تحریر: پارس جان

وزیرِ داخلہ سندھ ضیا لنجار کے گھر کو مشتعل افراد نے نذرِ آتش کر دیا۔ یہ ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب چند روز قبل کارپوریٹ فارمنگ اور دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف سندھ کی ایک قوم پرست تنظیم کے کارکنوں کے احتجاجی دھرنے پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کی اس واردات کے بعد کارکنوں کا اشتعال بے قابو ہو گیا اور انہوں نے لنجار ہاؤس کو آگ لگا دی۔ اس سانحے میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہید کارکن کے جنازے میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ شرکا نے حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کیا اور پرجوش نعرے لگائے۔ یہ کوئی الگ تھلگ، اتفاقی یا اچانک رونماہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ سندھ میں حالیہ عرصے میں شروع ہونے والی سیاسی تحریک سے براہِ راست منسلک ہے۔
یہ تحریک جس کا آغاز دریائے سندھ پر چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے کے خلاف احتجاج سے ہوا تھا، اگرچہ یہ تحریک کئی ماہ سے جاری تھی تاہم اس کو ایک بڑی عوامی حمایت اس وقت ملی جب سکھر کے قریب ببرلو بائی پاس کو سندھ بھر کے وکلا اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے ایک احتجاجی دھرنے کے ذریعے بلاک کر کے تاریخ میں پہلی دفعہ پنجاب اور سندھ کے زمینی راستوں اور رابطوں کومکمل طور پر منقطع کر دیا تھا۔ اسی دھرنے کے باعث وفاقی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور اسے ان متنازعہ چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے سے دستبردار ہونا پڑا۔ یہ دھرنا لگ بھگ دس دنوں تک جاری رہا اور اس نے سندھ کی سیاست، عوامی شعور اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے جن کا سائنسی تجزیہ اور ادراک نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
اس تحریک کے حوالے سے کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جلسوں، احتجاجوں اور دھرنوں میں بے پناہ تقاریر کی جا چکی ہیں، کانفرنسوں کا انعقاد کیاجا رہا ہے جہاں بہت سے دانشور اپنے اپنے مکتبِ فکر کی روشنی میں اس تحریک کے تجزیئے اور تناظر پیش کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی بے لگام بحث، مباحثہ ہمیشہ کی طرح جاری و ساری ہے۔ ان تجزیوں میں حسبِ توقع مختلف رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک رجحان تو استرداد (denial) اور انکار پر مبنی ہے یعنی ایسی کوئی تحریک ہے ہی نہیں، اگر ہے بھی تو جعلی اور مصنوعی طور پر بنائی گئی ایک سازشی تحریک ہے جسے مذموم مقاصد کے لیے لانچ کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تجزیئے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ دائیں طرف کے لوگوں کا تو یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ملک کو عدم استحکام کاشکار کرنے کے لیے پختونخواہ اور بلوچستان کے بعد اب سندھ میں بھی غیر ملکی قوتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انتشار پھیلا رہی ہیں۔ جبکہ بائیں طرف دوطرح کے دانشور ہیں، ایک وہ جو تحریک کی حادثاتی قیادت کے مشکوک ماضی اور مبہم کردار کے باعث پوری تحریک کو ہی مشکوک قرار دے کر سرگرم سیاسی پرتوں کی تضحیک کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی تحریک اوراس کی قیادت کے باہمی تعلق کی جدلیات کوسمجھنے سے قاصر ہونے کے باعث عوامل سے فرار حاصل کر کے محض نتائج تک خود کو محدود کرنے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ نتائجیت پسندی جسے پریگمیٹزم بھی کہا جاتا ہے پیچیدہ سماجی و سیاسی مظاہر کی تفہیم کے لیے کبھی سود مند نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف بائیں بازو کے وہ قنوطی دانشور ہیں جو کسی بھی قسم کے عوامی تحرک کے تناظر کوپہلے ہی رد کر چکے ہیں اور ان کے خیال میں یہ تحریک بھی ریاست کے مختلف دھڑوں کی آپسی رسہ کشی کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ ریاست کے بحران کے باعث اس عنصر کو مکمل طور پر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا تاہم ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ریاستی آقا آپس کی لڑائیوں میں جب چاہے دوسرے دھڑے کے مقابل عوامی تحریکیں کھڑی کر سکتے ہیں۔ تحریکوں کے جنم کے اپنے سماجی محرکات ہوتے ہیں اور سماجی تضادات کی کوکھ میں حقیقی عوامی تحریکیں بھی نمو پاتی ہیں۔ ہاں البتہ ریاستی بحران کے باعث سماجی تضادات قبل از وقت ضرور پھٹ سکتے ہیں اور ان کے سماجی اثرات بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے سندھ کی حالیہ تحریک کے حوالے سے بھی ہمیں سیاسی و سماجی مضمرات کے سنجیدہ مطالعے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے سندھ کی عوامی مزاحمتی سیاست بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ ایم آرڈی کی تحریک کی شکست کے بعد اکا دکا لانگ مارچ، جلسے جلوس اور علیحدگی کاشکار ادارہ جاتی احتجاج تو نظر آتے رہے لیکن کوئی باقاعدہ عوامی سیاسی تحریک یا مزدور تحریک پروان نہیں چڑھ سکی۔ اسے عہد کے عومی کردار سے جوڑ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ 1983 کی ایم آرڈی کی تحریک کے کچھ عرصے بعد ہی سوویت یونین اور دیوار برلن کے انہدام کے باعث نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا میں مزاحمتی سیاست کوبڑا دھچکا لگا اور ’حقیقت پسندی‘ کے لبادے میں مفاد پرستی، بدعنوانی اور لوٹ مار کو ہی سیاست کا مقصد و محورسمجھا جانے لگا تھا۔ دوسری طرف بچی کھچی مزاحمتی سیاست کے بیانیے طبقاتی زاویے سے یکسر محروم ہو گئے۔ تاہم اب پوری دنیا سے اس تاریک عہد کے بادل چھٹ رہے ہیں اور نئی مزاحمتی تحریکوں کا جنم ہو رہاہے۔خیبر پختونخواہ میں پشتون تحفظ موومنٹ نے اس خطہِ ارضی میں ایک نئے عہد کے آغازکا عندیہ دے دیا تھا۔ یہ بلاشبہ ایک تاریخ ساز تحریک تھی جس نے خوف کے ماحول کو شکست دی اور اس خطے میں مزید نئی اور تازہ دم تحریکوں کی راہ ہموار کی۔ اب پشتون تحفظ موومنٹ کو ریاست نے کالعدم قرار دے دیا ہے لیکن یہ تحریک ابھی تک جاری ہے اور اس کی سب سے بڑی کمزوری واضح سیاسی حکمتِ عملی کافقدان ہے۔ پھر ہمیں بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی مزاحمت کا جنم ہوتا ہوا نظر آیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ عوام کی جدوجہد آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ آج اس کی قیادت پابندِسلاسل ہے لیکن تحریک کی طرف سے مزاحمت بھی جاری ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک بھی کشمیر کی سیاسی تاریخ کا سنہرا باب ہے جہاں عوام نے ایک سے زیادہ بار ریاست کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اب پاک بھارت جنگ کو ڈھال بنا کر ریاست جوابی حملے کر رہی ہے اور پھر مذہبی بنیاد پرستی کو تحریک کے خلاف منظم کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی عوامی ایکشن کمیٹی آٹے اور بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے اور لینڈ ریفارمز بل اور منرلز انوسٹمنٹ کونسل جیسے سامراجی حملوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ قیادت قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے لیکن تحریک اور مزاحمت بھی از سرِنو منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں سرکاری اداروں کے محنت کشوں کی تحریکوں کا بھی نیا جنم ہوا ہے بالخصوص نجکاری کے خلاف شعبہ صحت اور تعلیم کے محنت کش ہر چھوٹے بڑے شہر میں سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے اور قیادت کی نا اہلی کے باوجود یہ تحریک بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے۔ ایسے میں سندھ میں حالیہ تحریک کو بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

یہ سب تحریکیں الگ الگ ہونے کے باوجود ایک ہی پراسیس کی جزیات بھی ہیں۔ ہر تحریک کو دوسری سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ ہم بلاشبہ نسبتی سیاسی جمود کے خاتمے کے بعد جنگوں، خانہ جنگیوں، تحریکوں، انقلابات اور ردِ انقلابات کے ایک نئے عہد میں داخل ہو گئے ہیں جہاں یہ سب سیاسی مظاہر اس وقت تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہیں گے جب تک ایک منظم اور سائنسی نظریات سے لیس عوامی قوت اس نظام کو اکھاڑ کر سیاسی انقلاب کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کی سعادت حاصل نہیں کر لیتی۔
عہد کے عمومی کردار کے تابع کر کے کسی مخصوص خطے کی تحریک کے تجزیئے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ تحریک محض خارجی عناصر ہی کی پیداوار ہے اور یہی خارجی عناصر ہی تحریک کے مستقبل کابھی فیصلہ کریں گے۔ بلکہ سندھ کے اپنے سماجی تضادات اور خطے کی عمومی صورتحال دونوں کے باہمی تال میل سے ہی اس تحریک کاجنم ہوا ہے۔ آج کے عہد میں معاشی و سیاسی عالمگیریت اور سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی جیسے عوامل کے زیرِاثر شعور کی عالمگیریت بھی ایک عمومی مظہر ہے جسکی پیشنگوئی ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ نے بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ اس لیے موضوعی عینیت کا شکار دانشور جن عناصر کو’خارجی‘ کہہ کر یکسر مسترد کر دیتے ہیں وہ اب اتنے بھی خارجی نہیں رہے بلکہ سماجی معمول میں یوں رچ بس گئے ہیں کہ اس کا ناگزیر حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ یوں عمومی (general) اور مخصوص (particular) عناصر کی کلیت (whole) کی کوکھ سے ہی سندھ کی حالیہ سیاسی تحریک کا جنم ہوا ہے۔
