|تحریر: بین کری، ترجمہ: عبدالحئی|
21اپریل بروز پیر، پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں اسے کلیسا کی شبیہ کو بہتر بنانے، اسے ایک ’انسانی چہرہ‘ دینے اور اس ادارے کے بحران کو روکنے کا کام سونپا گیا تھا۔ چاہے کوئی اس کے بارے میں کچھ بھی رائے رکھے، یہ حقیقت ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری نہایت مہارت سے نبھائی، لیکن یہ کام اپنی نوعیت میں ناممکن ہی تھا۔ کلیسا کا بحران بدستور جاری رہا، اور اس کی وفات کے بعد اس میں مزید شدت آ جائے گی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
سینٹ پیٹرز بیسیلیکا (St. Peter’s Basilica) میں عوامی دیدار کے بعد، پوپ فرانسس کی باقیات اس کی خواہش کے مطابق ویٹیکن (Vatican) کی ایک عبادت گاہ میں سادگی سے دفن کی جائیں گی، ایک ایسی قبر میں جو ”سادہ اور بغیر کسی آرائش“ کے ہو گی۔
یہ وہ تصویر تھی جو فرانسس نے بہت پہلے 2013ء میں ویٹیکن آنے سے قبل، ارجنٹینا میں اپنے پرانے دنوں سے ہی بنا لی تھی کہ ایک ایسا شخص جو غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا، جو بطور آرچ بشپ عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ جب وہ ویٹیکن آیا تو اس نے وہ شاہانہ رہائش گاہ اختیار کرنے سے گریز کیا جو عام طور پر پوپ کے لیے مخصوص ہوتی ہے اور اس کی بجائے ایک سادہ مہمان کمرے میں رہائش اختیار کی۔
فرانسس، جو زمین کی ایک امیر ترین تنظیم کا سربراہ تھا، ایک ایسے انسان کے طور پر نظر آنا چاہتا تھا، اگرچہ اس میں موجود تضاد کو دیکھا جا سکتا ہے، جو سادگی، انکساری اور فقر کا پیکر ہو، ایک ایسا انسان جو عام لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کرتا ہو۔ ان کا پوپ کے طور پر چُنا گیا نام بھی اسی تاثر کی عکاسی کرتا تھا، اسیسی (Assisi) کا سینیٹ فرانسس، یعنی غربت کے معروف علمبردار۔
اسی مقصد کے تحت اس نے اپنے پیش روؤں سے مختلف انداز اپنایا۔ اس نے ماحولیاتی تبدیلی پر بات کی، مہاجرین کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا اور جنگ کی ہولناکیوں کا ذکر کیا۔ وہ بہت سے موضوعات پر بولے اور نہایت چالاکی سے مظلوموں کے دوست کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ اپنی وفات کے ہفتے تک وہ غزہ میں مسیحی جماعت کے ساتھ ملاقاتیں کرتا رہا، جہاں یہ ملاقاتیں اسرائیلی بمباری کے سائے میں ہوتی تھیں۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی کچھ محتاط لیکن معنی خیز تبصرے کیے۔ یا کم از کم اس کے اثرات پر تنقید کی۔
یہاں تک کہ بائیں بازو کے کچھ سادہ لوح افراد نے بھی اس نام نہاد ’سوشلسٹ‘ پوپ کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا اور اپنی معمولی سی آوازیں دنیا بھر کے قدامت پسند صدور، وزرائے اعظم، بادشاہوں اور دائیں بازو کے میڈیا اداروں کی جانب سے کی جانے والی تعریفوں کے شور میں شامل کر دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پوپ فرانسس کے نظریات میں اتنا ہی ’سوشلزم‘ تھا جتنا کہ اس سے پہلے والے پوپ بینیڈکٹ شانزدہم (Pope Benedict XVI)، جنہیں ’خدا کا روٹ وائیلر‘ (God’s Rottweiler) کہا جاتا تھا، یا جتنا اس سے پہلے سرد جنگ کے دور کے پوپ جان پال دوم (Pope John Paul II) کے خیالات میں تھا۔ اس کے برعکس، یہ بھی انہی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے ایک نہایت اہم اور طاقتور ادارے کلیسا کا سربراہ تھا، جو ایک دیوہیکل سرمایہ دارانہ ادارہ ہے۔ اب اس نظام کی طرح کلیسا بھی ایک گہرے اور مختلف قسم کے بحران سے دوچار ہے۔
