کشمیر: ریاستی جبر کا مقابلہ عوامی اتحاد کی طاقت سے ہی ممکن ہے!

|تحریر: یاسر ارشاد|

نام نہاد آزاد کشمیر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جاری تحریک کے پھیلاؤ نے حکمران طبقات کی بوکھلاہٹ میں اضافہ کردیا ہے۔ پونچھ ڈویژن کے تین اضلاع میں عوامی کمیٹیوں کے ذریعے منظم ہونے والی اس تحریک نے انتہائی پرامن طریقے سے محض عوام کے پرامن مگر طاقتور احتجاج کے ذریعے آٹے کی قیمتوں میں 200 روپے فی من کمی جیسی آدھی کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن مزید 330 روپے کی کمی کے لیے 13 جنوری کو نہ صرف تین اضلاع میں ہر دیہات اور قصبے کی حد تک زبردست احتجاج کی تیاریاں جاری ہیں بلکہ اس کے ساتھ چار انٹری پوائنٹس کو بھی مکمل بند کرنے کے لیے عوام کی ایک بڑی تعداد سرگرم ہو چکی ہے۔

اس تمام عوامی ہلچل کو روکنے کے لیے اس وقت گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے اور بالخصوص ضلع باغ سے عوامی کمیٹی کے متحرک کارکنان کی ایک بڑی تعداد کی گرفتاریوں کی خبریں آرہی ہیں۔ راولاکوٹ میں بھی ہڑتال کی تیاریوں کے سلسلے میں اعلان کرنے والے ایکشن کمیٹی کے ممبران کو گاڑی کے ڈرائیور سمیت سہ پہر میں گرفتار کیا گیا اور رات آٹھ بجے رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اپنے گماشتوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر آٹے کی قیمتوں میں کمی کا ایک جعلی نوٹیفکیشن بھی پھیلایا جا رہا ہے تاکہ ہڑتال کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ہڑتال کی تیاریاں پورے جوش و خروش سے جاری ہیں اور عوام نے حکومتی ذرائع پر انحصار کرنے کی بجائے آپسی رابطوں پر انحصار کرتے ہوئے حکومت کے ہر ہتھکنڈے کو ناکام بنا دیا ہے۔

باغ میں جاری گرفتاریوں کے سلسلے کے پیچھے وزیر اعظم کشمیر کا 13 جنوری کو باغ کا دورہ ہے۔ حکومت عوام کے آٹے کی قیمتوں میں کمی جیسے انتہائی بنیادی مطالبے پر پر امن سیاسی احتجاج کو صرف اس لیے وحشیانہ گرفتاریوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کر رہی تا کہ وزیر اعظم باغ کا دورہ کر سکے جو انتہائی شرمناک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکمران شاید یہ بھول رہے ہیں کہ یہ تحریک متحرک کارکنان کو گرفتار کرنے سے رکنے یا ختم ہونے کی بجائے مزید بھڑکے گی۔ حکمران ظلم کی تمام حدود کو پار کر رہے ہیں اور عوام کے معاشی قتل عام کے لیے تمام تر ریاستی جبر اور بد ترین تشدد کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت عوام اپنے سب سے بنیادی حق روٹی کے حصول کے لیے سڑکوں پر ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر قیمتوں میں حالیہ اضافے کو واپس نہ لیا گیا تو وہ فاقوں کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیلے جائیں گے یا دیگر بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ علاج کی سہولیات کا پہلے ہی بڑے پیمانے پر فقدان ہے۔ اس فاقہ کشی سے بچے اور عورتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گے اور حالات بد سے بدترین کی جانب بڑھیں گے۔ لیکن فرعون صفت حکمران اس بنیادی حق کے لیے ابھرنے والی عوامی تحریک کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کے حقیقی کردار کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کیخلاف عوامی نفرت کا لاوا بھڑک رہا ہے۔

