کراچی: مزدور یکجہتی کمیٹی کی عظیم الشان احتجاجی ریلی؛ محنت کرنے والوں نے، دولت والوں کو للکارا ہے!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|

مزدور یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام 28 اگست کو سندھ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت 25000 روپے پر عملدرآمد، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے اور دیگر مطالبات کے حصول کے لیے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ایک عظیم الشان احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اور کراچی کی سرکردہ فیکٹریوں کی مزدور یونینز کے اشتراک سے مزدور یکجہتی کمیٹی کے زیر انتظام منعقد کی جانے والی اس ریلی کا مقصد مزدوروں کے مابین اتحاد قائم کرنا تھا تاکہ مل کر سرمایہ دارانہ استحصال کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ریلی میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے اراکین کے علاوہ جنرل ٹائرز، اوپل لیبارٹریز، میرٹ پیکیجنگ، آدم جی انجینئرنگ، آئی آئی ایل، اٹلس انجینئرنگ، ڈینم کلادنگ، سوزوکی موٹرز، فیروز ٹیکسٹائل، اسپن فارما (جانسن اینڈ جانسن) فونکس آرمرز، انٹرنیشنل انڈسٹریز لمیٹڈ، آرٹسٹک ملینرز، او ر دیگر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے مزدوروں، ترقی پسند طلبہ کی نمائندہ تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس اور دیگر ترقی پسند سیاسی کارکنان نے شرکت کی۔

28 اگست 2021ء کا دن مزدور تحریک کی تاریخ میں ایک سنہری دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کئی دہائیوں پر محیط ایک طویل عرصے کے بعد لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مختلف صنعتوں کے محنت کش نسلی، قومی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور گروہی امتیاز سے بالاتر اپنے اجتماعی اور مشترکہ مفادات کے لیے متحرک ہوئے اور لگ بھگ ایک ہزار کی تعداد میں عظیم الشان احتجاجی ریلی منعقد کر کے انہوں نے ریاستی مشینری، حکمرانوں اور مالکان کو واضح پیغام دیا کہ اب محنت کش ان کا جبر اور ناروا سلوک مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگر ہم اس عظیم الشان احتجاجی ریلی کے پسِ منظر کی بات کریں تو ان نجی صنعتوں کے محنت کشوں کی حالت زار اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ خاص طور پر کرونا بحران کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مالکان نے محنت کشوں کے معاشی قتل اور وحشیانہ جبر میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ان زندان نما صنعتی اداروں میں مستقل ملازمین نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں اور جبری برطرفیاں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ مالکان لولے لنگڑے لیبر قوانین کو خاطر میں لانے کا بھی تکلف تک نہیں کرتے۔ ٹھیکیداری نظام ہر جگہ مسلط ہے اور تھرڈ پارٹی اور آؤٹ سورسنگ کے نام پر محنت کشوں سے ان کی پہچان تک چھین لی گئی ہے۔ جبکہ لیبر این جی اوز اور فیڈریشنیں، جو کھمبیوں کی طرح تمام صنعتی ایریاز میں اُگی ہوئی ہیں، نے پچھلے طویل عرصے میں مزدوروں کو مذکورہ بالا ننگے جبر کے خلاف منظم کرنے کی بجائے انہیں ہمیشہ روزگار بچائے رکھنے کے لیے مالکان اور مینجمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین ہی کی ہے۔ جس سے دہائیوں تک مزدور تحریک پر مایوسی کے گھنیرے بادل چھائے رہے ہیں۔

مایوسی کے اسی گھٹا ٹوپ اور سفاک ماحول میں ہی ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی نے مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ انقلابی نظریات محنت کشوں تک لے کر جانے کا فریضہ جاری رکھا اور لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں کے اخبار ورکرنامہ کے ذریعے چند متحرک یونینوں سے رابطے استوار کیے۔ خاص طور پر جنرل ٹائر کے محنت کشوں اور جنرل ٹائر ورکرز یونین کی قیادت سے ریڈ ورکرز فرنٹ کا انقلابی رشتہ استوار ہو چکا ہے۔

