|انقلابی کمیونسٹ پارٹی|
دریائے سوات سیلاب میں پھنسے ایک ہی خاندان کے 15 افراد دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ سیاحت کے لیے آئے ہوئے 15 افراد کئی گھنٹوں تک دریا کے بیچ سیلاب میں پھنسے رہے لیکن ان کو ریسکیو نہیں کیا گیا، نہ ہی حکومت نے انہیں ریسکیو کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست اور اس کا حکمران طبقہ ہی دراصل ان لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے۔ اگر بروقت ہیلی کاپٹر کو بھیجا جاتا تو ان افراد کو ریسکیو کیا جا سکتا تھا لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں اور سیر سپاٹے کے لیے تو ہیلی کاپٹر موجود ہے لیکن عام عوام کے لیے نہیں۔ اگرچہ سیلاب کا خطرہ موجود تھا لیکن ضلعی انتظامیہ نے پیشگی کوئی احتیاطی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ہر سال اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن ابھی تک حکمرانوں نے ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے، نہ ہی کوئی انفراسٹرکچر تعمیر کیا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے تمام تر وسائل کو حکمران طبقے سے چھین کر محنت کش طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں لیتے ہوئے ہی انہیں تمام لوگوں کے لیے یکساں طور استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس طرح قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
پارس جان
سانحہ سوات جیسا انسانیت سوز واقعہ رونما ہونے پر جب ایک صحافی نے کے پی کے کی وزیر اعلیٰ گنڈا پور سے سوال کیا تو حکمران طبقے کے اس پٹھو نے انتہائی گھٹیا اور عوام دشمنی پر مبنی جواب دیا۔ اس پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر پارس جان نے لکھا ہے:
”ان بے ضمیر لیڈروں کے حلیے ہی دیکھ لیجیے۔ ان کی نظریاتی، ثقافتی اور نفسیاتی غلاظت ان کے تیوروں سے ہر آن جھلکتی ہے۔ یہ مینڈک ریاستی گٹر کی ہی پیداوار ہیں اور ان کی نورا کشتی کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔ یہ دائیں بازو کی ”اصلاح پسندی“ کے دعویدار دراصل پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے بھی بڑھ کر اس نظام کے جبر اور استحصال کے نمائندے اور رکھوالے ہیں۔“
سجل علی
سوات: فری ہیلی کاپٹر سروس وی آئی پیز کے لیے، جبکہ کئی گھنٹوں تک مدد کے لیے چیخیں مارنے والے خاندان کے 15 افراد ڈوب گئے۔
رائے اسد
سیلاب میں مرنے والوں کو بیوقوف کہنے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ عام لوگوں کے پاس زندگی سے چُرانے کے لیے یہی چھوٹے چھوٹے پل ہوتے ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے کبھی کبھی وہ زندگی ہی گنوا بیٹھتے ہیں۔ روز بھی گھٹ گھٹ کر مر ہی رہے ہیں۔ یوں بھی انہیں کا قصور اور یوں بھی؟ چاہتے کیا ہو؟
اپنی ایک دوسری پوسٹ میں رائے اسد نے لکھا
خدا کے واسطے حکم خدا نہیں کہنا
کہ قتل عام کو تم حادثہ نہیں کہنا
ثاقب کامریڈ
ان ہیلی کاپٹرز سے پشتونخوا اور بلوچستان میں آپریشنز تو کر سکتے ہو مگر اپنے عوام کو ریسکیو نہیں کر سکتے۔ آج لکی مروت میں ڈرون حملہ کیا گیا جس میں دس افراد مفلوج ہوئے۔ کیا سمجھتے ہو ایسی ریاست کو یہ محکوم عوام تسلیم کرے گی؟ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔
تسبیح خان
پختونخوا ایک ٹارچر سیل بن چکا ہے، یہاں پہ اپنے عزیزوں کو مرتے ہوئے آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن بے بسی کا یہ عالم ہے کہ محض تماشے اور اپنے پیاروں کو دم توڑتے ہوئے دیکھنے کے علاوہ آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ پچھلے پندرہ سالوں سے پی ٹی آئی کی حکومت اپنی عیاشیوں، فوجی چاپلوسی اور پختونخوا کو لوٹ مار کا میدان بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکی۔ ہر سال پورے پورے خاندان سیلابی صورتحال میں ڈوب کر مر جاتے ہیں لیکن اس بے حس ریاست اور پی ٹی آئی مافیا کے پاس عوام کو دینے کے لیے موت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اپنی ایک دوسری پوسٹ میں تسبیح نے لکھا:
پچھلی دونوں حکومتوں اور اس حکومت سمیت پی ٹی آئی نے محض نعرے بازیوں سے اور کرپشن کر کے پورے صوبے کو تباہ حال بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کرپشن کرپشن کی رٹ لگا رہی ہے لیکن پچھلے دونوں حکومتوں کے چیف منسٹرز اور کابینہ کے دیگر بڑے وزراء کے خلاف کرپشن کے سکینڈل نکل آئے تھے۔ خود پرویز خٹک کے خلاف کئی مقدمات تھے، جن میں بی آر ٹی میں کروڑوں کی کرپشن کے ساتھ ساتھ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ پرویز خٹک اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو غیر قانونی نوکریاں اور عہدے دے رہا ہے اور انہیں کے ذریعے لاکھوں کرپشن کی ہے۔ خود شیر افضل مروت اور پی ٹی آئی کے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ محمود خان حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح گنڈاپور حکومت ہر حوالے سے ناکام ہو چکی ہے، ان کے کور کمانڈر جو بولتے ہیں وہی ان کی پالیسی ہوتی ہے اور عوام کو عمران خان کی رہائی والے ڈرامے سے دھوکہ دے کر پوری ریسکیو مشینری کو احتجاجوں میں غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں اور ان کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ کرپشن کے بڑے سکینڈل کوہستان میں 40 ارب روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے۔ گنڈا پور خود 11 کروڑ کے صرف بسکٹ نگل گیا ہے۔ لیکن عوام کو دینے کے لیے قیدی نمبر آٹھ سو چار کی رہائی، مہنگائی اور دہشتگردی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
عاطف انصاری
کھیلتی ہے دکھوں سے زندگی
دکھوں کوموت کیوں نہیں آتی
منتظر چہرے،
بے بس آنکھیں،
موت کی آ غوش میں سسکتی
دم توڑتی زندگی۔۔
امید کہیں سے بھی نظر کیوں نہیں آتی
ہائے! ان دکھوں کو موت کیوں نہیں آتی
جاوید قریشی
سوات میں شہری نہیں بلکہ ریاست ڈوب کر مری ہے۔