لیکن کیتھولک چرچ چوتھی صدی سے حکمران طبقے کا ایک قریبی حصہ رہا ہے۔ طبقاتی معاشرے میں اس کا بنیادی کردار ہمیشہ یہی رہا ہے کہ عوام کو موت کے بعد جنت کا وعدہ دے کر، دنیا میں جہنم برداشت کرنے پر آمادہ رکھے۔ اس کا کام یہ تھا کہ غریب عوام کو امیروں اور طاقتوروں، چاہے وہ جاگیردار ہوں یا بعد میں سرمایہ دار، کے خلاف بغاوت سے باز رکھے۔ کوئی بھی ادارہ اس مقام کو برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس میں حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت نہ ہو اور بحرانوں سے نمٹنے کی مہارت نہ ہو۔ جب دنیا بھر میں طبقاتی غصہ بڑھ رہا تھا اور خاص طور پر کلیسا کے خلاف نفرت جنم لے رہی تھی، تب فرانسس وقت کی ضرورت بن گیا اور اس چرچ کی ساکھ بحال کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔
اس لحاظ سے اُس کا پوپ کے طور پر چُنا گیا نام خاص اہمیت رکھتا تھا۔
جب اس کے ہم نام، فرانسس آف اسیسی، 13 ویں صدی میں روم کی گلیوں میں چلتے تھے، تو اُس وقت بھی کیتھولک چرچ بحران کا شکار تھا۔ اس وقت جاگیردارانہ نظام اپنی انتہا کو پہنچ کر زوال پذیری کی جانب رواں دواں تھا۔ چرچ کو شہری اور دیہی غریب عوام کی جانب سے اس کی شان و شوکت، منافقت اور بادشاہوں اور جاگیرداروں کی حکمرانی کے غیر متزلزل دفاع کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت کا سامنا تھا۔ یورپ بھر میں باغی فرقے اُبھرنے لگے، جو غریبوں کو امیروں کے خلاف طبقاتی نفرت کا پیغام دینے لگے۔
روایت کے مطابق، فرانسس آف اسیسی سان دامیانو (San Damiano) کے صلیب کے سامنے کھڑے تھے، اور جب وہ دعا کر رہے تھے تو اچانک وہ چونک اٹھے کیونکہ اس شبیہ سے رب کی آواز سنائی دی: ”جاؤ، میری کلیسا کی مرمت کرو، جسے تم دیکھ رہے ہو کہ مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو چکی ہے۔“
سینٹ فرانسس آف اسیسی نے اپنے مشن کو قبول کیا۔ یورپ میں گھومنے والے کمیونسٹ نظریات کے حامل بدعتی فرقوں کی طرح اس نے بھی اٹلی کے غریب طبقے کے طبقاتی تفریق پر مبنی جذبات کو اپیل کیا۔ اس کا پیغام ابتدائی کلیسائی تعلیمات سے ماخوذ تھا کہ آسمانی بادشاہی غریبوں کی ہے، اور خدا دولت سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن اس طرح غریبوں کو فرانسس فرقے کے ذریعے کلیسا کے اقتدار اور موجودہ نظام کے سب سے پرجوش محافظوں میں بدل دیا گیا۔
سینٹ فرانسس کی طرح پوپ فرانسس نے بھی یہ پکار محسوس کی کہ: ”چرچ کی مرمت کرو، جو مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو چکا ہے“، تاکہ اسے سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع کے لیے ایک نئے اوزار کے طور پر بحال کیا جا سکے اور غریبوں اور مظلوموں میں اس کی داغدار ساکھ کو دوبارہ بہتر بنایا جا سکے۔