اس صورتحال میں جب سندھ حکومت نے محنت کشوں کی کم از کم اجرت 25000 روپے کرنے کا اعلان کیا تو مہنگائی اور افلاس کی چکی میں پستے ہوئے محنت کشوں نے قدرے سکون محسوس کیا۔ یوں تو گزشتہ دو سال سے مسلسل بڑھتے ہوئے افراط زر کی مناسبت سے یہ اضافہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی تھا مگر جب مالکان نے اس اضافے کو بھی مسترد کر دیا اور اپنی ہٹ دھرمی اور مزدور دشمنی کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف اپنے دم چھلہ اداروں کا رُخ کیا تو محنت کشوں میں شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل ٹائر ورکرز یونین کے صدر عزیز خان نے بلند سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک احتجاجی تحریک منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے ریڈ ورکرز فرنٹ کی قیادت سے رابطہ کیا اور جنرل ٹائر کے گیٹ پر ایک مختصر دورانیے کی گفتگو میں لانڈھی اور کورنگی کی متحرک یونینوں کا ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اجلاس 10 اگست کو ہسپتال چورنگی لانڈھی پر منعقد ہوا جس میں اس مسئلہ پر ایک احتجاجی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا گیا جسے منظم کرنے کے لیے مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ابتدا میں اس کمیٹی میں جنرل ٹائر ورکرز یونین اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے علاوہ آئی آئی ایل، میرٹ پیکجنگ، آدم جی انجینئرنگ، انٹرنیشنل انڈسٹریز لمیٹڈ، فیروز ٹیکسٹائل اور پورٹ قاسم کے محنت کش ہی شامل تھے مگر رفتہ رفتہ یہ کارواں بڑھتا گیا اور اوپل لیبارٹریز، اٹلس ہونڈا جیسے اداروں کی یونینوں نے بھی مزدور یکجہتی کمیٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ یہ ایک اہم پیشرفت تھی اور اس کے عملی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے تواتر سے میٹنگز کی گئیں۔ اگلا اجلاس مرتضی چورنگی پر کیا گیا جس میں ریلی کے لیے پمفلٹ اور بینرز وغیرہ کی تحریر و اشاعت کی ذمہ داری ریڈ ورکرز فرنٹ کو دی گئی۔ اور پھر 17 اگست کو ریلی کے انتظامات کے حوالے سے مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی کا ایک اہم اجلاس ریڈ ورکرز فرنٹ کے دفتر میں منعقد ہوا۔ اگلے ہی روز سے کورنگی، لانڈھی کے ساتھ ساتھ پورٹ قاسم انڈسٹریل ایریا میں بھی شاندار اور ولولہ انگیز پمفلٹ کمپئین کا آغاز کر دیا گیا۔ اس کمپئین کو محنت کشوں نے جس طرح خوش آمدید کہا اسے دیکھتے ہوئے مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی میں شامل تمام یونینوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ ریلی کے انتظامات کے حوالے سے آخری میٹنگ کا انعقاد ایک دفعہ پھر ہسپتال چورنگی لانڈھی میں ہوا جہاں شبیر ٹائلز کی یونین کے دوستوں نے بھی مزدور یکجہتی کمیٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ریلی میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا۔ اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اٹلس ہونڈا کے مالکان کے متعلقہ یونین کے ساتھ ناروا رویے اور کنٹریکٹ ملازمین کی یونین کو تسلیم نہ کرنے کے مزدور دشمن اقدام کے خلاف اٹلس کے گیٹ پر مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی میں شامل تمام یونینوں کے نمائندے اٹلس کے محنت کشوں سے یکجہتی کے لیے جمع ہوں گے اور احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ اس مظاہرے میں لانڈھی و کورنگی کے بہت سے اداروں کے محنت کشوں نے جمع ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔

جنرل ٹائر ورکرز یونین کے صدر عزیز خان محنت کشوں سے خطاب کرتے ہوئے۔

27 اگست کو ایک منی ٹرک پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر صنعتی ایریا میں بھرپور کمپئین بھی کی گئی۔ اسی روز مہران ٹاؤن کورنگی کی ایک کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا اور 21 محنت کش جل کر جان کی بازی ہار گئے۔ مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی کا کاروان ریلی کی شکل میں موقع پر پہنچا اور مالکان کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ مالکان اور حکومتی ذمہ داران کے خلاف قتل کے مقدمے درج کیے جائیں۔ اس حادثے نے محنت کشوں کے غم و غصے میں مزید اضافہ کر دیا جس کا اظہار اگلے روز ریلی میں بھرپور جوش و خروش کی شکل میں دیکھنے میں آیا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے رہنما صفدر جبار احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے۔