آج ہی کے دن پولیس کے غنڈوں نے ہجیرہ بازار میں ایک طالبہ کے ساتھ بدتمیزی بھی کی جس پر مشتعل عوام نے اس پولیس اہلکار کی خوب چھترول کی اور اس کے بعد پولیس کے خلاف بھر پور احتجاج بھی کیا۔ ریاست کے یہ مسلح غنڈے ایک جانب پر امن سیاسی احتجاج کرنے والوں کو پابند سلاسل کرتے ہیں اور دوسری جانب بیچ بازار ہماری عصمتوں کو تار تار کرتے ہیں۔ یہ محض کسی ایک اہلکار کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس گلے سڑے نظام کی محافظ اس غلیظ ریاست کا عمومی کردار ہے۔ ریاست تاریخی طور پر حکمران طبقے کی حاکمیت کو عوام پر جبر کے ذریعے مسلط رکھنے کا ادارہ ہے اور جب تک اس حکمران طبقے اور ان کے اس گلے سڑے نظام کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا اس وقت تک ریاست کے اس جبر سے نجات ممکن نہیں۔ لیکن فوری طور پر ہماری لڑائی اس ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ہڑتال کو کامیاب بنا نا ہے۔

حکمرانوں نے گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ ان بے حس اور سفاک حکمرانوں کی اصلیت کو مکمل طور پر بے نقاب کرتا ہے کہ یہ ظالم عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں اور اگر اس پر عوام احتجاج کریں گے تو انہیں وحشیانہ ریاستی جبر کے ذریعے کچل دیا جائے گا۔ حکمرانوں کی ریاستی طاقت اور جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کے پاس اپنے اتحاد کی طاقت ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے اور عوام کو اسے ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ 13 جنوری کی ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے دیگر اضلاع سے بھی بھاری تعداد میں پولیس کو ضلع پونچھ میں جمع کر رکھا ہے۔ ہڑتال کی کامیابی کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلیں۔ پولیس گردی کا مقابلہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنی پوری طاقت کو متحرک کرتے ہوئے 13 جنوری کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہر علاقے سے اس ہڑتال میں شمولیت اختیار کریں۔ جس طرح 21 جنوری کی ہڑتال میں راولاکوٹ کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ نکلے تھے اگر اسی طرح ہر علاقے میں عوام کا سمندر سڑکوں پر امڈ آتا ہے تو اس کے سامنے چند سو پولیس اہلکار تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ ہڑتال کی کامیابی کے ساتھ اس کو پرامن رکھنے کی بھی واحد ضمانت یہی ہے کہ ہر علاقے سے بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلیں۔ ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے کا باقی ہر طریقہ عوامی تحریک کو کمزور کرتا ہے، عوام کا اپنے اتحاد کی طاقت پر اعتماد کو توڑتا ہے، اور عوامی شعور کو پست کرتا ہے۔ اس سماج کی سب سے بڑی طاقت خود عوام اور محنت کش ہیں۔ عام حالات میں ان کے درمیان اتحاد کا فقدان ہوتا ہے اور اسی لیے انہیں اپنی اجتماعی طاقت کا احساس و ادراک نہیں ہوتا لیکن احتجاج اور بالخصوص ہڑتالوں کے دوران عوام اور محنت کشوں کو اپنی اس سماجی اور تاریخی طاقت کا تیزی سے احساس ہونے لگتا ہے۔ اس حوالے سے یہ ضروری ہے کہ ہم متحرک کارکنان کی گرفتاریوں کے باوجود عوام کی بھاری تعداد کو ہڑتال میں متحرک کریں اور اسی عوامی طاقت کی بنیاد پر نہ صرف ہم گرفتار ساتھیوں کو رہا کرائیں بلکہ اپنے مطالبات کو بھی منوائیں۔ اس ہڑتال کی کامیابی عوامی جدوجہد کے حوالے سے ایک نیا موڑ ثابت ہو گا اس لیے ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ہڑتال کو ہر سطح پر کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ نکلیں اپنے حق کی خاطر ظلم کی ہر دیوار کو پاؤں تلے روند ڈالیں اور ان ظالم حکمرانوں کو بتا دیں کہ یہ نظام محنت کشوں اور عوام کے دم سے اور وہ جب چاہیں آپ کے تخت اکھاڑ سکتے ہیں۔

Comments are closed.