پشتون تحفظ تحریک: ریاستی ایوانوں میں لرزہ طاری

|تحریر: پارس جان|

اسلام آباد لرز رہا ہے۔8 اپریل کو پشاور میں ہونے والا پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہِ عام ریاست کے لیے کسی بھونچال سے کم نہیں تھا جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس جلسے سے قبل سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کے لیے دھمکیوں ، گرفتاریوں سمیت دیگر تمام حربے استعمال کیے گئے۔تحریک کی قیادت کو ’شیشے میں اتارنے ‘ کے لیے ریاست کے اہم لوگوں کی طرف سے رابطے بھی کیے گئے ۔جلسہ گاہ میں بلوچستان اور فاٹا کے کونے کونے سے آنے والے قافلوں کو چیک پوسٹوں پر پریشان کیا گیا۔ بہت سے لوگ تمام تر کوششوں کے باوجود جلسہ گاہ تک نہیں پہنچ سکے۔جلسہ کے دوران شرکا کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔گمشدہ افراد کے عزیزو اقارب کی بڑی تعداد نے بھی پر امید آنکھوں اور ولولہ خیز جذبات کے ساتھ جلسے میں شرکت کی۔ بارش کے باوجود شرکا اپنی جگہ پر قائم رہے اور ٹس سے مس نہیں ہوئے۔کئی دہائیوں بعد پاکستان میں کسی بھی جلسے میں ایسا مسحور کن ماحول دیکھنے میں آیا۔گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں جلسے اور دھرنے سیاسی معمول کا حصہ بنے رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف اور ن لیگ کے علاوہ پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور دیگر مذہبی پارٹیوں کے جلسے وقفے وقفے سے ہوتے رہتے ہیں۔ پشاور میں PTM کے جلسے سے مقداری طور پر ایک چوتھائی سے بھی کم حجم کے جلسوں کو میڈیا پر لاکھوں کے مجمعے قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن مقدار سے کئی گنا بڑھ کر یہ درحقیقت معیار کا فرق ہے جو توجہ کا مستحق ہے۔

ان تما م دھرنوں اور جلسوں میں شرکا اور سٹیج کے مابین بہت بڑی خلیج دیکھنے میں آتی ہے۔ زیادہ تر لوگ جلسے کے ختم ہونے کے انتظار میں ہی لگے ہوتے ہیں تاکہ اس کے بعد کھانے پینے سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ کرائے کے ٹٹووں کی بھی کمی نہیں ہوتی جن کا دھیان مقررین کی تقریروں سے زیادہ منتظمین کے بٹووں پر ہوتا ہے۔ 8 اپریل کو پشاور کا جلسہ کسی اوردنیا کی تصویر کشی کر رہا تھا۔ لوگ پیسے لینے نہیں دینے آئے تھے۔ کھانے کی میزوں کے گرد نہیں بلکہ چندے کے بکسوں کے گرد دھکم پیل ہو رہی تھی۔ لوگ سٹیج سے بولے جانے والے ایک ایک لفظ سے ہی اپنی برسوں کی پیاس مٹا لینا چاہتے تھے ۔یہ سیاسی آب وہوا ان مایوس اور بدظن لوگوں کے بہت سے سوالوں کا جواب ہے جو ہم انقلابیوں کو پاگل پن اور بیوقوفی کے طعنے مارتے نہیں تھکتے ۔یہ پیسے ، شہرت اور مفادات کی سیاست کے خلاف عوامی ردِ عمل ہے جسے عرفِ عام میں تحریک کہا جاتا ہے۔ ابھی تو اسے انقلاب بننا ہے۔ اگر یہ ہو گیا تو ان لکیر کے فقیروں کی شکل دیکھنے والی ہو گی۔

