|تحریر: ارسلان دانی|
اس وقت پوری دنیا میں سماج تاریخ کے ایک انتہائی ہنگامہ خیز عہد میں داخل ہو چکا ہے اور ہر طرف رائج الوقت نظریات و سیاست کو مسترد کیا جا رہا ہے۔ کرہئ ارض پر ایسا کوئی بھی روایتی سیاسی لیڈر نہیں ہے جسے محنت کش عوام کی قابل ذکر حمایت حاصل ہو اور کچھ مقبول نعروں کی بنیاد پر اگر کوئی عوامی حمایت حاصل کر کے اپنی حکومت بنا بھی لے تو تھوڑے ہی عرصے میں وہ غیر مقبول ہو کر عوامی نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ دراصل اس سب کے پیچھے سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے اور زوال کے نتیجے میں بننے والے تضادات سماج کو انقلابات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی حالیہ تحریکوں میں اس کا اظہار ہمیں ملتا ہے جس نے پوری دنیا کے حکمرانوں کو ننگا کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں بننے والی عالمی یکجہتی نے عالمی انقلاب کے نعرے کو واضح کر دیا ہے۔
اکتوبر کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے ہی ستمبر نے بڑے بڑے ایوانوں میں لرزہ بپا کر دیا تھا اور اکتوبر کی شروعات انقلابات کی لہروں سے ہوئی، جس میں فلسطین کے حق میں ہونے والے عالمی مظاہرے اور اسی سلسلے میں اٹلی میں عام ہڑتال سرفہرست ہے۔ انقلاب کی لہر کبھی امریکہ سے شروع ہو کر یورپ، تو کبھی ایشیاء سے ہو کر عرب ممالک اور افریقہ تک جاری ہے جو پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پنپنے والے عوامی غم و غصے کا اظہار ہے۔
دنیا بھر میں جاری ان انقلابی تحریکوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تمام ممالک کے حکمران طبقات اس سے خوفزدہ ہیں اور یہ انقلابی تحریکیں ایک ہی جھٹکے میں حکمرانوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود یہ انقلابی تحریکیں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی بجائے چہروں کی تبدیلی سے آگے نہیں بڑھ پا رہی ہیں اور مہنگائی، غربت، بیروزگاری، لاعلاجی جیسے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں۔
یہ ایک سوال جو اپنی جگہ قائم دائم ہے کہ یہ انقلابات اپنے منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ جبکہ روس میں 1917ء میں ہونے والے انقلاب میں ایسا کیا تھا جس نے پوری انسانی تاریخ کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا تھا؟ کیا روس کے مزدور، کسان اور طلبہ میں آج کے محنت کش عوام سے زیادہ جرأت و دلیری تھی؟ یا اس کے علاوہ کچھ اور عنصر تھا جس کے نتیجے میں وہاں محنت کشوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا اور مزدور ریاست و سوشلسٹ معیشت کا قیام عمل میں آیا۔ وہ عنصر کیا تھا جس کی بنیاد پر وہاں انسانی تاریخ کا یہ عظیم ترین کارنامہ سر انجام پایا؟
آج اکتوبر 2025ء میں انسانی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب یعنی روس کے بالشویک انقلاب کو 108 سال پورے ہو گئے ہیں۔ انقلابِ روس کی اگر بات کی جائے تو اس انقلاب کو جو عنصر تمام انقلابات سے منفرد اور نمایاں کرتا ہے، وہ ہے انقلابی پارٹی کی موجودگی۔ وہ انقلابی پارٹی جس کے نظریات سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور نسل انسانی کی ترقی کے نظریات تھے یعنی مارکسزم یا کمیونزم کے نظریات۔ یہی ایک فرق انقلابِ روس کو ماضی اور حال ہی میں ہونے والے تمام ادھورے انقلابات پر فوقیت دلاتا ہے۔
لیکن بجائے اس کے کہ انقلابی قیادت کے فقدان سے پیدا ہونے والے خلا کو سمجھا اور پُر کیا جائے، زیادہ تر نام نہاد بایاں بازو ان ادھورے انقلابات کو، سازشی تھیوری سے رد کر دیتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو دنیا میں کہیں بھی انقلابی تحریک برپا ہو تو سب سے پہلے اگر کسی کو ڈر لگتا ہے وہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم اس بحث کو تھوڑا واضح کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
