پاکستان میں محنت کش خواتین کی جدوجہد اور نجات کا راستہ

|تحریر: انعم خان|

 

کرونا وباء سے جنم لینے والے صحت کے بحران نے سرمایہ دارانہ معاشی زوال پذیری کے عمل کی رفتار کو مزید تیز کر دیا ہے۔ اس وباء کے سبب دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اورزندہ بچ جانے والوں کی زندگی لاک ڈاؤن اور معاشی بحران کے اثرات کے سبب تباہ ہو گئی۔ لیکن اپنی یادداشت پر زور ڈالنے سے معلوم پڑتا ہے کہ سرمایہ داری کا جبر اور وحشتوں کا شکارنہ صرف 2008 ء میں شروع ہونے والے عالمی معاشی بحران کے بعد بلکہ اس پہلے بھی محنت مزدوری کرکے بھی کسمپرسی کا شکار 99 فیصد آبادی یعنی محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی تھے۔ پہلے بھی سرمایہ دار طبقے کے دولت کے انبار بڑھ رہے تھے اور اب اس وباء سے پیدا کردہ بحران میں بھی ان کی چاندی لگی ہوئی ہے۔ جنوری 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں کرونا وباء کے دوران بھی 3.9 بلین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی دوران مزدوروں نے 3.7 بلین ڈالرز کی کمائی اور بچتیں گنوائی ہیں۔ متاثرین میں سب بڑ ی تعداد خواتین اور نوجوان نسل کی ہے۔ یعنی حالیہ تاریخ میں نسل انسانی کی اکثریت کے معمولاتِ زندگی کو تہہ بالا کرنے والی یہ وبا ء بھی سرمایہ داروں کی اکثریت کے لئے رحمت ثابت ہوئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کی پیدا کردہ اور بنائی گئی تمام تر صحت کی سہولیات، آسائشیں، دولت اور طاقت، موجودہ نظام کے تحت مٹھی بھر امیر ترین افراد کے پاس ہونے کی وجہ سے آبادی کی وسیع اکثریت محرومیوں کے دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے جبکہ ان پر قا بض افراد اسے استعمال کرتے ہوئے مزید دولت اور طاقت مجتمع کئے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ امارت اور غربت کی پھیلتی ہوئی خلیج طبقاتی شعور اور طبقاتی جدوجہد کو تیز ی سے بڑھاتے ہوئے انقلابی جدوجہد کے عہد کا آغا ز کر چکی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں مرد وزن حکمران طبقے کے حملوں کے خلاف غیر معمولی تحریکوں کا آغا ز کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف بہت بڑے احتجاجی دھرنے دیکھنے کو ملے، جن کی وقتی کامیابی نے محنت کش طبقے کے حوصلوں کو بلند کیا ہے۔ اس جدوجہد میں محنت کش خواتین کی شرکت اور ولولہ بھی قابلِ ذکر رہا۔ محنت کش خواتین کی اس حالیہ جدوجہد کے اندا ز اورطریقہ کار نے ہمارے لیے پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں عورت کی آزا دی کے سوال پر اہم ترین زاویے آشکار کیے ہیں۔

مردانہ تسلط پر مبنی معاشرے میں عورت کو چادر چار دیواری میں محفوظ سمجھنے کی نجی ملکیت پر مبنی نفسیات کو خود سرمایہ داری کے معاشی دباؤ نے تیز ی سے تبدیل کیا ہے، کبھی صرف مرد کی کمائی پر چلنے والے گھرانے، آج خواتین سمیت گھر کے تمام افراد کے کمانے کے باوجود بھی گزر بسر نہیں کر پارہے۔ اس معاشی دباؤ کے سبب بہت بڑی تعداد میں خواتین محنت کی منڈی کا حصہ بن رہی ہیں جو کہ اس سے قبل گھر کی چاردیواری تک محدود تھیں۔ معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ شادی کے لیے اچھے رشتوں کے حصول کے لیے درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کی خواتین کی تعلیم اور روزگار کو بھی اہمیت دئیے جانے کا رجحان سامنے آیا۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں ابھی بھی ستر فیصد خواتین بنیادی تعلیم سے محرومی کے سبب ناخواندگی کا شکار ہیں، انفراسٹرکچر اور سہولیات کی عدم دستیابی اورمہنگی ہوتی ہوئی تعلیم کی وجہ سے والدین کا لڑکو ں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ابھی بھی صرف 24.8 فیصد خواتین ہی ورک فورس کا حصہ ہیں، اس تعداد میں گزشتہ چند سالوں میں تیزی آئی ہے۔ مستقبل کے غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے عمل کے سلسلے میں یہ ایک ترقی پسند عمل ہے، کیونکہ گھریلو غلامی سے نجات، معاشی آزادی اور درپیش مسائل کے حل کے لیے عمومی مزدور تحریک میں شمولیت ہی آگے چل کر وہ بنیاد بنے گی جہاں عورت کی غلامی کی ہر صورت کا مکمل خاتمہ ممکن ہو پائے گا اور وہ مرد پر انحصار کرنے والی اور اس کی ملکیت کی بجائے بطورآزاد فرد کے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ اور دوسری جانب، لیننؔ کے بقول خواتین کی یہ گھریلو ذہنی و جسمانی مشقت جو کہ غیر پیداواری کردار کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں میں کسی طور بھی بہتری نہیں لاتی۔ لیکن یہاں سرمایہ داری نے جہاں عورت کو گھر کی چار دیواری سے نکلنے پر مجبور کیا ہے وہاں دوسری جانب اسے کسی طور بھی گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کیا، جو کہ عورت کی محنت کادوہرااستحصال ہے۔ مزید برآں، اس عمل نے پسماندگی پر مبنی اس نفسیات کا خاتمہ بھی نہیں کیا کہ گھر چلانے کے لیے پیسہ کمانا در اصل مرد کا کام ہے اور عورت کا کام گھر میں رہنا ہی ہے۔ اسی نفسیات کے تحت ہی عورت کے صنفی استحصال کا جواز بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ گھر سے نکلی ہیں اور آپ کے ساتھ ہراسانی یا حتیٰ کہ ریپ جیسا گھناؤنا واقعہ پیش آیا ہے تو اس میں قصور آپ کا ہی ہے کیونکہ آپ کا اصل مقام گھر کی چار دیواری کے اندر ہی ہے۔