ریلی کے دن سے پہلے ہی انتظامیہ، خفیہ اداروں اور پولیس نے ریلی کے منتظمین کو ہراساں کرنے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی اور انہیں ریلی ملتوی کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی اور بصورت دیگر سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ دراصل مالکان مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی کے شاندار اُبھار اور انقلابی کمپئین سے خوفزدہ ہو چکے تھے اور خاص طور پر یہ جان گئے تھے کہ اس کمپئین کی قیادت اس بار روایتی دم چھلہ ٹریڈ یونینوں کی بجائے جنرل ٹائر ورکرز یونین کے پرُعزم قائدین کے ساتھ ساتھ ریڈ ورکرز فرنٹ کے انقلابی اور سائنسی نظریات سے مسلح سیاسی کارکنان کے پاس ہے۔ اسی لیے جہاں انہوں نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے محنت کشوں کو ہراساں کرنے کی مہم جاری رکھی وہیں اپنے پالتو لیبر لیڈروں کو بھی مزدور یکجہتی کمیٹی کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک کیے رکھا۔ بالخصوص ریڈ ورکرز فرنٹ کی قیادت کے خلاف الزامات اور بہتان طرازی کا زہریلا پراپیگنڈا کیا گیا مگر محنت کشوں کی جرات اور عزم نے ان کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیئے۔

ریلی 28 اگست کو دن 02:30 بجے کے قریب ہسپتال چورنگی سے برآمد ہوئی۔ جنرل ٹائر ورکرز یونین کے سینکڑوں موٹرسائیکلوں پر سوار محنت کش عزیز خان کی قیادت میں انقلابی نعرے لگاتے ہوئے فیکٹری گیٹ سے روانہ ہوئے، دوسری طرف ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کا جلوس منزل پمپ نیشنل ہائی وے پر جمع ہوا اور وہاں سے ریلی کی شکل میں انقلابی نعرے لگاتے ہوئے درانتی ہتھوڑے کے سرخ جھنڈوں کے ساتھ مرکزی ریلی میں شامل ہو گیا۔ ریلی کے سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ کی رہنما انعم خان، ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے رہنما صفدر جبار اور جنرل ٹائر کے مزدور ساتھی الطاف شیخو نے سنبھالے ہوئے تھے، جبکہ عزیز خان کے ہمراہ ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما پارس جان اور صفدر جبار بھی سٹیج پر موجود رہے اور وقتاً فوقتاً محنت کشوں سے مخاطب ہو کر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بلال چورنگی پر پولیس کی بھاری نفری نے ریلی کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر محنت کشوں کے انقلابی جذبات اور نعرے بازی کے سامنے وہ نہیں ٹھہر سکے اور ریلی کامیابی سے اپنی منزل یعنی گودام چورنگی کورنگی انڈسٹریل ایریا پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز (KATI) کے گیٹ کے سامنے ایک احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کر گئی۔ محنت کشوں نے اپنا معاشی قتل عام کرنے والے مالکان کے اس ادارے کے گیٹ پر شدید نعرے بازی سے اس عمارت کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے جنرل سیکریٹری امیر یعقوب فرط جذبات میں سٹیج پر چڑھ گئے اور کافی دیر تک ماحول کو گرماتے رہے۔ اس وقت ریلی کے شرکا اور زیادہ پرجوش ہو گئے جب ڈینم فیکٹری سے نکالے گئے 400 محنت کشوں کے نمائندے کالی پٹیاں باندھے ایک ریلی کی شکل میں اس احتجاجی جلوس میں شامل ہو گئے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے۔