ایک پراسرار سفید ڈبہ
پوپ فرانسس کی پاپائیت کا آغاز ہی بحران سے ہوا۔ 2013ء میں، پوپ بینیڈکٹ شانزدہم تقریباً 600 سال بعد مستعفی ہونے والا پہلا پوپ بنا۔ اس سے پہلے جو پوپ منصب سے دستبردار ہوا تھا، وہ گریگوری دوازدہم (Gregory XII) تھا، جس نے 1415ء میں مغربی کلیسا میں پیدا ہونے والے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے استعفیٰ دیا تھا۔ پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے ’صحت کے مسائل‘ کو استعفے کی وجہ بتائی یا کم از کم یہی دعویٰ کیا گیا۔
حقیقت میں، اس کے استعفے کا وقت نہایت موزوں ثابت ہوا۔ اسی وقت ویٹیکن ’واٹی لیکس‘ (Vatileaks) اسکینڈل کی لپیٹ میں تھا، جس نے چرچ کے مالیاتی نظام کے تاریک پہلوؤں کو بے نقاب کر دیا جس میں منی لانڈرنگ، کرپشن، رشوت خوری، خرد برد اور ٹیکس چوری شامل تھے۔
اگرچہ پوپ بینیڈکٹ نے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن اس کا کہیں جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ پوپ ایمیریٹس کے طور پر وہیں قیام پذیر رہا اور چرچ کے قدامت پسند دھڑے کی مسلسل سازشوں کے لیے ایک گروہی مرکز بنا رہا، یہاں تک کہ 2022ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔
حالات یہی تھے جب 13 مارچ 2013ء کو سفید دھواں بلند ہوا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ارجنٹائن کے کارڈینل خورخے برگولیو (Cardinal Jorge Bergoglio)، جو اب پوپ فرانسس بن گیا تھا، پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کی جگہ روم کے نئے بشپ کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
عام طور پر ایسا نہیں ہوتا کہ رخصت ہونے والا پوپ آنے والے پوپ سے ملاقات کرے، لیکن پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے استعفے کے حالات ایسے تھے کہ پوپ ایمیریٹس نے براہِ راست نو منتخب پوپ کو اقتدار سونپ دیا۔ اس موقع پر، بینیڈکٹ نے ایک سفید ڈبہ فرانسس کے حوالے کیا۔ اس نے پوپ فرانسس سے کہا: ”سب کچھ اسی میں ہے، ایسے معاملات سے متعلق دستاویزات جو نہایت مشکل اور تکلیف دہ ہیں: بدسلوکی، کرپشن، خفیہ سودے اور بے ضابطگیوں کے کیسز۔“
وہ ڈبہ یقیناً بڑا ہو گا، یا پھر اس کے اندر موجود دستاویزات نہایت باریک تحریر میں لکھے گئے ہوں گے، کیونکہ دہائیوں کے دوران کیتھولک چرچ پر الزامات کی فہرست بہت طویل ہو چکی ہے۔ بچوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر جنسی زیادتی اور اس پر پردہ ڈالنے سمیت جرائم اور بدسلوکیوں کی ایک طویل فہرست نے چرچ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ کیتھولک چرچ کی مجموعی مالیت کتنی ہے، خود چرچ نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو چھپانے میں ہمیشہ بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔
بہت سے ممالک میں، جیسے آئرلینڈ میں، چرچ ایک ایسی قوت تھی جو ہمیشہ بغیر سوال کیے مانی جاتی تھی اب یہ نوجوان نسل کی شدید نفرت کا نشانہ بن چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ بھر میں چرچ کے جرائم پر نفرت اور مجموعی طور پر ایمان کے بحران نے مل کر چرچ کے پیروکاروں کی تعداد کو کم کر دیا ہے۔ صرف جرمنی میں ہی، سال 2000ء کے بعد سے چرچ نے 30 لاکھ پیروکار کھو دیے ہیں۔