دوسری جانب محنت مز دوری کی غرض سے گھرسے نکلی خواتین کو کام کی جگہوں پر صنفی بنیادوں پر اجرتوں کے فرق اورورک لوڈ کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ سرمایہ داروں نے عورت کی سستی محنت کے استحصال اور اس پر کام کا زیادہ دباؤ ڈال سکنے کے سبب ہی اسے گھروں سے باہر نکالا ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق سال 2020ء میں عالمی صنفی امتیاز کے انڈیکس میں 153 ممالک میں سے پاکستا ن 151 ویں نمبر پر ہے، جبکہ سال 2006ء میں یہ 112 ویں نمبر پر تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی گھنٹہ کام کی اجرت میں صنفی امتیا ز کا تخمینہ 26 فیصد لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواتین محنت کشوں کی اجرت مرد محنت کشوں کی اجرت سے 26فیصد کم ہے۔ اسی طرح، صرف 37 فیصد خواتین کو ہی باقاعدگی سے اجرتیں ادا کی جاتی ہیں اور ان میں سے بھی صرف 55 فیصد خواتین کو ہی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم اجرت کے برابر اجرت دی جاتی ہے۔

خواتین کے لیے تعلیم و ہنر کے مواقع کم ترین ہونے کے سبب ایک طرف تو روزگار کے حصول کے شعبے کم ہیں، تو دوسری جانب مردانہ معاشرے کی پروردہ نفسیات کے تحت انہیں زیادہ تر تعلیم اور پھر صحت کے شعبے میں کام کرنے کی جانب دھکیلا جاتا ہے کیونکہ یہاں مردوں سے کم ٹکراؤ ہونے کے سبب ان شعبوں کو خواتین کے لیے نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعبوں کی ورک فورس کا بڑا حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ عرصہ درا ز سے محنت کشوں کے یونین سازی کے حق پر غیر اعلانیہ پابندی کے باعث اور دوسرا رہی سہی یونینز کی قیادتوں کے مزدور دشمن کردار کے سبب آج پاکستان میں یونینز میں منظم محنت کشوں کی تعداد دس فیصد سے بھی کم ہے، اس میں خواتین محنت کشوں کی تعداد تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یونین مخالف ماحول ہونے کے سبب اس خلا کو خاص کر بڑے سرکاری اداروں میں محنت کی تقسیم در تقسیم پر مبنی ابتداء میں غیر سیاسی کردار کی حامل ایسوسی ایشنز نے پورا کیا۔ ایسوسی ایشنز کا بننا اپنے ہی ادارے میں موجود دیگر شعبوں کے مزدوروں سے جداگانہ کام ہونے کے سبب مفادات بھی الگ ہونا گردانا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یونینز کے گرد ہونے والے الیکشن ان کی قیادتوں کے بھیانک ترین کردار کے باوجود بھی سیاسی ماحول اور محنت کشوں میں سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کا باعث بنتے تھے۔ ایسوسی ایشنز کی قیادتیں غیر منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ تر افسران کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں، اور معمول کے حالات میں اپنے شعبے کے محنت کشوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے باوجود حالات کے تھپیڑوں نے انہیں بڑی لڑائیاں لڑنے کی جانب دھکیلا ہے۔ عالمی سامراجی حکمرانوں اور ان کے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں کی پالیسیوں اور انہیں لاگو کرنے کے پابند یہاں کے گماشتے حکمرانوں کے خلاف بہت بڑی احتجاجی دھرنے کئے گئے، جنہیں وقتی کامیا بی بھی حاصل ہوئی۔ ان دھرنوں میں خاص کر صحت کے شعبے سے وابستہ لیڈی ہیلتھ ورکر ز کی صورت میں خواتین محنت کشوں نے بھی نہ صرف جدوجہد میں شانہ بشانہ ساتھ دیا بلکہ ان کی موجودگی سے دھرنوں کا مجموعی مورال بھی بلند ہوتا رہا، کیونکہ انہوں نے اپنے ساتھی مرد محنت کشوں کے ہمراہ دلیری سے تمام تر ریاستی جبر کا سامنا کیا۔ سرکاری ملازمین کی اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے حالیہ جدوجہد کی وقتی کامیابی بھی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ محنت کش مرد و خواتین ساتھیوں کواپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے، جہاں ایک طرف رنگ، نسل، قومیت، فرقہ، صنف و مذہب کے تعصبات سے بلند ہوتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر جڑت بنانا ہوگی وہیں انہیں اپنی اپنی ایسوسی ایشنز، شعبہ جاتی تقسیم، یونینز و فیڈریشنز اور اداروں کی تقسیم کار سے بھی بلند ہوکر اپنی صفوں میں یکجہتی پیدا کرنا ہوگی، صرف اسی بنیاد پر ہی موجودہ حاصلات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے اور آنے والے حملوں کے خلاف پہلے سے بڑے پیمانے پر جدوجہد کی جاسکتی ہے۔