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما پارس جان نے سب سے پہلے ریلی کے اغراض و مقاصد بتائے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سندھ نے موجودہ صوبائی بجٹ میں مزدوروں کی بنیادی تنخواہ کم از کم پچیس ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن سرمایہ داروں نے اس پر عمل کرنے کی بجائے اس کو روکنے کے لیے قانونی کاروائی کا آغاز کردیا۔ انہوں نے گذشتہ روز کورنگی کی ایک فیکٹری میں اکیس مزدوروں کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے فیکٹری کے مالکان اور حکومت کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا اور فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا۔ پارس کا کہنا تھا کہ ہماری لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے ہم ایک سوشلست انقلاب کے زریعے غیر طبقاتی سماج کے قیام تک رکنے یا تھکنے والے نہیں ہیں۔ریڈ ورکرز فرنٹ کراچی کے رہنما صفدر جبار نے بھی اس موقع پر ولولہ انگیز خطاب کیا اور سوشل سکیورٹی اوور ٹائم اور اولڈ ایج بینیفٹ سمیت محنت کشوں کے دیگر اہم مسائل کو اجاگر کیا۔ریڈ ورکرز فرنٹ کی رہنما انعم خان نے خواتین محنت کشوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی اور کہا کہ جنسی ہراسانی سے لے کر تنخواہوں میں عدم مساوات تک خواتین محنت کشوں کے تمام مسائل کا حل بھی سماج کی انقلابی تبدیلی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس موقعے پر جنرل ٹائر کمپنی کی مزدور یونین کے سربراہ عزیز خان نے خطاب کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو خبردار کیا کہ یہ ریلی مزدوروں کے حقوق کی جنگ کا اعلان ہے اور اگر سرمایہ داروں نے محنت کشوں کو ان کے حقوق نہ دیئے تو مزدور اپنی تحریک کا دائرہ کار بڑھادیں گے۔ آدم جی انجیئنرنگ کے مزدور رہنما عادل خان نے اس موقعے پر مزدور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور انہوں نے کہا کہ سرمایہ دار محنت کشوں کے بغیر کچھ نہیں۔ اگر مزدوروں کو دیوار سے لگایا گیا تو مزدوروں کے پاس احتجاج کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک غیر تجربہ کار مزدور کی بنیادی تنخواہ پچیس ہزار ہونی چاہیے جبکہ ہنرمند مزدوروں کو کم از کم چالیس ہزار روپے ماہانہ ملنے چاہئیں تاکہ وہ اس مہنگائی میں زندہ رہ سکیں۔ آئی آئی ایل جنرل یونین کے صدر ضیاء بھائی نے بھی ریلی سے خطاب کیا اور تمام مزدوروں کو اپنے تعاون کا یقین دلایا اور حکومت پر زور دیا کہ مزدور دشمن اقدامات ختم کیے جائیں۔

آخری اور صدارتی خطاب مزدور یکجہتی کمیٹی کراچی کے روح رواں عزیز خان نے کیا اور مالکان اور ان کی دُم چھلہ یونین قیادتوں کو للکارتے ہوئے کاٹی کو ایک زندان قرار دیا۔ ریلی کے مقاصد اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیل سے بات کی۔ آخر میں بی ایم لگیج کے شہداء کے لیے دعا کروائی اور شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا۔

اس موقعے پر ریلی کے شرکاء نے سرمایہ داروں کے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے اوراس بات کا عہد کیا کہ کسی بھی صنعت میں کسی بھی مزدور پر ہونے والا ظلم تمام محنت کشوں پر ظلم تصور کیا جائے گا اور تمام مزدور متحد ہوکر اس ظلم کا جواب دیں گے۔

مزدور رہنماؤں کے خطاب کے بعد ریلی سنگر چورنگی پر رکی جہاں مزید مزدور ریلی میں شریک ہوئے اور مزید یونینوں کے سرکردہ افراد نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ریلی کا اختتام اوپل لیبارٹریز پر ہوا جہاں حال ہی میں مزدوروں کے خلاف انتظامیہ نے بے بنیاد مقدمات قائم کرکے انھیں نوکری سے نکال دیا ہے۔ تمام مزدوروں نے اس موقعے پر شدید نعرے بازی کی اور اوپل لیبارٹریز کی انتظامیہ کو خبردار کیا کہ کسی مزدور کے خلاف کارروائی کا جواب تمام مزدور مل کر دیں گے۔ریلی کے اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ اور مزدور یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے ریلی کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور مزدوروں کی حقیقی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔

 

 

Comments are closed.