یہ سب ریاست کے بحران کے سماجی اثرات ہیں۔ معیشت تاریخ کے بدترین زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔روپے کی قدر میں آئندہ مہینوں میں تیز ترین گراوٹ متوقع ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں عوام سے لاتعلق ہو کر ہوا میں معلق ہو چکی ہیں۔ پرانے خاندانی ڈھانچے اور سماجی تانے بانے انتشار سے دوچار ہیں۔ فرسودہ روایات دم توڑ رہی ہیں۔جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں پشتون خواتین کی شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن تحریک کی کامیابی کے لیے خواتین کی تعداد کا یہ تناسب ابھی بھی ناکافی ہے۔ تحریک کی قیادت کو اس ضمن میں باقاعدہ حکمتِ عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے لاکھوں کی تعداد میں پشتون خواتین کو سیاسی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ کچھ قدامت پسند کہیں گے کہ ’ہم مرد وں نے کیا چوڑیاں پہن رکھی ہیں کہ اب ہماری عورتیں باہر نکلیں گی ‘ یا پھر یہ کہ ’ ہماری ماؤں بہنوں کی دعائیں ہی ہمارے لیے کافی ہیں ‘۔ یہ دلائل خطرے کی گھنٹیوں اور تحریک پر سماجی پسماندگی کے دباؤ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ اس لڑائی کا شاید سب سے اہم پہلو ہو گا کیونکہ اس میں قیادت کو خود اپنے آپ سے بھی لڑنا پڑے گا۔ روایات اور رسوم و رواج بعض اوقات مسلح افواج اور لشکر وں پر بھی بھاری پڑ جاتے ہیں، اور ٹینکوں اور توپوں کے آگے ڈٹ جانے والے،سماجی روایات سے شکست کھا جاتے ہیں۔ لیکن ابھی تک منظور پشتین کا رویہ حوصلہ افزا رہا ہے۔ یقیناً قیادت آئندہ جلسوں کی تیاری کے سلسلے میں ان نکات پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گی۔

بورژوا میڈیا نے حسب روایت اس جلسے کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا۔ جب ہم مارکس وادی یہ کہتے ہیں کہ میڈیا ریاست کا ایک اہم ستون ہوتا ہے تو بہت سے ’پڑھے، لکھے‘ خواتین وحضرات بالخصوص یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان جواباً یہ دلیل دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ریاست کے پاس تو اپنا چینل ہے، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تو نجی مالکان کے کنٹرول میں ہے تو یہ ریاست کا ستون کیسے ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ پشاور جلسے کی طرف بالخصوص اور حالیہ تحریک کی طرف بالعموم میڈیا کا رویہ ان دانشوروں کے فکری مغالطوں کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی مظہر کو جاننے کے لیے ، اس کے حقیقی جوہر تک پہنچنے سے پہلے اس کے حوالے سے جن اہم پہلوؤں سے تحریک کے بارے میں جانکاری مل سکتی ہے ان میں سے ایک مین سٹریم میڈیا کا اس تحریک کی طرف رویہ بھی ہے۔ دوسری ایک انتہائی اہم بات کارل مارکس کے نظریہِ ریاست کا ایک بار بھی عملی طور پر ثابت ہو جانا ہے۔ کارل مارکس اور دیگر مارکسی اساتذہ نے بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ ریاست ہمیشہ غیر جانبداری کا ناٹک کرنے کے باوجود ایک طبقے کے ہاتھ میں دوسرے طبقے پر جبر کرنے کے آلے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی ۔ پاکستان بھی اپنے تمام تر ’اسلامی ڈھونگ ‘ کے باوجود ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہی ہے جس کی عدلیہ اور فوج سے لے کر میڈیا تک تمام اداروں کا کام سرمایہ داروں کے لیے محنت کشوں ، کسانوں، مظلوم قوموں ، اقلیتوں ، خواتین اور غریب عوام کا استحصال اور ان پر جبر کرکے اپنی دولت میں اضافے کے لیے موافق حالات پیدا کرنا ہی ہے۔ یہ میڈیا کے نجی مالکان بھی اسی سرمایہ دار طبقے کا حصہ ہیں۔ تمام تر آپسی لڑائیوں کے باوجود یہ ایک ایسی تحریک کی پذیرائی کیسے کر سکتے ہیں جس کا ہدف بذاتِ خود وہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے جو ان کی لوٹ مار کو آئینی اور اخلاقی تحٖفظ فراہم کرنے کا تاریخی فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ اس فوج ، پارلیمنٹ ، عدلیہ کی طرح ان اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے بھی کسی قسم کی توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیئیں۔ کیونکہ ان سب کے لیے اس قسم کی کسی بھی تحریک کی حمایت اسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہو گی جس پر یہ بیٹھے ہیں۔ لیکن اگر یہ تحریک پھیل کر ملک گیر انقلاب کی شکل اختیار کرتی ہے اور مظلوم طبقات کی نمائندگی کا شرف حاصل کرتی ہے تو اس انقلاب کے ایک فیصلہ کن مرحلے پر ریاست کااندر سے طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہونا ناگزیر ہے۔

