطابق، سیاسی و عسکری تعلقات ہمیشہ بدلتے ہیں اور جلد یا بدیر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جن طالبان کو کبھی پاکستان نے بطور پراکسی کھڑا کیا تھا، وہ آج اسلام آباد کے خلاف صف آراء ہے۔ مگر اسی منطق کے تحت مستقبل میں مفادات کے نئے بندوبست بھی ممکن ہیں، کیونکہ یہ تعلقات نظریاتی نہیں بلکہ وقتی اور مالیاتی بنیادوں پر قائم ہیں۔ حالیہ تصادم کی گو کہ بنیادی وجوہات ہیں، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، لیکن درحقیقت یوں دونوں ریاستوں کا پروپیگنڈا، اپنے عوام کو حقیقت سے بیگانہ رکھنے کا حربہ ہے۔ طالبان ”پاکستان دشمنی“ کے ذریعے داخلی زوال کو چھپاتے ہیں، جبکہ پاکستانی حکمران طبقہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نعرے سے اپنی معاشی و سیاسی ناکامیوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ درحقیقت دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، عوام کو طبقاتی استحصال، بدعنوانی اور حکمران اشرافیہ کے تسلط سے غافل رکھنا۔
قوم پرستی کا زوال: حکمران طبقے کا محبوب زہر
قوم پرستی، جو بظاہر آزادی، خودمختاری اور شناخت کا نعرہ بن کر ابھرتی ہے، درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے مؤثر نظریاتی ہتھیار ہے۔ حکمران طبقہ اسے عوام کو طبقاتی جدوجہد سے منحرف رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جب بھی محنت کش طبقہ اپنے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر متحد ہونے لگتا ہے، قوم پرستی ایک نئے چہرے کے ساتھ نمودار ہوتی ہے: کبھی قومی حقوق کے نام پر، کبھی بیرونی دشمن کے خلاف جنگ میں قومی غیرت کے بہانے، کبھی صوبائی خودمختاری کے حصول کے عنوان سے، کبھی رجعتی قوت کے اپنے قومی تعلق کے دعوے پر اور کبھی کسی مخصوص نظریہ یا سرحدی ’غیرت‘ کے بہانے۔
بالخصوص افغانستان کے سیاق میں، یہ قوم پرستی اکثر طالبان کے رجعتی کردار اور سامراجی دلالی کو یا تو بھلا دینے کا کام کرتی ہے یا پھر شعوری طور پر ان پر سے پردہ ڈال دیتی ہے، تاکہ عوام کی توجہ محض قومی جذبات اور خیالی تقسیموں کی طرف مرکوز رہے۔ یوں یہ نظریہ طبقاتی استحصال کو چھپاتے ہوئے عوام کو مصنوعی قومی تقسیموں میں الجھا دیتا ہے۔ مگر اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ قومی جبر موجود نہیں ہے بلکہ قومی جبر مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور قومی جبر سے نجات سرمایہ داری نظام کے اکھاڑنے سے جڑی ہے۔ مگر دوسری جانب قوم پرستی کا زہر دراصل اس نظام کے استحکام کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے، جو خود عوام کی قربانیوں پر قائم رہتا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں موجود پشتون قوم پرستی کی حالیہ شکل اس تضاد کی ایک واضح مثال ہے۔ طالبان کی حمایت، صرف پشتون ہونے کی بنیاد پر، دراصل قوم پرستی کے نظریاتی زوال اور سیاسی دیوالیہ پن کی آخری شکل ہے۔ طالبان کا ماڈل، اگرچہ پشتون بالادستی کے خول میں لپٹا ہے، مگر اپنی معاشی و سیاسی بنیادوں میں یہ ”وہی طبقاتی جبر“ ہے جس نے پشتون عوام کو دہائیوں سے جنگ، مہاجرت اور غربت کے گڑھوں میں دھکیلا ہے۔ طالبان کسی قوم کی نجات نہیں بلکہ سامراجی اور سرمایہ دارانہ بندھنوں کے تسلسل کی ایک شکل ہیں۔
افغانستان میں ایک نیا تضاد بھی ابھر کر سامنے آ رہا ہے، جہاں شہری مڈل کلاس کی چند پرتیں طالبان کی جانب سے پاکستان کے خلاف جھڑپوں میں مبینہ ”کامیابی“ پر جشن مناتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم یہ جشن طالبان کی حمایت نہیں بلکہ پاکستان کے ریاستی کردار اور اس کی تاریخی مداخلتوں سے جنم لینے والی گہری عوامی نفرت کا اظہار ہے۔ یہ نفرت حقیقی ہے، مگر اس کا اظہار ایک رجعتی قوت کے حق میں ہو رہا ہے، جو خود عوامی آزادی کی دشمن ہے۔ چنانچہ یہ جشن دراصل ”ماتم سے بھی بدتر“ ہے، کیونکہ طالبان کسی قومی خودمختاری یا آزادی کی علامت نہیں، بلکہ وہ سامراجی قوتوں کے اشاروں پر چار کروڑ افغان محنت کش عوام کو سیاسی، معاشی اور سماجی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ طالبان کی کوئی بھی ”کامیابی“ دراصل اسی عوامی غلامی کے دوام کا دوسرا نام ہے۔