جہاں چرچ نے یورپ اور امریکہ جیسے امیر ممالک میں اپنے پیروکاروں کو کھو دیا ہے، وہیں غریب ممالک، خصوصاً افریقہ اور لاطینی امریکہ میں اس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج صرف ہر پانچ میں سے ایک کیتھولک یورپ میں رہتا ہے، جبکہ تقریباً سات میں سے ایک لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں ہے۔ لیکن غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی پیروکاروں کی تعداد ایک ایسے ادارے کے خزانے نہیں بھر سکتی جس کے اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں جن میں عمر رسیدہ پادریوں کی پنشنیں شامل ہیں، جن کی جگہ لینے والے افراد کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے اور ماضی کے جرائم کی وجہ سے بھاری ہرجانہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔
تاہم، جو کوئی بھی کیتھولک چرچ کے مالی معاملات کے بارے میں فکر مند ہو، وہ سکون سے رہ سکتا ہے کہ اسے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کیتھولک چرچ کی مجموعی مالیت کتنی ہے، خود چرچ نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو چھپانے میں ہمیشہ بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ کیتھولک چرچ کے پاس بے شمار اثاثے ہیں۔ روحوں کی دیکھ بھال کرنا ایک نہایت منافع بخش کاروبار ہے۔
صرف اٹلی میں ہی، چرچ کے پاس 4 ہزار سے زائد جائیدادیں ہیں۔ دنیا بھر میں یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ چرچ کے پاس دو لاکھ ستتر ہزار مربع میل جائیداد اور زمین ہے، جو ٹیکساس (Texas) سے بھی بڑی ہے۔ جرمنی میں کیتھولک چرچ، باوجود اس کے کہ اس نے اتنے سارے پیروکار کھو دیے ہیں، پھر بھی اس کی دولت کا اندازہ تقریباً 430 بلین یورو ہے۔
چرچ کی دولت تقریباً مکمل طور پر کھربوں ڈالرز تک پہنچتی ہے۔ جیسا کہ واٹی لیکس اسکینڈل نے ظاہر کیا کہ ویٹیکن ایک پردے میں چھپے ہوئے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، رشوت خوری اور خرد برد کا مرکز ہے۔
جدید کیتھولک چرچ ایک وسیع، منافع بخش سرمایہ دارانہ ادارہ ہے جس کے ساتھ مختلف قسم کے کاروبار اور جائیدادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ دوسری بڑی کمپنی کی طرح وہی گندے کاروباری طریقے اور بدعنوانیاں کرتا ہے، جو کسی کے لیے بھی حیران کن نہیں ہے۔
لیکن افریقہ اور لاطینی امریکہ میں، جہاں کیتھولک چرچ اپنے نئے ماننے والوں کو حاصل کر رہا ہے، وہیں اسے انجیلی فرقوں کی جانب سے مقابلے کا سامنا بھی ہو رہا ہے۔