ابھی تک اگر اس تحریک کی قیادت کی نظریاتی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو یہ تحریک اپنی مخصوص مانگوں تک محدود رہنے کی بے پناہ کوشش کر رہی ہے۔ اور ان مانگوں کے لیے ریاست پر دباؤ بڑھانے کی غرض سے دائیں اور بائیں بازو دونوں کو بیک وقت استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔پشاور جلسے سے چند روز قبل تحریک کی قیادت کے اکوڑہ خٹک کے مدرسے کے دورے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔ اس پر اس تحریک کے حامیوں کے اندر بھی سیر حاصل بحث دیکھنے میں آئی۔ لیکن دائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں نے قیادت کے اس اقدام کا دفاع کرنے کے لیے یہ دلیل استعمال کی کہ ان مدارس میں پشتون نوجوانوں اور بچوں کی بہت بڑی تعداد زیرِ تعلیم ہے اور اگر ان کو اس تحریک میں شامل نہ کیا گیا تو ریاست انہی کو اس تحریک کے خلاف بھی استعمال کر سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان مہینوں میں بہت سے مدارس کے طلبا اپنے سالانہ کورس ختم کرنے کے بعد اپنے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کر جاتے ہیں ، ان میں سے کسی نے PTM کی قیادت کو مدعو کیا تھا ، اسلیئے وہاں جانا ضروری تھا تاکہ ان سب طلبا کو اپنے آبائی علاقوں میں جانے سے پہلے جلسے میں شرکت کی دعوت دی جا سکے جن کی تعداد 1100 کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان دلائل اور اس طرح کے دیگر سینکڑوں دلائل کی بنیاد پر بھی قیادت کے اس طرح کے کسی بھی اقدام کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سے تحریک کی صفوں کے اندر بدگمانی اور مایوسی پھیلنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ افواج اور سکیورٹی اداروں سے عوامی نفرت کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ لوگ طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ اس کے بالکل الٹ ریاستی اداروں سے اس حد تک نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ ریاست ان وحشیوں کو خود پالتی پوستی ہے ، ان کے ہاتھوں معصوم بچوں اور عام لوگوں کے گلے کٹواتی ہے اور پھر ان کے خلاف آپریشن کا ناٹک کر کے دوبارہ عام لوگوں پر ہی غیض و غضب نازل کر دیتی ہے۔ منظور پشتین نے بھی اپنی تقریر میں طالب گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگا کر اس تمام عمل کو دلیری اور جرات سے ایکسپوز کیا ہے جو کوئی بھی دوسری نام نہاد سیاسی قیادت اور بائیں بازو کے دانشور نہیں کر سکے۔

ریاست کے یہ قیمتی ’اثاثے‘ اب مکمل طور پر ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ لوگ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو ان وحشیوں کے سپرد کرنے پر مجبور ہیں۔یہ درست ہے کہ ان مدارس میں پڑھنے والے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد اور ان کے اہل و عیال کو بھی تحریک میں جیتا جا سکتا ہے۔تحریک جب ایک انقلاب کی شکل اختیار کرتی ہے تو اس طرح کی پسماندہ سماجی پرتیں بھی اس میں شامل ہو جاتی ہیں مگر کوئی بھی حقیقی عوامی تحریک ان سماجی عناصر پر اکتفا کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان کو تحریک میں شامل کرنے کی شعوری کوششیں سماج کی زیادہ لڑاکا پرتوں کو تحریک سے کاٹ سکتی ہیں جن پر اس تحریک کی کامیابی کا اصل دارومدار ہے۔ اے این پی اور دیگر ریاستی دلال اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے تحریک کے خلاف اپنے مؤقف کو تقویت دینے کی کوشش کریں گے ۔ابھی تک اس تحریک کی زیادہ تر سماجی حمایت فاٹا میں یا بلوچستان کے چند شہری علاقوں میں موجود ہے۔تحریک کو نہ صرف ملک کے طول و عرض میں حمایت جیتنی ہے بلکہ پشاور سمیت پشتونخواہ کی بھی شہری آبادی میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنی ہیں۔ 

