کوئٹہ: ریلوے محنت کش یونین اور ریلوے ورکرز یونین کے زیر اہتمام ریل مزدوروں کا احتجاجی جلسہ اور ریلی!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں ریلوے محنت کش یونین اور ریلوے ورکرز یونین کے زیر اہتمام مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حصول کیلئے احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے میں سینکڑوں کی تعداد میں محنت کشوں نے شرکت کی۔ جلسے میں شریک محنت کشوں نے مختلف بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر انہوں نے مختلف مطالبات لکھے ہوئے تھے۔

جلسے سے مختلف شرکاء نے خطاب کیا جن میں ریلوے ورکرز یونین کے لال بلوچ، ظہور بند لعل محمد گاگو ریلوے محنت کش یونین کے ماما افضل بنگلزئی، رحیم لانگو، مجید زہری، ریڈ ورکرز فرنٹ کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہر اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے واضح کیا کہ گزشتہ لمبے عرصے سے ریلوے کے محنت کشوں کے ساتھ جبر اور استحصال کی ریکارڈز قائم کیے جا چکے ہیں۔ مگر ان سب کی ذمہ دار اگر ایک طرف ریلوے انتظامیہ اور نااہل حکمران ہیں تو دوسری طرف مزدور کی قیادت بھی اس کی ذمہ دار ہے، کیونکہ آج بھی ریلوے کے اندر لاتعداد مزدور یونینز اور ایسوسی ایشنز ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف مزدوروں کو تقسیم کرنا اور نااہل حکمران و ریلوے انتظامیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ تمام مقررین کا اس بات پر زور تھا کہ جب تک ہم اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ نہیں کریں گے،تب تک یہ نااہل حکمران اور ریلوے انتظامیہ ہمارے تقسیم کا فائدہ اٹھاتی رہے گی۔

کریم پرہار۔ ریڈ ورکرز فرنٹ

ریڈ ورکر فرنٹ کے صوبائی آرگنائزر کریم پرہر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورے ملک کے اندر تبدیلی سرکار نے محنت کش طبقے پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ تبدیلی سرکار نے آتے ہوئے جو وعدے کیے تھے انہوں نے صرف اقتدار کے حصول کی خاطر عوام کے جن پرتوں کو ورغلایا، اُس کا خمیازہ آج محنت کش عوام بھگت رہے ہیں۔ جس کی مثال خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے اندر ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف محنت کش عوام کا زبردست احتجاجی تحریک کی شکل میں ملتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پوری دنیا کے اندر مزدور ظلم جبر اور استحصال کے اس نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اور دنیا کے کئی ممالک میں مزدور طبقے کی طاقت کا اظہار وہ مزدور کی شکل میں کر رہے ہیں۔ 20جنوری 2020ء کو انڈیا کے اندر محنت کش طبقہ نے ایک بار پھر ملک گیر ہڑتال کی کال دی ہے۔ جس کی ضرورت آج پاکستان کے اندر بھی محنت کش طبقے کو محسوس کرنا ہوگا۔

اس احتجاجی جلسے کے مطالبات درج ذیل ہیں۔
1۔ موجودہ مزدور دشمن ڈی ایم او کا فوری تبادلہ۔
2۔ TLA اور پیکج ایڈہاک ملازمین کو فوری طور پر کنفرم کیا جائے۔
3۔ وزیر خزانہ کے اعلانات کے مطابق TLA کی تنخواہ پورے طور پر 17 ہزار ادا کی جائے۔
4۔ ریلوے ہسپتال کوئٹہ میں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5۔ ڈبل یو ایس بی اور اے این مچھ کی نفری گینگ مینوں سے 12 گھنٹے جبری ڈیوٹی کا فی الفور خاتمہ کرکے آٹھ گھنٹے مقرر کیا جائے۔
6۔ ریلوے ہسپتال مچھ وسیبی اور چمن میں ڈاکٹروں کی تعیناتی کی جائے۔
7۔ روڈ کٹنگ متاثرین کیلئے مکانوں کی فوری تعمیر کی جائے۔
8۔ ریلوے کالونی میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنایا جائے۔
9۔ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات فی الفور ادا کیے جائیں۔
10۔ میرج گرانٹ اور بناولنٹ فنڈ کی ادائیگی یقینی بنایا جائے۔
11۔ قرعہ اندازی پر بھرتیوں کی منظوری کو منسوخ کیا جائے۔

احتجاجی جلسے کے بعد محنت کشوں کے جمع غفیر نے پورے ریلوے اسٹیشن کے اندر شاندار ریلی منعقد کی جس کا اختتام ریلوے اسٹیشن بکنگ آفس کے سامنے ہوا۔ ریلی کے اختتام پر ریلوے ورکرز یونین بلوچستان کے صدر لال جان بلوچ اور ریلوے محنت کش یونین کوئٹہ ڈویژن کے صدر ماما افضل بنگلزئی نے کہا کہ ہم ریلوے انتظامیہ کو 23 دسمبر تک مہلت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے مطالبات کے حوالے سے سنجیدگی دکھائیں اگر ہم نے محسوس کیا کہ ریلوے انتظامیہ ہمارے مطالبات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے تو 23 دسمبر کے بعد ہم ٹرینوں کو کوئٹہ سے نکلنے نہیں دیں گے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ریلوے محنت کش یونین اور ریلوے ورکرز یونین کے مطالبات اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بھرپور حمایت کرتا ہے، اور محنت کشوں کے اس جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کرینگے۔

Comments are closed.