خیرات کا زہر اور این جی اوز کی غلاظت

|تحریر: آفتاب اشرف|

خیرات محنت کشوں کے طبقاتی شعور اور جدوجہد کی نفسیات کے لئے ایک میٹھے زہر کا درجہ رکھتی ہے۔ خیرات کے نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے جہاں ایک طرف ہمیں محنت کش طبقے کی پیدا کردہ قدرزائد کو ہڑپ کر کے امیر ہو جانے والے نام نہاد ’’مخیر حضرات‘‘ اس لوٹی ہوئی دولت میں سے چند ٹکے خرچ کر کے ’’غریب دوستی‘‘ کا سوانگ رچاتے نظر آتے ہیں، وہیں خیراتی نفسیات محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو کند کرتے ہوئے ان سے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کر نے کا حوصلہ بھی چھین لیتی ہے۔ خیرات کا تصور ایک طرف تو سماج میں موجود طبقاتی تفاوت کو ایک فطری حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے وہیں دوسری طرف پورے سماج کو اپنی محنت کے بل بوتے پر چلانے والے محنت کشوں میں ’’ٹکڑوں پر پلنے‘‘ کی نفسیات کو پروان چڑھا کر ان کے دلوں میں سرمایہ داروں کے خلاف پنپتی بغاوت کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیرات کا نظریہ ہمیشہ سے ہی حکمران طبقے کا من پسند نظریہ رہا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بادشاہوں، جاگیرداروں اور مذہبی اداروں کی جانب سے قائم کردہ خیراتی ادارے اسی کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری میں حکمران طبقے یعنی سرمایہ داروں نے جس بڑے پیمانے اور منصوبہ بندی کے ساتھ خیراتی نظریے کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے شعور کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ محنت کش طبقے پر سرمایہ داروں کی اس نظریاتی یلغار کو عملی جامہ پہنانے کا کام کرنے والی تنظیمیں عرف عام میں این جی اوز (NGOs) کہلاتی ہیں۔ اگر چہ این جی اوز کی تاریخ لگ بھگ 150سال پرانی ہے لیکن گزشتہ 25سالوں میں پوری دنیا اور بالخصوص پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں این جی اوز کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ سماج کو مزید ترقی دینے میں اپنی نااہلیت کا ادراک رکھنے والے حکمران طبقے کی بغاوتوں اور انقلابات سے خوفزدگی ہے تاکہ معاشی بحران کے تحت بڑھتی ہوئی نجکاری اور عوامی سہولیات کے شعبے میں ریاست کے سمٹتے ہوئے کردار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت، بدحالی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو خیرات اور ’’امداد باہمی‘‘ جیسے دلفریب نعروں کے ذریعے حل کرنے کا جھانسا دیا جا سکے۔ پچھلی ربع صدی میں ان این جی اوز کے پھلنے پھولنے کی ایک اور اہم وجہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں سٹالنسٹ بائیں بازو اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی خوفناک غداریوں کی نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی اور خلا بھی تھا جسے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان این جی اوز نے بھرنے کی کوشش کی۔ بے شمار سابقہ سٹالنسٹ حضرات تو خود این جی اوز کے مالک بن بیٹھے اور اربوں روپوں کے فنڈز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بلکہ نہانے لگے۔ این جی اوز کی اس یلغار کے معاملے میں پاکستانی سماج کی کہانی بھی باقی دنیا سے مختلف نہیں ہے۔

پاکستانی سماج میں کھمبیوں کی طرح اگنے والی ان این جی اوز کی تعداد اس وقت ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ان این جی اوز کی فنڈنگ مقامی حکمران اشرافیہ، عالمی بورژوازی (بذریعہ انٹرنیشنل این جی اوز)، عالمی مالیاتی اداروں، مختلف سامراجی طاقتوں اور ان کے اداروں (مثلاً اقوام متحدہ) سے آتی ہے۔ بے شمار این جی اوز مختلف بڑے کاروباری گروپس کی جانب سے محض اپنی ٹیکس چوری کو قانونی تحفظ دینے کی خاطر قائم کی گئی ہیں جبکہ کئی بڑی نامور این جی اوز بڑے پیمانے پر کالے دھن کو سفید کرنے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ ریاست کے ساتھ ان تمام این جی اوز کے تعلقات یکساں نہیں ہوتے۔ مختلف سامراجی طاقتوں سے فنڈز حاصل کرنے والی این جی اوز کا ایجنڈا بعض اوقات ریاست کے اپنے سامراجی عزائم سے کسی حد تک ٹکراؤ میں آ جاتا ہے۔ اور نتیجتاً ایک وقتی تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے لیکن دوسری طرف قابل اعتماد این جی اوز کو بھرپور ریاستی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔

عمومی طور پر پاکستانی سماج میں این جی اوز کی اصطلاح کے ساتھ کچھ درمیانے طبقے کے فیشن ایبل خواتین و حضرات یعنی نام نہاد سول سوسائٹی کا تصور منسلک ہے لیکن یہ بات صرف جزوی طور پر ہی درست ہے کیونکہ پاکستان میں کام کرنے والی کئی بڑی این جی اوز کا اس نام نہاد سول سوسائٹی سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن، چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن ایسی ہی بڑی این جی اوز ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار مذہبی تنظیمیں براہ راست ریاستی پشت پناہی سے مختلف ’’فلاحی تنظیمیں‘‘ چلاتی ہیں جن کے ذریعے وہ سماج کی سب سے پسماندہ اور پچھڑی ہوئی پرتوں میں اپنے لئے سماجی بنیادیں حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ نام نہاد فلاحی تنظیمیں درحقیقت این جی اوز ہی ہیں اور ان میں سے کئی ایک کے ڈانڈے کالی معیشت اور دہشت گردی کی صنعت کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ اس فہرست میں جماعت الدعوۃ سے منسلک فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، جماعت اسلامی سے منسلک الخدمت فاؤنڈیشن اور الرشید ٹرسٹ جیسی این جی اوز شامل ہیں۔ ان تمام این جی اوز کو ریاست کے علاوہ مقامی حکمران طبقے کے کئی حصوں اور خلیجی ممالک (خصوصاً سعودی عرب) سے بھی بھرپور فنڈنگ حاصل ہوتی ہے۔ متذکرہ بالا تمام این جی اوز مذہب، بھائی چارے، انسانی ہمدردی اور ان جیسے دیگر نعروں کے تحت محنت کش طبقے کو بھیک کا عادی بنانے کے لئے تو کوشاں ہیں ہی لیکن ان کی منافقت کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک ایمبولینس سروس چلانے والی این جی او کے کالے دھن کو سفید کرنے کے کاروبار میں ملوث ہونے کے قصے زبان زد عام ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث ایک مسلح مذہبی تنظیم سے منسلک این جی اوز کی ایمبولینسیں دہشت گردی کے واقعات کے فوراً بعد ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے تحت جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں مدرسے بھی درحقیقت این جی اوز کی ہی ایک مخصوص شکل ہیں جو کہ خیرات، ریاستی امداد، حکمران طبقے کی فنڈنگ، بیرونی امداد اور کالی معیشت سے حاصل ہونے والے پیسوں کے بل پر چلتے ہیں۔ ان مدرسوں میں انتہائی غریب اور سماج کی سب سے پچھڑی ہوئی پرتوں کے بچوں کو مفت ’’تعلیم‘‘ کے نام پر انتہائی زہریلے اور متعصبانہ مذہبی پروپیگنڈے کے ذریعے برین واش کیا جاتا ہے اور کئی ایک مدرسے تو عملاً خودکش بمبار بنانے والی فیکٹریوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