جہاں کیتھولک چرچ ظالم امرا شاہی کے اقتدار کو برقرار رکھتا ہے اور غریبوں کو دنیا کی تکالیف کے بدلے آخرت میں نجات کا وعدہ کرتا ہے، وہیں دیگر فرقے، جیسے پینٹی کوسٹل چرچز (Pentecostal Churches)، ایک زیادہ دلکش پیغام پیش کرتے ہیں۔ یہ ’صحت اور دولت‘ کے چرچ غریبوں کو یہ امید دیتے ہیں کہ ان کی عقیدت کے بدلے اس زندگی میں خوشحالی دی جائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ پوپ فرانسس کو جو صورتِ حال وراثت میں ملی، وہ کچھ یوں تھی: ایک ایسا چرچ جو بحرانوں اور اسکینڈلز میں گھرا ہوا تھا، بے پناہ دولت کے باوجود خسارے کا شکار تھا، عقائد کے تنازعات، دھڑے بندیوں اور اندرونی سازشوں میں الجھا ہوا تھا، اور دنیا کے کئی حصوں میں مومن بڑی تعداد میں ایمان چھوڑ رہے تھے۔
ایسے وقت میں جب اسٹیبلشمنٹ کے ہر ستون سے نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا، چرچ کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اس کی شبیہ کو نیا رنگ دے سکے، اسے ایک انسانی چہرہ فراہم کر سکے اور اس کی تقدیر بدل سکے۔ پوپ فرانسس کا کیریئر اسے اس کام کے لیے تیار کر چکا تھا۔
پوپ اور ’غلیظ جنگ‘
پوپ فرانسس 1936ء میں ارجنٹائن میں خورخے ماریو برگولیو کے نام سے پیدا ہوا۔ اس نے 1958ء میں 22 برس کی عمر میں جیزوئٹ آرڈر (Jesuit Order) میں شمولیت اختیار کی اور 1973ء سے 1979ء تک اس آرڈر میں ’صوبائی سربراہ‘ یعنی ارجنٹائن میں جیزوئٹ آرڈر کے قائد کے عہدے تک پہنچا۔
چنانچہ وہ اس وقت جیزوئٹ آرڈر کا سربراہ تھا جب ارجنٹائن کو جنرل ویڈیلا کی قیادت میں فوجی آمریت کے آہنی پنجے میں جکڑ لیا گیا تھا۔ فوجی حکومت کی ’غلیظ جنگ‘ کے دوران تقریباً تیس ہزار افراد کو قتل یا لاپتہ کر دیا گیا، جن میں سرفہرست کمیونسٹ، انقلابی مزدور رہنما اور دانشور شامل تھے۔
فوجی حکومت نے کئی بائیں بازو کے پادریوں کو بھی قتل کر دیا۔ یہ حیران کن نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم چرچ میں بھی پائی جاتی تھی۔ چرچ اور جیزوئٹ آرڈر کی نچلی صفوں میں بہت سے ایسے پادری موجود تھے جن کی غریبوں سے ہمدردی انہیں حکومت کے خلاف براہِ راست مزاحمت کرنے، یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے پر بھی آمادہ کر دیتی تھی۔
تاہم، کیتھولک چرچ کے اعلیٰ طبقے نے نہ صرف فوجی حکومت کے جرائم کو اخلاقی جواز فراہم کیا بلکہ انہوں نے اس کے مخالفین کے قتل میں براہِ راست مدد بھی کی۔ عینی شاہدین نے گواہی دی ہے کہ بعض کارڈینلز نے پادریوں کو حکومت کے حوالے کیا تاکہ انہیں قتل کیا جا سکے۔ چرچ نے یہاں تک کہ اپنے ذاتی جزیرے بھی ارجنٹائن کی بحریہ کو فراہم کیے تاکہ وہ انسانی حقوق کے کمشنرز کے ملک میں دوروں کے دوران سیاسی قیدیوں کو چھپا سکیں۔
ان تاریک سالوں میں خورخے برگولیو، جو مستقبل میں پوپ فرانسس بنا، نے کیا کردار ادا کیا؟ اس کے طرزِ عمل کے حوالے سے کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے پادریوں کے اغوا میں براہِ راست ملوث تھا، جن میں اورلاندو یوریو اور فرانسیسکو جالکس شامل ہیں۔ جبکہ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ اس نے درحقیقت مخالف پادریوں کو ارجنٹائن سے فرار ہونے میں مدد فراہم کی۔
چاہے ان جبری گمشدگیوں میں اس کا جو بھی کردار رہا ہو، اس نے فوجی حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کی۔ اگر وہ براہِ راست شریک نہیں بھی تھا، تب بھی یہ ”غریبوں کا دوست“ اُس وقت خاموش رہا جب غریبوں کو کچلا جا رہا تھا اور ان کے رہنماؤں کو قتل کیا جا رہا تھا۔