پشتون قوم پرستوں کا یہ تضاد نیا نہیں۔ ماضی میں انہوں نے ”وار آن ٹیرر“ کے دوران طالبان کی مخالفت کرتے ہوئے امریکی سامراج کے پٹھو وار لارڈز اور ”جمہوریت“ کے نام پر سرمایہ دار سیاست کی حمایت کی اور آج وہ طالبان کے حق میں بول رہے ہیں۔ ان کا ہر موڑ حکمران طبقے کے کسی نہ کسی دھڑے کے مفاد سے جڑا رہا ہے، کبھی سامراج کے ساتھ، کبھی مذہبی رجعت کے ساتھ۔ ان کے نعروں کا حاصل ہمیشہ محنت کش عوام کا لہو ہی رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی شاونسٹ طبقے کا کردار بھی اسی تضاد کا دوسرا چہرہ ہے۔ وہ طالبان کو ”غدار“ اور ”دہشت گرد“ کہتے ہیں، مگر انہی قوتوں کی سیاسی و عسکری پرورش بھی اسی ریاست نے کی۔ پاکستانی ریاست کا پورا بیانیہ جھوٹ، فریب اور خوف پر مبنی ہے، جس کا مقصد محنت کش عوام کو تقسیم کر کے ”فوجی و سویلین اشرافیہ“ کی لوٹ مار کو تحفظ دینا ہے۔ یہی وہ قوم پرستانہ شاونسٹ بیانیہ ہے جو خطے میں خونریزی کو دوام بخشتا ہے۔
یوں طالبان نواز قوم پرست، شہری مڈل کلاس کے محدود رجعتی عناصر اور ریاستی شاونسٹ بظاہر مخالف، مگر ”طبقاتی لحاظ سے ایک ہی رجعتی سکے کے تین رخ“ ہیں۔ ایک مذہب کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتا ہے، دوسرا قوم کے نام پر اور تیسرا ریاستی حب الوطنی کے نام پر۔ ان تینوں کا مشترکہ مقصد سرمایہ دارانہ و سامراجی نظام کا تحفظ ہے، اور ان کی سیاست محنت کش عوام کے استحصال سے پھلتی پھولتی ہے۔
قوم پرستی کی ہر شکل، خواہ وہ پشتون ہو، تاجک، ہزارہ، ازبک یا پنجابی، محنت کش عوام کے لیے ایک زہریلا فریب ہے۔ اس کا علاج صرف ”طبقاتی شعور اور انقلابی جڑت“ میں ہے، جہاں پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، ترکمن، مزدور، دہقان، خواتین اور نوجوان اپنے مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پر متحد ہوں۔ یہی اتحاد مذہبی رجعت، قومی تنگ نظری اور سامراجی جبر، تینوں کے خلاف ایک حقیقی انقلابی راستہ فراہم کرتا ہے۔
جنگ اور محنت کش عوام
لینن نے کہا تھا کہ، ”جنگیں خوفناک ہوتی ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ خوفناک طور پر منافع بخش ہوتی ہیں“۔ یہی جملہ آج پاکستان اور طالبان کے ممکنہ تصادم کی روح کو بے نقاب کرتا ہے۔ جنگ کے نام پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے، وہ نہ مذہبی تقدس رکھتا ہے، نہ قومی وقار، بلکہ خالصتاً حکمران طبقوں کے مالی، سیاسی اور سامراجی مفادات کا تسلسل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جنگ ہمیشہ استحصال کی ایک اور شکل بن جاتی ہے، جس میں مرنے والے عوام ہوتے ہیں اور منافع کمانے والے جرنیل، سرمایہ دار اور ان کے سامراجی سرپرست۔
اگر پاکستان اور طالبان کے درمیان کھلی جنگ چھڑتی ہے تو اس کا تمام بوجھ محنت کش عوام پر گرے گا، نہ کہ ان حکمرانوں پر جو اسے ہوا دے رہے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب دہقان، مزدور، غریب عورتیں اور بچے ہی اس کے حقیقی شکار ہوں گے۔ افغانستان پہلے ہی معاشی تباہی، بھوک اور بے روزگاری میں ڈوبا ہوا ہے؛ جبکہ پاکستان میں مہنگائی، بدعنوانی اور بیروزگاری نے عوام کو زندہ درگور کر رکھا ہے۔ ایسی جنگ ان زخموں پر نمک کا کام کرے گی۔
ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف عوام میں جنگ سے بیزاری اور امن کی خواہش اسی تاریخی تجربے سے جنم لیتی ہے۔ افغان عوام نے دہائیوں کی سامراجی جنگیں، طالبان کا جبر اور معاشی قحط برداشت کیا؛ پاکستان کے محنت کش عوام بالخصوص ڈیورنڈ کے قریب واقع پشتون خطوں میں ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام پر اپنے ہی علاقوں کی تباہی دیکھی۔ اس تمام تجربے نے عوام کے اندر یہ شعور پیدا کیا ہے کہ جنگ دراصل حکمران طبقوں کا کھیل ہے، جس میں عام انسان محض مہرہ بنتے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ”افغانستان کے کروڑوں محنت کش عوام کے دلوں میں طالبان کے لیے نہ کوئی ہمدردی ہے، نہ حمایت“۔ مگر سامراجی کھلواڑ، بیرونی مداخلتوں اور مسلسل خانہ جنگیوں سے تنگ آ کر وہ ”امن“ کی ایک جھوٹی آس کے تحت طالبان کے جبر کو وقتی طور پر برداشت کر رہے ہیں۔ ان کی خاموشی دراصل رضامندی نہیں بلکہ تھکن، محرومی اور بے بسی کا اظہار ہے۔ ایک ایسی قوم کی اجتماعی تھکن جو نصف صدی سے سامراجی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ مگر یہ اجتماعی تھکن اور خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
اسی سامراجی کھلواڑ کے خلاف 2018ء میں ایک شاندار عوامی تحریک ابھری، ”پشتون تحفظ موومنٹ (PTM)“ جس کا بنیادی محور انہی سامراجی پروجیکٹس، فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں اور دہشت گردی کی سیاست کا خاتمہ تھا۔ یہ تحریک دراصل اس عوامی بیزاری کا سیاسی اظہار تھی جو دہائیوں سے جاری ریاستی و مذہبی جبر کے خلاف جمع ہو رہی تھی۔ تاہم 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی فضا میں ایک نیا خوف اور غیر یقینی پن پیدا ہوا۔ اسی کے تسلسل میں پاکستان میں ”اولسی پاسون“ (عوامی بیداری) جیسے احتجاجی سلسلے ابھرے، جنہوں نے طالبان کی حمایت یافتہ دہشت گردی اور ریاستی جبر، دونوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ احتجاج دراصل اس بات کا مظہر ہیں کہ ڈیورنڈ کے دونوں جانب عوام خواہ وہ افغان ہوں یا پاکستانی پشتون محنت کش اب جنگ، جبر اور مذہبی رجعت کے مشترکہ تجربے سے بیزار ہو چکے ہیں اور امن، روزگار اور سماجی انصاف پر مبنی ایک متبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔
اسی حکمرانانہ منطق کے تحت طالبان اور پاکستان کے تعلقات کی ابتری کا ملبہ اس وقت افغان مہاجرین پر ڈالا جا رہا ہے، وہی مہاجرین جن میں اکثریت محنت کش طبقے سے ہے، جو برسوں سے پاکستان میں تعمیرات، مزدوری اور محنت کش کاموں سے گزر بسر کر رہے تھے۔ ریاستِ پاکستان نے ان ہی مظلوم اور غیر محفوظ لوگوں پر اپنی ناکام پالیسیوں کا سارا غصہ اتارا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی اس حکومتی انتقام اور طبقاتی ظلم کا واضح اظہار ہے۔ ان میں عورتیں، بچے، مزدور اور بزرگ شامل ہیں، جنہیں نہ کسی عدالتی تحفظ کا حق دیا گیا، نہ انسانی وقار کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ یہ جبری اخراج دراصل سامراجی پالیسیوں اور ریاستی ناکامیوں کا ملبہ کمزوروں پر ڈالنے کا ایک اور افسوسناک باب ہے۔
اس پوری بحث کے نتیجے میں یہ سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے: کیا کسی عام پنجابی، پشتون، بلوچ یا سندھی مزدور نے افغانستان کے محنت کش بھائیوں کے خلاف کوئی جنگ لڑی؟ (نہیں)۔ یہ لڑائیاں ہمیشہ حکمران طبقوں کے درمیان رہی ہیں، مگر ان کی قیمت ہمیشہ محنت کش طبقہ ادا کرتا آیا ہے۔ یہی لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہوتے ہیں، اپنے بچے دفن کرتے ہیں اور بھوک و بے روزگاری کی چکی میں پستے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں میں محنت کش عوام جنگ سے بیزار ہیں، جبکہ درمیانے طبقے کی چند پرتیں، جو ریاستی پروپیگنڈا اور قوم پرستی سے متاثر ہیں اس جنگی جنون کی حامی دکھائی دیتی ہیں۔ محنت کش طبقہ، جس کی روزمرہ زندگی روٹی، کپڑا اور مکان کی جنگ میں گزرتی ہے، ان حکمرانوں کی سیاسی و مذہبی لڑائیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
یوں یہ واضح ہے کہ اگر جنگ (کسی بھی شکل میں) بھڑکتی ہے تو وہ محنت کش طبقے کی نہیں، بلکہ حکمران طبقے کی جنگ ہو گی، مگر اس کا سارا خمیازہ پھر بھی محنت کش عوام ہی بھگتیں گے۔ مارکسی نقطہ نظر سے اس کا واحد متبادل یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف محنت کش طبقہ اپنے مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پر متحد ہو اور اس سامراجی و سرمایہ دارانہ جنگ کو مسترد کرتے ہوئے حقیقی عوامی نجات کی جدوجہد کو آگے بڑھائے۔
حکمران طبقے کے تضادات، جنگ کا رجعتی کردار اور واحد انقلابی راستہ
پاکستان اور طالبان کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ محض دو ریاستوں کا جھگڑا نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی توازن کا عکاس ہے۔ جنگ اور قومی بیانیے عوام کو تقسیم کرتے ہیں، اس تقسیم کے پیچھے حکمران طبقے کے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ قوم پرستی، مذہبی رجعت اور بیرونی سامراجی کھیل محنت کشوں، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کے حقیقی مطالبات کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اسی لیے اس تنازعے کا ازخود حل کوئی عسکری یا قومی مفاہمت نہیں بلکہ طبقاتی جڑت ہے ایک ایسی یکجہتی جو سرمایہ دار طبقے کے ذاتی مفادات اور سامراجی دباؤ کو توڑ کر عوامی مفادات کو مقدم کرے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے بیچ جنگ کا کردار انتہائی رجعتی ہو گا اور اس میں دونوں طرف کے عوام کا شدید نقصان ہو گا۔ مزید برآں ہم واضح کرتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت بھی انتہائی رجعتی، جابرانہ اور عوام دشمن کردار کی حامل ہے اور ساتھ ہی حکومتِ پاکستان مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے نہ سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس کی سیاسی و معاشی اہلیت موجود ہے۔ لہٰذا اس عفریت کے خلاف دفاع صرف ریاستی طاقتوں پر چھوڑ دینا ممکن نہیں، بلکہ متاثرہ علاقوں کے عوام کو اپنی حفاظت اور بنیادی ضروریات کے لیے منتخب شدہ دفاعی کمیٹیوں میں منظم ہونا پڑے گا؛ یہ وقتی، مقامی اور برائے تحفظ اقدامات ناگزیر ہیں جب تک کہ ایک بنیادی سیاسی تبدیلی ممکن نہ ہو۔
ایک سرمایہ دارانہ یا مذہبی ریاست کے دائرے میں رہ کر کوئی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ نجات کا واحد راستہ ایک انقلابی مزدور ریاستوں کے فیڈریشن کی سمت بڑھنا ہے جو کابل سے کراچی، کوئٹہ سے تاشقند تک محنت کش عوام کو متحد کرے۔ یہی راستہ ان خونی تضادات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔
حتمی تجزیے کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی حکمران اشرافیہ کے بیچ 1947ء سے جاری چپقلش کا حقیقی حل دونوں ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے: سرمایہ دارانہ ریاست اور سامراجی لکیر، جیسا کہ ڈیورنڈ لائن کا خاتمہ اور پورے خطے کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام۔ یہی ایک ایسا راستہ ہے جو مذہبی رجعت، قومی نفرت اور بیرونی سامراجی مداخلت کو پیچھے دھکیل کر حقیقی آزادی، روزگار، زمین و وسائل کی قومی ملکیت اور سماجی انصاف فراہم کر سکتا ہے۔
اسی لیے ہماری پکار یہی ہے: محنت کش، کسان، طلبہ، خواتین اور نوجوان اپنے مشترکہ طبقاتی مفادات کی بنیاد پر متحد ہوں؛ مقامی دفاعی، سماجی اور سیاسی کمیٹیوں کے ذریعے خود اپنی حفاظت اور نمائندگی کا راستہ نکالیں اور آخرکار، ایک انقلابی جدوجہد کے ذریعے اس خطے میں سامراجی و سرمایہ دارانہ زنجیروں کا خاتمہ کر کے حقیقی آزادی کی نئی تاریخ رقم کریں۔
15 اکتوبر، 2025ء