این جی اوز کی ایک اور ورائٹی کو عرف عام میں ’’رائٹس این جی اوز‘‘ یا حقوق کی خاطر کام کرنے والی این جی اوز کہا جاتا ہے۔ نام نہاد سول سوسائٹی زیادہ تر اسی نوعیت کی این جی اوز کے نمائندگان اور سپورٹرز پر مشتمل ہے۔ اس قسم کی این جی اوز میں انسانی حقوق، بچوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، نوجوانوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور دیگر انواع و اقسام کے ’’حقوق‘‘ کی باتیں کرنے والی این جی اوز شامل ہیں۔ مقامی حکمران طبقے اور ریاست کے ساتھ ساتھ ان این جی اوز کو عالمی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ روابط کی بدولت عالمی سرمایہ دار طبقے سے بھی بھاری فنڈنگ موصول ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ این جی اوز عالمی سامراجی مالیاتی اداروں اور اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے ساتھ بھی منسلک ہوتی ہیں۔ خیراتی نفسیات کو نوجوانوں اور محنت کشوں پر مسلط کرنے کا کام تو ساری این جی اوز کرتی ہیں لیکن این جی اوز کی یہ مخصوص قسم ایک اور حوالے سے بھی نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ یہ این جی اوز جہاں ایک طرف مختلف سماجی و معاشی مسائل کو سرمایہ دارانہ نظام سے کاٹ کر ایک الگ تھلگ مسئلہ بنا کر پیش کرتی ہیں وہیں سرمایہ دار طبقے سے ملنے والی خیرات کو ان مسائل کا حل بنا کر پیش کرتے ہوئے سماجی و معاشی حقوق حاصل کرنے کی سیاسی جدوجہد کو بیکار اور نقصان دہ قرار دیتی ہیں۔ اس طرح سے وہ اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے پر آمادہ نوجوانوں اور محنت کشوں میں مایوسی اور خوفزدگی پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس معاملے میں خاص طور پر لیبر رائٹس این جی اوز یا مزدوروں کے حقوق کے نام پر اپنی دکان چمکانے والی این جی اوز کا کردار نہایت ہی خطرناک ہے۔ اس فہرست میں پائلر، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن، بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ اور ان جیسی دیگر بے شمار این جی اوز آتی ہیں۔ ان مخصوص این جی اوز کا مظہر پاکستان میں 1990ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سٹالنسٹ بائیں بازو کی غداری، ٹریڈ یونین تحریک کے زوال اور پیپلز پارٹی قیادت کی پے در پے غداریوں کے نتیجے میں پھیلنے والی مایوسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان این جی اوز کے کرتا دھرتا اور مالکان کی ایک بڑی تعداد بذات خود ماضی میں سٹالنسٹ بائیں بازو کا حصہ تھی جو کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اپنے نظریات سے غداری کرنے کے بعد لبرل ازم کی گود میں جا بیٹھے اور ’’خدمت خلق‘‘ کے نام پر مزدور تحریک میں این جی اوز کی پراگندگی پھیلانے لگے۔ غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس سادے عمل میں ان خواتین و حضرات نے خوب مال بھی بنایا اور مزدوروں کے نام پر خود کروڑوں پتی بن بیٹھے۔

بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کی سیدہ غلام فاطمہ، جان کیری سے خدمات کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

لیکن ان لیبر این جی اوز کی انقلاب دشمنی یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ مزدور دوستی کا نقاب اوڑھنے والے ان سرمایہ داری کے ایجنٹوں نے 2012ء میں ’’عوامی ورکرز پارٹی‘‘ کے نام سے ایک ’’بائیں بازو‘‘ کی پارٹی بھی تشکیل دی۔ یہ نام نہاد سیاسی پارٹی درحقیقت بے شمار این جی اوز اور بالخصوص لیبر این جی اوز کا ایک اکٹھ ہے۔ جس میں بھانت بھانت کے لبرل، سابقہ سٹالنسٹ، سابقہ ٹراٹسکائیٹس، نسوانیت پرست، کرپٹ اور غدار ٹریڈ یونین لیڈر، تنگ نظر قوم پرست، ذات برادری کے سیاستدان اور اسی قماش کے دیگر عناصر شامل ہیں۔ اس پارٹی کی تقریباً تمام مرکزی قیادت براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی این جی او کی یا تو مالک ہے یا پھر اس کے ساتھ منسلک ہے۔ اس طرح پارٹی کے فنڈز کا زیادہ تر دارومدار بھی مختلف این جی اوز پر ہے اور اپنے پروگراموں اور جلسوں میں تعداد پوری کرنے کے لئے شرکا بھی انہی این جی اوز کی وساطت سے کرائے پر لائے جاتے ہیں۔ انقلابی تو دور کی بات اس نام نہاد پارٹی کو صحیح معنوں میں اصلاح پسند بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سوشلزم کی لفاظی کرتے ہوئے یہ پارٹی درحقیقت مزدور تحریک اور نوجوانوں میں این جی اوز کی پراگندگی پھیلا رہی ہے۔ اس پارٹی کا سیاسی حلقہ اثر فی الوقت نہایت محدود ہے اور ان کو جاننے والے محنت کش ان کے کاروبار سے واقفیت کی بناپر ان سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن بھاری فنڈنگ، ممکنہ ریاستی پشت پناہی، مزدور تحریک کی نظریاتی زوال پذیری اور سیاست میں موجود خلا کے باعث یہ مفاد پرست گروہ اپنے انقلاب دشمن کردار کو وسعت دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