لیکن یہ اس کے بعد کا کام ہی تھا جس کے ذریعے وہ امرا شاہی کے نزدیک پوپ بننے کے لائق بنا تھا، وہ خدمات جو اس نے فوجی حکومت کے گرنے کے بعد انجام دیں۔ جب فوجی حکومت گر گئی، تو کیتھولک چرچ اپنے جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر بدنام ہو چکا تھا۔ اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اس کی شہرت کو صاف کر سکے: ایک ’عوام کا آدمی‘ اور ’غریبوں کا دوست‘۔
اس کردار میں خورخے برگولیو براجمان ہوا، جسے 1998ء میں بوئنوس آئرز (Buenos Aires) کا آرچ بشپ بنا دیا گیا۔ اس کی قیادت میں، کیتھولک چرچ نے عوام کی نظر میں خود کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ برگولیو نے ’کچی بستیوں کے پادریوں‘ کو غریب علاقوں میں جا کر خیرات کے کام کرنے، پرانے گرجا گھروں، سکولوں اور فٹ بال کے میدانوں کی مرمت کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ غریب رہائشیوں سے بات کرتا، ان کے ساتھ چائے پیتا اور جسم فروش خواتین اور نشے کے عادی افراد کے پاؤں دھو کر انہیں بوسہ دیتا۔
اپنے رہنماؤں کو قتل اور قید کرنے میں مدد دینے کے بعد، چرچ اب ایک ایسا شخص لایا جو غریبوں اور محنت کش طبقے کو تسلی دے سکے۔ چرچ کے وہی امراء جو اپنے ہاتھوں کو”لاپتہ“ کے خون سے آلودہ کر چکے تھے، جو اپنے پادریوں میں سے بائیں بازو کے مخالفین کو بھی قتل کر چکے تھے، نے اپنے لیے یہ ’غریبوں کا دوست‘ کیوں منتخب کیا؟
طبقاتی جدوجہد کے اوقات میں، انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش، یہاں تک کہ خانہ جنگی تک پہنچنے کے موقع پر، چرچ کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ اپنے ہی طبقے کے ساتھ ہوتی ہے، حکمران طبقے، اشرافیہ اور رد انقلابی خونخواروں کے ساتھ۔
لیکن چرچ کی قیادت حکومتی طبقے کے لیے صرف ان کے سب سے نفرت انگیز اعمال پر مقدس پانی چھڑک کر ان کی توثیق کرنے کا کام نہیں کرتی، بلکہ سخاوت اور خیراتی جلسوں کے ذریعے یہ بھی سکھاتی ہے کہ غریبوں کو برکت دی گئی ہے، غربت میں عزت اور وقار ہے اور اس زندگی میں تکالیف کو صبر سے برداشت کرنا ان کی روحوں کو اگلے جہان کے لیے بچا لے گا، چرچ حکومتی طبقے کے لیے ایک بہت بڑی خدمت انجام دیتا ہے۔ یہ تسلی فراہم کرتا ہے تاکہ محنت کش عوام اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں۔
پوپ فرانسس اس شعبے میں ماہر تھا۔ جب عوام اپنے استحصالیوں اور جابروں کے خلاف انقلابی جدوجہد میں مصروف تھے، تو اس نے ان بائیں بازو کے پادریوں کے لیے کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی جو بہادری سے چرچ کی قیادت سے الگ ہو کر ارجنٹائن یا لاطینی امریکہ کے کسی دوسرے حصے میں محنت کش طبقے اور غریبوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔
لیکن جب یہ بہادر افراد مارے جانے کے بعد اب خطرہ نہیں رہے، تو پوپ فرانسس خوشی خوشی عوام کو تسلی کے چند ٹکڑے دینے کے لیے تیار تھا۔ اس طرح، ایک شہید جیسے آسکر رومرو (Óscar Romero)، جو ایلزالمیڈور (El Salvador) کے آرچ بشپ تھا اور جسے فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں قتل کیا گیا، زندگی میں چرچ کی قیادت سے نظر انداز ہو گئے، جبکہ موت کے بعد پوپ فرانسس کے ذریعے اسے تقدس کا درجہ دیا گیا۔
