صوابی: جبری برطرفیوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کیخلاف پرائیویٹ سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کا احتجاج

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پختونخوا|

پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نجی اسکولوں کے اساتذہ کی زندگیاں اذیت کا شکار ہیں۔ پچھلے تین مہینوں سے نجی سکول مالکان نے تنخواہیں دینے سے انکاری ہیں جب کہ حکومت نے بھی ان کی داد رسی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نجی سکول مالکان کی اس لوٹ مار اور حکومتی بے حسی کے خلاف اور اپنے حالات سے مجبور ہو کر نجی سکولوں کے اساتذہ نے ’آل پرائیویٹ سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن‘ کے بینر تلے صوابی امن چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی اساتذہ کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے پاس روزانہ کا راشن خریدنے کے پیسے بھی موجود نہیں۔

”اپٹا“ ان پرائیویٹ اساتذہ کی یونین ہے جو ملک بھر میں اپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے خود کو منظم کررہے ہیں جو آنے والے دنوں میں اس بینر تلے ملک بھر میں مظاہرے اور احتجاج منظم کریں گے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ تعلیم جیسا بنیادی شعبہ اس ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی بجٹ میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبہ جات کیلئے 2 فیصد سے زیادہ بجٹ نہیں رکھا جاتا ہے۔

اس کرونا وبا اور لاک ڈاون میں جہاں ایک طرف حکومت نے اس ملک کے سرمایہ دار ارب پتیوں کو اربوں روپے کے ریلیف پیکیجز سے نوازا اور مگر مزدوروں اور محنت کشوں کو بھوک اور بیماری کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہیں میں ایک بڑی تعداد نجی سکولوں کے اساتذہ کی ہے۔ بہت سے اساتذہ کو پچھلے دو تین مہینوں کے اندر نوکریوں سے فارغ کردیا گیا ہے تاکہ مالکان ان کی تنخواہوں سے جان چھڑا سکیں اور آج وہ اس ملک کے دیگر محنت کشوں کی طرح زلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

احتجاجی اساتذہ کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ان کی پچھلے دو سے تین ماہ کی تنخواہیں انہیں ادا کی جائیں تاکہ وہ اپنے بچوں اور خاندان کی ضروریات پوری کر سکیں اور جن اساتذہ کو انتہائی منافقت کے ساتھ مالکان نے ان دو مہینوں کے عرصے میں نوکری سے نکال دیا ہے ان مالکان کے خلاف کاروائی کی جائے اور ان اساتذہ کو واپس بحال کیا جائے۔

اساتذہ کا حکومت سے مطالبہ تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول بند ہیں اور مالکان نے ان تین مہینوں کی تنخواہیں دینے سے انکار کیا ہے اور بہانہ یہ ہے کہ والدین نے فیس نہیں دی ہے۔ لہٰذا حکومت یا تو ان تمام اساتذہ کیلئے ایک پیکیج کا اعلان کرے اور ان کی تنخواہوں کا ازالہ کریں یا مالکان کو پابند کریں کہ سالوں اساتذہ کی محنت سے کمائی گئی دولت میں سے مشکل کی اس گھڑی میں کچھ واپس اساتذہ پر خرچ کیا جائے۔ اور سکول مالکان نے ان اساتذہ کی محنت کے استحصال سے کروڑوں روپے کا منافع کمایا ہے اور آج سکول بند ہونے کا واویلا کرکے یہ اساتذہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اساتذہ اور مالکان کے مسائل اور مفادات مختلف ہیں اس لیے ان کے مطالبات بھی مختلف ہیں۔ اب اساتذہ کے احتجاجوں میں گھس کر مالکان سکول کھلوانے کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور تنخواہوں کے مسئلے پر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے جبکہ اساتذہ کا مطالبہ بہت واضح ہے کہ ہماری تنخواہیں ادا کی جائے،حکومت ہماری مدد کرے یا مالکان سے ہماری تنخواہیں نکلوا دیں۔اس ملک میں جنگ اور اسلحوں کیلئے تو پیسے ہیں لیکن اساتذہ کے چند ہزار تنخواہوں کیلئے کیوں نہیں؟

ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کش اساتذہ کے ان تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ ’اپٹا‘ کے تمام اساتذہ نے جو قدم اٹھایا ہے اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں اور اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔اس ملک کے حکمران اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ جب تک ان کو گریبان سے پکڑ کر اپنا حق نہ پوچھا جائے تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ بھوک سے مر رہے یا بیماری سے۔ محض میڈیا پر عوام کے ساتھ ہمدردی کا ڈرامہ رچاتے ہیں، زمین پر تو کچھ خیراتی رقم کیلئے عوام کو زلیل کرنے کے علاوہ ریاست کی کوئی کارکردگی نظرنہیں آئی۔لہٰذا اساتذہ کرام! یہی وقت ہے اپنے حق کیلئے سنجیدگی کیساتھ آواز بلند کرنے اور اپنے صفوں کو درست کرنے کا۔آگے بڑھیں کامیابی ہماری ہوگی۔

Comments are closed.