تعلیم اور صحت کے شعبے کے بعد بڑی تعداد میں پرائیوٹ سیکٹر میں خواتین فیکٹریوں، کارخانوں کے علاوہ پاکستانی معیشت کے اِن فارمل سیکٹر میں مزدوری کرتی ہیں جس میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین، بھٹہ مزدور اور پاور لومز کے کام سے منسلک گھریلو صنعت کی صورت میں کام کے شعبے موجود ہیں۔ حالیہ کروناوباء نے جہاں ایک طرف یہاں کے پہلے سے بوسیدہ اور ناپید صحت کے نظام کو تباہ کیا ہے، وہیں اس نے پاکستان کے غریب محنت کشوں کو بڑے پیمانے پر بے روزگار کیا ہے۔ اس شعبے میں خاص کر صنعتی مزدوروں کے بہت بڑے احتجاج بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ لیکن بے روزگاورں کی کثیر تعداد اور اس شعبے میں یونینز کی عدم موجودگی کے سبب یہاں کے احتجاج کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ سرکاری ملا زمین کے ملک گیر سطح پر بننے والے اتحاد ہی پاکستان میں تیزی سے بند ہوتی ہوئی ان صنعتوں کے محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے مسائل کا سدباب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

محنت کشوں کی اپنے تحفظ اور حاصلا ت کے لیے ہونے والی اس صحت مند کردار کی حامل جدوجہد میں شریک محنت کش خواتین کا رویہ سالانہ عرس کی طرح مختلف بڑے شہروں میں ہونے والے مشہور و معروف ”عورت مارچ“ کے نعروں سے بیگانگی پر مبنی ہے کیونکہ ان سالانہ مارچوں میں نہ صرف محنت کش خواتین کے حالات اور ان کے مسائل کی نوعیت پر کوئی خاطر خواہ بات نہیں ہوتی جو کہ پورا سال سڑکوں پر اپنے حقوق کے لیے ماریں کھاتی نظر آتی ہیں۔ دوسری جانب ان مارچوں میں جن مسائل پر بہت زیادہ بات ہوتی ہے وہ اپنی نوعیت میں اکثر درست ہونے کے باوجود بھی ان محنت کش خواتین کی زندگیوں کے فوری حل طلب مسائل سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مارچوں اور محنت کش خواتین کے مابین موجود لا تعلقی اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی آزادی کا سوال طبقاتی معاشرے میں طبقاتی نوعیت کا حامل ہے، جہاں اپر یا مڈل کلاس طبقے کی خواتین کے مسائل اور نعرے محنت کش خواتین کے مسائل کی نمائندگی نہیں کر سکتے! اسی سبب صنفی جبر کا خاتمہ بھی معاشرے کے طبقاتی ڈھانچے کے خاتمے کے ساتھ وابستہ ہے جسے محنت کش خواتین اور مرد اپنی مشترکہ جدوجہد سے ختم کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے محنت کش خواتین و حضرات کو ایک ملک گیر سطح پر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہو گا جو محنت کشوں کے مفادات کے تحفظ کی ضامن ہو گی بلکہ ایک عام ہڑتال ملک میں طاقت کے سوال کو جنم دیتے ہوئے، محنت کش طبقے کے اقتدار کی راہیں بھی ہموار کرے گی۔ جہاں ایک طرف تلخ ہوتے حالات خواتین محنت کشوں کو میدان عمل میں اترنے پر مجبور کر رہے ہیں وہیں یہ مزدور قیادتوں کا بھی فریضہ بنتا ہے کہ اپنے پروگرام میں معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ محنت کش خواتین پر جبر کے خاتمے کے حوالے سے نعروں کو شامل کریں۔ ایک طاقتور مزدور تحریک ہی صدیوں سے جبر و استحصال کی چکی میں پستی خواتین کی نجات کے حقیقی پروگرام کو ایجنڈے پر لاسکتی ہے۔

Comments are closed.