|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، آزاد کشمیر|
13اگست کی رات کو راولاکوٹ میں آزادی کے حق میں نعرے لگانے کی پاداش میں بیسیوں نوجوانوں کو گرفتاریوں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعض پر بغاوت اور غداری جیسے سنگین مقدمات قائم کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔ 30 سے زائد گرفتار نوجوانوں میں کافی تعداد میں سٹوڈنٹس بھی تھے۔
اس ریاستی جبر کے خلاف پونچھ بھر کے اندر مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ پولیس تشدد اور جبر کی ساری کاروائی حلقہ ایم ایل اے اور ایک سابق وزیر کے حکم پر شروع کی گئی جن کو ریاست نے اپنی اتھارٹی بحال کرنے اور پرو پاکستان بیانیہ عوام پر مسلط کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔
خطے کے عوام نے سالوں سے جاری بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد کے دوران حکمران طبقے کے ہر نظریے اور ہر تہوار کو مسترد کر دیا ہے۔ عوام شعوری بنیادوں پر اپنے مسائل، محرومیوں اور پسماندگی کا ذمہ دار درست طور پر یہاں کی ریاست اور حکمران طبقے کو سمجھتے ہیں۔
حکمران مسلسل تحریک کو کچلنے اور تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن ہر بار ناکامی ان کے حصے میں آتی ہے۔ حالیہ جبر بھی ریاست کے اسی پاگل پن کا تسلسل ہے، جس کا انجام بھی دو سال سے جاری ریاست کی شکست کی صورت نکلا ہے۔
15اگست سے آزادی پسند تنظیموں نے گرفتار نوجوانوں کی بازیابی اور بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کے لیے احتجاج کا آغاز کیا اس سلسلے میں 17 اور 19 اگست کو راولاکوٹ شہر میں احتجاجی ریلیاں منظم کی گئیں اور حکومت کو اسیران کی رہائی کے لیے 29 اگست تک کی مہلت دی گئی، بصورت دیگر ضلع پونچھ میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا گیا۔
26اگست کو طلبہ اتحاد نے ساتھی طالب علموں اور نوجوانوں کی رہائی کے لیے احتجاج کیا اور احاطہ عدالت میں دھرنا دیتے ہوئے انتظامیہ کی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا۔ اسی روز جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان نے دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے سے یکجہتی اور مطالبات کی حمایت کا اعلان کیا۔
2روز تک بھوک ہڑتال پر بیٹھے نوجوان اسیران کی رہائی کے لیے پُرعزم تھے اگرچہ بھوک پیاس سے بے حال 2 نوجوانوں کو تشویشناک حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن انتظامیہ نے مکمل بے حسی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسیران کی رہائی سے انکار کر دیا۔ انتظامیہ کی طرف سے وکلا پر مشتمل ایک مصالحتی کمیٹی بھی قائم کی گئی جس نے بھوک ہڑتال کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور ایک دن کی مہلت مانگتے ہوئے اسیران کی رہائی کی پیشکش بھی کی جسے دھرنے کے شرکا نے مسترد کرتے ہوئے اسیران کی غیر مشروط رہائی تک ہڑتال جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
28اگست کو دھرنے کے شرکاء، جن میں مزاحمتی تحریک اور سیاسی تنظیموں سے وابستہ کارکنان بھی شامل ہوتے گئے، نے احتجاجی ریلی کی شکل میں ڈسٹرکٹ کمپلیکس جہاں ضلعی انتظامیہ کے دفاتر ہیں، کا رخ کیا۔ مقامی انتظامیہ نے بھاری تعداد میں پولیس فورس طلب کرتے ہوئے ریلی کو پیش قدمی کرنے سے روکے رکھا اور رات کے اندھیرے میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے دسیوں مظاہرین کو سٹی تھانے میں بند کر دیا۔ 28 اگست کی رات کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی پونچھ کے ممبران نے 29 اگست کو پونچھ میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔
ایک دفعہ پھر جوائنٹ کمیٹی ریاستی جبر کے خلاف فوری طور پر جاندار ردعمل دینے میں ناکام رہی، جس طرح پچھلے سال جب حکومت نے عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک جابرانہ صدارتی آرڈینینس پاس کیا تھا تب بھی جوائنٹ کمیٹی بروقت سنجیدہ مؤثر احتجاج کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جب لاکھوں لوگوں کی حمایت ایکشن کمیٹی کو حاصل ہے اور عوام ہر ریاستی حملے کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی ہیں تو ایسی کیفیت میں قیادت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ عوامی طاقت پر اعتماد کرتے ہوئے جدوجہد کے سنجیدہ مراحل کی تیاری کرے۔ غیر ضروری تاخیر اور بروقت پیش قدی سے اجتناب سالوں کی لڑائی کے نتیجے میں جیتی گئی حاصلات اور تحریک کے لیے تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ عوام اور استحصالی حکمران طبقے کی لڑائی ہر گزرتے دن کے ساتھ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔ جس کا انجام ایک یا دوسرے طبقے کی حتمی شکست کی صورت میں ہی ہو گا۔ حکمران کسی بھی قیمت پر تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ جبر کے ذریعے اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکے۔ ایسے میں قیادت کی بے عملی یا مصلحت پسندی عوامی تحریک کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی۔
8دسمبر 2024ء کے بعد بھی مختلف علاقائی مسائل کے حل کے لیے نام نہاد ”آزاد“ کشمیر عوامی تحریکوں کی لپیٹ میں رہا ہے۔ مختلف اداروں کے سرکاری ملازمین بھی مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ حتیٰ کہ پولیس جیسا ادارہ، جو ریاستی نظم و ضبط بحال رکھنے اور عوام کو دبانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، بھی تنخواؤں میں اضافے اور دیگر مسائل کے حل کے لیے کئی دن تک ہڑتال پر گیا ہے۔ معاشرے کی ہر پرت میں تحرک موجود ہے۔ مجموعی طور پر محنت کش عوام کا شعور مکمل طور پر تبدیل ہوا ہے۔ اپنے حالات زندگی میں تبدیلی کی خواہش لیے عوام ہر آزمائش سے گزرنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ حالیہ واقعات میں ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں لوگ 29 اگست کو سڑکوں پر نکل آئے اور مکمل ہڑتال کی۔
29اگست کی شام تک بھی اسیران کی رہائی ممکن نہ ہو سکی جس کے بعد ارکان کور کمیٹی نے 30 اگست کو بھی ہڑتال جاری رکھنے اور سٹی تھانے کی طرف مارچ کا اعلان کر دیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور پوری رات سڑک پر دھرنا جاری رہا۔
دوسری طرف 30 اگست کو آزادی پسند تنظیموں کی کال پر پونچھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ 30 اگست کا دن ایک بار پھر ریاستی جبر اور حکمرانوں کی شکست کا دن ثابت ہوا۔ عوامی دباؤ کے سامنے ریاست نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تمام اسیران کو رہا کیا۔
ایکشن کمیٹی کے گرد منظم عوام اور سیاسی و مزاحمتی کارکنان کی فقیدالمثال جدوجہد آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس وقت انقلابیوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ ایک حقیقی انقلابی پروگرام، درست سائنسی مؤقف اور انقلابی نظریات پر مبنی حکمت عملی کے ساتھ عوامی تحریک کی تعمیر و رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ عوامی تحریکیں جہاں محنت کش طبقے کے شعور میں اضافے کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں وہیں انقلابی قوتوں کے لیے بھی انقلابی نظریات و حکمت عملی کی پرکھ کا درست موقع ہوتی ہیں۔ ایکشن کمیٹی کی قیادت حالات کے دباؤ کے تحت آگے بڑھ رہی ہے لیکن کسی انقلابی متبادل پروگرام کو اپنانے سے عاری ہے ایسے میں گروہی نفسیات سے بچتے ہوئے ہزاروں لاکھوں متحرک مزاحمتی کارکنان اور عوام سے کٹنے کی بجائے عوام کے شانہ بشانہ صبر آزما جدوجہد کا حصہ بنے رہنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
آخری فتح محنت کش طبقے کی ہو گی!
عوامی راج کے قیام تک جدوجہد تیز ہو!