اس لیے مارکس وادیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ اس قسم کے این جی او زدہ رجحانات پر تنقید کریں تاکہ ان کی منافقانہ لفاظی کے پردے میں چھپی ہوئی مزدور اور انقلاب دشمنی کا بھانڈا پھوڑا جا سکے۔ بائیں بازو کے بعض دیانتدار لیکن ناسمجھ اور ناپختہ کارکن اس طرح کی پارٹیوں اور گروپوں کی خوش کن گفتگو سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور ’’بائیں بازو کے اتحاد‘‘ نامی فریب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت ان پیسوں کے پجاریوں کا مارکسی نظریات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بہروپیے سرمایہ دارانہ نظام کے ہی ایجنٹ ہیں۔ مارکس وادی بائیں بازو کے اتحاد کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اس ’’اتحاد‘‘ کی خاطر مارکسزم، لینن ازم اور ٹراٹسکی ازم کے نظریات اور سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام پر رتی برابر سمجھوتہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح لینن کے تجویز کردہ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے لائحہ عمل کے تحت اپنی آزادانہ نظریاتی اور تنظیمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کے ساتھ چند مخصوص مشترکہ نکات پر ایک متحدہ فرنٹ بنایا جا سکتا ہے لیکن این جی اوز اور ان کے سیاسی پلیٹ فارم اس میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ درحقیقت سیاسی رجحانات ہیں ہی نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے۔

کچھ عرصہ قبل عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں میں بائیں بازو کا ناپختہ شعور رکھنے والے بعض نوجوانوں نے اپنی ناسمجھی میں خیرات کے تصور کو اصلاحات کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا۔ یہ دونوں بالکل مختلف تصورات ہیں۔ خیرات بھیک کا دوسرا نام ہے جبکہ اصلاحات محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ ہم بطور مارکسسٹ خیرات کی ہر شکل کو محنت کش طبقے کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں اور اس کی ہر طرح سے مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم اصلاحات کی ہر جدوجہد میں محنت کش طبقے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں لیکن اصلاح پسندی کے نظریے کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دیتیہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ان کی نجات ممکن نہیں۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کا قیام ہی ان کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور روزگار مہیا کر سکتا ہے۔ صرف ایک سرخ سویرا ہی سرمایہ داری کی اندھیری رات کا خاتمہ کرتے ہوئے بنی نوع انسان کو حقیقی معنوں میں آزادی دلا سکتا ہے۔

یہ انقلاب برپا کرنے کے لیے بالشویک پارٹی کی طرز پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پارٹی کے لیے درکار وسائل کسی بیرونی قوت‘ ریاستی پشت پناہی‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں یا ان کی گماشتہ این جی اوز سے نہیں بلکہ محنت کشوں کے اپنے خون اور پسینے سے کمائے ہوئے پیسوں سے آئیں گے۔ اس پارٹی کی بنیاد مارکسزم کے ٹھوس نظریات پر ہوگی اور یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست اور سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک مسلسل ناقابل مصالحت لڑائی اور قربانیوں سے تیار ہوگی۔ ایسی آہنی بنیادوں پر مبنی قوت ہی انقلابی واقعات کے طوفان میں محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر اس سماج میں جاری تمام تر ظلم و استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں ایک سوشلسٹ سماج قائم کرے گی۔

Comments are closed.