جیسا کہ اوہائیو کی یونیورسٹی آف ڈیٹن کے ایک ماہر علم الہٰیات بتاتے ہیں کہ ارجنٹائن میں آرچ بشپ کے طور پر ان کا کام اور پوپ کے طور پر جو کام امراء کو چاہیے تھا اس کے لیے ان کو اہم تجربہ فراہم کرتا تھا:
”آرچ بشپ کے طور پر، اس کے سامنے ایک عظیم الشان کام تھا، اگر وہ وہاں چرچ کی ساکھ کو بحال کر سکتا ہے، تو وہ دنیا بھر میں چرچ کو درپیش سکینڈلز کو بھی سنبھال سکتا ہے کیونکہ اسے عوام سے جڑنے کا طریقہ آتا ہے۔“
خورخے برگولیو کے ارادوں کی تفتیش کیے بغیر ارجنٹائن کے چرچ کو بحال کرنے کی اس کی کوششیں، اسے ایک عوام دشمن قوت سے غریبوں کا تسلی دینے والا ’دوست‘ میں تبدیل کرنے کی کوششیں، حکومتی طبقے کے لیے ایک ناقابلِ اندازہ خدمت کی نمائندگی کرتا ہے، جو بڑی چالاکی کے ساتھ انجام دی گئی۔ پورے ادارے کی داغ دار تصویر کو صاف کر کے اس نے بوئنوس آئرز کے آرچ بشپ کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے اہل بنا دیا۔
گہری تقسیم
اپنے کیریئر میں، پوپ فرانسس نے یقینی طور پر ہنر مندی سے چالیں چلیں، بغیر اس کے کہ وہ اشرافیہ کے عقیدے یا مادی مفادات میں سے کسی بھی بنیادی اصول کو چھوئے۔ وہ سرمایہ داری کی دہشتوں پر افسوس ظاہر کر سکتا تھا، جبکہ وہ صبر کے ساتھ اس کو قبول کرنے کی تبلیغ کرتا تھا۔ ”ہم نے نئے بت تخلیق کیے ہیں“، اس نے اپنی ایک نصیحت میں افسوس کا اظہار کیا۔ ”قدیم سنہری بچھڑے کی عبادت (خروج 32:1-35 ملاحظہ کریں) ایک نئے اور بے رحمانہ انداز میں پیسے کی عبادت معیشت کی آمریت میں واپس آئی ہے، جو حقیقی انسانی مقاصد سے عاری ہے۔“
جب چرچ کے اندر کڑوے عقیدی تنازعات اور داخلی طاقت کے لیے جدوجہد کی بات آئی، تو اس نے خود کو ایک ’اصلاح پسند‘ کے طور پر پیش کرنے میں بھی مہارت دکھائی، حالانکہ وہ اس نوعیت کا کچھ بھی نہیں تھا۔
ہم جنس پرستی کے معاملے پر، اسے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کا دوست قرار دیا گیا جب اس نے مشہور جملہ کہا: ”میں کون ہوتا ہوں فیصلہ کرنے والا؟“ اور ہم جنس پرست جوڑوں کو دعائیں دینے کی منظوری دی، لیکن ساتھ ہی ہم جنس شادی کی مخالفت بھی جاری رکھی۔ اسقاط حمل کے بارے میں، اس نے کہا کہ وہ اُن کیتھولک سیاستدانوں کو مقدس رسومات دینے کے حق میں ہے جو اسقاط حمل کے حامی ہیں لیکن اسقاط حمل کو اب بھی ایک مہلک گناہ قرار دیتا رہا۔ اس نے ویٹیکن کے انتظامی ادارے، رومن کیوریا، میں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر ترقی دی مگر اب بھی خواتین کو پادری بنانے کی مخالفت کرتا رہا۔
اور جب وہ مالیاتی اسکینڈلز کے مقابلے میں ’شفافیت‘ دکھانے کی کوشش کر رہا تھا، تب بھی پوپ فرانسس ویٹیکن کے مالیاتی نظام کے گلے سڑے ڈھانچے کو صاف نہیں کر سکتا تھا، چاہے اس کی نیت صاف ہی کیوں نہ ہو۔ خورد برد، دھوکہ دہی، رشوت، منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم چرچ کے دل میں پیوست ہیں، اور یہ سب صرف اُس پورے سرمایہ دارانہ نظام کی بدعنوانی کو ظاہر کرتے ہیں، جس کا کیتھولک چرچ محض ایک نہایت دولت مند اور بااثر ادارہ ہے۔