پاکستان کی ایک لمبے عرصے سے معاشی پالیسی قرضہ، سود کی ادائیگی اور پھر مزید قرضہ ہے۔ اس بنیاد پر یہ کرائے کی ریاست اور اس کے کرائے کے میڈیا چینلز قرضہ ملنے پر اور قرضے کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکہ، چین اور سعودی عرب وغیرہ کے آگے سر نگوں ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی لڑائی اس پر ہے کہ کون عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کے لیے موزوں امیدوار ہے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کی ایماء پر یہاں کے محنت کش عوام کو میسر تھوڑی بہت بنیادی سہولیات کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اور اس کے برعکس عالمی و ملکی کمپنیوں کو سبسڈیز دی جا رہی ہیں اور انہی کمپنیوں کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں مسلسل کٹوتی کی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر جاری سرمایہ داری کے اس بحران کا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا ہے اور اسی بحران کے پیش نظر پاکستان جیسی ریاست جس کی معاشی پالیسی ہی سامراجی ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی گماشتگی پر ٹکی ہے، وہاں اس بحران کا اثر بہت زیادہ پڑ رہا ہے۔
پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں کوئی بھی دور ایسا نہیں ہے جس میں یہاں کے مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے لیے زندگی بہتر ہوئی ہو بلکہ یہ بد سے بدتر کی جانب رواں دواں ہے اور آج کے عہد میں اس ملک کے نوجوان اور محنت کش پاکستان کے حکمران طبقے سے سب سے زیادہ نفرت کر رہے ہیں اور حکمرانوں کی سماجی بنیادیں ہی ختم ہو گئی ہیں۔
سب سے پہلے اگر ہم نام نہاد ”آزاد“ کشمیر میں حالیہ انقلابی تحریک اور اس کی کامیابیوں پر بات کریں تو بجلی کے مہنگے بلوں سے شروع ہو کر اب یہ تحریک اتنی منظم اور سیاسی ہو چکی ہے کہ بس اپنی عوامی حکومت کا اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے اور ریاست کی رٹ اس وقت کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے دیکھیں تو اس وقت پورا بلوچستان فوجی بندوق کی نوک پر چلایا جا رہا ہے۔ انقلابی عہد میں ریاست زیادہ پاگل ہو جاتی ہے اور بندوقوں اور ہتھیاروں کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہتھیاروں اور بندوقوں سے آپ کچھ وقت کے لیے تو لوگوں کو خاموش کروا سکتے ہیں لیکن لمبے عرصے تک نہیں، اور حتمی تجزیے میں یہ ریاستی پالیسیاں خوف کی بجائے غم و غصے اور بغاوت کو جنم دیتی ہیں۔
آج اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کر کے ریاست نے بلوچستان کا مسئلہ حل کر دیا ہے تو ایسا نہیں ہے۔ مسئلے کا حل ہونا اور مسئلے کو وقتی طور پر دبا دینے میں بہت فرق ہوتا ہے، اور بلوچستان کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں بلکہ بڑھ رہے ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بڑھتی حمایت بالخصوص پنجاب میں بلوچستان کے مسائل پر لوگوں کے ہمدردانہ ردعمل نے حکمرانوں کے لیے مزید خطرہ پیدا کر دیا ہے جسے پاکستانی ریاست نے پنجابی شاؤنزم سے کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ بے سود رہی۔
دوسری طرف خیبر پختونخوا میں میں اٹھنے والی حالیہ تحریکیں، جس میں اولسی پاسون سے لے کر پی ٹی ایم تک شامل ہیں، جس میں پختونخوا کی محنت کش عوام نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین و محنت کشوں کے احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ میں نہروں کے مسئلے پر اٹھنے والی تحریک اور ابھی سرکاری ملازمین و محنت کشوں کا اپنے مطالبات کے لیے 40 سے زائد سرکاری ادارے بند کرنا اور پنجاب میں ہونے والے اگیگا اور ہیلتھ الائنس کے احتجاج اور دھرنوں کے گرد محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تحریک موجود ہے اور حالیہ سیلاب کے بعد امکان ہے کہ کسان بھی ان تحریکوں کا حصہ بنیں گے۔