سندھ کی سیاسی مخصوصیت کا ایک اہم ترین عنصر یہاں گزشتہ 17 سال سے مسلسل پیپلز پارٹی کا اقتدار ہے۔ بلکہ اگر ہم ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر اب تک کا جائزہ لیں تو عملاً 23 سال سے بھی زیادہ عرصے تک پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار رہی ہے اور اس دوران لگ بھگ نصف سے زائد عرصے تک پیپلز پارٹی مرکز میں بھی براہِ راست یا بالواسطہ اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ انہی دہائیوں میں دنیا بھر کی طرح اس خطے میں بھی نیو لبرل معاشی پالیسیاں مسلط کی گئیں۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، معاشی ردِ اصلاحات سے جہاں ہزاروں لاکھوں محنت کشوں کوبے روزگار کیا گیا، وہیں بے شمار نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی کے خنجر سے بھی ہاتھ پاؤں باندھ کر لوگوں کوذبح کیا گیا۔ جہاں پیپلز پارٹی آئی ایم ایف اور سامراجیوں کی آشیرباد کے حصول کے لیے عوام کے اس قتلِ عام میں ملوث رہی وہیں مسلسل اقتدار سے چپکے رہنے کی ہوس میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان وغیرہ میں ریاست کے مسلسل بڑھتے ہوئے قومی جبر کی بھی نہ صرف سہولت کار بنی رہی بلکہ ہر قسم کے ریاستی تشدد اور بربریت کی کھل کر وکالت بھی کرتی رہی۔
دیگر صوبوں اور مرکز میں توحکومتوں میں اتھل پتھل بھی ہوئی تاہم سندھ میں سیاسی متبادل کی عدم دستیابی (جس پر آگے چل کر مزید بات کریں گے) کے باعث پیپلز پارٹی کے مسلسل اقتدار نے اسے سٹیٹس کو کی سیاسی تجسیم میں بدل کر رکھ دیا۔سندھ کے لوگ عشروں تک اس معاشی و قومی جبر کی چکی میں پستے رہے لیکن ان کے پاس کوئی متبادل پلیٹ فارم ہی نہیں تھا جس کے ذریعے وہ اپنے غم وغصے کا اظہار کر سکتے۔ سندھ کی نام نہاد اپوزیشن کا چہرہ اور کردارپیپلز پارٹی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ دونوں طرف وڈیرے، سرمایہ دار اور رجعتی قوتیں ہی ہیں۔
ملاؤں سے نفرت تو سندھ کے خمیر میں ویسے ہی پائی جاتی ہے۔ جہاں تک قوم پرستوں کا سوال ہے، وہ اپنی نظریاتی متروکیت کے باعث کبھی بھی کوئی سنجیدہ سیاسی متبادل پیش ہی نہیں کر سکے۔ اور سندھ کابایاں بازو نظام کی تبدیلی کے واضح تناظر کے فقدان کے باعث قوم پرستی کی اس نظریاتی متروکیت کو سمجھے بغیر پاپولر اور شارٹ کٹ کی سیاست میں وقتی فائدوں کے حصول کے لیے قوم پرستوں کا ہی دم چھلہ بننے پر مجبور ہوا،جس کے باعث سندھ کا سیاسی خلا وسعت اختیار کرتا چلا گیا۔ لیکن دوسری طرف عوام کی برداشت کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا تھا اور سندھ کا سماج ایک پریشر ککر کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ان حالات میں کوئی بھی واقعہ ایک معیاری جست بن کر نئے سماجی دھماکے کا باعث بن سکتا تھا۔ ایسے میں چھ نہروں کی تعمیر کے سامراجی منصوبے پر بائیں بازو اور قوم پرست سیاسی کارکنوں نے آواز بلند کرنا شروع کی تو ابتدا میں کسی سنجیدہ سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی اور روایتی قوم پرست نعروں کی سیاسی محدودیت کے باعث انہیں بہت بڑی سماجی حمایت نہیں مل سکی لیکن جونہی پیپلز پارٹی کھل کر اس سامراجی منصوبے کی سانجھے دار بن کر سامنے آئی اور آصف علی زرداری کے اس منصوبے کی منظوری کے دستاویزات پردستخط کی خبر عام ہوئی تو لوگوں کا برسوں سے ابلنے والا غم و غصہ پھٹ پڑا اورنہ صرف درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں بلکہ دیہی محنت کشوں اور ہاریوں سے بھی تحریک کو حمایت ملنا شروع ہو گئی۔ ہاریوں اور محنت کشوں کی بھاری تعداد اگرچہ اپنے مخصوص سماجی معمول کے باعث ببرلو دھرنے میں تو شریک نہیں تھی تاہم ان کی ہمدردی اور حمایت تحریک کے ساتھ تھی اور وہ اپنے اپنے گوٹھوں اور قصبوں میں چھوٹے بڑے احتجاجوں کا حصہ بنتے رہے۔ یوں سماج میں ایک بڑی سیاسی ہلچل نے جنم لیا جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
یوں گزشتہ کئی دہائیوں سے سطح کے نیچے پکنے والے سماجی تضادات اب سطح پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں لیکن یہ ابھی محض آغاز کا بھی آغاز ہے۔ ذہنی طور پر آج بھی 80 اور 90 کی دہائی میں زندہ رہنے والا بایاں بازو سماج کے رگ و ریشے میں برپا ہونے والی ان انقلابی تبدیلیوں کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ کچھ لوگ آج بھی پیپلز پارٹی کو مزدور طبقے کی انقلابی روایت سمجھ کر اس کے رومانس میں مبتلا ہیں یا پھر جان بوجھ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے یہ سیاسی بہروپ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مارکس وادی ایک دہائی سے یہ کہتے چلے آ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اب محنت کش طبقے سے اپنا رسمی اور جعلی تعلق بھی مکمل طور پر منقطع کر چکی ہے جس کا ایک اظہار پیپلز پارٹی کے صرف سندھ تک محدود رہ جانے کی شکل میں بھی ہو رہا ہے۔ اور سندھ میں جب بھی کوئی سیاسی تحرک جنم لے گا تو وہ پیپلز پارٹی کے ذریعے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے خلاف نفرت کی شکل میں ہی اپنا اظہار کرے گا۔ حالیہ تحریک کے حجم میں بھی معیاری اضافہ ’زرداری، تجھ سے جھگڑا ہے‘ یا ’پی پی تجھ سے جھگڑا ہے‘ کے نعرے کے باعث ہوا۔ یعنی قومی محرومی اور معاشی جبر سے تنگ عوام کو ان نعروں میں اپنا اظہار نظر آیا تو وہ اس تحرک کاحصہ بن گئے۔ یوں اس تحریک کو محض ’پنجاب دشمنی‘ کے روایتی قوم پرست نعروں تک محدود رکھنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔
قومی اور طبقاتی دونوں عناصر کے امتزاج سے ہی اس تحریک کا جنم ہوا ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ بھی انہی دونوں عناصر کے مسلسل تبدیل ہوتے ہوئے تناسب پر ہی منحصر ہے۔ بعد ازاں آصف علی زرداری نے بیماری کا ناٹک کر کے اور پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں صوبائی اسمبلی کی قراردادوں یا مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آئی۔ تاہم خطے میں جنگی جنون کو استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس صورتحال سے انہیں وقتی طور پر کچھ مدد ضرور ملی ہے اور انہوں نے پھر سے اسٹیبلشمنٹ سے ’اپنی غلطی سدھارنے‘ کے وعدے وعید کر لیے ہیں لیکن چھ نہروں کی تعمیر اور کارپوریٹ فارمنگ کے خلاف مزاحمت کے لیے سندھ میں سازگار حالات فی الحال بدرجہ اتم موجود ہیں۔
جو دانشور اس تحریک سے طبقاتی عنصر کویکسر خارج کر کے دیکھتے ہیں اور اسے خالص (pure) قوم پرست یا قومی تحریک بنا کر پیش کر رہے ہیں، وہ ان کتابی مارکسٹوں سے بھی زیادہ احمق ہیں جوقومی سوال سے منکر ہو کر طبقاتی تخفیف پسندی اور فرقہ واریت کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں۔ ہم ان دانشوروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ واقعی خالص قوم پرست تحریک ہے یا محض ’قوم پرستوں کی محنت‘ ہی کی پیداوار ہے توپھر اس محنت کا ثمر ان قوم پرستوں کی جھولی میں کیوں نہیں گرایعنی روایتی قوم پرست پارٹیوں یا افراد میں سے کوئی بھی اس تحریک کی قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے کیوں نہیں آ سکا۔حقیقت یہ تھی کہ قیادت کا خلا اتنا وسیع تھا کہ وکلا برادری جو خود ایک پولیس افسر کے ساتھ کسی وکیل کے ذاتی تصادم کے نتیجے میں اس پولیس افسر کے تبادلے کے معاملے پر سندھ حکومت سے شدید نالاں تھی،کو اس خلا کو پر کرنے کاموقع مل گیا۔ ہم سے جواباً یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وکلا نے کونسا طبقاتی پروگرام پیش کیا تھا جو وہ تحریک کی حمایت جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ درست بات ہے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تاریخ خلا کو پسند نہیں کرتی اور ایک مستعد قیادت کی عد م موجودگی میں کسی نئی یا تازہ دم پاپولر قیادت کا ظہور ناگزیر ہو جاتا ہے چاہے وہ اس تحریک کی قیادت کے اہل ہو یا نہ ہو، اس سے تاریخی عمل بے نیاز رہتا ہے۔ اگرچہ وکلا میں بھی قوم پرست اور بائیں بازو کے کارکن ہی پیش پیش نظر آئے اور اس کے برعکس کچھ اور ممکن بھی نہیں تھا تاہم وقتی طور پر ایک انتہائی’غیر نظریاتی‘ کردار عامر نواز وڑائچ کراچی بار کے صدر ہونے کے باعث اور ببرلو پر دھرنے کے ’انتہائی‘ اقدام کے نتیجے میں اتفاقی اور حادثاتی طور پر تحریک کا مقبول ترین لیڈر بننے میں کامیاب ہو گیا۔اگرچہ اس مبینہ انتہائی اقدام کے فیصلے میں ریاست کے پیپلز پارٹی مخالف دھڑے کی پسِ پردہ ’ہدایت کاری‘ کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا۔دھرنے کے اختتام کے کچھ ہی دنوں بعد اس کی علامات ظاہر ہونا شروع بھی ہوگئیں اور اس مقبولیت کے غبارے سے ہوا بھی نکل گئی۔ یوں اس تحریک کی قیادت کا سوال آج بھی حل طلب ہے اوراپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سندھ میں قومی احساسِ محرومی موجود ہے اور ریاست اپنے بحران میں قومی جبر میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے تاہم پانی کے مسئلے کا سنجیدہ معروضی تجزیہ بھی کرنا ہو گا۔ اس مسئلے کے بہت سے پہلو ہیں، قومی محرومی اس کا ایک اہم پہلو ہونے کے باوجود واحد عنصر نہیں ہے۔ لیکن یہ ریاست چونکہ ایک جبری وفاق ہے اور پھر اس کے منہ پر ون یونٹ جیسے بھیانک جرائم کی کالک بھی آج تک دھل نہیں سکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی ریاست کی غنڈہ گردی مسلسل بڑھتے رہنے کے باعث مظلوم اقوام کی عوام کا ریاست پر عدم اعتماد اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے، اس لیے یہ عین فطری ہے کہ جب بھی کوئی نیا ایشو سامنے آتا ہے تو پرانے سارے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں اور ان خطوں میں اسے بادی النظر میں قومی جبر کی گھناؤنی تاریخ کے تسلسل میں ہی سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر ان سب محرکات کے باوجود پانی کامسئلہ قوم پرستوں کی رومانویت کے برعکس اپنی سرشت میں ’خالص‘ قومی مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیات کی تباہی کے مسئلے سے منسلک ہے جو اب ویسے بھی ایک مسلمہ عالمگیر مسئلہ ہے۔ وقتی طور پر تجزیئے کی ضرورت کے تحت اگر اسے گلوبل وارمنگ سے کاٹ کر بھی دیکھا جائے تب بھی یہ قومی سے زیادہ ایک جیو پولیٹیکل ایشو ہے۔
یعنی اگر سندھ کل کلاں آزاد ہو کر ایک الگ مملکت بن بھی جائے تو پھربھی قومی حدود میں پانی کے مسئلے کو حل کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ الگ مملکت ہوتے ہوئے بھی سندھ زیریں ساحلی علاقہ (lower reparian) ہی رہے گا اور نومولود قومی ریاست کے پڑوسیوں سے تضادات کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔ ہم سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ برخاستگی کی شکل میں پہلے ہی اس مسئلے کو مزید الجھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف چین تبت کے مقام پر دریائے براہمہ پترا پر 137 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس سے نہ صرف انڈیا بلکہ بنگلہ دیش بھی متاثر ہو گا۔دنیا کے ایک اور خطے مشرقی افریقہ سے ایک اور مثال کے ذریعے بھی معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ دریائے نیل پر ایتھوپیا ایک متنازعہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس سے وہاں کے lower reparians مصر اور سوڈان متاثر ہو رہے ہیں۔ ایتھوپیا چونکہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے یوں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مصر جیسی بڑی معاشی قوت پر قومی جبر کر رہا ہے۔بلکہ اسے ایک جیو پولیٹیکل مسئلے کے طور پر ہی سمجھا اور انسانی بنیادوں پر ہی حل کیا جا سکتا ہے جو سرمایہ داری میں ناممکن ہے کیونکہ یہ ایک غیر فطری اور غیر انسانی نظام ہے اور سامراجی مداخلتیں ان مسائل کو اور بھی پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کے مسئلے کا قومی اور جیو پولیٹیکل کے ساتھ ساتھ طبقاتی پہلو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔
مثال کے طور پر پنجاب کی مبینہ چوری کے خلاف مزاحمت اپنی جگہ ضروری اور عین فطری ہے لیکن یہ بھی تجربے اور اعداد و شمارسے ثابت شدہ ہے کہ مبینہ چوری کے بعدبھی سندھ کو ملنے والے پانی سے سندھ کے وڈیرے ہی مستفید ہوتے ہیں اور اس چوری اور قلت کا خمیازہ لے دے کر سندھ کے عام ہاریوں اور کسانوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے اور پڑتا رہے گا۔ اس کے علاوہ نہری نظام کی بوسیدگی کے باعث بھی پانی کا ضیاع مسلسل بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو عملی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے زرعی انقلاب اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے کی جدوجہد بھی اتنی ہی فطری، ضروری، منطقی اور ناگزیر ہوجاتی ہے۔
یہ تحریک بہت تیزی سے انتہائی کریٹیکل مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں پر قیادت کا سوال پھر فیصلہ کن اہمیت اختیار کر جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے بائیں بازو میں قیادت کے سوال کو بھی اس کی معروضی بنیادوں سے کاٹ کر موضوعی اور شخصی حوالوں سے زیرِبحث لایا جاتا ہے۔ قیادت کا خلا اندھے کوبھی نظر آ جاتا ہے اور ہر کوئی اس خلا سے اپنے ’ہیروازم‘ کی ٹھرک پوری کرنے میں جت جاتا ہے۔ دراصل مارکسی لغت میں قیادت کا سوال محض یہ نہیں ہوتا کہ ’تحریک کی قیادت کس پارٹی یا کس لیڈر کے پاس ہے‘بلکہ اس سے پہلے قابل ِ غور بات یہ ہوتی ہے کہ تحریک کی قیادت کونسا طبقہ کر رہا ہے۔ اور ہم جیسے پہلے وضاحت کر چکے کہ اس تحریک میں قومی وطبقاتی دونوں عناصر کارفرما ہیں۔ لیکن طبقاتی عنصر کی موجودگی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ یہ تحریک محنت کش طبقے کی تحریک ہے۔ اس میں بلاشبہ مختلف طبقات کے لوگ شامل ہیں اور قیادت واضح طور پر پیٹی بورژوازی کے ہاتھ میں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں پیٹی بورژوا طبقہ مخصوص حالات میں جمہوری تحریکوں کا آغاز کر کے سیاسی جمود کو توڑکر انقلابی لہر کے ابھار کا موجب بن سکتا ہے اور پھر ایک خاص مرحلے تک کامیابی سے اس کی قیادت بھی کر سکتا ہے لیکن پھر فیصلہ کن مراحل میں تحریک کومحنت کش طبقے کی سرگرم شمولیت اور رہنمائی کی آکسیجن سے ہی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس تحریک کے حوالے سے بھی یہ بات درست ہے۔پیٹی بورژوازی کی تحریک جلد یا بدیر تھکاوٹ زدہ ہو سکتی ہے۔ جعلی بھٹوز کے مقابلے میں ’اصلی اور نسلی‘ بھٹوکو لا کر اور اس کے ساتھ خود کو نتھی کر کے سستی شہرت تو حاصل کی جا سکتی ہے تحریک کی کوئی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ جب تک پیٹی بورژوا طبقہ قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا تحریک کی توانائی کا بہت بڑا حصہ ریاست اور اصل دشمنوں سے برسرِپیکار ہونے کی بجائے مقبولیت کی مسابقت کی نظر ہوتا رہے گا۔ اس پراسیس میں شخصی مقبولیت کے بلبلے بنتے اور پھٹتے رہیں گے۔
سوشل میڈیا پر لائیو ویڈیوز اور پوسٹوں پرزیادہ سے زیادہ ویوز اور لائکس کے حصول کی یہ مقابلے بازی ویسے بھی پیٹی بورژوازی کے سماجی معمول کا حصہ بن چکی ہے اور اب تو معاشی استفادے کے امکانات نے اس سماجی معمول کو اور بھی پختہ کر دیا ہے۔ پیٹی بورژوا طبقہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے اس تحریک میں کتنا ترقی پسندانہ کردار ادا کر سکتا ہے، اس کا انحصار خطے کی عمومی صورتحال کے ساتھ براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ ہم پہلے دن سے ہی وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وکلا کوئی طبقہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی طبقے کے تاریخی کردار کا متبادل ہو سکتے ہیں۔ سماج کی طرح وکلا کے اپنے اندر بھی طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ان حالات میں بائیں بازو کا تاریخی فریضہ اس تحریک کوطبقاتی بیانیے سے لیس کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی تحریک میں شمولیت اور قیادت کے لیے حالات تیار کرنا ہے۔
مورو واقعے کے دوسرے شہید کی لاش کو ہسپتال سے لاپتہ کرنے کی غلیظ حرکت سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ یہ حکومت اور ریاست خود ہی یہ چاہتے ہیں کہ سندھ کی یہ شاندار عوامی سیاسی تحریک پرامن سیاسی راستہ ترک کر کے مہم جوئی کی جانب بڑھے۔ اس کے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ پہلے بھی مورو میں حالات کی کشیدگی حکومتی منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ تھی۔ بلوچستان میں بھی ہم دیکھ چکے ہیں مسلح جدوجہد آخری تجزیئے میں ریاست کے مفادات کو تقویت دینے کا باعث بنتی ہے اور تحریک کونہ صرف خطے بلکہ اپنی ہی قوم کے محنت کشوں سے کاٹ کر کمزور کر دیتی ہے جبکہ پر امن سیاسی جدوجہد سے تحریک کی یکجہتی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ریاست کے ایوان لرزنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں بائیں بازو کو انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ جہاں تحریک کے سرگرم کارکنوں کا مورال بلند رکھنا بڑا ضروری ہے، وہیں ہر قسم کی مہم جوئی کے خلاف غیر متزلزل موقف اپنانا ہو گا۔ مہم جوئی کے ابتدائی خدشات کے پیشِ نظر اب تک بائیں بازو کے کچھ قائدین نے انتہائی مثبت ردِ عمل دیا ہے لیکن ان کے اپنے کارکنوں میں ہیرو ازم اور مہم جوئی کے عناصر کا غلبہ ہونے کے باعث ان دانشوروں کا مسلسل امتحان ہوگا اور انہیں ثابت قدمی اور صبر سے اپنے موقف کا دفاع کرنا ہو گا۔ لیکن ساتھ ہی انہیں یہ تاریخی حقیقت بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر پیٹی بورژوازی کی قیادت اپنی طبعی میعاد پوری کر جائے تو اسے زیادہ عرصے تک مہم جوئی سے بچانا ممکن نہیں رہتا۔ پیٹی بورژوازی کے طبقاتی خمیر میں ہیروازم، موقع پرستی اور مہم جوئی کے جرثومے پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اس تحریک کومسلسل مہم جوئی اور موقع پرستی سے باز رکھنے کا سب سے کارآمد نسخہ بھی اس تحریک کو طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہی ہے۔ یاد رکھیں کہ محنت کش طبقہ جس تحریک میں کود پڑتا ہے تو اسے دھرنوں اور شاہراہوں کو بند کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اپنے ہاتھ روک کر سرمایہ داری کی نبض بند کر سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کہ ببرلو دھرنے میں بھی سرمایہ داروں اور ان کی نمائندہ حکومت کی چیخیں اس لیے نکل گئی تھیں کیونکہ انہیں روزانہ اربوں روپے کا نقصان محض اس لیے ہو رہا تھا کیونکہ ان کاتیار مال، مشینری اور خام اشیا کی نقل و حرکت متاثر ہو گئی تھی، ذرا سوچیں کہ اگر وہ مال تیار ہی نہ ہو رہا ہو، وہ مشینری اور خام مال بندرگاہوں سے نکل ہی نہ سکے اور ریلوے جیسے اہم اداروں کے محنت کش بھی ہڑتال پر چلے جائیں تو حکمران طبقے کو مہینوں یا ہفتوں نہیں بلکہ دنوں اور گھنٹوں میں ہی چاروں شانے چت کیا جا سکتا ہے۔
یہ محض یکطرفہ اور حالات سے کٹی ہوئی موضوعی مشق نہیں ہے بلکہ حالات خود بھی طبقاتی کشمکش کو مہمیز دے رہے ہیں۔ بہت سے ایسے معروضی عوامل ہیں جو اس تحریک کے مرکزی مطالبات کے ساتھ مزدور تحریک کے مفادات کو یکجا کرنے کا سبب بنیں گے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں سندھ میں بھی دنیا بھر کی طرح درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں سے بڑی تعداد میں لوگ محنت کش طبقے میں دھکیلے جا رہے ہیں جس سے ان کا مسلسل بڑھتا ہوا ہیجان ہی اس طرح کی تحریکوں کو قوتِ محرکہ فراہم کر رہا ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ چونکہ اصطلاحات کے گورگھ دھندے میں سادہ سچائیوں کو پیچیدہ بنا کر پیش کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اسلیے نت نئی اصطلاحات تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم مارکسسٹ ایک طویل عرصے سے وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں کہ سرمایہ داری کے بحران کی شدت میں چھوٹے دکانداروں، چھوٹے کسانوں اور ماضی کے پروفیشنلز کہلائے جانے والوں کے پرولتاریائے جانے (proletarianization) کا عمل بھی تیز ہو رہا ہے۔ سیلاب، پانی کی قلت اور غربت کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں شہروں کی طرف ہجرت ہوئی ہے اور اب صرف دس سال قبل کے مقابلے میں شہری صنعت میں سندھی محنت کشوں کی تعداد میں کئی سو فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس تحریک کا پیغام انقلابی بنیادوں پر ان محنت کشوں تک لے جانے اور انکو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ان محنت کشوں کو قومی یا لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ خالصتاً طبقاتی پس منظر کی بنیاد پر اس حالیہ عوامی تحریک کے بنیادی مقاصد اور اہداف سے روشناس کروانا ہوگا۔ کیونکہ جن صنعتوں میں یہ سندھی محنت کش کام کرتے ہیں وہاں ان کے اپنے اداروں اور صنعتی زونز میں لاکھوں کی تعداد میں دیگر قومی ولسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے محنت کش خواتین و حضرات بھی اپنی قوت محنت بیچتے ہیں اور اسی رشتے کی بنیاد پر وہ قومی و لسانی امتیازات سے بالاتر ایک وسیع طبقاتی کلیت کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان محنت کشوں کو اس وسیع کلیت سے کاٹ کر قومی بنیادوں پر منظم کرنے کی ہر کوشش آخری تجزیے میں دانستہ یا غیر دانستہ مالکان، انتظامیہ، حکومت اور ریاست کی ہی خدمت کے مترادف ہوگی۔ یوں ہم ان سندھی محنت کشوں کے ذریعے سندھ کے عوام کی اس شاندار تحریک کا مقدمہ محنت کش طبقے کی تاریخی اور انقلابی جدوجہدوں کے کٹہرے ہیں پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور کراچی جو ابھی تک اس تحریک کا سرگرم حصہ نہیں بن پایا ہے اسے اس تحریک کا مرکز بنایا جا سکے گا۔
اسی طرح ملک بھر کی طرح سندھ کی دیہی آبادی کا 60 فیصد بھی بے زمین ہاریوں یا کھیت مزدوروں پر مشتمل ہے۔ان کی تحریک کی صفوں میں مقداری اور معیاری شمولیت کو جاگیرداری کی باقیات کے مکمل خاتمے کے انقلابی پروگرام کے ذریعے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ بے ملکیتی ہونے کے باوجود معاشی طور پر تو اب دیہی آبادی کی یہ بھاری اکثریت دیہی پرولتاریہ پر مشتمل ہے مگر جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری محض ایک معاشی نظام نہیں ہے بلکہ ایک سماجی نظام بھی ہے۔اسی حوالے سے اس دیہی آبادی کا رشتہ آج بھی مشین سے زیادہ زمین سے ہی جڑا ہوا ہے اور ان کے لیے زمین کی ملکیت کا سوال آج بھی مکمل طور پر غیر اہم نہیں ہو سکا۔ اس لیے سوشلسٹ کوآپریٹو فارمنگ کے ساتھ ساتھ جاگیرداروں کی زمینوں کی ضبطگی کے لیے ان دیہی مزدوروں کو سیاسی تحریک میں جوڑنے کے لیے بے زمین ہاریوں میں زمین کی تقسیم کا نعرہ آج بھی موثر ہے۔ سندھی پرولتاریہ کی قابلِ ذکر تعداد ریلوے، بینکوں، صحت، تعلیم اور دیگر خدمات اور پبلک سیکٹر کے شعبوں میں کام کر رہی ہے، ان کی تحریکوں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کو تحریک کی ہراول صفوں میں متحد اور متحرک کیا جا سکتا ہے۔ اسی طریقے سے ہم کراچی جو ابھی تک تحریک سے جڑ نہیں پایا ہے، اسے بھی تحریک کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