یہاں تک کہ اگر پوپ فرانسس واقعی ایسا کرنا چاہتا، تب بھی وہ ویٹیکن کے مالیاتی نظام کی گندگی کو صاف نہیں کر سکتا تھا۔
یوں فرانسس نے انسانیت، غریبوں اور مظلوموں سے ہمدردی، ترقی پسندی اور اصلاح پسندی کی شہرت حاصل کی، اور محض علامتی اقدامات کے ذریعے وہ واقعی ایک مقبول شخصیت بن گیا۔
لیکن وہ اس سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔ ایک ایسے ادارے کے سربراہ ہونے کے ناطے جو خود حکمران طبقے کا حصہ ہے، جو اسی کی ساری خرابیوں، بیماریوں، زیادتیوں اور جرائم میں شریک ہے، فرانسس کے پاس چرچ کو لاحق گہرے بحرانوں کا بنیادی حل نکالنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے معاشرے میں جو غصے کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، وہ پوپ فرانسس کے دورِ پاپائیت میں کبھی اس شدت سے کیتھولک چرچ پر متوجہ نہیں ہوا۔
آئیے صرف ان دو ممالک پر نظر ڈالتے ہیں جو حالیہ وقت تک یورپ کے سب سے زیادہ کیتھولک ممالک سمجھے جاتے تھے۔ آئرلینڈ میں، فرانسس کے پوپ بننے کے بعد ہم نے دو ریفرنڈم دیکھے، ایک 2015ء میں ہم جنس شادی پر اور 2018ء میں اسقاط حمل کے حقوق پر، جنہوں نے چرچ کو زبردست دھچکے پہنچائے۔ پولینڈ میں 2020ء میں پانچ لاکھ افراد سڑکوں پر نکلے اور اسقاط حمل کا حق اور چرچ اور ریاست کے تعلقات کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جبکہ نوجوانوں کی مصلحہ (Mass) میں شرکت میں زبردست کمی آئی ہے۔
لاطینی امریکہ میں بھی، خواتین کی ایک بڑی اور سرگرم تحریک، ”ماریہ وردے“ (Marea Verde)، نے کیتھولک میکسیکو، کولمبیا اور ارجنٹائن (جو فرانسس کا وطن ہے) میں اسقاط حمل کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور اسے جیتا۔ جبکہ کیتھولک چرچ کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا، یہ جتنی تیزی سے بڑھ رہا تھا براعظم میں اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ الحاد بڑھ رہا تھا۔
جیسا کہ سرمایہ داری کے ناقابل برداشت بحران نے معاشرے کے سب سے پست حصوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور لڑنے پر مجبور کیا ہے، وہ اپنے غصے کا رخ بھی چرچ کی طرف موڑ رہے ہیں، جس نے یقیناً تاریخ میں خواتین کے خلاف ظلم اور جبر کے حوالے سے کوئی مثال نہیں چھوڑی۔
جب کارڈینلز نئے پوپ کے انتخاب کے لیے بیٹھیں گے، تو تمام وہ متناقضات جو فرانسس ختم کرنے میں ناکام رہا، سطح پر آ جائیں گے۔ سازشیں، طاقت کی کشمکش، ”لبرلز“ اور ”محافظوں“ کے درمیان پولرائزیشن اور اختلافات، یورپ اور امریکہ کے کمزور لیکن امیر چرچ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بڑھتے ہوئے لیکن غریب چرچ کے درمیان تقسیم، یہ سب کچھ سامنے آ سکتا ہے۔
مزدور طبقے اور دنیا کے غریبوں کے لیے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگلا پوپ کے مسکراہٹ والے چہرے کے ساتھ ہو گا یا اصلاح پسند ہو گا یا رجعتی خصوصیات کے ساتھ۔ چرچ کا ادارہ اور اس کی اشرافیہ ہمیشہ سے ہی ان کا دشمن تھا اور ہمیشہ ان کا دشمن ہی رہے گا۔