یہ درست ہے کہ ریاست ان مدارس کے طلبا کو ہر ترقی پسند تحریک کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے۔ مگر اب صورتحال کافی مختلف ہے اور یہ تکنیک اس وقت زیادہ کارآمد نہیں ہو سکتی۔ اس سے ملک میں خانہ جنگی کی فضا ہموار ہونے کا اندیشہ ہو گا۔ اور ایک ایسے وقت میں جب ان ملاؤں کا حقیقی باپ یعنی سعودی عرب خود ’لبرل ازم ‘ کا پرچار کر رہا ہے ، اسرائیل کو اپنا فطری اتحادی قرار دے رہا ہے، ان کی سماجی بنیادیں بڑھنے کی بجائے کمزور ہونے کی طرف جائیں گی۔ اور ان کی مالیاتی بنیادوں کو بھی سعودی عرب کی طرف سے فنڈ بند ہونے کی صورت میں شدید دھچکہ لگے گا ۔ ایسے میں یہ ماضی کے مزار تاریخ کے کوڑے دان تک گھسٹتے گھسٹتے پہنچ ہی جائیں گے۔ یوں اس گرتی ہوئی دیوار کو دشمنوں کا ہتھیار یا اپنے لیے سہارا سمجھنا انتہائی غلط حکمتِ عملی ہو گی۔ اس وقت تحریک کو اپنی تمام تر قوت سماج کی زیادہ ایڈوانس اور لڑاکاپرتوں تک رسائی کے لیے مرتکز کر دینی چاہیئے۔محنت کش طبقہ ہی نہ صرف پشتونوں بلکہ بنی نوعِ انسان کی نجات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ بد قسمتی سے نہ صرف زیادہ تر بائیں بازو کے لوگ بلکہ خود منظور پشتین کے ارد گرد بائیں بازو کی شہرت رکھنے والے افراد بھی اس تحریک کی قیادت کو بائیں طرف جانے سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں یہ سابقہ مارکس وادی اس تحریک کے دائیں بازو کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ منظور پشتین بھی اگر بائیں طرف نہیں بڑھے گا تو پھر اسے دائیں طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ انہی پوزیشنوں پر ساکت اور جامد رہنا ناممکن ہے۔ 

تنگ نظر قوم پرست اور دیگر بائیں بازو کے لوگ ہم مارکس وادیوں پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کی غیر مشروط حمایت کی جانی چاہیئے اور قیادت کو مشورے دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ جو لوگ عملاً اس تحریک میں سرگرم نہیں ہیں، ان کے صلاح مشورے بے وقعت ہی ہوں گے۔ لیکن مارکس وادی اس تحریک میں سرگرم ہیں اور یہ انکا فریضہ ہے کہ اس تحریک کو سائنسی اور تاریخ کی کسوٹی پر بار بار درست ثابت ہونے والے نظریات سے لیس کریں ۔ در حقیقت خود تحریک کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ نظریات ہیں۔ کچھ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ مارکس وادی خود کچھ نہیں کر پاتے اور جو کچھ کرتے ہیں ، ان پر فلسفے جھاڑتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعدانقلابی قوتیں سماج کی انتہائی خوردبینی اقلیت میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ مگر 2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران اور 2011 کی عرب بہار کے بعد ساری دنیا میں پھر مارکس کے نظریات کی طرف عوام کی وسیع تر پرتوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ’سوشلزم ‘ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ تلاش کیا جانے والا لفظ بن چکا ہے۔ 