یہ پاکستان کی اس وقت کی صورتحال کا ایک مختصر سا جائزہ ہے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی ایک صوبہ یا خطہ ایسا نہیں ہے جہاں تحریکیں موجود نہ ہوں اور اسی طرح اگر کہیں تحریکوں کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ درپیش ہے تو کہیں قوم پرست نظریات کی محدودیت کے گرد قیادت نے ان تحریکوں کو آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے تو کہیں مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادتیں مزدور تحریک کے ساتھ غداری کر رہی ہیں۔
پاکستان میں چلنے والی یہ تمام تحریکیں، انقلاب کے امکانات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، یہ تمام تحریکیں اور احتجاج انقلاب کے ابتدائی آثار ہیں جو ہمیں پورے خطے میں نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تحریکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے درکار مارکسزم کے نظریات کی کمی کو پورا کیا جائے اور طبقاتی بنیادوں پر ان تحریکوں کو آپس میں جوڑا جائے۔ بالکل ویسے جیسے روس میں ہوا تھا۔ لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب مارکسزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر آہنی ڈسپلن پر مبنی انقلابی پارٹی بنائی جائے، جیسے کہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں موجود تھی۔
بالشویک پارٹی نے 1917ء کے اکتوبر انقلاب میں ایک باشعور، منظم اور نظریاتی طور پر واضح قیادت کا کردار ادا کیا۔ فروری کے بعد جب مزدور، سپاہی اور کسان سوویتوں کی شکل میں ابھر رہے تھے، اس وقت لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے عوام کے ابھار کو ایک واضح انقلابی سیاسی سمت دی۔ ان کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح تھی کہ ”امن، روٹی اور زمین“ کے مطالبات تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب اقتدار سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور لبرل حکومت کے ہاتھ سے نکل کر محنت کش طبقے کے ہاتھ میں آ جائے۔ اسی لیے لینن نے نعرہ دیا، ”تمام اقتدار سوویتوں کو دو!“ یہ نعرہ دراصل اس وقت کے انقلابی عوامی شعور کو ایک ٹھوس انقلابی پروگرام میں ڈھالنے کا عمل تھا۔ بالشویک پارٹی نے مزدور طبقے کے اندر ایک لمبے نظریاتی اور تنظیمی کام کے بعد وہ کردار ادا کیا جو کسی بھی انقلابی تحریک میں فیصلہ کن ہوتا ہے، یعنی عوامی ابھار کو ایک انقلابی سیاسی قیادت فراہم کرنا۔

اکتوبر 1917ء میں جب پیٹروگراڈ کے مزدوروں اور سپاہیوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ محض ایک اچانک سے ہونے والی بغاوت نہیں تھی، بلکہ برسوں کی سیاسی تیاری، پارٹی ڈسپلن، نظریاتی وضاحت اور عوامی اعتماد کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پہلی بار دنیا میں محنت نے سرمائے پر فتح حاصل کی اور سرمایہ داروں کی نہیں بلکہ مزدوروں کی ریاست بنی اور روس کے محنت کشوں نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں جدید غیر طبقاتی سماج کی جانب پہلا قدم رکھا۔
ہڑتالیں، تحریکیں، بغاوتیں؛ یہ سب انقلاب کی ”ایمبریونک فارم“ (embryonic form) ہیں، لیکن ان کا منطقی انجام تبھی ممکن ہوتا ہے جب ایک نظریاتی طور پر پختہ، منظم اور طبقاتی بنیادوں پر استوار انقلابی پارٹی موجود ہو، جو عوامی قوت کو ایک درست سمت میں آگے بڑھائے۔ آج پاکستان میں جب محنت کش طبقہ ہر شعبے میں استحصال اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہے، جب کسان، مزدور، طلبہ اور بے روزگار نوجوان اپنے روزمرہ کے مسائل کے خلاف مزاحمت میں اتر رہے ہیں، تو یہ حالات روس 1917ء سے کم نہیں۔ مگر انقلابی عمل کو اپنی منزل تک پہنچانے کے لیے اسی بالشویک طرز کی قیادت درکار ہے، جو نہ صرف حالات کا درست سائنسی ادراک رکھتی ہو بلکہ ان کو بدلنے کی اہلیت بھی رکھتی ہو۔ اسی لیے انقلابِ روس کی تاریخ ہمارے لیے محض ایک ماضی کا باب نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے ایک عملی رہنمائی بھی ہے، کہ جب محنت کش عوام اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔




















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance