|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
چند روز قبل ایک سیمینار میں کٹھ پتلی وزیرِ اعظم عمران خان نے اعترافِ جرم کیا ہے کہ پاکستان میں ساری سبسڈی صرف طاقت ور لوگ ہی لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بجلی اور گیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان وسائل کی فراہمی میں بہت زیادہ حکومتی پیسہ لگ رہا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کو آئے دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن عمران خان ابھی تک رٹی ہوئی کنٹینر تقریریں دہرا رہا ہے۔ اگر یہ مفروضہ مان بھی لیا جائے کہ اس جرم کی مرتکب صرف سابق حکومتیں ہی رہی ہیں تو پھر پچھلے دو سالوں سے سرمایہ دار طبقے کو کونسی حکومت سبسڈیاں، ٹیکس چھوٹ، آسان قرضے اور کم نرخوں میں وسائل فراہم کر رہی ہے۔ خوفناک کورونا وباء میں بھی 1200 ارب روپے کے ایمرجنسی ریلیف پیکج کا بھی بہت بڑا حصہ سرمایہ داروں پر نچھاور کیا گیاجبکہ عوام اور شعبہ صحت کے لئے کوڑیاں رکھی گئیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے دہائیوں تک کی ٹیکس چھوٹ اور فلک شگاف منافعوں کے حصول کے لئے کھلی لوٹ مار کی اجازت دی گئی ہے۔ معیشت کی تباہ حالی پر ملمع کاری کرنے کی آڑ میں لینڈ مافیا، پراپرٹی ٹائیکونز اور کرپٹ اشرافیہ کو 31 دسمبر 2020ء تک اپنا سارا کالا دھن سرمایہ کاری کے نام پر سفید کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ اسکیم حکومت پہلے بھی دے چکی ہے جبکہ پچھلی ہر حکومت نے لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کے لئے یہ اسکیمیں مسلسل متعارف کروائی ہیں۔ شوگر مافیا، گندم مافیا، بجلی مافیا، پراپرٹی مافیا، کھاد مافیا، کنسٹرکشن مافیا غرضیکہ کونسا ایسا مافیا یا طاقت ور سیکٹر ہے جس کے طاقت ور افراد یا نمائندگان اس وقت موجودہ حکومت سے اپنے لئے مراعات نہیں لے رہے۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ان سرمایہ داروں کو دل کھول کر نوازا جا رہا ہے وہیں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں کے ذریعے معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر عمران خان کو پاکستان کے طاقت ور سرمایہ داروں سے کوئی شکایت کرنی ہے تو اس کام کے لئے اسے صرف اپنا منہ دائیں یا بائیں موڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ٹولہ اس کے ارد گرد ہی موجود ہے۔
پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کا تاریخی جنم برطانوی سامراج کی کوکھ سے ہوا تھا۔ بعد میں امریکی سامراج نے اس کی اپنے سائے تلے نشونما کی۔ لیکن تکنیکی و ثقافتی طور پر پسماندہ، مالیاتی طور پر سامراج کے تابع اور تاریخی متروکیت کا شکار یہ طبقہ اپنا کوئی ایک تاریخی فریضہ سر انجام نہیں دے سکا اور نہ ہی دے سکتا ہے۔ اس لئے کرپشن، لوٹ مار، سیاسی گٹھ جوڑ اور مسلسل ریاستی آشیر باد اس کے دوام کی شدید مجبوری ہیں۔ گو کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی ریاست کا کردار اپنے سرمایہ دار طبقے کو تحفظ اور مراعات فراہم کرتے ہوئے لوٹ مار میں مدد دینا ہے لیکن عالمی معاشی بحران کے دور میں پاکستان جیسی پسماندہ اور مصنوعی ریاست میں یہ تحفظ خوفناک اور ننگی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں سرمایہ دار طبقے اور ریاست کے پاس عوامی فلاح و بہبود کے لئے دینے کو کچھ بھی نہیں ہے اور محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنا ان کے بقا کی مجبوری بن چکا ہے۔
وسائل کی فراہمی کے حوالے سے عمران خان کی شکایت کا مقصد عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہے کہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے نرخوں میں اضافے کا نیا سیلاب آیا چاہتا ہے کیونکہ ریاست سرمایہ داروں کو نوازنے اور اپنی شاہ خرچیوں کی روش چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ہزاروں ارب روپیہ ملکی و بیرونی قرضوں کی واپسی (جن سے عوام کا کوئی تعلق نہیں) اور سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیوں میں لگ جاتا ہے۔ مزید کھربوں روپیہ سول ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، پارلیمانی ممبران اور دیگر کی عیاشیوں میں اڑا دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر ریاستی مشینری میں موجود عمومی کرپشن نکال دیتی ہیں۔ اور پاکستان کے درماندہ عوام کے حصے میں اپنی ہی ہڈیوں سے نچوڑی گئی دولت میں سے چند ٹکے ہی آتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ سرمایہ داروں کی تمام سبسڈیاں، لوٹ مار اور ٹیکس چھوٹیں بشمول سول ملٹری ریاستی بیوروکریسی کی تمام عیاشی و لوٹ مار بند کی جائے۔ اس لوٹ مار کے خاتمے سے دستیاب رقم عوامی فلاح کے منصوبوں اور عوامی بہبود کے لئے استعمال کی جائے۔ اور اگر حکومت کے لئے ایسا کرنا نا ممکن ہے تو پھر یہ محنت کش عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ لوٹ مار اور استحصال کے اس سارے نظام کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا حق غاصبوں سے چھین لیں۔