پاکستان کے بائیں بازو کی اکثریت آج بھی ذہنی طور پر ماضی کے رجعتی عہد کے اندر رہ رہی ہے۔ واقعات ان کے شعور اور ضمیر دونوں کو جھنجوڑیں گے اور یاتو وہ معدوم ہو جائیں گے یا ان کی معیاری پرتیں حقیقی مارکسی نظریات کی طرف بڑھیں گی۔ پشتون تحریک کو بھی پورے پاکستان سے حمایت مل سکتی ہے ۔مارکس وادیوں کا تاریخی فریضہ ہے کہ وہ اس عمل میں عمل انگیز کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی محدود قوتوں کے باوجود اگلی صفوں میں شامل ہو کر اس تحریک کا دفاع کریں۔درست نظریات اور پروگرام ہی ریاست اور سامراجی قوتوں کے ہر حملے کے مقابل تحریک کا حقیقی دفاع ہو گااور ساتھ ہی اس تحریک کی قیادت کو بھی عوام کی وسیع تر پرتوں کے مسائل کے حل کو اپنے مطالبات میں شامل کرنا ہو گا۔ جو قوم پرست اور بائیں بازو کے نام نہاد دانشور اس تحریک میں مارکس وادیوں کی نظریاتی مداخلت پر سوال اٹھا رہے ہیں، ہم ان سے جوابی یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کو ان عوامی مطالبات سے آخر مسئلہ کیا ہے ؟ کیا مفت تعلیم ، علاج اور روزگار ہر انسان کا بنیادی حق نہیں ہے ؟ کوئی بھی ترقی پسند یا جمہوری تحریک اگر ان مطالبات کے ذریعے آگے بڑھ سکتی ہے تو آخر اس میں کیا برائی ہے ؟ یوں تو ایسے عظیم دانشور وقتی فائدے اور بلدیاتی انتخابات میں کونسلر بننے کے لالچ میں جماعتِ اسلامی جیسی رجعتی قوتوں کے اتحادی بننے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تو اس طرح کی تحریکوں میں عوامی مطالبات سے اجتناب کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ اس کا جواب ان دانشوروں اور قوم پرستوں کا طبقاتی پسِ منظر ہے۔ یہ تحریک پر درمیانے طبقے کے دباؤ کے نمائندہ بنے ہوئے ہیں۔ وہی درمیانہ طبقہ جو ہر وقت بالا طبقات کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے مگر سرمایہ داری کا بحران انہیں بار بار محنت کش طبقے کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ یہ تعلیم اور علاج خرید سکتے ہیں ، اس لیے انہیں ان مطالبات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔یہ محنت کش طبقات سے ان کے حالاتِ زندگی ، پھٹے ہوئے کپڑوں ، جسم سے آنے والی بدبو کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں اور بڑی گاڑی ، بڑے گھر اور پلاٹ ان کی گفتگو کا محور ہوتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پشتون تحریک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ عوام کی وسیع تر پرتوں کی نمائندہ حقیقی انقلابی قوت کا روپ دھار سکے۔ 

پشاور جلسے کا ایک منظر

ان مطالبات کی بنیاد پر جہاں یہ تحریک پاکستان کے اندر وسیع پیمانے کی حمایت جیت سکتی ہے وہیں ملک کے باہر اور بالخصوص اس خطے کے محنت کش عوام کی حمایت بھی حاصل کرسکتی ہے۔ اس وقت ایران میں سماج کی پسی ہوئی پرتوں کی ایک شاندار تحریک موجود ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بارہ بارہ سالہ بچیاں ٹینکوں کے آگے ننھے ننھے ہاتھوں میں پتھر لیے آزادی کے نعرے لگا رہی ہیں۔ کشمیر کے علاوہ بھی بھارت میں دیگر اہم تحریکیں موجود ہیں۔حال ہی میں کسانوں نے کامیاب لانگ مارچ کیاہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی تحریک بھی دوبارہ منظر نامے پر ابھر رہی ہے۔گزشتہ برس محنت کشوں کی تاریخی عام ہڑتال بھی دیکھنے میں آئی۔ یہ تمام تحریکیں پشتون تحفظ تحریک کی فطری اتحادی ہیں۔PTM کی قیادت پر یہ ریاست اور اس ریاست کے وظیفہ خوار را کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں ۔ میڈیا کی اس کیمپئن میں آئے روز شدت آتی جائے گی۔ لیکن تحریک کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارتی ریاست کے خلاف ابھرنے والی ان تمام تحریکوں کی حمایت کرے اور بھارت سمیت تمام سامراجی قوتوں کو علی الاعلان تنقید کا نشانہ بنائے۔پشاور جلسے کے بعد یہ تحریک انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے پاس آگے بڑھنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اس سفر میں جس نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا وہ پتھر کا ہو گیا۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’سانپ کو یا تو چھیڑو مت ، چھیڑو تو پھر چھوڑو مت‘ ۔ اس مقولے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس ریاست کے خلاف ایک جنگ کا آغاز کرنا پڑے گا جس کے لیے ملک بھر سے اور خطے کے دیگر علاقوں کے محنت کش طبقے کے ساتھ جڑنا ہو گا۔اس کے بغیر ان مطالبات کا حصول ممکن نہیں۔