پھر اس خطے کی دیگر جمہوری اور معاشی مطالبات کے گرد سرگرم تحریکوں کے لیے یکجہتی اور تہنیت کے پیغامات بھیجنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پانی کی قلت، چھ نہروں کی تعمیر اور کارپوریٹ فارمنگ جیسے مسائل سے سندھ کے عوام اور ہاریوں کی طرح پنجاب کے عوام اور غریب کسان بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ سب سے متنازعہ چولستان یا محفوظ شہید نہر کو ہیڈ سلیمانکی میں جمع شدہ بھارت کے دریاؤں کے بارانی پانی سے رواں رکھنے کا منصوبہ دھوکہ دہی اور منافقت پر مبنی ہے۔ ان مشکوک ذرائع سے زیادہ پنجاب کی دیگر نہروں سے نہ صرف جنوبی بلکہ وسطی پنجاب کا پانی بھی چوری کر کے اس نہر کو رواں رکھنے کے منصوبے پر پہلے ہی پنجاب حکومت رضامندی اور آمادگی کا اظہار کر چکی ہے۔پھر صرف چولستان کے 1.2 ملین ایکڑ ہی نہیں بلکہ سندھ کی طرح پنجاب بھر کے دیگر لاکھوں ایکڑ کی اراضی، ڈیری فارمز اور باغات کو کارپوریٹ فارمنگ کے اس سامراجی منصوبے کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ یوں سندھ اور پنجاب کے ہاریوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کے مادی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فی الحال پنجاب میں اس ایشو پر سندھ کی غیور عوام کی طرز کی کوئی سیاسی ہلچل دیکھنے میں نہیں آئی ہے لیکن نہ صرف اس مسئلے بلکہ گندم کی امدادی قیمت اور زراعت کی عمومی تباہی کے باعث قرضوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے بوجھ اور بیروزگاری کے خلاف پنجاب کے کسانوں میں شدید اضطراب موجود ہے جو آنے والے دنوں میں کسی بھی بڑی تحریک کی شکل میں پھٹ سکتا ہے۔چند ماہ قبل خانیوال میں جبری بے دخلیوں پر کسانوں نے مزاحمت کی تھی اور حال ہی میں بھکر میں انجمن مزارعین کی تشکیل بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس انجمن کے پہلے جلسے میں سینکڑوں خواتین سمیت ہزاروں کسانوں اور کھیت مزدوروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی تھی۔ یہ مستقبل کی سیاسی لڑائیوں کی ڈریس ریہرسل نہیں تو اور کیا ہے۔ یوں سندھ کے بائیں بازو کوان تمام امکانات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک لڑاکااور طبقاتی یکجہتی پر مبنی انقلابی پروگرام پرجدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
چھ نہروں کی تعمیر کا منصوبہ غیر مشروط طور پر ہمیشہ کے لیے واپس لیا جائے۔
کارپوریٹ فارمنگ کسی بھی شکل میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
50 ایکڑ سے زائد کی تمام جاگیریں فی الفور ضبط کی جائیں اور ریاستی ملکیت میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کوآپریٹو فارمنگ کے ساتھ ساتھ بے زمین ہاریوں کو زمینیں، سستے قرضے، بیج اور کھاد وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستان کے نہری نظام میں آنے والا تقریباً آدھا پانی نہری نظام کی فرسودگی اور زراعت میں آبپاشی کے پسماندہ طریقوں کے کارن ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نئی نہریں بنانے کی بجائے پہلے سے موجود نہری نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق اپگریڈ کیا جائے اور زراعت میں آبپاشی کے جدید طریقے متعارف کرائے جائیں۔ اس سب کے نتیجے میں پانی کی بے تحاشہ بچت ہو گی اور زراعت کے لئے پانی کی قلت سمیت ڈیلٹا کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
کراچی میں ٹینکر مافیا کا مکمل خاتمے کیا جائے اور شہر کے دو کروڑ سے زائد شہریوں کو سرکاری پائپ لائینز کے ذریعے پینے اور دیگر استعمال کے لئے صاف پانی مہیا کیا جائے۔
سندھ کے وسائل پر سندھ کی عوام کا حقِ ملکیت تسلیم کیا جائے۔
آئی ایم ایف کا عوام دشمن پروگرام مسترد کرتے ہیں۔
نجکاری اور ٹھیکیداری کا فی الفور خاتمہ کر کے مستقل روزگار کی ضمانت فراہم کی جائے۔
بینکوں، صنعتوں، ذرائع آمدورفت، ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ کو قومی تحویل میں لے کر تعلیم، علاج سمیت تمام بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے، دفاعی سمیت، غیر پیداواری بجٹ کی ہر شکل میں کمی کی جائے اور ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
سول و عسکری افسرشاہی کی مراعات اور حکمران طبقے کو دی جانے والی ہزاروں ارب روپے کی سالانہ سبسڈیز کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے۔
خطے اور دنیا بھر کی تمام جمہوری، طبقاتی اور سامراج مخالف تحریکوں سے غیر مشروط یکجہتی کے اصول پر عمل کیا جائے۔
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ۔