یہ ریاست پہلے ہی سامراجی طاقتوں کی باہمی لڑائی میں کمزور ہو رہی ہے اور حکمران طبقہ لوٹ مار کی لڑائی میں آپس میں دست و گریبان ہے۔اس ریاست کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں اور وہ ہر تحریک اور بغاوت کو پوری طاقت سے کچلنے کی کوشش کریں گے۔اس وقت تحریک کے دباؤ اور اس کے مشتعل ہونے کے خوف کے باعث ریاست کی جانب سے بظاہر کوئی بڑا اور براہ راست حملہ نہیں کیا جا رہا لیکن جیسے ہی اس ریاست کومعمولی سا بھی موقع ملے گا وہ قتل و غارت اور خود کش حملوں سے لے کر جسمانی تشدد اور اغوا جیسے بزدلانہ ہتھکنڈوں کو وحشیانہ انداز میں استعمال کرے گی۔اس مقصد کے لیے سماج کی رجعتی اور پسماندہ قوتوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ہر قسم کا غلیظ الزام اس تحریک اور اس کی قیادت پر عائد کیا جائے گا۔ اس عمل میں بکاؤ میڈیا، عدالتیں، سیاسی قائد اور نام نہاد بائیں بازو کے این جی او زدہ دانشور بھی ان کے آلہ کار کا کردار ادا کریں گے۔اس لیے جس لڑائی کا آغاز ہوا ہے اسے انجام تک پہنچانا ناگزیر ہے۔یہ حکمران طبقے کے خلاف مظلوموں اور محنت کشوں کی لڑائی ہے اور اس میں حتمی فتح ایک یا دوسرے طبقے کی ہی ہو گی ۔اگر محنت کش طبقہ یہاں کے حکمران طبقے اور اس کی پروردہ جابر ریاست کا مکمل خاتمہ نہیں کرتا اور اس کی جگہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست تعمیر نہیں کرتا تو یہ ریاست اور اس کے سامراجی آقا اس خطے کو بربریت میں دھکیل دیں گے اور اس کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں سوچیں گے۔ یہ انسانوں کی شکل میں وحشی درندے ہیں جو مظلوموں کا خون پی کر زندہ رہتے ہیں۔اسی لیے ضروری ہے کہ تحریک کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کیا جائے اور دائیں بازو کے حملوں اور ریاست کے حامیوں کا کھل کر مقابلہ کیا جائے۔یہ تکلیف دہ عمل تحریک کو توڑنے کا نہیں بلکہ اس کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گا۔ جیسے کوئی بھی صحت مند جسم فاسد مواد کو نکال کر ہی توانا رہتا ہے اسی طرح تحریک کی بھی بہتر صحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے عناصر کو خارج کرے اور اپنی صفوں کو درست کرتے ہوئے اس ریاست اور حکمران طبقے کے خلاف ایک طبقاتی لڑائی کا آغاز کرے۔اس لڑائی میں خطے سمیت دنیا بھر کا محنت کش طبقہ اس کا ساتھ دے گا جو پہلے ہی اپنے ممالک میں حکمران طبقات کے خلاف تحریکوں میں ابھر چکا ہے اور سامراجی جنگوں کی مذمت کر رہا ہے۔پاکستان میں سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کی شکست پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو ایک نیا تحرک اور ولولہ دے گی جو یہاں کے محنت کش طبقے کی کامیابیوں کو مستحکم کرتے ہوئے انہیں سرخرو کرے گی۔ سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کش طبقے کی ہو گی!

Comments are closed.